ہندوستانی مسائل سے نبرد آزما مصائب کی کہانی : مرزِبوم – محمد اشرف
2021/ میں شائع ہونے والے ناولوں میں (بلّہا کیہ جاناں میں کون : ذکیہ مشہدی، کَماری والا : علی اکبر ناطق، ہجور ما : شبیر احمد، ایک خنجر پانی میں : خالد جاوید، مردہ خانے میں عورت : مشرف عالم ذوقی [مرحوم]، اللّٰه میاں کا کارخانہ : محسن خان، اُس نے کہا تھا : اشعر نجمی، نیا نگر: تصنیف حیدر، زندیق: رحمٰن عباس) اور صدیق عالم کا "مرزِ بوم” ایک اہم ناول ہے۔ اس ناول میں کل 18/ابواب اور 140/ صفحات ہیں۔ ناول میں کئی جگہ پر کچھ کوڈڈ الفاظ ہیں، جنہیں میں اپنی ہزاروں کوششوں کے باوجود ڈی کوڈ نہیں کرسکا۔
ناول کا مکمل بیانیہ واحد متکلم کی زبانی ہے اور ناول کا راوی پورے 20/ سال بعد اپنی "مرزِ بوم” یعنی جائے پیدائش مغربی بنگال میں اسلام پور کے اطراف میں کسی گاؤں کا رُخ کرکے اپنے اور اپنے اسلاف کی باقیات کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا ہے اور گھر پہنچنے سے پہلے پہلے ہی ناؤ میں راوی کے ساتھ ایک ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آجاتا، جس سے راوی بد دل ہو جاتا ہے، پھر 38/ گھنٹے کے بعد ہی جب اُسے وہاں رکنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ملتی تو وہ واپس شہر چلا جاتا ہے۔
ناول میں موجودہ ہندوستان کے تقریباً تمام مسائل کا ذکر مختصراً ہی سہی لیکن موجود ہیں، جن سے ہم ہندوستانی عوام روز جوجھتے ہیں۔ آدی واسیوں کے کرب کو ظاہر کرنے کے لیے ناول کا صرف ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
"یقین کرو۔ یہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ہم دو پاٹوں میں پِس رہے ہیں۔ ہماری لڑکیاں کھیتوں میں اکیلے جانے سے ڈرتی ہیں۔ پچھلے مہینے ایک دس سال کی آدی واسی لڑکی لکڑی چُننے جنگل گئی اور تین دن تک گھر واپس نہیں آئی۔ سب کو پتہ تھا وہ کہاں پر ہے، مگر کس کے اندر ہمت تھی کہ اس کی نشاندہی کرے۔ تین دن بعد وہ واپس لوٹی تو چل نہیں پارہی تھی۔ بعد میں اس نے ایک مردہ بچے کو جنم دیا۔ یہ ملک ایک پاگل پن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ سب بکھرنے کی علامت ہیں۔”
(مرزِ بوم : صدیق عالم، صفحہ نمبر 67)
آدی واسی سماج کی طرزِ زندگی کو سے بالکل قریب سے جاننے کے لیے ڈاکٹر شفق سوپوری کا ناول "نیلیما” کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ یہ مکمل ناول آدی واسی سماج ہی پر مبنی ہے۔
ناول کا سب سے جاندار کردار سلام بھائی اور خود راوی ہے۔ مزید کرداروں میں راوی کے اسکول کا ہیڈ ماسٹر ہے جو اپنے دو جواں سال ڈاکٹر بچوں کی گمشدگی سے پاگل ہوجاتا ہے، جن پر شہر کے امیر ڈاکٹر اپنے ہاسپیٹل کی من چاہی آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے دونوں پر آدی واسیوں سے سانٹھ گانٹھ کا الزام لگا کر راتوں رات اُنہیں غائب کرادیتے ہیں، خواتین کرداروں میں سے چاپانی ایک اہم کردار ہے، جس سے راوی کے سن بلوغت ہی سے جسمانی تعلقات رہتے ہیں۔
صدیق عالم کی گل افشانی گفتار کو دیکھنے کے لیے ایک اقتباس یہ بھی ملاحظہ کریں۔
"۔۔۔۔ سورج کی طرف مت دیکھو۔ وہ انگریزی کا ‘او’/O’ بھی ہوسکتا ہے یا اردو کا صفر، وہ انسان کی مقعد بھی ہوسکتی ہے یا کوئی گردن یا وینڈنگ مشین پر لگا ہوا دھات کا چھلا جس میں بوتل کی گردن پھنسا کر لوگ مشروبات کی کیپ کھولتے ہیں یا کائنات کی نمائندگی کرتا منڈالہ، جس میں ابھی سفوف نہیں بھری گئی ہے یا رقیق حالت میں رنگ نہیں ڈالا گیا ہے یا ٹریمپولن ہو، جس پر بچے اچھل رہے ہوں یا سرکس یا کارنیوال میں جلتا ٹائر ہو جس کے اندر بازی گر نے ابھی ابھی اپنے کتے کو چھوڑا ہے۔”
(مرز بوم : صدیق عالم، صفحہ نمبر 121)
یوں تو صدیق عالم ایک منجھے ہوئے قلمکار ہیں۔ "چارنک کی کشتی”، "چینی کوٹھی” اور "صالحہ صالحہ” جیسے یہ تین کامیاب ناول لکھ چکے ہیں، اِن کے علاوہ یہ نظمیہ شاعری میں بھی اپنی شناخت قائم کر چکے ہیں۔ (مختلف اخبارات ورسائل میں ان کی نظمیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔) اسی لیے ناول میں موجود اِن سے املا وغیرہ کی غلطیوں کا امکان نہیں ہوسکتا۔ بہت ممکن ہے کہ کمپوزنگ اور سیٹنگ میں یہ غلطیاں در آئی ہوں لیکن جو قلمکار جتنا بڑا ہوتا ہے اس کی ذمہ داری بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے۔
اس ناول کو Esbaat Quarterly Publication نے چھاپا ہے، ناول کی طباعت ہارڈ بینڈنگ میں ہونے کی وجہ سے اس کی خوبصورتی کچھ کم ہوگئی ہے، میرے خیال سے اتنے کم صفحات (صرف 140) ہونے کی وجہ سے اگر اِس کی چَھپائی پیپر بیک پر ہوتی تو نہ صرف اِس کی خوبصورتی میں خاطر خواہ اضافے کا امکان تھا، بلکہ اِس کی قیمت بھی مناسب ہوتی۔ کیوں کہ 140/صفحہ کے کتاب کی قیمت 350 ہے، جبکہ تخفیف کے بعد اس کی قیمت 275 ہے۔ یہاں سے شائع شدہ کتابیں طباعت واشاعت دونوں اعتبار سے معیاری ہوا کرتی ہیں۔ ہندوستانی قارئین کے لیے بطورِ خاص یہ ادارہ کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں، کیوں کہ اس ادارے اپنے یہاں سے کم وبیش ایک درجن فکشن پر وہ کتابیں شائع کی ہیں جو پورے ہندوستان میں کہیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔ جن میں پاکستان کےدو اچھے فکشن نگار اکرام اللّٰه اور علی اکبر ناطق شامل ہیں، جبکہ رسول حمزہ توف، نجیب محفوظ، اور حان پامک، ہیر ٹامولر، گبرئیل گارسیا مارکیز، جیسے نوبل انعام یافتہ فکشن نگاروں کے تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ میلان کنڈیرا کی ایک اہم کتاب "ناول کا فن” بھی ہندوستان میں اسی ادارے سے شائع ہوا ہے اور حالیہ دنوں میں نوبل انعام پانے والے مصنف عبد الرزاق گرناہ کا نوبل انعام یافتہ ناول Momory of Departure کا اردو ترجمہ "یاد مفارقت” کے نام سے عنقریب شائع ہونے والا ہے۔
آپ بھی اس ناول کو حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل نمبر پر اشعر نجمی سر سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
+91 81690 02417
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |