ہم سے دُھندلے کوئی منظر نہیں رکھے جاتے
آئینے قد کے برابر نہیں رکھے جاتے
ہم نے قطروں سے قناعت کا ہنر سیکھا ہے
ہم سے چلو میں سمندر نہیں رکھے جاتے
حادثے پوچھ کے اے دوست نہیں آتے ہیں
پیڑ کی شاخ پہ پتھر نہیں رکھے جاتے
خشک آنکھوں سے بھی سیلاب اُمڈ سکتے ہیں
پاس بیواؤں کے زیور نہیں رکھے جاتے
پیار کی بولیاں گر بول سکو تو بولو
زخم گہرے ہوں تو نشتر نہیں رکھے جاتے
نام مدت سے چُھپا رکھا ہے جن کا ہم نے
اُن سے اک خط بھی چُھپا کر نہیں رکھے جاتے
محفلیں وہ کبھی مقبول نہیں ہو سکتیں
جن کی محفل میں سخنور نہیں رکھے جاتے
جس نے اندر کے اندھیروں سے نکلا ہے ہمیں
وہ اُجالے کبھی باہر نہیں رکھے جاتے
آپ سچ مچ میں مرے دوست نہیں ہیں صاحب
آپ سے پشت پہ خنجر نہیں رکھے جاتے
دل کے دروازے کو اِک بار ہی کھولا کر دل
ہر گھڑی کھول کے یہ در نہیں رکھے جاتے
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page