بزم میں اس کی اگر جانا ہوا
لوٹ کر کے پھر نہ گھر جانا ہوا
اک نگاہِ ناز کا اٹھنا تھا بس
کتنوں کا محفل میں مر جانا ہوا
پہلے دل جانا تھا، سو یہ دل گیا
وہ بھی دن آیا کہ سر جانا ہوا
صفحۂ جاں پر جو چمکا ایک لفظ
پھر جگر کا خوں سے بھر جانا ہوا
ایک خوشبو کیا ادھر آئی کہ بس
عُمر بھر میرا اُدھر جانا ہوا
نازشِ فتحِ جنوں کو دیکھ کر
اُس کا وعدے سے مُکر جانا ہوا
طے ہوا تھا پھر نہیں جانا اُدھر
دل کی خاطر، ہاں ، مگر جانا ہوا
عشرتِ کارِ جنوں کو جان کر
دل نے جانا، ہے جگر جانا ہوا
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page