اپنے آبائی وطن چھپرا کا کیا نام روشن
عربک کیلی گرافی بہت قدیم ہے. عربک کیلی گرافی میں زمانہ قدیم سے ہی نایاب فن پارے لکھنے اور پتھروں پر تراشنے کا سلسلہ جاری ہے. اس کے باوجود انسان اپنی ہنر مندی سے کیلی گرافی میں ایسے فن کا مظاہرہ کرتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے.
کیلی گرافی اصل میں مصوری سے بہت قریب فن ہے۔ یہ فن لاجواب ہے،دلکش ہے،شاندار ماضی رکھتا ہے،مگر اس کا مستقبل کم از کم ہندوستان میں تاریک ہوتا جارہاہے. ماضی میں اس فن نے جتنا عروج دیکھا ہے، حال اتنا ہی زوال پذیر ہے. آج کوئی اس کا پرسان حال نہیں. آج کل اس فن کے واقف کار بہت کم ملتے ہیں ہو سکتا ہے مستقبل میں ان کی تعداد میں مزید کمی واقع ہو جائے، مگر اس فن کے لئے ایک اچھی بات یہ ہے کہ اب خطاطی کے لئے کچھ کمپیوٹر سافٹ ویر آ گئے ہیں اور ہو سکتا ہے اسی بنیاد پر یہ فن زندہ رہے مگر مشین کے کام کو آرٹ نہیں کہا جا سکتا. آرٹ تو صرف انسانی ہاتھ کے کام کو ہی کہہ سکتے ہیں. ایسے میں جب اس فن کے ماہرین کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے اور یہ فن تاریکی میں ڈوبتا جا رہا ہے، ہمیں حسرت جہاں اور نئی نسل کے دیگر خطاطوں کی شکل میں ایک امید کی کرن نظر آتی ہے.


حال ہی میں خطاطی کے فن میں مہارت رکھنے والی حسرت جہاں نے انٹرنیشنل اسلامک آرٹ ورچوئل ایگزی بیشن میں اپنا مقام بنا کر پورے ملک میں بہار اور چھپرا کا نام روشن کیا ہے.واضح رہے کہ یہ نمائش انڈونیشیا کی جانب سے منعقد کی گئی تھی اور اس میں 26 ممالک نے فنکاروں نے حصہ لیا تھا. 21 سال کی اس نوجوان خطاط کو سرٹیفکیٹ آف آنر سے نوازا گیا ہے.
حسرت جہاں بتاتی ہیں کہ اس فن کو زندہ رکھنا اب ہم نوجوانوں کی ذمہ داری ہے. انھیں بچپن ہی سے مصوری کا شوق رہا ہے، بچپن میں وہ اپنی بڑی بہن کے ساتھ آڑی ترچھی لکیریں کھینچا کرتی تھیں، وہ بتاتی ہیں کہ خطاطی کا یہ ہنر ان کی روح میں بسا ہے اور وہ اپنے اس ہنر کو مزید آگے بڑھانا چاہتی ہیں. انھوں نے قومی سطح پر متعدد مصوری اور کیلی گرافی کی نمائشوں میں حصہ لیا ہے اور اپنے اس ہنر کے ذریعے کئی کتابوں کے سر اوراق بھی ڈیزائن کر چکی ہیں جن میں سہیل آزاد کے شعری مجموعہ "ایک آواز کچھ شناسا سی” اور شاداب الفت کے ناول "کرائے کا گھر” کے سر اوراق شامل ہیں. اس کے علاوہ ان کی بنائی ہوئی پینٹنگز کو بین الاقوامی سطح پر مقبولیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ مصوری اور فن کے قدردان ان کی بنائی ہوئی پینٹنگز اور کیلی گرافی کے طغروں کو خرید کر اپنے گھر کی زینت بناتے ہیں. اس کے علاوہ انھوں نے اپنے اپنے میدانوں میں نمایاں کردار ادا کرنے والی مشہور ہستیوں کے پورٹریٹس بھی بنائے ہیں جن میں مرزا غالب، علامہ اقبال، سر سید احمد خاں، علامہ شبلی نعمانی اور ارندھتی رائے وغیرہ کے نام اسمائے گرامی شامل ہیں. وہ جب سوشل میڈیا پر اپنے فن پاروں کو پیش کرتی ہیں تو قارئین انھیں کافی پسند کرتے ہیں. ان کا کہنا ہے کہ فن ہمیشہ نئی اور الگ دنیا کی سیر کراتا ہے ان کی دلچسپی ہمیشہ مصوری کے فن پاروں کی تخلیق میں رہی ہے، ہوش سنبھالتے ہی انھیں مصوری کا شوق پیدا ہوا اور یہ شوق اب اتنا بڑھ چکا ہے کہ انھوں نے اسے ذریعہ معاش بھی بنا لیا ہے. وہ اپنے فن کے ذریعے اپنے ذہن میں آنے والے تخیلات کو کینوس پر اتار دیتی ہیں. آگے وہ کہتی ہیں کہ بچپن سے میرا تخلیقی ذہن رہا ہے، خطاطی وہ چیز ہے جو مجھے کرنا پسند ہے اور یہ کام اپنی پوری زندگی کر سکتی ہوں کیونکہ میں اپنے فن کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کر سکتی ہوں.
حسرت جہاں نے اس ہنر کو اپنی محنت سے سیکھا ہے اور وہ خطاطی کے میدان میں نہ صرف یہ کہ اپنی ریاست بہار کا نام بلکہ اپنے ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کرنا چاہتی ہیں.
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |

