بھائی شہباز رشید ( کشمیر) عرصہ سے ‘البیان’ چینل کے تحت آن لائن دروسِ قرآن اور خطابات کے پروگرام منعقد کررہے ہیں _ میری بھی کئی بار اس میں شرکت ہوئی ہے _ انھوں نے خواہش کی کہ میں ‘ میاں بیوی کے درمیان اختلافات : اسباب اور حل’ کے عنوان پر خطاب کروں _ موضوع کی اہمیت اور عوام ، خاص طور پر نوجوانوں کو اس کی ضرورت کے پیش نظر میں تیار ہوگیا _ میں نے درج ذیل نکات پر گفتگو کی :
(1) ازدواجی رشتہ کو محبت کی بنیاد پر استوار کرنا چاہیے _ شوہر اور بیوی دونوں چاہے نکاح سے قبل کسی اور سے محبت کرتے رہے ہوں ، لیکن نکاح ہوجانے کے بعد اپنے جوڑے ہی کو اپنی محبت کا مرکز بنانا چاہیے _ نکاح کے بعد سابق محبوب یا محبوبہ کا تذکرہ کرنے ، اس سے رابطہ رکھنے اور بات چیت کرنے سے ازدواجی رشتے میں تلخیاں پیدا ہونے لگتی ہیں _
(2) زوجین کو ایک دوسرے پر بھر پور اعتماد کرنا چاہیے اور ایسی باتوں اور ایسے کاموں سے احتراز کرنا چاہیے جس سے اعتمادِ باہمی کو ٹھیس پہنچے _ اسی طرح بیوی یا شوہر کے لیے دوسرے کی ہر چیز کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھنا مناسب نہیں _ کوئی شک گزرے تو اسے دل میں بسالینے کے بجائے دریافت کرلینا چاہیے ، تاکہ اگر کوئی غلط فہمی ہوئی ہے تو وہ دور ہوجائے _ ایسا نہ کرنے کی وجہ اختلافات سر ابھارنے لگتے ہیں _
(3) حقوق اور فرائض کے درمیان توازن رکھنا چاہیے _ صرف اپنے حقوق پر نظر ہو اور کوئی حق حاصل نہ ہو رہا ہو تو اس پر شکایت یا احتجاج کیا جائے ، اس سے خود غرضی پیدا ہوتی ہے ، جس سے بعد میں تعلقات میں تلخیاں پیدا ہونے لگتی ہیں _ اس کے بجائے اپنے فرائض نظر رکھنی چاہیے کہ نکاح کے بعد جو ذمے داریاں مجھ پر عائد ہوئی تھیں وہ میں نے پوری کی ہیں یا نہیں _ اگر زوجین میں سے ہر ایک اپنے فرائض پر نظر رکھے تو دوسرے کو اپنا حق طلب کرنے کی نوبت ہی نہ آئے _
(4) ازدواجی زندگی میں ایثار کو اختیار کرنے سے خوش گواری آتی ہے _ اگر زوجین میں سے ہر ایک دوسرے کو اپنی ذات پر ترجیح دے ، اپنی ضرورت کو پسِ پشت ڈال کر دوسری کی ضرورت پوری کرے اور اپنا آرام تج کر دوسرے کو آرام پہنچانے کی کوشش کرے تو اختلافات قریب نہیں پھٹکیں گے _
(5) زوجین کو چاہیے کہ وہ عفو و درگزر کو لازم پکڑیں _ کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو طعنہ تشنہ اور طنز سے گریز کریں _ اس سلسلے میں مرد کی ذمے داری بڑھ کر ہے _ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے :” ان (عورتوں) کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو ، مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بَھلائی رکھ دی ہو ۔ (النساء : 19)
(7) اختلافات چاہے جتنے بڑھ جائیں ، انہیں حل کیا جاسکتا ہے ، بشرطے اس کے لیے دل میں آمادگی پائی جائے _ اس لیے اختلافات کی صورت میں ان کو حل کرنے کی طرف بڑھنا چاہیے _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رُخی کا اندیشہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر میاں اور بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کرلیں ۔ صلح بہرحال بہتر ہے ۔(النساء : 128)
(8) زوجین اگر آپس میں اپنے اختلافات حل نہ کرسکیں تو ان کے اہلِ خاندان کو پیش قدمی چاہیے _ وہ الگ الگ انہیں سمجھانے کی کوشش کریں اور اکٹھا کرکے بھی _ عموماً کوئی اختلاف ہونے پر زوجین اپنی اپنی جگہ اکڑے رہتے ہیں ، اس بنا پر معاملات سدھر نہیں پاتے _ اہلِ خاندان کی مداخلت سے انہیں حل کرنے میں مدد ملتی ہے _ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” اور اگر تم کو میاں بیوی کے تعلّقات بگڑجانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکَم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو ، اگر وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صُورت نکال دے گا ۔ (النساء : 35)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |