"عظیم آباد ” اردو کا نہ صرف یہ کہ ایک اہم ادبی مرکز اور گہوارہ رہا ہے ، بلکہ یہ اردو کا چوتھا مستقل اور متحرک "دبستان ” بھی ہے اور اس کی اہمیت و افادیت اور قدر و قیمت میں آج بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے ۔ دکن ، دہلی اور لکھنوٴ کے بعد ادب کی پالکی جس شہر میں آکر رکی تھی وہ یہ ہی شہر "عظیم آباد ” تھا ، جہاں آج بھی وہ ادب کی "پالکی ” موجود ہے اور یہ شہر آج بھی علم و ادب کا ایک حسین گہوارہ کی صورت میں موجود ہے ، میرے خیال میں موجودہ عہد میں "عظیم آباد ” کا دبستان دوسرے تینوں دبستانوں کے مقابلے میں زیادہ فعال ، متحرک اور پائدار ہے ۔ اس لیےء کہ یہاں شعور و احساس کے چشمے آج بھی خشک نہیں ہوئے ہیں ، بلکہ رواں دواں ہیں ۔ کسی بھی زبان کا ادب اس وقت تک ادب کا کوئی اسکول (دبستان ) نہیں بن سکتا ہے ، جب تک اس کے لفظ لفظ اور حرف حرف میں وہاں کی مٹّی کی سوندھی خوشبو کا احساس ہمیں نہ ہونے لگے ۔ جب ہم مٹّی کی اسی سوندھی خوشبو کی تلاش و جستجو کرتے ہیں تو ہمارے صحن دل میں کبھی بیدل عظیم آبادی ، کبھی غلام علی راسخ اور کبھی شاد عظیم آبادی کے فکرو فن کے سدا بہار گلاب مہکنے لگتے ہیں ، کبھی یہ گلاب جوہی ، چمپا اور چنبلی کی خوشبو میں تبدیل ہوجاتا ہے اور کبھی رات کی رانی کا دوشالہ اوڑھ کر ہمارے فکرو احساس کی سرزمین پر مسکرانے لگتا ہے ۔ تب ہم اس کی شکل میں کبھی یاس یگانہ چنگیزی کو دیکھتے ہیں اور کبھی ہماری نگاہوں میں مبارک عظیم آبادی ، شوق نیموی ، احقر بہاری اور مولانا فضل حق آزاد عظیم آبادی کا پیکر ابھرنے اور ڈوبنے لگتا ہے ۔ ہم احساسات کی سرزمین پر کچھ دور اور سفر کرتے ہیں تو ہماری ملاقات پرویز شاہدی ، مظہر امام ، کلیم عاجز اور سلطان اختر جیسے بڑے شاعروں سے ہوتی ہے ، پھر اچانک یہ ساری تصویریں نگاہوں سے پل بھر کے لیے اوجھل ہوجاتی ہیں اور تصورات و احساسات کے کینوس پر ایک آدم قد تصویر واضح ہوکر ہمارے سامنے آتی ہے ۔ تب ہمارے گوش تصوّر میں یہ شعر سنائی دیتا ہے :
وہ جاچکے ہیں اور آنکھوں پہ اعتبار نہیں
وہ آچکے ہیں ، مگر انتظار باقی ہے
(جمیل مظہری )
جمیل مظہری کے تعلق سے اگر یہ کہا جائے تو شائد غلط نہ ہوگا کہ وہ "بیسویں صدی ” کے نصف آخر کے ایک بڑے فلسفی اور دانش ور شاعر تھے ، تو شائد یہ کہنا غلط نہ ہوگا ۔ انہوں نے اپنے فکر و فن کے جوہر سے پوری اردو دنیا کے دانشوروں کو متاثر کیا تھا اور وہ خود بھی ایک دانشور اور فلسفی شاعر تھے ۔ خواہ زندگی کا فلسفہ ہو یا عقیدے کا مسئلہ لا ینحل ۔۔۔۔۔انہوں نے سب کو اپنے خاص نظریے سے دیکھا ، سمجھا ، پرکھا اور جانا ۔ وہ زندگی کی ٹھوس ، کڑوی اور کھردری حقیقتوں کو خود اپنی ننگی نگاہوں سے دیکھنے کے عادی تھے ، وہ نہ کبھی اپنی آنکھوں پر کوئی عینک لگاتے تھے اور نہ دیکھی جانے والی شےء پر کوئی غلاف چڑھاتے تھے ۔ ان کی پوری شعری کائنات میں جا بجا دانشوری کے عناصر موجود نظر آتے ہیں ۔ دانشوری کے تعلق سے اردو کے سر بر آوردہ ناقد پروفیسر عبدالمغنی اپنے ایک مضمون ” اردو ادب میں دانش وری کی روایت ” میں تحریر کرتے ہیں :
” کتابوں کا ڈھیر لگانے سے دانش مندی یا دانش وری نہیں پیدا ہوتی ، نہ ہی علم اور عقل یا پھر ان دونوں کا مرکب ، روشن خیالی دانش وری ہے ۔ ”
(ماہنامہ ” مریخ ” مئ ۔ جون 2001 ء ، صفحہ نمبر 5 )
(یہ بھی پڑھیں جمیل مظہری کی نظموں میں عظمت آدم اور احترام انسانیت – ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی )
تب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دانش وری ہے کیا؟ تو پروفیسر عبدالمغنی اس کا جواب دیتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ :
” اردو کے تین عظیم شعرا ، میر ، غالب اور اقبال ۔۔۔۔۔علی الترتیب اٹھارہوںں، انیسویں اور بیسویں صدیوں کے دانش ور ترجمان تھے ۔ انہوں نے ہماری تہذیبی قدروں کی دل کش عکاسی کی ۔ ایک نے ” خاموشی و دل سوزی و سرمستی و رعنائ ” ( لالہء صحرا ) کا پیغام دیا :
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا
(میر )
دوسرے نے کش مکش حیات کی نشان دہی کی :
ہے دل شوریدہء غالب طلسم پیچ وتاب
رحم کر اپنی تمنّا پر کہ کس مشکل میں ہے
(غالب )
تیسرے نے نگاہوں کا افق سدرة المنتہیٰ تک بلند کردیا :
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
(اقبال )
یہ ہے دانش وری ، جس سے بڑھ
کر دانش وری کی مثال دنیا کے کسی بھی دوسرے ادب کی شاعری میں نہیں ہے ۔ ”
(پروفیسر عبدالمغنی ، ماہنامہ ” مریخ ” پٹنہ ، مئ ۔ جون 2001 ء صفحہ نمبر 7 )
اب آیےء پروفیسر عبدالمغنی کے دانش وری کے اس پیمانے کو سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں کہ جمیل مظہری کی شعری کائنات میں دانش وری کے کتنے اوصاف موجود ہیں یا نہیں ہیں ؟
غالب کا ایک شعر ہے :
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا
درد کا حد سے گزرنا ہے ، دوا ہوجانا
جمیل مظہری نے اس سے بالکل ہٹ کر اپنا ایک الگ ہی نقطہٴ نظر پیش کیا ہے :
اس کی ہستی ہے جدائی سے نمایاں ، یعنی
موت قطرے کی ہے ، دریا میں فنا ہوجانا
(جمیل مظہری )
اقبال کا مشہور شعر ہے :
کبھی اے حقیقت منتظر ! نظ آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
اقبال کے اس شعر کی رد جمیل مظہری اس طرح کرتے ہیں :
یہ قباےء کہنہ اتار دو ، نہ سبک ہو چشم نیاز میں
کہ جگہ جگہ سے ہے کہنگی کا اثر لباس مجاز میں
(جمیل مظہری )
اقبال کے فلسفیانہ تصورات اور علائم کو رد کرنے کا رجحان جمیل مظہری کے یہاں عام ہے ۔
جمیل مظہری ایک جگہ لکھتے ہیں :
"میرے ذہن کی الجھن میری غزلوں میں افکار و اظہار کی الجھن بنتی رہی اور لوگ اپنی سادگی کی بنا پر اسے فلسفہ سمجھتے رہے ۔ ”
(جمیل مظہری ، مونوگراف ، مظہر امام ، صفحہ نمبر 35 )
جمیل مظہری کو ” تشکیک ” کا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے ، اس موضوع پر ان کے بعض اشعار بھی ان کے قارئین کو شکوک میں مبتلا کردیتے ہیں ۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ کریں :
اسی کا ہے نام اگر محبت تو کس کو کہتے ہیں خود پرستی
اک ایسی دنیا بنارہا ہوں ، جہاں کوئی تیسرا نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آذری بھی حیراں ہے اس صنم تراشی پر
سو بتوں کو جوڑا ہے ، اک خدا بنایا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑی ذلّتوں سے ادا ہوا کسی آستانہ ناز پر
وہ جو قرض تھا تری بندگی کا مری جبین نیاز پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے تعلقی مسلک ہوگیا ہے دنیا کا
دوستی کہاں جائے ، دشمنی کہاں جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوا جہاں تیز چل رہی تھی ، وہاں چراغ وفا جلا دیا
کسی کا شکوہ نہیں جہاں میں ، شہید ہوں اپنی سادگی کا
اس کو کیا حق ہے کہ قطرے سے سمندر مانگے
جس نے قطرے کو سکھایا نہیں دریا ہونا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لاکھ جھکوالے سر کو میرے ، مگر یہ دل اب نہیں جھکے گا
کہ کبریائ سے بھی زیادہ ، مزاج نازک ہے بندگی کا
ابھی ذہن مظہری پر ہے طفولیت کا عالم
کہ ملا نہ جب کھلونا تو مچل گےء خدا سے
جمیل مظہری غزل کے ایک بڑے شاعر تھے ، لیکن ان کی نظموں کو بھی ہم غیر اہم قرار نہیں دے سکتے ہیں ۔ جمیل مظہری کی غزلوں کا پہلا مجموعہ "فکر جمیل ” تھا ، جو دسمبر 1958 ء میں شائع ہوا تھا ۔ جبکہ ان کی نظموں کا اوّل مجموعہ ” نقش جمیل جمیل ” تھا ، جو 1952 ء میں منظر عام پر آیا تھا ۔ ان دونوں کتابوں کے علاوہ ان کی متعدد دوسری کتابیں بھی بہت اہم ہیں ۔ جن میں ” عرفان جمیل ” وجدان جمیل ” ” آثار جمیل ” "عکس جمیل ” وغیرہ بہت اہم ہیں ۔ جمیل مظہری کے فکرو فن کے تعلق اور حوالے سے بھی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔
جمیل مظہری نے نظموں اور غزلوں کے علاوہ دیگر اصناف سخن میں بھی طبع آزمائ کی ہے ۔ شاعری کے علاوہ انہوں نے افسانے اور ناولٹ بھی تحریر کیےء ہیں ۔
ان کی غزلیہ شاعری کے نمونے کے طور پر چند اشعار پیش خدمت ہیں :
بقدر پیمانہء تخیل ، سرور ہر دل میں ہے خودی کا
اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے روح تاریکیوں میں حیراں ، بجھا ہوا ہے چراغ منزل
کہیں سرراہ یہ مسافر ، پٹک نہ دے بوجھ زندگی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہو نہ یہ کہ محبت ہے تیرگی سے مجھے
ڈرا دیا ہے پتنگوں نے روشنی سے مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا سمجھ کر جسے پوجتے رہے اب تک
کھلی جو آنکھ تو بت اپنی ہی خودی کا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجدے میں جمیل آگیا یہ کس کا تصوّر
ہونٹوں پہ نمازی کے دعا جھوم رہی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ، عشق کرنے کے لیےء عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی سیما طےء ہوتی ہے ۔ محبت کی سر پھری اور پاگل ہوا ، کبھی بھی اور کہیں بھی آپ کے دل کے دروازے پر دستک دے سکتی ہے ۔ جمیل مظہری کے دل کے دروازے پر بھی یہ دستکیں ہوئیں اور بار بار ہوئیں ۔۔۔۔۔۔۔
جمیل مظہری نے ان دستکوں کا نہ صرف یہ کہ استقبال کیا بلکہ ان کا تعاقب بھی کیا اور یہ سلسلہ ان کی زندگی کے ایام طفلی سے تا دم آخر چلتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔. کبھی ہجر کی تیز دھوپ میں اور کبھی وصل کی شبنمی چاندنی میں ۔۔۔۔۔۔. لیکن جمیل مظہری ہر حال میں زندگی کا سفر طےء کرتے رہے ۔ انہوں نے اپنے محبوب سے شکوے بھی کیےء اور کبھی خوش ہوکر دعائیں بھی دیں :
بچپن کے گھروندے میں برسوں دونوں کی تمنّا کھیلی ہے
ہم تم رادھا وہ لکڑی ہیں ، جو دھیرے دھیرے سلگی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اور تیری چنچل سکھیاں ، جب پانی بھرنے جاتی ہیں
تب ساےء دھانی ہوتے ہیں ، تب دھوپ گلابی ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو یہ ہی رہیں گے تیور ، تو چھپے گی کیا محبت
کبھی ہم خفا خفا سے ، کبھی تم خفا خفا سے
(یہ بھی پڑھیں جمیل مظہری کے مرثیوں میں قومی وملی عناصر – سمیہ محمدی )
آج جمیل مظہری ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں ، لیکن ان کے فن کی شمع آج بھی منور ہے ، بظاہر ستمبر 1904 ء میں ، شعر و سخن کے فلک پر جو علم و ادب کا سورج طلوع ہوا تھا ، وہ 23 جولائی 1980 ء کو بھیکن پور ، مظفر پور میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیےء غروب ہوچکا ہے :
بلاؤ اس کو زبان داں جو مظہری کا ہو !
مگر ہے شرط کہ اکیسویں صدی کا ہو
(جمیل مظہری )
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فخرالدین عارفی
محمد پور ، شاہ گنج ۔ پٹنہ 800006
موبائل نمبر : 9234422559
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |