دلت ادب کا ایک نمائندہ ناول : چمرا سر
عظیم انصاری، مغربی بنگال ، موبائل-9163194776
دلت ادب دلتوں کی مظلومیت ، بے بس زندگی اور محرومیوں کی عمدہ عکاس ہے ۔ ہےاس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دلتوں کا استحصال زمانے سے ہورہا ہے اور آج بھی ایسا ہے ۔ البتہ بدلتے وقت کے ساتھ اس میں کچھ کمی آئی ہے ۔ دلت ادب کے کچھ نمونے تو پہلے بھی دیکھنے کو ملتے تھے ۔ پریم چند کے افسانے اس کے عمدہ مثال ہیں لیکن صحیح معنوں میں دلت ادب کی شروعات ساٹھ کی دہائی میں مراٹھی زبان سے ہوئی ۔ دیکھتے دیکھتے اس کا اثر بنگلہ، ہندی، کنڑ، پنجابی، سندھی اور تامل زبانوں پر پڑا ۔ اس میں کوئی شک نہیں رفتہ رفتہ اردو زبان و ادب بھی اس سے متاثر ہوا ۔ دلت ادب کا عکس شاعری کے علاوہ افسانہ’ ناولٹ’ سوانح عمری اور ناولوں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ایسا نہیں کہ ساٹھ کی دہائی سے پہلے دلتوں کی مظلوم زندگی کا عکس نظموں ‘ کہانیوں یا ناولوں میں نہیں ملتا لیکن اس وقت کے سماجی حالات اس طرح کے نہیں تھے کہ کوئی شاعر یا ادیب کچھ کھل کر کہہ پاتا ۔ ساٹھ کی دہائی کے بعد ” دلت ادب ” کا فروغ شروع ہوا ۔ بعد میں یہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرگیا ۔ دلت تحریک کی شروعات مراٹھی زبان سے ہوئی اور جلد ہی اس میں کافی شدت آگئی ۔ اس کے بعد تو دلت سماج کی مظلومیت اور استحصال کی تصویریں ہندوستان کی دگر زبانوں پر بھی دکھائی دینے لگیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دلت ادب مضبوطی کے ساتھ نامساوات’ ظلم ‘ بربریت اور طبقاتی تعصب کے خلاف احتجاج کا علم بلند کیا ۔
شموئل احمد کا ناول یا ناولٹ بھی دلت ادب کا بھرپور نمائندگی کرتا ہے ۔ عام طور شموئل احمد کے افسانے یا ناول عورتوں کی نفسیات یا جنسیات کے نمائندگی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن ناول ” چمرا سر” ان پہلؤوں سے زیادہ طبقاتی جنگ اور سماجی نامساوات کا اظہاریہ ہے ۔ اس میں چھوٹی ذات اور بڑی ذات کی طبقاتی جنگ کو بڑے سلیقے اور ہنرمندی سے پیش کیا گیا ہے ۔ یہ ناول شموئل احمد کی زبردست تصنیف ہے ۔
زیرِ تبصرہ ناول میں بڑی ذات کی ایک لڑکی انورادھا نچلی ذات کے ایک لڑکے چمرا سر کے قریب آجاتی ہے ۔ قصہ یوں ہے کہ نچلی ذات کا چمرا سر ایک اونچی ذات کی لڑکی انورادھا کو کامیابی کی منزل عطا کرنے میں سیڑھی کا کام کرتا ہے ۔ کامیابی اس لڑکی کی قدم چومتی ہے لیکن ان دونوں کی قربت بڑی ذات والوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ چمرا سر کی زندگی تنگ کرنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ انورادھا سراپا احتجاج بن جاتی ہے ‘ سماجی نامساوات کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی ہے لیکن بڑی ذات والوں کا سرمایہ دارانہ مزاج کسی صورت جھکنے کا نام نہیں لیتا ۔ چمراسر بھی انورادھا کی طرح اس سماجی نامساوات کے خلاف ہے ۔ حمایت اور مخالفت کا دور چلتا ہے لیکن بورژوا سماج آخرکار اپنی سازش میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔ شموئل احمد اس ناول کے ذریعہ جو پیغام دینا چاہتے تھے اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں ۔
شموئل احمد ایک بالغ نظر اور باشعور ادیب ہیں ۔ سماجی’ معاشرتی اور سیاسی شعور کے نمونے ان کے افسانوں اور ناولوں میں جابجا نظر آتے ہیں ۔ زیرِ تبصرہ ناول کا یہ اقتباس ہندوستانی سیاست کے پس منظر میں ملاحظہ فرمائیں
” فاشزم جمہوریت کے رستے سے آتی ہے اور جمہوریت کو ختم کردیتی ہے ۔ فاشزم کسی بھی ملک میں اپنے پاؤں جماسکتی ہے ۔ کسی بھی ایسے ملک میں جہاں سماجی تحریک کمزور ہوتی ہے اور لوگ فاشزم کے تئیں باشعور نہیں ہوتے ۔ فاشزم فرضی خوف پیدا کر جمہوری سوچ کو ختم کردینا چاہتی ہے ۔ اس کے لیے قدآور لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے جو بے رحم فیصلے کرسکتا ہے ۔ ”
” چمرا سر” کے مطالعہ کے بعد جو مجموعی تاثر ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ شموئل احمد کا یہ ناول ان کے دوسرے ناولوں سے ایک دم الگ ہے اور انھوں نے اس ناول کے موضوع کے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے ۔ دلت سماج صدیوں سے ظلم و بربریت کا شکار ہے ۔ پہلے تو دلت سسک بھی نہیں سکتے تھے لیکن وقت کی تبدیلی کے ساتھ ان کی سسکیاں ‘ رونے میں تبدیل ہوگئی اور جب روتے روتے آنسو خشک ہوگئے تو اپنی بےبسی اور مظلومیت کے درد کو اجاگر کرنے کےلیے احتجاج کا علم بلند کرلیا اور یہ آواز دلت ادب کی شکل میں نمایاں ہونے لگی ۔ دلت سماج کے شاعر و ادیب اپنی پرجوش آواز سے سماج کو بیدار کرنے میں لگ گئے ۔ ان کی آواز میں آواز ملا کر دگر زبانوں کے شعراء و ادباء بھی میدانِ عمل میں سرگرم ہوگئے ۔ شموئل احمد نے ” چمرا سر” میں جس اونچی ذات کی لڑکی انورادھا کو پیش کیا ہے ‘ وہ سماج کے بدلتے تیور کا غماز ہے ۔ مذکورہ ناول کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں
” مجھے انورادھا ترپاٹھی کہتے ہیں لیکن میں نام کے ساتھ ترپاٹھی کا لقب نہیں لگاتی ۔ اس سے جاتی واد کو بڑھاوا ملتا ہے ۔”
شموئل احمد نے اس کتاب میں کوئی فلسفیانہ لہجہ نہیں اپنایا ہے بلکہ سادہ و سہل زبان میں اپنی بات قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔ وہ اپنے تجربات و مشاہدات کو سلیقے سے برتنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ وہ براہ راست قارئین کے دلوں میں اتر جاتے ہیں ۔ ” چمراسر” کے تعلق سے ایم نصراللہ نصر کا کہنا ہے کہ
” اس ناولٹ کی کہانی میں دلچسپی و دلکشی دونوں ہے ۔ زبان و بیان پر قدرت ہونے کا احساس ہوتا ہے ۔ جملہ سازی و لفظیات کی کاریگری بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
اس طرح کے ناول اور ناولٹ قارئین کو بیشک پسند آتے ہیں ۔ ادب کی صف میں جگہ ملتی ہے ۔ اردو ادب کے لیے ایسے ناول اور ناولٹ کی ضرورت ہے۔ ”
(بنگال میں اردو ناولٹ نگاری ۔ص ۔101)
” چمرا سر” سے قبل شموئل احمد کی تین ناولیں ‘ ندی (1993)’ مہاماری ( 2003) اور گرداب ( 2016) منصۂ شہود پر آکر داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں ۔ ان ناولوں میں انھوں نے عورتوں کی نفسیاتی اور جنسیاتی پہلؤوں کو زیادہ اجاگر کیا ہے جبکہ زیرِ نظر کتاب کا موضوع قطعی مختلف ہے ۔ اس ناول میں شموئل احمد نے دلتوں کے استحصال اور مظلومیت کی داستان کو بہت ہی موثر انداز میں پیش کیا ہے ۔ یہ ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے ۔ ملک کی آزادی کے بعد بھی دلت سماج بےبس اور لاچار نظر آرہا ہے ۔ شموئل احمد نے ذات پات کی خلیج کو اس ناول میں فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ سیاسی رہنماؤں کو انھوں نے بڑے سلیقے سے آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔ ناول کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں
” چمرا سر اس خیال سے بے چین ہوا کہ گھڑیالی آنسو بہانے والے رہنماؤں سے دلتوں کو کس طرح بچایا جائے ؟ جب تک دلت ووٹ بنک ہیں ان پر ظلم ہوتے رہیں گے ۔ رہنما انھیں ووٹ بنک کی مشین سمجھتے ہیں ۔ دلت رہنما صاحبِ ثروت ہوگئے۔ بہن جی ہیرے کے بندے پہنے لگیں اور دلت فاقہ کشی پر مجبور ہے ۔ مذہب اور ذات کے نام پر ووٹ پڑیں گے تو کوئی نہ کوئی طبقہ ووٹ بنک بنا رہے گا ۔”
” چمرا سر” یقیناً دلت ادب کا ایک نمائندہ ناول ہے ۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد دلت سماج کی بےبسی اور محرومی کو دیکھ کر کوئی بھی حساس دل رو اٹھے گا۔ یہی فنکاری شموئل احمد کو بحیثیت ناول نگار دوسروں سے الگ کرتی ہے ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اردو زبان و ادب میں بھی دلت ادب کی تحریک زور پکڑتی نظر آرہی ہے ۔ اس سے قبل 2016 میں صغیر رحمانی کا شائع شدہ ناول ” تخم خوں ” دلت ڈسکورس پر مبنی تھا ۔
یقین کامل ہے کہ اس طرح کی ادبی تحریک سماجی نظام کو بدلنے میں معاون ہوگی اور دلت سماج بھی اپنے وطنِ عزیز میں سر اٹھاکر شان سے جی سکے گا لیکن ابھی اس تحریک کو مزید دم دینے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان کے عصری ادبی منظر نامہ میں ” چمرا سر” کا عکس بہت دنوں تک جھلکے گا ۔ میں شموئل احمد کو اس کامیاب ناول کے لیے دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
بقلم: عظیم انصاری، مغربی بنگال ، موبائل-9163194776
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |