سُرخ منظر پہ نظریں جماۓ ہوۓ ایک عرصہ ہوا
کِھنج گئیں آنکھ میں خون کی ڈوریاں
زرد پڑنے لگیں لہلہاتی ہوئی روح کی سبزیاں
خشک تن من کی ہونے لگیں نرمیاں
تنگ ہونے لگیں زیست کی رسّیاں
ٹمٹمانے لگیں چشمِ ادراک کی بتّیاں
رخ پہ چھانے لگیں گھور تاریکیاں
حال منظر کا لکھتے ہوۓ
تھک گیا میرا خامہ مگر
رنگِ منظر نہ پھیکا پڑا
عکسِ پیکر نہ مدّھم ہوا
شعلگی میں نہ آئی ذرا بھی کمی
تاب و تب اس کی باقی رہی
روپ منظر کا پل پل بدلتا رہا
سر بریدہ کوئی کینوس پر کبھی آ گیا
کٹ کے بازو کوئی سج گیا
دھڑ کوئی سامنے آ گرا
بس گیا آنکھ میں پاؤں کوئی
کبھی ہو کے اپنے بدن سے جدا
منظرِ خوں چکاں ایک آتا رہا
ایک جاتا رہا
خوں ٹپکتا رہا
میرے احساس کو لال کرتا رہا
میرے دل کے لہو کی بھی گردش بڑھاتا رہا
میرے سینے میں ہلچل مچاتا رہا
مجھ میں خنجر چبھوتا رہا
درد دل میں سموتا رہا
میری پلکیں بھگوتا رہا
مجھ میں سیماب بھرتا رہا
مضطرب مجھ کو کرتا رہا
پاس میں دوسری کچھ نگاہیں بھی تھیں
عکسِ منظر اُدھر بھی گیا
پیکرِ خوں چکاں اس طرف بھی کِھنچا
سارے اعضا بریدہ اُدھر بھی چبھے
اُن کے سینے میں بھی تیر و نشتر کُھبے
خون کی دھار اُن کی طرف بھی گئی
آہ کی ضرب اُن کے بھی دل کو لگی
پر نہ اُن میں کہیں کوئی جنبش ہوئی
آنکھ پتّھر کی مانند ٹھہری رہی
آتما بھی تو سینے میں ساکت رہی
غالباً ذہن ان کا کہیں اور تھا
فکر و ادراک کا اور ہی طور تھا
اور ہی رنگ کوئی تھا چھایا ہوا
تھا کوئی اور ہی عکس دیدوں میں آیا ہوا
بے حسی،بے حسی،بے حسی،
یا کہ ادراک و احساس کی آگہی
کیسی آئی گھڑی
کیسی افتاد ہم پر پڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غضنفر