اقبال اشہر اور’’شاعروں کے قصے‘‘ – محمد اویس سنبھلی
گذشتہ دو دہائیوں کے دوران ہندوستان کے جن شعرائ کو ملک سے باہر کی علمی وادبی دنیا میں شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور جن کے شعری اظہار کا اعتراف کیا گیا ان میں ایک نام اقبال اشہر کا بھی ہے۔اقبال اشہر بہت کم عرصے میں مشاعروں کا ناگزیر حصہ بن گئے۔
اقبال اشہر کوملک اور بیرون ملک منعقد ہونے والے مشاعروں میں بڑی سنجیدگی اور احترام کے ساتھ سنا جاتا ہے۔ اس میں اقبال اشہر کے لہجے کی متانت، کلام کی تازگی،شخصیت کی سنجیدگی اورشائستگی کوبڑا دخل ہے۔ انھوں نے صدیوں پرانی غزل کی تہذیب سے اپنا رشتہ برقرار رکھا ہے۔
بقول منصور عثمانی:
’’جو لوگ انہیں مشاعروں میں سنتے ہیں یا کتابوں میں پڑھتے ہیں وہ سب اقبال اشہر کے ساتھ اپنے دکھ سکھ، اپنے دلوں کے زخم اور اپنی آنکھوں کے آنسوئوں کو ایک خوبصورت تخلیقی ہنر مندی کی لے میں گنگنااُٹھتے ہیں، یہ بہت بڑی بات ہے‘‘۔
یہ عجیب بات ہی کہی جائے گی کہ مجھے شاعروں کی صحبت سے یک گونہ گریز ہے کیونکہ اپنے کلام کی اپنے ہی منہ سے تعریف سننے کا حوصلہ کم از کم مجھ میں نہیں ہے۔لیکن میں نے اقبال اشہر کو نہ صرف سنجیدگی سے سنا بلکہ ان کے کلام کو پڑھا بھی۔ اور ان کی صحبتیں بھی اٹھائی ہیں۔ایسی صورت میں انھیں ایک عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین دوست کا بھی مجھے تجربہ ہے۔
اقبال اشہر کی پہلی شناخت بحیثیت شاعر ہی ہے۔ لیکن گذشتہ دنوں انھوں نے اپنے یوٹیوب چینل پر ’’شاعروں کے قصے‘‘ کے عنوان سے ایک سیریز شروع کی تھی، جس کا سلسلہ بہت کم مدت تک جاری رہ سکا، اس کی بڑی وجہ اقبال اشہر کی مصروفیات ہی تھیں۔لہٰذا یہ سلسلہ جسے وہ اپنے چینل کے ذریعہ عوام تک پہنچانا چاہتے تھے اب ’کتابی شکل‘ میں’’شاعروں کے قصے‘‘کے نام سے عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی سے شائع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے۔
کتاب کی فہرست ۲۰؍شاعروں پر مشتمل ہے۔شاعروں کا مختصر تعارف اورمشاعروں میں پیش آنے والے خوبصورت حادثات و واقعات کو اقبال اشہر نے انتہائی خوبصورت انداز میں قلم بند کیا ہے۔ شعر و ادب کی روایت سے واقفیت کی وجہ سے ان کی زبان اغلاط سے پاک ہے اور ان کا اسلوب بھی شگفتہ اور عام فہم ہے۔۲۰؍شعرا پر مشتمل اس فہرست کا آخری تذکرہ اقبال اشہر نے خود اپنے بارے میں لکھا ہے، جس کے مطالعہ سے ان کی زندگی کے نشیب و فراز کاپورا قصہ سامنے آجاتا ہے۔
کتاب میں شامل گلزار دہلوی، وسیم بریلوی،بشیر بدر،مخمور سعیدی، معراج فیض آبادی، راحت اندوری، انورجلال پوری، منظر بھوپالی، منور رانا، پاپولر میرٹی وغیرہ کے دلچسپ قصے پڑھتے جائیں اور محظوظ ہوتے رہیں۔ کتاب کے آخری حصہ میں مخدوم زادہ مختار عثمانی کا تذکرہ ہے۔ بڑے دلچسپ واقعات اقبال اشہر نے اس تذکرہ میں قلم بند کیے ہیں۔بقول اقبال اشہر:
’مختار صاحب کے اخراجات آمدنی سے کہیں زیادہ تھے۔ اس لیے وہ عمر بھر کنوارے ہی رہے لیکن بیگانی شادی میں عبداللہ کی طرح دیوانا ہونا نہیں بھولے۔ موصوف شادیوں کی پوری روداد مزے لے لے کر دوستوں کو سناتے تھے‘۔
مذکورہ بالا اقتباس کے فوراً بعد اقبال اشہر، مختار عثمانی کا ایک قصہ نقل کرتے ہیں:
’’جناب شادی کیا تھی میلہ سا لگا ہوا تھا۔ کیا بتائوں کیسے کیسے کتابی چہرے تھے۔ کیسی کیسی غزال آنکھیں تھیں۔ کیا شاعرانہ ماحول تھا۔ دلّی کے تمام روایتی کھانے دسترخوان پر موجود تھے۔ مٹن قورمہ، چکن قورمہ، مٹن اسٹو، چکن اسٹو، نہاری، نرگسی کوفتے، سیخ کباب، فش فرائی، چکن فرائی، کاجو قیمہ، مٹن بریانی، چکن بریانی، جلیبی، گلاب جامن، شاہی ٹکڑے، ربڑی، اور آلوگوشت۔ کھانے تو سبھی اچھے تھے مگر جناب آپ تو جانتے ہیںآلو گوشت پھر آلو گوشت ہے۔۔۔۔مگر قیصر صاحب ایک بدمزگی بھی رہی۔‘‘
’’کیسی بدمزگی؟‘‘
’’وہاں وہ بھی آیا ہوا تھا مادر۔۔۔۔‘‘
اس ’’وہ ‘‘کی وضاحت میں اقبال اشہر لکھتے ہیں:
’’مختار عثمانی اور قیصر حیدری کا ایک مشترک دشمن تھا۔ اس کا نام ’’وہ‘‘ تھا۔ پتہ نہیں ’’وہ‘‘ کون تھا اور اس نے ان دونوں کا کیا بگاڑا تھا۔‘‘
ایک مرتبہ مختار عثمانی دلّی کے ایک مشاعرے سے بنا پڑھے لوٹ آئے۔ یہ بات اقبال اشہر نے قیصرؔ حیدری کو بتادی۔ تھوڑی دیر بعد مختار عثامنی اور قیصر حیدری کی ملاقات ہوتی ہے اور دونوںکے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ شروع ہوگیا:
’’کیا بات ہوگئی تھی؟‘‘
’’کہنے لگا یہاں سے اُٹھ بے! میں نے پوچھا کیوں،
تو بولا۔۔۔۔یہاں صدرجمہوریہ گیانی ذیل سنگھ بیٹھیں گے!‘‘
’’کیا یہاں نام لکھا ہوا ہے ان کا؟‘‘
’’ایسا ہی سمجھ لے‘‘
’’میں اُٹھا اور چلا آیا‘‘۔
قیصر صاحب نے آگ بگولا ہوکر پوچھا:
’’کون تھا مادر۔۔۔۔۔‘‘
مختار عادل نے رومال سے تھوک صاف کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’اور کون ہوگا؟مادر۔۔۔۔۔۔وہ تھا!۔‘‘
یہ اور اس طرح کے بے شمار دلچسپ واقعات اس کتاب میں بھرے پڑے ہیں۔آپ بھی پڑھیں اور لطف اندوز ہوں۔
کتاب عرشیہ پبلی کیشنز ، دہلی (رابطہ: 9971775969)سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
٭٭٭
رابطہ: 9794593055
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
تخلیقی، اور موضوع کے ساتھ انصاف کرتی ہوئ, محبتّوں سے بھرپور تحریر۔