خانقاہِ عالیہ عارفیہ، سیدسراواں میں یک روزہ قومی سیمینارکاانعقاد
(انقلاب بیورو ) سلسلہ صفویہ کے امین وپاسداراور درویش صفت شاعر منشی عزیز اللہ صفی پوری دبستان لکھنو سے تعلق رکھتےہیں۔ آپ سلسلہ صفویہ کے مجدد، مخدوم شاہ خادم صفی کے زیرتربیت رہے اور پھر اُن کے خلیفہ ومجاز بھی ہوئے۔آپ شعر وسخن کے صف اول کے اساتذہ میں تھے۔عربی، فارسی اور اُردو تینوں زبانوں میں فی البدیہہ شعر کہتے تھے۔ درجنوں کتابوں کے مصنف تھے ۔ آپ کی تصانیف آپ کی نثرنگاری کے اعلی نمونے ہیں۔ غالب ، امیرمنائی اور شبلی جیسے ماہرین منشی عزیز صفی پوری کی شاعری اور ادبیت کے معترف رہے ہیں۔اِنھیں متنوع ہستی کی حیات وشاعری کے سلسلے میں خانقاہ عالیہ عارفیہ ، سید سراواں کے سمینار ہال میں’’ شاہ صفی میموریل ٹرسٹ ‘‘کے زیر اہتمام قومی کونسل براے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے تعاون سے یک روزہ قومی سیمیناربعنوان’’منشی عزیز اللہ صفی پوری: حیات وشاعری ‘‘ کا انعقاد ہوا ۔ جس میں دہلی ،علی گڑھ ،ممبئی اور الٰہ آباد سمیت جامعہ عارفیہ کے اسکالرز نے شرکت نے فرمائی۔ سیمینار کا آغاز قاری دلشاد صاحب، استاذ جامعہ عارفیہ کی تلاوت سے ہوا ۔منشی عزیزاللہ صفی پوری کی ایک غزل کو طالب حسن نے اپنی آواز دی اور غزل سرائی کا حق ادا کیا۔ بعدہٗ سیمینار میں بطور مقالہ نگار شریک ہونے والے اسکالرز نے اپنے مقالہ جات پیش کیے ۔اس سے پہلے ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی نے تعارفی خطبہ پیش کیا اور نظامت کے فرائض بھی انجام دیے، جب کہ صدارت حضرت مولانا ابوسعد حسن صفوی ازہری نے فرمائی اور کنوینر کی ذمہ داری جامعہ عارفیہ کے منیجنگ ڈائریکٹرجناب ساجد علی سعیدی نے ادا کی۔
یہ سیمینار دو سیشن پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن میں مولانا رفعت رضا نوری نے ’’ منشی عزیزاللہ صفی پوری: حیات اور شاعری ‘‘کے عنوان سےاپنا مقالہ پیش کیا اورمعروضی انداز میں ان کی حیات پر روشنی ڈالتے ہوئےواضح کیا کہ منشی عزیز اللہ تقوی وطہارت، توکل علی اللہ ، خشیت ربانی کا پیکر تھے۔ تاعمر حکم مرشد پر سختی سے عمل پیرا رہے۔ آپ صاحب حسب ونسب ہوتے ہوئے بھی نسبی تفاخر سے کوسوں دور تھے۔ ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی نے ’’منشی عزیز صفی پوری کی شاعری کی ادبی قدروقیمت‘’ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیااورکہا کہ آپ صاحب طرز اور صاحب اسلوب تھے۔ان کے کلام میں شعری محاسن کے ساتھ انسانیت سازی، افکارواحساسات کی پاکیزگی اور لطافت بخوبی دیکھنے کو ملتی ہے۔مزید یہ کہ وہ دبستان لکھنو سے متعلق تھے مگر معاصر چشمک، فحش اور غیرمعیاری شاعری سے بہرحال گریز کیا اوراس کی جگہ اپنی شاعری کو ساحری نہ بناتے ہوئے اس سے پیمبری کا کام لیا۔ مولانا صادق رضا مصباحی اور سید قمر الاسلام کے مقالے ان کی عدم موجودگی میں مولانا رضی مصباحی اور مفتی آفتاب رشک مصباحی نے پیش کیے۔
دوسرے سیشن کا آعاز مولانارفعت رضا نوری کی غزل سرائی سے ہوا۔ انھوں نے کلام عزیز سے سامعین کو محظوظ کیا۔ اس سیشن میں اولین مقالہ مولانا افتخار احمد علیمی نےبعنوان: منشی عزیز اللہ کی قصیدہ نگاری‘‘ پیش کیا۔ انھوں نے اپنے مقالے میں قصیدہ کی خصوصیات بتاتے ہوئے منشی عزیز صفی پوری کی قصیدہ نگاری کے اسلوب پر عمدہ روشنی ڈالی اور بتایا کہ انھوں نے اپنے قصیدے میں گریز اور تشبیب کا استعمال نہیں کیا ہے اور مشہورشاعر شہیدی کا تتبع کیا۔
مفتی ساجد الرحمن شبر مصباحی نے اپنا مقالہ بعنوان:’’ منشی عزیز کی شاعری میں عشقیہ پہلو‘‘ پیش کیااورانھوں نے بڑے ہی اچھے انداز میں ان کے تصور عشق کو واضح کیا۔ ڈاکٹر ظفر انصاری نے منشی عزیز اور محسن کاکوری کے قصیدے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کاشی علم کا شہر ہے اور متھرا عشق کا، اور محسن نے اس کا خوب صورت استعمال کیا ہے اس طرح تقابلی انداز میں اپنا مقالہ پیش کیا۔ ڈاکٹر افضل مصباحی نے منشی عزیز صفی پوری کی اردو شاعری کا اجمالی جائزہ پیش کیا اور کہا کہ منشی عزیز صفی پوری کے ساتھ اردو والوں نے بڑی ناانصافی کی ہےکہ اتنے بڑے شاعر کو نظر انداز کردیا۔چناںچہ ان کی شاعری پر معروضی انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔آخری مقالہ نگار کی حیثیت سے ڈاکٹر نوشاد عالم چشتی صاحب تھے اُنھوں نے اپنے مقالے میں منشی عزیز اللہ صفی پوری کے وحدت الوجود پر سیر حاصل گفتگو کی اور ان کے اشعار کی روشنی میں ان کی وحدت الوجودی فکر کو واضح کیا۔صدارتی کلمات اور سرپرست اعلی، داعی اسلام شاہ ابوسعید مدظلہ کے دعائیہ کلمات پر سیمینار کا اختتام ہوا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |

