مجبوریوں کے واسطے بکتی چلی گئی
کچھ تھا کہ ایسے راستے چلتی چلی گئی
بے مول موتیوں سی بکھرتی چلی گئی
دریاٸے آرزو میں اترتی چلی گئی
جنگل میں ایک چہرے کو نکلی جو ڈھونڈنے
خاروں کے درمیان الجھتی چلی گئی
چن چن کےپتھروں کو تو گھر میں سجا لیا
پھولوں کو راستوں پہ میں رکھتی چلی گئی
میں جانتی ہوں اس کو وہ میرا نہیں مگر
پھر بھی میں اس کے ساتھ ہی چلتی چلی گئی
پیالہ ہے خواہشوں کا غموں کی شراب ہے
راہوں پہ میکدے کے پھسلتی چلی گئی
بد نام کر رہے ہیں کیوں اس راستے کو لوگ
جس راستے سے عقبی میں بچتی چلی گئی
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page