لوگ کہتے تھے بھائی ہو تو ایسا۔ گھر کے ایک کشادہ کمرے کو گہری نگہ داشت والے کمرے (آئی سی یو) میں تبدیل کردیا تھا۔ دو نرسیں مقرر تھیں جن کی وجہ سے مریضہ ذرا سی دیر کو بھی تنہا نہیں ہوتی تھی۔ لوگ اندازہ لگاتے تھے، کچھ نہیں تو دو ڈھائی لاکھ ماہوار خرچ ہورہے ہیں۔ لوگ یہ تبصرہ بھی کررہے تھے کہ آج کل انسانوں کو زبردستی زندہ رکھنے کی روایت قائم ہوگئی ہے۔ پہلے ہی اچھا تھاکہ اتنی تکلیف اُٹھانے کے بجائے دارفانی سے کوچ کرجاتے تھے۔ کیا فائدہ ہوتا ہے یوں زندہ رہنے کا۔ اس جوان العمر خاتون کے لیے ڈاکٹروںنے کہہ دیا تھاکہ اس کی حالت میں کوئی افاقہ کسی معجزے کے تحت ہی ہوسکتا ہے اور معجزے تو زمانۂ قدیم میں ہوا کرتے تھے، اب نہیں ہوتے۔ اب یا ڈھونگ ہوتا ہے یا باباجی کے ہاتھ کی صفائی۔
وہ کئی ماہ تک دہلی کے ایک مہنگے اور بڑے نامی گرامی ہسپتال میں بھرتی رہی تھی۔ اس کے بارے میں ایک ڈاکٹر کا کہنا تھاکہ ہم تو علاج کے لیے سپریم کورٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب لوگ سب جگہ سے باہر جاتے ہیں تو ہمارے یہاں آتے ہیں اور ہم سے مرض کو شکست دلوا کر جاتے ہیں۔ یہ بات دوسری ہے کہ یہاں صرف متمول لوگوں کی گزر تھی۔ خاتون کے گھر والوں کے پاس دولت تھی اور چوںکہ وہ دہلی کے ہی باشندے تھے اس لیے انھیں آسانی بھی تھی لیکن ڈاکٹروں نے ہار مان لی اور کہاکہ اس صورت میں یہاں رکھنے سے کسی فائدے کی امید نہیں، یہ یوںہی رہیںگی۔ بہتر ہوگا گھر لے جائیے۔ آخر سپریم کورٹ بھی تو کبھی کبھی ہاتھ جھاڑ لیتاہے اور موت کی سزا برقرار رہتی ہے۔
بھائی نے نہ صرف دو نرسیں مقرر کرائیں بلکہ کمرے میں وہ سارے آلات اور سہولیات نصب کرادیں جو اچھے ہسپتال کے آئی سی یو میں ہوتی ہیں۔ اس کے پاس پیسہ تھا، پیسے کے ساتھ بہن کے لیے محبت تھی اور اس محبت میں تھوڑا سا احساس جرم بھی گھلا ہوا تھا۔ گرچہ تھوڑا ہی سا۔
لوگ کہتے تھے واہ، بھائی ہو تو ایسا۔
کوئی دس بارہ سال پہلے اس کے ہاتھوں میں ہلکی سی لرزش محسوس ہوئی تھی۔ چائے، کافی کا کپ اُٹھاتی یا کھانے کی پلیٹ تو ہاتھ ذرا سا کانپتا۔ تقریباً غیرمحسوس سا۔ یہ وہ وقت تھا جب دہلی کے ایک اچھے کالج سے اس کا گریجویشن مکمل ہونے کو تھا۔ بھائی بڑا تھا لیکن اس کا کیا، اسے ابھی اپنا پروفیشنل کورس مکمل کرناتھا، پھر ملازمت کے بعد دوچار سال چھڑے رہ کر ان سے لطف اندوز ہونا تھا۔ گرل فرینڈ کو مزید پرکھنا تھاکہ پروپوز کیا جائے یا نہیں۔ زیادہ امید تھی کہ دو ایک اور ٹرائی کی جائیںگی۔ اس کی شادی کا کیاسوال تھا۔ ہاں لڑکی کے لیے بڑے شدومد سے رشتے کی تلاش شروع ہوچکی تھی جس میں بھائی بھی شریک تھا۔ جرم کہیے، گناہ کہیے بس اتنا ہی تو تھا۔
لڑکی نے کہا وہ ائرہوسٹس بننا چاہتی ہے۔ لیکن والدین نے سمجھایاکہ اس صورت میں تو شادی کافی عرصے کے لیے ملتوی ہوجائے گی۔ لڑکی نے بتایاکہ کچھ ائرلائنز شادی شدہ لڑکیوں کو بھی لیتی ہیں لیکن شادی کی ایسی آفت کیا ہے۔ ماں باپ نے کہا ہاں ہے آفت۔ اگر شادی شدہ لڑکیاں بھی ائرہوسٹس ہوسکتی ہیں تو پھر کیا ہے، بن جانا بعد میں۔ ان لوگوں نے دل ہی دل میں سوچا۔ تب کی بات جب، جب شوہر کی اجازت ہو۔ اچھے گھر کی لڑکی، بیاہ کے اچھے گھر میں ہی جائے گی اور بنی پھرے گی فیشن ایبل آیا؟ کون شوہر اجازت دے گا؟ اس نے ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی کو اپنا پورٹ فولیو بھی بھیجا تھا اور وہاں سے اسے بلایا بھی گیا تھا لیکن گھر گھرانہ اعلیٰ درجے کا ہوتے ہوئے بھی ابھی گھر کی لڑکی کو ماڈل بننے کی اجازت دینے کے ’کمفرٹ زون‘ میں نہیں آیا تھا۔ ڈاکٹر بن جاؤ، یوپی۔ایس۔سی کریک کرو، افسر بن جاؤ، کسی اچھے کالج میں لکچرشپ بھی قابل قبول۔ لیکن لڑکی میں ان میں سے کسی کی بھی نہ صلاحیت تھی نہ رجحان۔ ذہانت اس میں اوسط سے قدرے کم ہی تھی اور رجحان ہلکی پھلکی آسودہ حال تیتری جیسی زندگی گزارنے کا تھا۔ اس کی اس میں صلاحیت بھی تھی اور صورت بھی۔
لیکن والدین اور بڑا بھائی حاوی رہے، جیسے اکثر رہا کرتے ہیں اور ایک بڑا ’اچھا سا‘ لڑکا ڈھونڈ لائے۔ پنڈت جی نے کچھ زائد دکشنا لے کر کنڈلی بھی ملادی۔ لڑکی کے آگے کچھ کرنے کے خواب کچھ ایسے زیادہ بھی نہیں تھے۔ گورا چٹا، گھنے سیاہ بالوں والا لڑکا اسے بہت پسند آگیا تھا۔ اس نے بھی جن ستائشی نظروں سے اسے دیکھا وہ پھوار بن کر اس کے وجود پر برس گئیں۔
’’لڑکی نے چائے بڑھائی تو اس کے ہاتھوں میں کچھ کپکپی سی تھی۔‘‘
ذرا چھان بین کرلی جائے۔ لڑکے ساتھ آئی اس کی بہن نے کہا۔
’’ارے نروس ہوگی۔‘‘ لڑکے کی ماں نے ہی جواز پیش کیا۔
’’آج کل کوئی لڑکی ایسی نروس نہیں ہوتی۔‘‘ بہن کو اس کی شفاف جلد اور ستھرے نقوش سے قدرے جلن ہورہی تھی۔ لڑکی کچھ ایسی حسین تو نہیں تھی لیکن بڑا نرم نرم ساچہرہ تھا جیسے اندر کی نیکی چہرے پر جھلک رہی ہو۔ بہن نے یہ بھی کہاکہ وہ کچھ بے وقوف بھی لگی۔ زیادہ ہی خوش ہورہی تھی۔ ’’بے وقوف ہوتی تو بی۔اے تک کی پڑھائی کیسے کرلیتی۔‘‘ اب کی لڑکا خود اس کے دفاع میں آیا۔
’’آج کل ہندی، اردو، فارسی میں کون کررہا ہے بی۔اے۔ سب پروفیشنل کورس کررہے ہیں۔ یا کم از کم اکنامکس اور کامرس جیسے مضمون لے رہے ہیں۔‘‘
’’کیا چاہتی ہو دیدی۔ لڑکے نے زچ ہوکر کہا۔ سوچ لو۔ ہم کوئی اس کے ساتھ گھومے پھرے ہیں۔ تم لے گئیں تھیں، چلے گئے۔ لڑکی اچھی لگی۔‘‘
بہن کچھ گھبرا گئی۔ اب زیادہ میِن میخ نکالی تو پھر چلو کہیں اور لڑکی دیکھنے۔ پہلے ہی تین چار رد ّکی جاچکی تھیں اور کوئی بڑا نقص تو نظر نہیں آرہا تھا۔ اوپر سے مالدار پارٹی۔ اچھا بھئی جو مرضی۔
شادی ہوگئی۔ سنگارپور میں ہنی مون بھی ہوگیا۔ بس کچھ عرصے پہلے ہی بھائی کو اعلیٰ درجے کی کمپنی میں ملازمت مل گئی تھی۔ لاکھوں کا پیکیج تھا۔ سنگاپور کا رٹرن ٹکٹ اور ہوٹل میں ہفتہ بھرکے قیام کا پورا خرچ اس نے اٹھایا۔ پہلی تنخواہ بہن کے نام۔
’’زیادہ ٹھہرنا ہو تو اپنا بٹوہ کھولیے گا داماد جی۔‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا جو دامادجی کو قدرے بُرالگا۔ وہ تو ہم دیکھ ہی لیتے۔ کہنے کی کیا ضرورت تھی۔
دلہن صورت کی ہی نہیں، سبھاؤ کی بھی بڑی میٹھی تھی۔ اس کا میٹھا سبھاؤ کبھی کبھی حماقت کا احساس دلاتا تھا۔ شاید بہت سیدھی ہے۔ چلو فتنہ تو نہیں ہے۔ اپنی ہی بہن کیسی فتنہ ہے۔ شوہر کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ مگر ہاں پھر بھی کبھی کبھی کچھ پوچھنے پر اس کا بڑی بڑی آنکھیں کھول کر منھ تاکتے رہنا کوفت کا باعث بنتاتھا۔ گھر سنبھال تو لے گی؟ ڈیڈی ممی ہیں، بیوہ بوا ساتھ رہتی ہیں۔ بنگلور والی بہن تین بچوں کے ساتھ اکثر آجاتی ہیں۔ یہ فتنہ بہن کینیڈا میں ہیں پھربھی سال کے سال تو آتی ہی ہیں۔ ابھی جو شادی میں آئیں تو زیادہ رُک گئی تھیں۔ رسوئی چُھلائی کے وقت لڑکی کو ہلدی کی گانٹھ دے کر اسٹیل کے چھوٹے سے ہادن دستے میں اسے کوٹ کر شگون کرنے کو کہاگیا۔ ہلدی کے ٹکڑے تو ہوگئے لیکن اس کا ہاتھ دیر تک کانپا کیا۔
’’دلہن بڑی سُکمار (نازک) ہیں۔‘‘ ملازمہ نے کہا لیکن بہن کے چہرے پر تردّد تھا۔
پھر بہن واپس ہوگئیں۔ شادی کے ہنگامے موقوف ہوئے چھ آٹھ مہینے اچھے گزرے اس لیے کہ ملازم تھے لیکن کچھ تو کرنا ہی ہوتاہے۔ لڑکی خدمت گزار بھی تھی۔ ملازموں کی پوری نگرانی، بڑوں کا پورا خیال۔ شوہر کی تو دیوانی۔ بس برتن بہت توڑتی تھی۔ ہاتھ سے کبھی پلیٹ گرگئی، کبھی چائے کا کپ گرگیا۔ ٹیبل پر ڈونگے سے سالن، سبزی نکالتے ہوئے کچھ نہ کچھ چھلک جاتا تھا۔ ایک دن لڑکے کی ماں ناراض ہوگئیں۔ نو پھول رانی بنا کے رکھا تھا ماں نے۔ ارے برتن ٹھیک سے نہیں اُٹھاپاتی۔ لیکن سال بھر بعد تو جیسے لوگ دم بخود رہ گئے۔
اس کے ہاتھ کی لرزش زیادہ ہوگئی تھی اور زبان میں ہلکی سی لکنت بھی پیدا ۔ ڈاکٹر سے مشورہ لازمی تھا۔ بہت ساری طبی جانچوں سے گزرنے کے بعد معلوم ہواکہ اسے ایک اعصابی بیماری ہے۔ جو لاعلاج ہے اور پروگرایسئو۔ یعنی تدریجی طورپر بڑھنے والی۔ دواؤں سے اس میں اضافے کو کچھ ٹالا جاسکتا ہے اور بس۔
’’آپ نے بیمار لڑکی ہمارے سر منڈھ دی۔ اور کم عقل بھی۔‘‘
داماد ایک دن آکر گرجے اور جانچ کے سارے کاغذات سامنے لاکر پٹک دیے۔ لڑکے کے باپ اور بھائی نے قسمیں کھائیں کہ انھیں اس بیماری کا ذرا علم نہیں تھا۔ داماد قائل نہیں ہوئے کچھ مطالبات سامنے رکھ کر چل دیے۔ گھر میں ایک کمرے کا اضافہ کرائیے۔ فرنیچر تبدیل کیجیے۔ فرج ایک اور دیجیے۔ ایک سے کام نہیں چلتا۔
لڑکی گھر آئی ہوئی تھی۔ سب سن رہی تھی۔ آنسو پونچھنے لگی۔ ماں نے تنہائی میں کہا۔ بیٹا ڈیڑھ سال گزر گیا۔ اب بچے کی سوچو۔ بچہ ہوجائے گا تو رشتہ پختہ ہوگا۔ ذرا دامادجی بھی ٹھنڈے رہیںگے۔
داماد جی تو بھڑک گئے۔ یہ بچہ پالنے لائق ہے؟ یا ابھی ہے تو کیا آگے رہے گی؟ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ مرض ٹھیک نہیں ہوتا۔ بڑھتا جاتا ہے۔ پھر مستقل دواؤں پر رہنا ہے۔ پیٹ کا بچہ صحیح رہ پائے گا؟ انھوں نے بڑے سخت اقدامات شروع کیے کہ بچہ نہ آنے پائے۔ شروع میں تو یہ تھا کچھ دن فری گزار لیں لیکن اب یہ اقدامات ضرورت بن گئے۔
داماد برابر آتے اور پہلے کی طرح ہنسی خوشی مل جل کر کھاپی کر جانے کی بجائے طعنے دے کر جاتے کہ ان کی زندگی برباد کردی گئی ہے۔
ایک دن بھائی بہت زور سے بگڑگیا۔ ہم اپنی بہن کو لے آتے ہیں۔
لیکن سارے بڑے ایک طرف ہوگئے۔ خود لڑکی بھی۔
پھر اس کی شادی کے تیسرے برس بھائی کی شادی ہوئی اور دوماہ بعد ہی معلوم ہواکہ دلہن کے پیر بھاری ہیں۔ گودبھرائی کی رسم میں لڑکی اور اس کا پورا سسرال آیا۔ اچانک لڑکی نے زور زور سے رونا شروع کیا۔ ہمیں بھی بچہ چاہیے۔ ہمیں بھی بچہ چاہیے۔ یہ نہیں ہونے دیتے۔ کہاں شادی کردی ہماری۔ اس نے بھائی کا گریبان پکڑ لیا۔ اپنے تو مزے میں ہیں، ادھر شادی ادھر بچہ۔ ہمیں ائرہوسٹس بھی نہیں بننے دیا۔ اس بیچ ہماری بیماری سامنے آجاتی تو ہم شادی نہ کرتے۔ اس کا رونا تھم ہی نہیں رہا تھا۔ مہمانوں کی موجودگی کا اسے کوئی خیال نہیں تھا۔ بھائی کے یہاں بچے کی آمد وہ بھی اتنی جلد اس کا ذہن بری طرح پراگندہ تھا۔ محض گودبھرائی میں اتنا اہتمام۔ اس کے گھر بھی تو ہوتا یہ سب۔
تین چار ماہ تک گھر کے لوگ اور ڈاکٹر آپس میں بات چیت کرتے رہے۔ ڈاکٹروں نے کہا مرض قابو سے بالکل باہر ہونے میں پانچ سال سے زیادہ لگ سکتے ہیں۔ حمل اور زچگی سے اس پر کوئی برا اثر نہیں پڑے گا۔ آپ لوگ صاحب استطاعت ہیں، آیارکھیے۔ آپس میں تعاون کرکے فیصلہ کیجیے۔
داماد نے شرطیں رکھیں۔ اب سے علاج کا مکمل خرچ لڑکی کے گھر والوں کے ذمے۔ بچہ ہونے پر لڑکی کی ماں لڑکی کے سسرال آکر بچہ سنبھالیں گی۔ آیا کا خرچ بھی ان کے ذمے ہوگا۔ زچگی کا بھی۔
چھ ماہ بعد خوش خبری سامنے آگئی۔
پھر جب حمل کا چوتھا مہینہ شروع ہوچکا تھا ایک صاحب آئے ہوئے تھے۔ ڈرائنگ روم میں لڑکی ان سے بات کرتے ہوئے کھڑے کھڑے گرگئی۔ ان صاحب کو صورت حال کا علم نہیں تھا۔ حمل بھی اتنا واضح نہیں تھا۔ کہنے لگے لگتا ہے دولہا بابو کے ساتھ رات میں کچھ زیادہ پی لی تھی۔
لڑکی کمرے میں جاکر بہت روئی۔ اب کبھی کبھی اس کا توازن بگڑ جاتاتھا اس وقت وہ شدید بے بسی کے احساس سے دوچار ہوتی تھی۔
شوہر ذرا خوش نہیں تھا۔ اکثر اسے قہرآلود نظروں سے گھورتا۔ اس وقت لڑکی کے دل میں چھَن سے کچھ ٹوٹتا لیکن وہ حمل کی ابتدا سے ہی بہت خوش تھی۔ جب بھی کسی بات سے دل دُکھتا، اپنے آپ سے کہتی — ’’تم ہماری خوشی نہیں چھین سکتے،‘‘ اور مسرت سے بھر اُٹھتی۔
اس نے بھائی کو بھاوج کے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے اور کان لگاکر بچے کی حرکات محسوس کرتے دیکھاتھا۔ ان کے یہاں سے نئے سال پر جو بہت سے تحفے آئے ان کے کارڈ پر لکھا ہوا تھا ’’بھائی بھابھی اور بے بی کی طرف سے‘‘ جو بچہ پیدا نہیں ہوا تھا وہ کنبے میں شامل ہوچکا تھا۔
اس کے بچے کا باپ تو ایسا کچھ نہیں کرتا تھا پھر بھی وہ سر جھٹک دیتی۔ اس کے اندر عبیر و گلال اُڑتے تھے۔ ہولی کے بغیر ہولی کے رنگ بکھرتے اور دیوالی کے بغیر دیے جلتے۔ وہ ماں بننے جارہی تھی اور اس کی یہ خوشی سب پر بھاری تھی۔ حال میں بڑھتی جارہی لرزش اور اس کی وجہ سے دوسرے مسائل جو مزید پیچیدہ ہوگئے تھے ان کے باوجود۔
’’یا مالک! یہ بچہ کیسے پالے گی۔‘‘
’’بچہ تو پل جائے گا زیادہ ڈر یہ ہے کہ بیماری موروثی نہ ہو۔ ہوئی تو ہمارا بھتیجا بھی ایسا ہی ہوگا۔‘‘ بہن نے کہا۔
نہ جانے کیا کیا ہورہا ہے ہمارے گھر میں۔ اب آئیں اس کی ماں سنبھالیں۔ ہم چلے بیٹی کے پاس کینیڈا۔ لڑکے کی ماں شوہر کے ساتھ وہاں منتقل ہوگئیں۔
بیٹا پیدا ہوا۔ بیٹے کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کے اعتراضات اور پریشانیاں وقتی طورپر کم ہوگئے۔ لڑکی پر طعنوں کی بوچھار میں بھی کمی آئی۔ بہنوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا بس مالک کی مہر رہے۔ بچہ ماں کی بیماری میں مبتلا نہ ہو۔ مٹھاس میں تھوڑی کھٹاس ڈالی گئی لیکن لڑکی نے دل میں جو شمع جلا رکھی تھی اس کی لَو یوںہی ضوفشاں رہی۔ کانپتے ہاتھوں سے اس نے بچے کو گود میں سمیٹا اور دودھ پلاکر ایک انوکھی مسرت سے سرشار ہوئی۔ دل نے کہا، تم میں سے کوئی میری خوشیاں نہیں چھین سکا، چھین بھی نہیں سکتا تھا۔
اس کے گھر والوں نے قیمتی تحفوں سے گھر بھر دیا۔ حسب وعدہ لڑکی کی ماں آکر نگہ داشت کے لیے رہنے لگیں۔ ایک ملازمہ انھیں کے خرچ پر رکھی گئی۔
لیکن بیماری جیساکہ اس بیماری کا دستور تھا، علاج معالجے کے باوجود بڑھتی گئی۔ اب وہ نہاکر نکلتی تو بہ مشکل تولیہ لپیٹ کر۔ اس کی ذاتی ملازمہ کپڑے پہننے میں اس کی مدد کرتی۔
ایک دن تو غضب ہی ہوگیا۔ اس نے بچے کو گود میں اُٹھایا تو وہ پھسل کر ہاتھ سے گرپڑا۔ خیریت یہ تھی کہ فرش پر دیوار تا دیوار موٹا ایرانی قالین تھا جو بچے کے ماموں کا دیا ہوا تحفہ تھا۔ اس کی وجہ سے چوٹ کچھ ایسی نہیں آئی لیکن بچہ سہم گیا اور ایسا سہماکہ رویا بھی نہیں بس چپ اور بالکل سست ہوگیا۔ اتفاق سے اس دن اتوار تھا۔ سارا کنبہ گھر پر تھا، ماموں ممانی بھی ملنے آئے ہوئے تھے۔
طیش میں آئے ہوئے باپ نے ساری داستان پھر سے دوہرائی۔ دھوکہ دے کر بیمار لڑکی سے شادی، اس کی بچے کے لیے ضد۔ وہ گھوم گھوم کر ہنٹر چلا رہا تھا۔ پھر اس نے ایک فائنل ضرب لگائی۔
’’آج سے یہ بچے کو نہیں اُٹھائے گی۔‘‘
وہ ہڑبڑا کر جھٹکے کے ساتھ اُٹھی لیکن منھ کے بل گرگئی۔
خیر بچے کو ہاتھ نہیں لگانے کا حکم تو آیا گیا ہوگیا لیکن اسے بچے کے ساتھ اب تنہا بالکل نہیں چھوڑا جاتا تھا۔ بچے کی پہلی سال گرہ پر بہت بڑی تقریب منعقد ہوئی لیکن تب وہ ایک آرام کرسی پر نیم دراز بیٹھی رہی۔ وہ اب زیادہ اُٹھ بیٹھ نہیں کرپاتی تھی۔ اس کے دل میں یہ خوف بھی سما گیاتھاکہ کہیں وہ بچے کو لیے دیے گر نہ پڑے۔ بچے کے دادا – دادی اب کینیڈا سے واپس آچکے تھے۔ انھوں نے پیشانی پر ہاتھ مارکر کہا — ہمارے بچے کی قسمت۔ بیٹا ہوا تو کیا گرہستی کا سُکھ تو مل نہیں رہا۔ ساس سے کہیں گرہستی چلتی ہے۔ وہ بھی مرد کی۔
بچہ اسکول جانے لگا۔ پلے اسکول سے آگے بڑھ کر چوتھے اسٹینڈرڈ میں آگیا۔ تب تک وہ صرف اس لائق رہ گئی تھی کہ پڑے پڑے لوگوں پر نظر رکھ سکے اور شوہر کے ساتھ سوئے۔ بچہ نوکر پال رہے تھے اور نانی۔ پھر ایک دن اسے ہسپتال میں بھرتی ہونا پڑا۔ اس کی قوی امید بھی تھی۔
علاج چلتا رہا۔ لڑکی ڈسچارج ہوئی پھر بھرتی ہوئی۔ آخر ایک دن کوما میں چلی گئی۔ چھ ماہ کے طویل عرصے کے بعد ڈاکٹروں نے کہا۔ ان کی حالت میں اب کسی افاقے کی امید نہیں ہے آپ انھیں گھر لے جاکر رکھیں۔ برابر آنا جانا آپ کے لیے بھی زحمت ہی ہے۔ یہ ایک طرح علاج سے ہاتھ اُٹھا دینے کے مترادف تھا۔
یہ تجویز معقول تھی لیکن شوہر نے گھر لانے سے انکار کردیا۔ ’’اب آپ لوگ رکھیے۔‘‘ اس نے بڑے حتمی لہجے میں کہا۔ وہ اب اسے بستر کا سُکھ بھی نہیں دے سکتی تھی۔
بھائی نے ایک بڑا کمرہ آئی سی یو میں تبدیل کرا دیا۔ سارے ضروری آلات کے ساتھ دو نرسیں نصب کی گئیں۔ بھاری فیس لے کر ایک ماہر اعصابی امراض ہر ہفتے آکر دیکھ لیتے تھے اور سر ہلاکر چلے جاتے تھے۔ لڑکی صرف سانس لیتی تھی۔ ٹیوب سے پہنچائی جانے والی غذا پر اس کی سانسیں چل رہی تھیں۔ بچے کو لے کر اس کی ماں، یعنی بچے کی نانی اکثر آجاتی تھیں۔ دوپٹے کے چھور سے آنکھیں پونچھتیں، بچے کو دور سے ماں کو دکھا دیتیں۔ اسے تسلی دیتیں۔ ممی ٹھیک ہوجائیںگی۔ ’کب‘ اس کا جواب البتہ ان کے پاس نہیں تھا لیکن وہ جھوٹ بول دیتیں۔ جلدہی۔
ایک دن لڑکی کی سانسیں تیز ہوگئیں۔ اس کا پنجر جیسا جسم کانپنے لگا۔ بلڈپریشر بالکل گرگیا۔ نہایت گھبرائی ہوئی درخواست پر ڈاکٹر آگئے، انھوں نے کہا ’’آپ کو یہ سننا اچھا نہیں لگے گا لیکن ان کے لیے اسی میں نجات ہے۔جنھیں بلانا ہو، بلا لیجیے۔‘‘
لڑکی کی ماں اس کے بچے کو لے کر بھاگی ہوئی چلی آئیں۔ پورے رستے دعا کرتی رہیںکہ اسے سانس لیتا دیکھ لیں اور اس کے بیٹے کو بھی دکھا دیں۔
وہ پہنچیں تو سانسوں کی ڈور ہلکی ہوگئی تھی۔ وہ اپنی گلابی مخملی جلد اور سیاہ پلکوں کے ساتھ اس عالم میں بھی حسین تھی۔ بلکہ پہلے سے زیادہ۔ ایک ملکوتی حسن اس پر اُتر آیا تھا۔ بچے کو اس کے بالکل قریب لایا گیا۔ بچے نے اس پر منا سا ہاتھ رکھا۔ ماں… اماں۔
وہ جو سال بھر سے بے حس و حرکت تھی، اس کے لبوں پر مسکراہٹ کی ایک باریک سی لکیر کھنچی دکھائی دی۔ ایک الوداع، ایک بے حد خفیف تاثر۔ جو تھا بھی اور نہیں بھی۔ اس نے آخری ہچکی لی۔
لوگ بہت دن تک آنسو پی پی کر آپس میں ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کہ کیا وہ واقعی مسکرائی تھی؟ کیا ان آخری لمحات میں اسے بچے کی موجودگی کا احساس ہوا تھا؟
بچہ بڑا ہوگیا ہے۔ وہ یقین کے ساتھ کہتا ہے — ممی مسکرائی تھیں۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |