غالب،باندہ اور دیوان محمد علی/ پروفیسر صغیر افراہیم – ڈاکٹر داؤد احمد
مصنف : پروفیسر صغیر افراہیم
ناشر : براؤن بک پبلی کیشنز،نئی دہلی۔110025
سال اشاعت : 2021 ء
ضخامت : 160 صفحات
قیمت : 400 روپے
ملنے کا پتا : براؤن بکس،نزد بلائنڈ اسکول،قلعہ روڈ،شمشاد مارکیٹ علی گڑھ۔202001
تبصرہ نگار : داؤد احمد، اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ اردو،فخرالدین علی احمد گورنمنٹ پی جی کالج،محمود آباد، سیتاپور(یو۔پی) 261203
زیر تبصرہ کتاب ’’ غالب، باندہ اور دیوان محمد علی‘‘ اردو کے معروف ادیب و ناقد ،فکشن نگار اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر صغیرافراہیم کی تازہ ترین تصنیف ہے جس میں انھوں نے غالب کے سفر کلکتہ کے دوران باندہ میں قیام اور ان کے ایک ایسے مکتوب الیہ دیوان محمد علی کا تفصیلی ذکر مستند تحقیقی شواہد کے ساتھ پیش کیا ہے جن سے متعلق اطلاعات کا افسوس ناک حد تک فقدان ہے۔یہ کتاب پروفیسر صغیر افراہیم کا وہ اچھوتا کارنامہ ہے جس نے غالب شناسی میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے اور غالب کے مکتوب الیہ دیوان محمد علی کے بارے میں بھی کسی نہ کسی زاویہ سے آگاہی دی اور ضمنی باتیں بتائی ہیں۔ ۲۰۲۱میں منظر عام پر آئی اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً دو صدیوں سے زائد وقت گزر جانے کے بعد بھی غالب شناسی کا عمل آج بھی ترو تازہ ہے ۔پروفیسر صغیر افراہیم صاحب کتاب کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے پیش لفظ کے تحت رقمطراز ہیں :
’’ خاکسار نے سب سے پہلے غالب کے باندہ تک پہنچنے کی مکمل تفصیل کو اس کتاب میں شامل کرکے مکمل روداد سفر کی شکل دینے کی کوشش کی ہے ۔دوئم یہ کہ وہ محترم شخصیت جو نواب باندہ اور غالبؔ دونوں کو عزیز تھی ،ان کی شخصیت اور نسل در نسل غالب سے انسیت کی روداد رقم کی ہے اور حقائق و شواہد سے یہ واضح کرنے کا جتن کیا ہے کہ دیوان محمد علی کے نام محض تین سارھے تین سال میں لکھے گئے تین درجن سے زائد خطوط نہ صرف تاریخی حیثیت کے ہیں بلکہ اس دور کے شعری منظر نامے کے بھی رہین منت ہیں۔‘‘ (صفحہ۔ ۳۴،۳۵)
زیر تبصرہ کتاب گیارہ مختصر ابواب پر مشتمل ہے جس میں ’’خطۂ بندیل کھنڈ کا مرکزی محور’’باندہ‘‘،’’غالبؔ کے سفر کلکتہ کے اسباب و علل‘‘،’’غالبؔ: آمد باندہ اور انتخاب راہ‘‘،’’غالبؔ کے اہم ممدوح الیہ۔دیوان محمد علی: آثار و کوائف‘‘،’’غالبؔ کے غیر معروف مکتوب الیہ کے دستیاب خطوط(پنج آہنگ تا نامہ ہائے فارسی غالبؔ)‘‘،’’مکتوبات غالبؔ بنام محمد علی: معروضی مطالعہ‘‘،’’باندہ کے تعلق سے غالبؔ کا شعری سرمایہ‘‘،’’یادوں کی بازیافت:باندہ،غالبؔ اور متعلقین‘‘،’’سید اکبر علی ترمزی کی غالبؔپسندی‘‘،’’غالبؔ شناس: لطیف الزماں‘‘ اور’’ غالبؔ کے فارسی مکتوبا ت کا شیدائی۔پرتو روہیلہؔ‘‘ جیسے عناوین شامل کتاب ہیں۔
کتاب میں درج گیارہ عناوین کے تحت مصنف نے مختلف نکات پر تحقیقی نظر ڈالی ہے اور بہت قیمتی معلومات یکجا کی ہیں۔پہلے عنوان کے تحت بندیل کھنڈ کے مرکزی علاقہ باندہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس خطے کی تاریخی ،تہذیبی و ثقافتی اور جغرافیائی صورت حال سے بحث کی گئی ہے بالخصوص ان شواہد کو پیش کیا گیا ہے جو غالبؔ اور باندہ کے رشتہ خاص کو پیش کر رہے ہیں۔ دراصل مذکورہ کتاب کا نیا زاویہ،نیا پہلو شہر باندہ اور باندہ میں مقیم رہے ’ دیوان محمد علی‘ ہیں جس نے محقق کو محرک العمل کیا ہے کہ غالب کی اب تک تحقیق میں ’’دیوان محمد علی‘‘ کے غالب سے مراسم اور رشتہ خاص سے آخر چشم پوشی کیوںبرتی گئی؟ لہٰذا یہی وہ نکتہ ہے جس نے تحقیقی بصیرت کے ساتھ انھیں محرک پیکر بنایا ۔ اس بارے میں وہ خود رقمطراز ہیں:
’’جب جب اس مسافت کے تعلق سے میں باندہ کے ذکر پر غور کرتا تو نہ جانے کیوں ذہن میں کئی سوالات ابھرنے لگتے۔ مثلاً باندہ سے مرزا کا کیا رشتہ اور رابطہ تھا؟وہ منزل سے مختلف راستے(off the way) پر کیوں گئے؟سفر سے پہلے اور سفر کے بعد باندہ والوں سے ان کا کیا تعلق رہا؟وہاں چھ ماہ کے قیام میں ان کی کیا مشغولیات رہیں؟دوران قیام مہیا ہونے والے پر سکون ماحول میں غالبؔ نے فارسی اور اردو نثر ونظم میں کیا خلق کیا؟ یہ وہ چھوٹے چھوٹے سوالات ہیں جنھوں نے تحیر و تجسس کو مہمیز کیاکہ دوران سفر کان پور اور لکھنؤ میں قیام کی تفصیل موجود ہے۔الہ آباد ،بنارس ان شہروں کی روداد اور تاثرات بالتفصیل دستیاب ہیں مگر جہاں چھ ماہ قیام کیا ،وہاں کے شب و روز کی تفصیل سے ہم محروم کیوں ہیں؟‘‘۔(پیش لفظ: صفحہ۔۳۱۔۳۲)
دوسرے باب میں’غالب کے سفر کلکتہ کے اسباب و علل‘ کے تحت پورے سفر میں جا بہ جا غالبؔ کی داستان بکھری ہوئی ہے۔غالبؔ کا سفر کلکتہ اردو ادب میں بہت مشہور اور بہت اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ہمارے ادبی ،سماجی اور ثقافتی فروغ میں معاون ثابت ہوا ہے۔کلکتہ کا ادبی معرکہ بجائے خود ان کی زندگی کا ایک اہم عنوان ہے ۔اگر یہ سفر در پیش نہ آتا تو دہلی،فیروزآباد،فرخ آباد،کانپور،لکھنؤ، باندہ،الہ آباد،بنارس اور پھر کلکتہ جیسے شہروں میں انھیں جانے کا اتفاق نہیں ہوتا۔خاص کر کلکتہ جہاں ایک نئی دنیا اور سائنس کی جدید ترقیات و ایجادات کے مشاہدہ کا انھیں موقع ملا۔غالبؔ کے سفر کلکتہ کے دوران راستے میں ایک چھوٹی سی بستی باندہ میں غالبؔ کے طویل قیام(تقریباً چھ ماہ) اور پھر اس قیام کی تفصیلات کو نئے سرے سے جاننے،پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
تیسرے باب میں ’غالبؔ کے آمد باندہ اور انتخاب راہ‘ سے متعلق معلومات کو محمد اسماعیل پانی پتی،پروفیسر خلیق انجم اور صالحہ بیگم قریشی نے غالبؔ اور باندے کی تفصیلات کو بڑے ہی عرق ریزی سے بیان کیا ہے جس کی پوری روداد قاری کے سامنے آجاتی ہے۔غالبؔ کے باندہ آمد کی اصل وجہ ذوالفقار علی خان جیسے صاحب حیثیت سے ملاقات تھی تاکہ سفر اور علاج کے اخراجات میں مالی مدد ممکن ہوسکے۔علاوہ ازیں غالب کی باندہ کے ایک ذی علم اور ذی ثروت دیوان محمد علی سے ملاقات دراصل اس سفر کے حاصلات میں ہے۔لکھنؤ سے کلکتہ کے سفر میں اپنا جو وقت باندہ میں گزارا وہ کئی اعتبار سے یادگار کہا جا سکتا ہے۔
چوتھے باب کے تحت پروفیسر صغیر افراہیم نے غالبؔ کے اہم ممدوح الیہ۔دیوان محمد علی کی ابتدائی زندگی کے حالات ،تعلیمی معاملات،ملازمتی سروکار،خاندانی کوائف کا ایک طویل خاکہ پیش کیا ہے اور ان کے نسل کے خاندانی اصحاب کی علمی، ادبی ،دینی و اتحادی ،سماجی اور سیاسی سرگرمیوں سے واقفیت بہم پہنچانے میں جو پہل کی ہے وہ نئی نسل خصوصاً قارئین کی معلومات میں مزید اضافے کا درجہ رکھتی ہے۔غالبؔ نے اپنے ممدوح الیہ کو ساڑھے تین برس کے عرصے میں ۳۷؍ خطوط لکھے تھے جو صرف غالبؔ کی رسمی معاملہ بندی کے غماز نہیں ہیں بلکہ قدر افزائی اور احسان گراں باری کی مثال بھی ہیں۔پروفیسر صغیر افراہیم نے دیوان محمد علی کی تحقیق میں جس باب کو کتابی سرخی بنایا ہے وہ تحقیق کی جزولانیفک ہے جس میں ان کے آثار و کوائف کو بہ تفصیل منظر عام پر لایا گیا ہے۔
پانچویں باب میں’ غالب کے غیر معروف مکتوب الیہ کے دستیاب خطوط ‘کے ذکر میںغالب کے شناسوں نے ان کے مکتوب پر تو سیر حاصل گفتگوکی ہے،لیکن بدقسمتی سے ان کے غیر معروف مکتوب الیہ دیوان محمد علی کے متعلق کسی نے تفصیلی معلومات درج نہیں کی ہے۔حالانکہ ان کے نام غالب کے ۳۷؍خطوط موجود ہیںجن سے ان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔دیوان محمد علی کے نام غالب کے خطوط سب سے پہلے ’ پنج آہنگ‘ میں نظر آتے ہیں۔غالبؔ نے دیوان محمد علی کو ۱۸۲۷ سے ۱۸۳۱ تک یعنی چار سال میں ۳۷؍ خطوط لکھے جو پرتو روہیلہ کے’ نامہ ہائے فارسی میں‘ ہیں۔پرتو روہیلہ نے غالبؔ کے تمام دستیاب فارسی خطوط کو اردو کا جامہ پہنایا اور غالب ؔ کے مکتوب الیہ کے بارے میں بھی کسی نہ کسی زاویہ سے آگاہی دی۔دیوان محمد علی سے متعلق تفصیلات جمع کرنا آسان نہیں تھا مگر محقق موصوف نے تحقیقی جاں فشانی کا ثبوت دیتے ہوئے غالبؔ کے ایک اہم مگر گمنام مکتوب الیہ کے بارے میں خاصی معلومات جمع کردی ہیں۔
چھٹویں باب میں پروفیسر صغیر افراہیم نے ان مکتوبات کا معروضی مطالعہ پیش کیا ہے جو غالب نے دیوان محمد علی کو لکھے ہیں۔اس اہم مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیوان محمد علی ،غالبؔ کے ایک ایسے ممدوح اور مکتوب الیہ ہیں جنھیں غالبؔ نے محض تین ساڑھے تین برس کی قلیل مدت میں ۳۷؍ خط لکھے ہیں۔ پروفیسر صغیر افراہیم نے غالب کے نو دریافت خطوط سے غالبؔ پر لگنے والی تہمت،احسان فراموش،مطلبی،موقع پرست ہونے کے خلاف جو دلائل پیش کیے اور جو نتائج نکالے ہیںوہ بھی اہم ہیں یعنی ان خطوط سے کہیں بھی ایسا نہیں لگتا کہ غالبؔ منفی مزاج کی حامل شخصیت کا نام ہے بلکہ ہر خط ایک ایسے منکسرالمزاج شخصیت کو پیش کرتا ہے جو بار احسان سے دبا جا رہا ہو۔
ساتویں باب کے تحت محقق نے باندہ کے تعلق سے غالب ؔ کے شعری سرمایہ کو یکجا کرنے میں بڑی باریک بینی سے ان شواہد و حقائق کو اور بھی واضح انداز میں پیش کرنے کا جتن کیا ہے جن پر محققین و ناقدین کی آراء میں اختلاف رائے کے معاملات سامنے آئے ہیں۔موصوف نے ایک اچھا کام یہ بھی کیا ہے کہ باندہ کے تعلق سے غالبؔ کا شعری سرمایہ ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔اس میں فارسی اشعار زیادہ ہیں لیکن اردو غزلیں بھی شامل ہیں۔باندہ کے منظر و پس منظر میں دوسراحصہ ان کے اردو کلام سے متعلق ہے ۔ان کی کچھ تحریر کردہ غزلیںجن پر بیشتر محققین متفق ہیں کہ یہ غزلیں قیام باندہ یا پھر سفر باندہ کی دین ہیں۔ملاحظہ فرمائیں:
آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں
ہے گریباں تنگ پیراہن ،جو دامن میں نہیں
٭
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا
٭
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیل سحر ،سو خموش ہے
٭
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو،تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
غالبؔ کی شاعری میں دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں ،ان کے اشعار انسانی رنج و راحت کا درما بن جاتے ہیں ۔غالبؔ کے کلام کی اسی جاذبیت نے بلا تفریق مذہب و ملت ،ہر کس و ناکس کو اپنا گرویدہ بنایا ہے۔یہی عظیم شاعر کا خصوص ہے۔لہٰذا اس سبب سے آج بر سہا برس گزر جانے کے باوجود ان کے کلام کی معنویت مسلم ہے۔
آٹھواںاور نہایت مؤثر باب’ یادوں کی بازیافت: باندہ،غالبؔاور متعلقین‘ کے عنوان سے ہے۔اس کے شروع میں پروفیسر صغیر افراہیم نے بزرگ خواتین کی کہانیاں سنانے کا ذکر کیا ہے۔یہ تہذیب اس زمانے کے شرفاء کے گھروں میں عام تھی۔بقلم خود محقق نے غالب کے تعلق سے کہانیاں سننے کا ذکربھی کیا ہے جس کا مرکز و محور باندہ رہا ہے۔یادوں کی بازیافت کے حوالے سے غالب کے متعلقین کا ذکر بڑے ہی خوش اسلوبی سے کیا گیاہے۔جسے پڑھ کر ماضی کے گم گشتہ چراغ روشن ہوجاتے ہیں۔
کتاب کے آخری تین باب(نو،دس اور گیارہ) ان محققین غالبؔ سے عبارت ہیں جن کے اسمائے گرامی سید اکبر علی ترمزی،لطیف الزماں خاں اور پرتو روہیلہ ہیں۔یہ وہ محققین ہیں جن کے تحقیقی انکشافات غالبؔ شناسی میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔چنانچہ ان سے موصوف کو بھی خاصی مدد حاصل ہوئی ہے لیکن ایک سوال یہ ضرور قائم کیا کہ غالبؔ کی زندگی ،روداد سفر،پنشن،شاعری و نثر وغیرہ پر خوب گفتگو ہوئی لیکن اس مکتوب الیہ سے گریز کا پہلو کیوں برتا گیا جن کے لطف و کرم اور عنایت سے غالبؔ نے طویل قیام باندہ کیا،زاد راہ کا انتظام ہوا اور غالب تازہ دم ہوکر کلکتے کے لیے روانہ ہوئے ،نیز ۳۷؍خطوط لکھ کر اسے مصائب و ابتلا ء کے کڑے مرحلے سے آگاہ کیا اور اپنے فکری اکتسابات کو خطوط کے سانچے میں ڈھال کر ان کی نذر کیا۔لہٰذا تحقیق حال کا مدار یہی نکتہ یعنی ’دیوان محمد علی‘ ہے۔باندہ کے چھ ماہ کے حالات خصوصاً خطوط سے متعلق سب سے پہلے سید اکبر علی ترمزی نے تحقیق کی،ان کے بعد جناب لطیف الزماںخاں اور پھرپرتو روہیلہ نے کام کیا۔
ابھی تک پروفیسر صغیر افراہیم کو اردو ادب میں ماہر پریم چند پہچانا جاتا تھا لیکن ان کی تلاش و تحقیق بے تکان جانفشانی اور تاریخی ماخذات کی فراہمی نے غالبؔ کے ناشنیدہ مکتوب الیہ ’دیوان محمد علی‘کی دریافت میں اب انھیں غالبؔ شناسی کی صف میں بھی لا کھڑا کردیا ہے۔تحقیق کے عمل میں کوئی بھی نتیجہ حرف آخر نہیں کہا جاسکتا۔ اس کتاب کی تکمیل کے بعد بھی غالبؔ اور باندہ کے سلسلہ میں صغیر صاحب نے اپنی تلاش و جستجو جاری رکھی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ’’غالبؔ، باندہ اور دیوان محمد علی‘‘اردو کے سرمائے میں ایک قیمتی اضافے کی حیثیت رکھتی ہے ،اس کے لیے پروفیسر صغیر افراہیم صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔زبان و بیان کے علاوہ ظاہری اعتبار سے کتاب بہت ہی عمدہ اور پر کشش ہے ۔غالبؔ کی تصویر کے ساتھ سر ورق حد درجہ جاذب نظر اور خوبصورت ہے ۔موقع و محل کے اعتبار سے کتاب میں غالب ؔ ،زماں خاندان کی گروپ تصویر،دیوان محمد علی کی نئی نسل کے وارث شیخ سعود الزماں (سعدی)مصنف کے ساتھ ،دیوان محمد علی اور غالبؔ کے نشست و برخواست کے کمرے،دیوان محمد علی کے گھر کا وہ اندرونی حصہ (غالبؔ کی بیٹھک)،نواب ٹینک،نوابین باندہ :نواب علی بہادر اول،نواب شمشیر بہادر دوم،نواب ذوالفقار علی بہادر،نواب علی بہادر ثانی علی ؔ کی تصاویر نے کتاب کی جاذبیت میں اور اضافہ پیدا کر دیا ہے۔ کتاب کے دائیں فلیپ پر شمیم حنفی اور بائیں فلیپ پر حکیم سید ظل الرحمٰن کے قیمتی آراء پروفیسر صغیر افراہیم کی تحقیق کو سمجھنے کے لیے مفید ہے۔علاوہ ازیں کتاب کے بیک پیج پرمحقق کی تصویراور شافع قدوائی کی تحریر اس کی زینت کو بڑھا رہی ہے۔کتاب میں ایک اہتمام یہ بھی ہے کہ ہر باب کے آخر میں حواشی کا ذکر کیا گیا ہے ۔ نیز فہرست کتابیات سے مصنف کی کاوش اور مواد کے حصول میں ان کی تگ و دو کا اندازہ ہوتا ہے۔بلا شبہ پروفیسر صغیر افراہیم اس عہد کے ایک عظیم محقق ہیں جن کی کتاب بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے ۔ ان کی یہ تحقیق غالبؔ فہمی کے لیے بہت ہی مفید ہے ۔ قوی امید ہے کہ قارئین اسے قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اہل علم کے مابین اس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوگی۔
Email:daudahmad786.gdc@gmail.com
Mob. 8423961475
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
ماشاء اللہ بہت شاندار تبصرھ ڈاکٹر داؤد احمد صاحب نے پروفیسر صغیر افراہیم صاحب کی کتاب ” غالب باندہ اور دیوان محمد علی ” پر کیا ہے اس اہم تبصرے کیلئے ڈاکٹر داؤد صاحب ادارہ ادبی میراث اور پروفیسر صغیر افرا هیم صاحب قابل مبارکباد ہیں قبول فرمائیں