ڈاکٹر محمد علی حسین شائق کی "چڑھتے سورج کی سرزمین” (ایک جائزہ ) – نسیم اشک
ڈاکٹر محمد علی حسین شائق ایک فعال ادیب ہیں۔مغربی بنگال کے معروف افسانہ نگاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔افسانہ نگاری کے علاوہ تحقیقی و تنقیدی مضامین تواتر سے لکھتے ہیں۔ادب سے ان کی وابستگی جنونی ہے ۔اب تک ان کی نو کتابیں منظر عام پر آکر داد و تحسین حاصل کرچکی ہیں۔شائق صاحب کو میں ایک حساس فن کار مانتا ہوں اور مجھے ان کے افسانے پسند آتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں انسان اس پوری کائنات کے اقتباس کا precise ہے۔ اس سے ہٹ کر کچھ نہیں.تمام فنون اس کے دم سے ہیں۔شاعری،نثر نگاری،مصوری ،سنگ تراشی،رقص ہو یا آہ و بکا ہرفن اور ہر طرح کے جذبات و کیفیات اس کے اندرون میں پہلے سے موجود ہیں بس ایک فن کار ان کی تلاش خودی میں کرتا ہے ۔ وہ ان کیفیات کی تلاش جلدی کر لیتا ہے جس کا تناسب اس کے اندر زیادہ ہوتا ہے اور رہی بات اظہار کی تو اظہار اپنا طریقہ خود نکال لیتا ہے اس لئے احساسات کی دیواروں پر مختلف نقوش ابھرے دکھائی دیتے ہیں ان کا مختلف ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انسان اپنے جذبات و خیالات کے اظہار میں نہ صرف آزاد ہے بلکہ اپنے اظہار کا حق بھی رکھتا ہے۔روز نئے روپ دھارتی اس دنیا کے مسائل بھی نئے روپ لے رہے ہیں اور ان کا مداوا بھی نئے روپ کا ہوگا۔زمانہ تغیر پزیر ہے اس نے اپنے لائف سائیکل کے کئی مرحلے طئے کر لیا ہے اور کئی اسٹیجیج ابھی اور آنے باقی ہیں۔بلا شبہ آنے والا ہر دور اپنے عہد کے نئے مسائل کے ساتھ ان سے جونجھنے والے نئے انسان پیدا کر لے گا۔تمام تر انسانی جذبات دل میں پنپتے ہیں اس لئے کسی فن کار کا حساس ہونا شرط اول ہے۔ڈاکٹر محمد علی حسین شائق ایک حساس افسانہ نگار ہیں۔ان کے افسانوں میں انسان اور اس کی زندگی مختلف رنگ و روپ میں نظر آتے ہیں۔ مصنف مٹتی انسانیت تہذیب کا نوحہ گر نہیں ہے بلکہ وہ ایک سچ مچ کا مہذب سماج اور انسانی اعلیٰ اقدار کی تصویر دیکھنے کا متمنی ہیں۔
ماڈرن تہذیب میں جیتا ہوا شخص مسئلوں میں گھرا ہے مگر حیف اس بات پر ہے کہ وہ اس مسئلے کی نوعیت کو سمجھ نہیں پا رہا ہے۔اس کی حالت aquarium میں رکھے ان مچھلیوں کے جیسی ہے جو مصنوعی تلاب کو حقیقی تلاب تسلیم کئے ہوئے ہیں۔ان میں چند مچھلیاں شیشے کی دیوار سے ٹکرا تو رہی ہیں مگر اسے توڑ نہیں پا رہی ہیں۔
مصنف کے افسانوں میں ایسے ہی اضطرابی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔افسانہ نگار نے اپنے افسانوں میں منظر نگاری سے زیادہ زور ان برہنہ حقیقتوں پر دیا ہے جو ہماری پہلی نظر کی متقاضی ہیں۔ان کی حقیقت پسندی نے ان کے افسانوں کو عام قاری تک رسائی دلائی ہے ۔ایک معمولی آدمی بھی ان کے افسانوں کا منشا سمجھ سکتا ہے اور کچھ دیر کے لئے ہی سہی ٹھہر کر ضرور سوچتا ہے کہ افسانہ نگار نے جو باتیں کہی ہیں ان کے دلوں میں بھی وہی باتیں دبی ہوئی ہیں۔
میں نے ان کے افسانوں میں ایک خاصیت یہ بھی پائی ہے کہ ان کے افسانوں پر ان کا اپنا رنگ ہے ،اپنا اسلوب ،اپنے نظرئے اور اپنے اصلاحی پہلو شامل ہیں۔یہ کیا کم ہے کہ لوگ کسی افسانہ نگار کو اس کے اپنے اسلوب سے پہچانیں۔
ڈاکٹر شائق افسانے لکھتے ہیں اور عمدہ افسانے لکھتے ہیں۔دل چیر دینے والے حقائق کو پیش کرتے ہوئے وہ جس شگفتگی کا مظاہرہ کرتے ہیں مجھ کم فہم کو یہی فن معلوم ہوتا ہے۔ان کے افسانوں میں روایت کا انحراف بھی نہیں ملتا اور جدت طرازی کی عجلت بھی نہیں ملتی۔زمانے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے وہیں موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جو نظر انداز نہیں کئے جاسکتے۔ایک showman کا کام بھی تو زمانے سے ہم آہنگی پیدا کرنا ہوتا ہے۔وہ سماج کو بیدار کرتا ہے، کھڑکی کے پردے ہٹاتا ہے تاکہ سوئے ہوئے شخص پر سورج کی روشنی پڑے اور وہ نیند سے بیدار ہو، ہلا ہلا کر کسی کو نہیں جگاتا ،صدا لگاتا ہے سننے کی پابندی عائد نہیں کرتا ، وہ دکھاتا ہے منواتا نہیں۔
پیش نظر مجموعے میں 14 افسانے شامل ہیں جو زمینی حقیقتوں کو درشاتے ہیں۔رومان پسندی سے قطع نظر ڈاکٹر شائق مقصدیت اور حقیقت پسندی کو اپنے افسانے میں فوقیت دیتے ہیں۔
افسانہ "پوسٹ مارٹم "مشرقی تہذیب کا پوسٹ مارٹم ہے جو اس کے اپنوں کے ہاتھوں ہورہا ہے۔مشرقی تہذیب کو جس طرح روند کر مغربی کلچر کو گلے لگایا گیا ہے اس پر بے کسی کے چند آنسو ہی بہائے جاسکتے ہیں۔تہذیب نے فیشن کا لباس پہن لیا ہے اور نام نہاد ترقی نے باقی کسر پوری کردی ہے اب وہ لوگ جو اپنی تہذیب کے مٹنے پر ملول تھے اب اس کی کئی برسیاں منا چکے ہیں۔اس تغیر کا کسی کو ملال نہیں۔ مشرقی تہذیب کے تباہ ہونے کی اس منظر کشی کو دیکھیں۔
"بوس و کنار سے سرفراز ہوتی جوڑیاں، انہیں فردوس بازیافت کی تخئیل میں لئے جارہی تھیں۔ لوگوں کی آمد ورفت میں کوئی کی نہیں تھی ، تاہم متضاد جنس کی جوڑیاں اس طرح بیٹھی ہوئی تھیں ، جیسا کہ دو جسم ، ایک جان بلکہ ایک جسم ایک جان تھیں ۔ رومان پسند ماحول اپنے آخری انجام کی طرف بڑھنے کے لئے بیتاب ہو رہا تھا کہ کسی کے ہونٹوں کے لمس کی گرمی حرارت بخش رہی تھی تو کسی کے حرارت بخش ہاتھ اثمار شباب سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ بے حیائی کی انتہا تو نہیں لیکن حد سے گذر جانے کا منظر نظر آرہا تھا۔ رومان پسند کے معطر فضا میں عالم اسلام کی بیٹیاں بھی نقاب میں ملبوس بوس و کنار سے سرفراز اور اڑ مارسباب کی لذت سے مالا مال نظر آرہی تھیں کہ اچانک گلابی رنگ کا دوپٹہ ہوا میں لہرا گیا اور وہ زمین پر بے سدھ گر پڑا اور پھر رنگ و نور کی نکہت بھری فضا پورے ماحول کو معطر کر گئی ۔”
"سلگتے موسم کی کتھا” ایک سچے ،محنت کش اور ایماندار شخص کی کہانی ہے جس کو خدا پر کامل یقین ہے وہ اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے خدا کے دربار میں سجدہ ریز ہوتا ہے اور خدا اس کی مدد فرماتا ہے۔اس افسانے میں ایک واضح پیغام ہے کہ ہمیں فریاد اس مالک کائنات سے کرنی چاہئے جہاں ہاتھ پھیلانے سے آبرو نہیں جاتی بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔خدا پر مکمل یقین اور اپنی محنت کے بدولت مشکل میں بھی راحت کا سامان پیدا ہوجا تا ہے۔اس بھاگم بھاگ کی دنیا میں مصنف اپنا پیغام قاری تک پہنچانے کے لئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا ہے جس کو آسمان والے سےشکایت ہو سکتی تھی کیونکہ وہ حالات کا مارا بھی ہے اور ضرورت مند بھی ایسی صورت میں بھی وہ شخص صابر بھی ہے اور شاکر بھی۔ایسےشخص کو مرکزی کردار میں پیش کرکے افسانہ نگار نے یہ باور کروایا ہے کہ ذات حق ہی واحد ہے جو تمام مسئلوں کا حل ہے۔افسانہ نگار نے ایمان کو تازگی بخشنے والی باتوں کو کس قدر خوبصورتی سے رکشے والے کی زبان سے کہلوایا ہے۔
"صرف تیس روپیہ کم ہورہا تھا تو اپنے دوستوں یا محلے کے کسی آدمی سے ادھار مانگ لیتے۔ بعد میں اسے واپس کردیتے میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
نہیں سر ! آخر پیسہ تو دینا ہی پڑتا اور پیسہ کے لئے کسی کے سامنے گڑ گڑانا اچھانہیں لگتا ہے۔ میں نے سوچاکہ اگر گڑگڑانا ہی ہے تو بھگوان کے سامنے گڑگڑاؤں۔ وہ کسی کو ہے عزت نہیں کرتا وہ کسی کو دے کر ڈھنڈھورا نہیں پیٹتا اور وہ ضرورت پوری بھی کر دیتا ہے۔ اس لئے میں نے ہھگوان کے سامنے تیس روپئے کی عرضی ڈالی اور اس نے پورا کر دیا۔ صاحب! میں تو کہتا ہوں کہ انسان کو اپنی ضرورت کی عرضی کسی دوسرے کے سامنے نہیں بلکہ بھگوان کے سامنے دینی چاہئے کیوں کہ پورے وشو میں وہی ایک ہے، جوسب کی سنتا ہے اور ضرورت بھی پوری کرتا ہے۔ ”
"بدلتے چہروں کی بازیافت” ایک علامتی افسانہ ہے۔برگد کو ایک علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کا قد دوسرے اشجار سے بڑا بھی ہوتا ہے اور توانا بھی۔ جنگل نما سماج میں اس کے مخالفین بھی پیدا ہوجاتے ہیں مگر "جاکو راکھے سائیاں مار سکے نہ کوئی ” کے مصداق وہ پھلتا پھولتا رہا اور حاسد اور سازشی لوگوں کے منصوبے ناکام ہوتے گئے۔یہ افسانہ آج کے انسانی سماج کی ایک حقیقی تصویر ہے جہاں ہر بڑھتے قدم پر یہ خطرہ بنا رہتا ہے کہ کوئی پاؤں نہ کھینچ لے۔
اللہ نے دنیا کی تخلیق کی اور انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بخشا، اچھے برے کا شعور بخشا پھر انسان زندگی کا سفر طئے کرتا ہوا اپنی حکمت اور مشاہدے سے رموز ہستی سے بھی واقف ہوتا گیا۔زندگی کا کارواں قدرت کے فیصلے کے عین مطابق چلتا رہا ،نت نئے ایجادات نے دنیا کی شکل بدلی اور انسان اپنے اجداد کے نظریات اور ان کے حدود سے نکلتا گیا ،بیل گاڑی سے میزائل تک کی دوری طئے کرنے والے انسان کے دل میں یہ وہم پیدا ہوگیا کہ وہ قدرت کے خلاف جاسکتا ہے اور اس نے جانے کی سعی کی کچھ تبدیلیاں لانی کے بعد وہ خود کو تخلیق کے بجائے خالق تصور کرنے لگا۔ترقی کے اس سرپٹ دوڑی میں اس نے تمام تر انسانی اداروں کو پامال کر ڈالا تھا اور اس کے مٹنے پر خوشیاں منانے لگے۔اندھیروں کی کوئی جگہ نہیں رہی وہ تمام کام جو اندھیرے میں ہوتا تھا وہ سب دن کے اجالے میں ہونا شروع ہوگیا۔روشنی اتنی بڑھنے لگی کہ لوگ اندھیرے کے وجود سے بے خبر ہوگئے مگر اندھیرا ان کے وجود میں مزید گہرا رہا تھا مگر فیشن پرستی کے اجالے میں وہ ان اندھیروں سے ناواقف ہو چکے تھے۔ٹائٹل افسانہ "چڑھتے سورج کی سرزمین” اسی انسانی تہذیب کے انحطاط کی ایک تصویر ہے۔انسان کے مختار کل بننے کی کوشش کا نقشہ ابھارتا ہوا یہ اقتباس دیکھیں۔
"وانگو جنگل جس کا دنیا کے نقشے پر کوئی وجود نہیں تھا اب ایک ترقی یافتہ ملک بن کر نہ صرف دنیا کے نقشے پر اپنی پہچان ثبت کرچکا تھا بلکہ اپنے حیرت انگیز کارناموں سے دنیا کو متحیر بھی کردیا تھا اور ساری دنیا اس حیران کن ایجادات و تشہیرات پر انگشت بدنداں تھی۔وانگو نے اندھی تقلید،رسم و رواج اور وحدانیت کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ایک نئی سوچ کو ایک نیا روپ دیا تھا جس میں وہ خود تخلیق کار کی حیثیت اختیار کرنے کی کوشش میں تھا۔”
زندگی پانی کا بلبلہ ہے اور اس سے زیادہ اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔انسان کل بھی قدرت کے سامنے بے بس تھا اؤر آج بھی ہے۔اس فانی دنیا میں سوائے اللہ کے کچھ بھی باقی رہنے والا نہیں۔افسانہ "آخری شام ” گاؤں میں اپنی آنکھیں کھولتا ہے غالباً اترپردیش کے گاؤں کا ذکر ہے۔وہاں بنکروں کی تعداد زیادہ ہے اور آج بھی وہاں کے بیشتر لوگ کپڑے بننے کے پیشے سے منسلک ہیں۔گاؤں تو گاؤں ہی ہوتا ہے یہاں زندگی کا اصل روپ دکھائی دیتا ہے۔یہاں کی صبح ،یہاں کی شام اور ان کے درمیان اپنوں کی محبتیں جو فاصلوں کی بھینٹ چڑھنے سے آج بھی باقی ہیں۔اس افسانے میں منظر نگاری کے ساتھ جذبات نگاری کمال کی ہے ۔اس افسانے میں دنیا کی بے ثباتی کو بہت موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
"وہ جو دوسروں کے چلنے میں سہارا بنتی تھی،آج اسے خود سہارے کی ضرورت تھی۔بغیر سہارے کے نہ اٹھ سکتی تھی ،نہ بیٹھ سکتی تھی ۔جس کے چھیرے پر ہر وقت تازگی رہتی تھی ، آج ایک پڑ مردہ پھول کی مانند ہوگئی تھی۔ میں اس کے چہرے کو تکے جا رہا تھا اور وہ بھی میرے چہرے کو ایک ٹک دیکھے جارہی تھی ۔ شاید وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی ۔ کہیں نہ کہیں اُس کی یاداشت کا ایک حصہ زندہ تھا ۔ اسی کے ذریعہ وہ مجھے پہچاننے میں مستغرق تھی کہ اچانک اُسے ہچکی آئی۔ اُس نے زور سے اپنے سر کو ہوا میں اُچھالا اور ایک جھٹکے کے ساتھ اُس کا سر ایک جانب لڑھک گیا اور زندگی کا سفر تمام ہوا۔ اسی لمحہ مؤذن نے مسجد سے اللہ اکبر کی صدا بلند کی اور سورج کا بھی اس دن کا سفر تمام ہو گیا اور شب کی سیاہی چاروں طرف پھیل گئی۔”
ہمارے اس پاس جو مسائل نظر آتے ہیں ان میں ایک اہم مسئلہ جنریشن گیپ کا ہے۔موجودہ جنریشن میں تو کہوں گا 5G جنریشن اتنی دور نکل چکی ہے کہ اب ان کا نام و نشان بھی دکھائی نہیں دیتا۔نہ وہ کسی کو دیکھ پا رہے ہیں نہ کوئی انہیں دیکھ پا رہا ہے اور یہ دوری روز بروز بڑھ رہی ہے ایک الگ دنیا آباد کی ہوئی ہے جہاں بڑوں کو مذاق کی چیز سمجھا جانے لگا ہے عمر بڑھتے ہی لوگوں کو طرح طرح کی باتیں ستانے لگتی ہیں وہ نہیں جانتی کہ انکی بڑھتی عمر کے ساتھ ان کس طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑے گا ،حساس لوگ مرنے سے پہلے مرنے لگے ہیں۔بداخلاقی اور بے حیائی اپنے عروج پر پہنچی چکی ہے اور اس نے باپ بیٹے ،ماں بیٹی،چھوٹے بڑے،استاد اور شاگرد تمام رشتوں کو یکسر مٹا ڈالی ہے۔یہ جنریشن گیپ تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا کیونکہ جب یہ بوڑھے برگد نہ ہوں گے تو ہمیں بھلے برے کا فرق بتانے والا کون ہوگا؟
"تمہاری بات ٹھیک ہے بیٹا لیکن یہاں تو جنریشن گیپ کا مسئلہ بھی تو ہے۔ نئی نسل کے سامنے اب ہم لوگ شجر ممنوعہ کی طرح ہو گئے ہیں ۔ نئی نسل نئی رفتار اور نئے انداز سے چل رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں پتا ہی نہیں کہ نئی نسل کی نئی رفتار کہاں حادثے کا شکار ہو جائے؟ ان چیزوں سے نئی نسل عاری ہو چکی ہے اور جنریشن گیپ کا یہ سلسلہ اب ہمیشہ چلتا رہے گا۔ برلن کی دیوار ٹوٹ کر ایسٹ اور ویسٹ جرمنی ایک ہو سکتے ہیں لیکن جنریشن گیپ کا معاملہ اب کبھی ختم نہیں ہوگا۔ جنریشن گیپ کا معاملہ بالکل اسی طرح ہو گیا ہے، جیسا ہمارے ملک میں انگریزوں نے دو فرقوں کے درمیان پیدا کر دیا ہے۔ انگریز تو چلے گئے لیکن دو فرقوں کے درمیان پیدا شدہ گیپ بھرنے کی بجائے مزید بڑھتا جا رہا ہے اور بڑھتا ہی جائے گا۔”
مجموعے میں اور بھی خوب صورت افسانے شامل ہیں جو قاری کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔”سلگتی کرنیں”، "نجات دہندہ” ،تیسری دنیا کے باسی”وغیرہ۔
ہم ان معنوں میں خوش قسمت ہیں کہ ہم اظہار کے مختلف طریقوں سے آشنا ہیں ، لفظ بول لیتے ہیں ، حرفوں کو جوڑ کر لفظ بنا لیتے ہیں ہمارے پاس اظہار کے چند ذرائع موجود ہیں ورنہ ہم بھی پہاڑ کے اس ٹکڑے کی مانند ہوتیں جو دست دعا دراز کئے کسی سنگ تراش کا منتظر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر شائق کے افسانوں میں جہاں خدا کی وحدانیت ،لگن و محنت،صبر و شکر کا پیغام ملتا ہے وہی اخلاقی پستی،ڈھلتے اعتبار ،ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کا دکھ ، نام نہاد ترقی کے سائیڈ ایفکٹس بھی جا بجا ملتے ہیں۔ان کے افسانوں میں ٹرین کاسفر اور سفر کا مشاہدہ اور مشاہدے کی روشنی میں ان کے نظریات قابل قدر اور سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔سفر ایک متحرک درس گاہ ہے جہاں ہم زندگی کے مختلف اسباق کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس سفر کے ابھی اور بھی منزلیں ہیں اور وہ منزلیں ڈاکٹر شائق کی منتظر بھی ہیں اور شائق صاحب کی نظریں بھی ان منزلوں کے تعاقب میں ہیں۔اللہ ان کے قلم کو اور تابندگی بخشے اور حوصلے کو جواں رکھے۔آمین
نسیم اشک
جگتدل، 24پرگنہ (شمال), مغربی بنگال
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
بہت عمدہ ۔۔۔۔۔ماشاء اللہ۔۔۔۔اللہ آپکو مزید کامیابی عطا فرمائے ۔