اک شور ہر طرف ہے نیا سال آ گیا
لیکن نئے پرانے کی منطق نہیں پتہ
سانسیں نئی ہیں یا کہ مری دھڑکنیں نئی
چہرہ نیا ہے یا کوئی آئینہ ہے نیا
میری نظر نئی ہے کہ منظر ہوئے نئے
یہ آسمان یا مہ و اختر ہوئے نئے
خشکی بدل گئی ہے کہ دریا بدل گیا
جنگل بدل گیا ہے کہ صحرا بدل گیا
تبدیل کیا ہوا ہے کہیں کچھ نہیں ہوا
صبحیں وہی ہیں، شام وہی اور شب وہی
دانہ کہ دام، صید کہ صیاد سب وہی
میں بھی وہی پرانا، تمھارا بھی ڈھب وہی
وحدت کی ایک سیلِ بلا خیز ہے یہ وقت
سو یہ نئے پرانے کی تقسیم سب غلط
یہ سالِ نو کا جشن حماقت کا جشن ہے
ڈاکٹر خالد مبشر
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |