جون ایلیااپنی تحیرخیز، خیال انگیز، چونکانے والی اور قدم قدم پرباغیانہ تیور سے روشناس کرانے والی شاعری کی وجہ سے مقبولِ خاص وعام توہیں ہی، نوجوانوں میں ان کے تعلق سے ایک مخصوص قسم کا Craze ہے اوربزرگ بھی انھیں گاہے قدراورگاہے حسدکی نگاہ سے دیکھتے اورسنتے پڑھتے ہیں، مگران کی نثربھی کمال کی چیزہے، جوانفرادیت ان کی شاعری کاشناس نامہ ہے، وہ ان کی نثرمیں بھی پورے طنطنے کے ساتھ قائم ہے، جس طرح انھوں نے اپنی شاعری میں ایک الگ دھج اختیارکیے رکھی اوراپنے شائقین کو قدم قدم پرچونکاتے، بیدارکرتے اور اپناگرویدہ بناتے رہے، اسی طرح ان کی نثرمیں بھی عام نثریات سے کچھ الگ خوبوپائی جاتی ہے، انھوں نے 1958سے لے کر2002تک پہلے "انشا”، پھر”عالمی ڈائجسٹ”، "سسپنس ڈائجسٹ” اور مجلہ” مشاعرہ” کے لیے جوتحریریں لکھیں، ان کے اندر ہمہ جہتی ہے، بیان کی شگفتگی ہے، اسلوب کابانکپن ہے، طرزِ اظہارکاجمال ہے، افکارکاتموج اورخیالات کی بے کرانی ہے،جون ایک عالم فاضل انسان تھے، اردو، عربی، فارسی کے علاوہ انگریزی وعبرانی میں بھی انھوں نے مہارت بہم پہنچائی تھی، ان کی عملی زندگی کاآغازبھی خالص علمی مشغلے سے ہوااورشاعری کے ساتھ ان کی نثرنگاری کاسلسلہ بھی مستقل جاری رہا؛بلکہ بسااوقات شاعری سے زیادہ اہتمام سے انھوں نے نثرلکھی ـ ان کے نثری موضوعات میں جووسعت ہے، اسے دیکھ کراندازہ ہوتاہے کہ جون ایلیا کاعلمی جغرافیہ کس قدروسیع وعریض تھا، حالاں کہ ان کی تمام تحریریں بقول شکیل عادل زادہ "ضرورتاً لکھی گئی ہیں "لیکن ان کوپڑھیے توپتالگے گا کہ مضمون نگار کاغذپرسیاہیوں کے نقوش نہیں بنارہا؛بلکہ وہ اپنے لخت ہاے دل بکھیر رہاہے، وہ کسی بھی موضوع پرلکھنے سے پہلے اس کے تمام اطراف وجوانب پرحاوی ہونے کی کوشش کرتے تھے، پھرلکھنے کے بعدبھی اس وقت تک مطمئن نہ ہوتے، جب تک کہ اس تحریرکو کئی بار قطع وبرید اورترمیم واصلاح سے نہ گزارتے، ایک خیال کے اظہارکے لیے کئی بارلفظوں کوادلتے بدلتے رہتے،معنی مفہوم کی باریکیوں پرنظررکھتے، اندازواسلوب کی نازکی کودھیان میں رکھتے اور کئی مرحلوں کے بعداس تحریرکے چھپنے کی نوبت آتی ـ اس کاذکربھی دلچسپ ہوگاکہ شاعری اورنثرکاری کے حوالے سے ان کانقطۂ نگاہ عام لوگوں کےبالکل برعکس تھا، وہ کہتے تھے "یہ نثرکاری میں بڑی حجت کرنی پڑتی ہے، یہ شاعری نہیں جوچلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ہرحال میں سرزدہوجائے، نثرکے لیے خودکوباندھ کے، جکڑکے بیٹھنا پڑتا ہے ”
جون ایلیاکا واحدنثری مجموعہ’’فرنود‘‘ہے،اسے چھپوانے کاارادہ خود جون بھی کیے ہوئے تھے،نام انہی کا تجویزکردہ ہے،ایک بکس میں اس کامسودہ رکھا ہوا تھا،مگران کی زندگی میں طباعت کی نوبت نہ آسکی اور وہ اپنی تخلیق کامطبوعہ نقش صرف’’شاید‘‘کی شکل میں دیکھ سکے۔ اس کتاب کے مرتب خالد احمد انصاری ہیں،جو آخری دنوں میں جون ایلیاکے بڑے قریب رہے اوران کی وفات کے بعد ان کے کلام و افکار کی نشرواشاعت کی رضاکارانہ ذمے داری اس شان سے اٹھائی کہ ’’شاید‘‘کے بعد’’یعنی‘‘،’’لیکن‘‘،’’گمان‘‘،’’گویا‘‘اور’’راموز‘‘نام کے چار مجموعہ ہاے کلام شائع کیے اور ساتھ ہی جون کی منفردترین نثری خدمات سے بھی جہانِ ادب کو روشنا س کروانے کا بیڑہ اٹھاکر718صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب مرتب کردی۔اس کتاب میں سات مضامین اور 181انشائیے ہیں۔کتاب کی ترتیب میں مرتب کوکن دشوارگزارمرحلوں سے گزرناپڑا، اس طرف انھوں نے اپنی تعارفی تحریر "خون تھوکنے کے کارخانے میں "میں متواضعانہ اشارے کیے ہیں ـ مرتب نے کتاب کا انتساب معراج رسول کے نام کیاہے؛کیوں کہ جون کی نثریات کانقشِ ثانی انہی کی بدولت وجود میں آسکا۔موضوعات کے تنوع،مضامین کی رنگارنگی اور جون ایلیاکے البیلے طرزِنگارش کے سحرآگیں واثرانگیزنقوش کے پیش نظرخالد انصاری نے اس کتاب کوجون کا’’عجائب خانۂ نثر‘‘قراردیاہے اور میں نے اپنے مضمون کاعنوان انہی سے مستعار لیاہے۔اس تعلق سے مزید گفتگوکرنے سے پہلے جون کی نثرنگاری کے زمانی مرحلوں پر ایک نظرڈالنا دلچسپ ہوگا۔
جون کی نثر نگاری کے دوادوار ہیں،پہلادور1958سے لے کر1988تک پھیلاہواہے،جس عرصے میں انھوں نے ’’انشاء‘‘اور’’عالمی ڈائجسٹ‘‘کے لیے لکھا۔ اس بیچ میں ایک عرصہ پاکستان کے متعددعلمی و تحقیقی اداروں کے ذمہ دارورکن رکین کے طورپر بھی گزارا،ان میں’’اسماعیلی ایسوسی ایشن‘‘کانام خاص طورپرقابلِ ذکرہے کہ اس سے وابستگی کے زمانے میں انھوں نے عربی و اسلامی تاریخ اور فکر و فلسفہ پر کئی بیش قیمت تحقیقی مقالات لکھے،متعدد کتابوں اور ’’ اخوان الصفا‘‘کے کئی رسائل کاترجمہ کیا،’’شاید‘‘کے پہلے ایڈیشن کی پشت پر جون کی تصانیف وتراجم کی جوفہرست دی گئی تھی ،اس میں 20کتابوں کے نام تھے۔پاکستان اردوترقی بورڈسے جوش ملیح آبادی کی علیحدگی کے بعدبورڈکے ناظم اعلیٰ شان الحق حقی نے’’لغتِ کبیر‘‘کی تدوین کے سلسلے میں جون ایلیاکی خدمات حاصل کیں اوروہ اس ادارے سے آٹھ سال(1968-1976 ) تک منسلک رہے۔اسی کی دہائی میں انھیں متعددخانگی وجسمانی عوارض لاحق ہوئے اور وہ اپنے رسالے کی ذمے داریوں سے دورہوتے گئے،یہاں تک کہ1988ء میں ان کا رسالہ مرحوم ہوگیا۔1990میں جب ان کے مسلسل انکار اور نیازمندوں کے بے پناہ اصرار کے بعد ان کا پہلا مجموعۂ کلام شائع ہوا،تواس کے لیے انھوں نے ایک مقدمہ لکھا،جوخود ان کے بقول دوسوسوادوسوصفحات میں پھیل گیااورپھربھی ان کی نگاہ میں وہ نامکمل تھا؛چنانچہ انھیں انورشعورنے مشورہ دیاکہ اس مقدمے کی تلخیص کردی جائے،جسے ’’شاید‘‘کے ساتھ شائع کیاجاسکے؛چنانچہ جون نے اس کی تلخیص کی اور کیا ہی خوب صورت تلخیص کی،رسائل و مجلات میں ان کی نثرچھپتی رہی تھی،مگر اسے بوجوہ اتناپھیلاؤنصیب نہ ہواتھا،’’شاید‘‘کے ساتھ جویہ نثری مقدمہ چھپااور اردودنیاکے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچا،تواس کی دھوم مچ گئی ،جس خوبی ،کمال اور ہمہ گیریت کے ساتھ انھوں نے اپنے حالاتِ زندگی ،فلسفیانہ افکارواحوال کی تشریح اور شعر وشاعری کے معروضی و فنی ابواب ومباحث پر گفتگوکی ہے ،اس سے یکایک اردوکے کئی نمایاں ادیب،نثر نگار ،محققین اور ناقدین و تجزیہ کاروں کاخیال ان کی نثرنگاری کی دلفریب قوت و صلاحیت کی طرف بھی گیا؛چنانچہ ان کے معتقداور ’’سسپنس ڈائجسٹ‘‘کے مدیر اعلیٰ معراج رسول نے ان سے درخواست کی کہ جون ان کے لیے انشائیے لکھا کریں،جون نے ان کی درخواست قبول کی اور1989سے لے کر2002تک مسلسل اس رسالے کے لیے انشائیہ لکھا،یہ ان کی نثرنگاری کا دوسرا دورتھا۔یہ انشائیے اردو زبان و ادب کی تمام تر خوبیوں سے مرصع ہونے کے ساتھ متعددسماجی،ادبی،سیاسی مسائل و موضوعات پر جون ایلیا کے نقطۂ نگاہ کوسمجھنے کابھی وسیلہ ہیں۔اسلوبِ نگارش و پیرایۂ اظہارکے حوالے سے تومیں جون کی نثریات کے بارے میں شکیل عادل زادہ کے اس خیال سے اتفاق کرتاہوں کہ ’’ان(جون)کی نثرسے اردوکی بہت سی یادگارکتابوں کا پیرایۂ بیان تازہ ہوجاتاہے،عہدنامۂ عتیق،باغ و بہار،عذرااور عذراکی واپسی،تائیس،غبار خاطر وغیرہ اور بہت سے نثر نگار یاد آتے ہیں، رجب علی بیگ سرور،محمد حسین آزاد،شبلی نعمانی،ابوالکلام آزاد،مولوی عنایت اللہ دہلوی،حبیب اشعر،نیازفتح پوری جیسے نادرِ روزگار قلم کار‘‘۔البتہ جہاں تک ان کے افکار کی بات ہے،توبہت سارے مقامات پربہت سے قاری کوان کی فکروں سے اختلاف ہوسکتاہے،خودجون کی ذہنی کیفیت بڑی بوقلموں تھی،وہ علم و فکر کے کسی مرحلے پر یقین و اذعان کی سرشاری سے گویاگھبراتے تھے،ان کے لیے ہرلمحہ ارتیاب آگیں ہوتا،ہرآن ردوقبول کی بھٹی میں تپتے رہتے،انھیں کسی پہلو چین نہ تھا اوراسی بے چینی کا اظہاریہ ان کی تخلیقات ہیں،جون ایلیامشاعروں کی مجلس میں چیخ چیخ کر اپنی اس ذہنی کیفیت کااعلان کرتے اوراسی اعلان کوانھوں نے اپنی پوری قوت کے ساتھ اپنی اُن نثری تحریروں میں بھی دہرایاہے،جوان کے سوانحی خاکے قراردیے جاسکتے ہیں۔ویسے توانھوں نے اپنے احوال و افکار پر مختلف مضامین اور انشائیوں میں اظہار خیال کیاہے،مگر اس تعلق سے ’’شاید‘‘کا مقدمہ’’نیازمندانہ‘‘اور ’’فرنود‘‘میں بطورمقدمہ شامل پہلی تحریر’’رائگاں‘‘خاص طورپر قابلِ ذکرہیں۔ان دونوں مضامین میں جون نے اپنے آبائی وطن امروہے کی ادبی زرخیزی،علمی و فکری تاریخ واہمیت پرمنفرد انداز میں روشنی ڈالنے کے ساتھ اپنے گھر،خاندان،والدین خاص طورپر اپنے والد کے علمی و فکری سراپاپراچھی طرح روشنی ڈالی ہے،پھر اپنے علمی و عملی سفرکاذکرکیاہے اور اس بات کو بارباردوہرایاہے کہ ’’میں رائگاں گیااور مجھے رائگاں ہی جانا چاہیے تھا‘‘یایہ کہ’’میرے بارے میں ایک بات یقینی اور حتمی ہے اور وہ یہ کہ میں ایک نکمااور ناکام ترین آدمی ہوں،میں بری طرح رائگاں گیا،میں بھلاآپ کوکیسے بتاؤں کہ میں کس بری طرح رائگاں گیا!‘‘۔
جون ایلیانے جس طرح اردوشاعری میں نوبہ نوتجربے کیے اور صاحبانِ ذوق کو طرزِ اظہار سے لے کر شاعری کے معانی، مفاہیم، موضوعات ومشتملات کے حوالے سے نئے آفاق وجہان سے روشناس کروایا، اسی طرح نثرمیں بھی ان کے یہاں ایک اچھوتاپن ہے، ایک ایسی خوبی ہے، جوصرف جون ایلیاکاخاصہ ہے، عام انسانی فطرت کے بیان واظہارکے سلسلے میں وہ سفاکیت کی حدتک صاف گوواقع ہوئے تھے اوران کی یہ صاف گوئی ان کی شاعری کے ساتھ نثرمیں بھی جھلکتی؛ بلکہ چھلکتی ہے ـ وہ اپنی متلون طبیعت سے بھی مجبورتھے، ان کی سیماب صفتی انھیں ہرآن کچھ "نیاکرنے "پرابھارتی؛ بلکہ اکساتی رہتی تھی؛ چنانچہ جب بات "انشاء "کے اداریوں سے بنتی نظرنہ آتی، توپھروہ اپنے فکروخیال کااظہار مختلف مؤنث ومذکرشخصیتوں کے پردے میں کرتے تھےـ عورتوں کے سماجی ومعاشرتی مسائل پران سے براہِ راست مخاطب ہونے کے لیے انھوں نے اپنے آپ کوایک اَن سنے سے نام "ذہینہ سائیکی ” سے موسوم کیااور مختلف نسوانی مسائل پر بڑے نُکیلے، گرماگرم اور دھاردارمضامین لکھے، "فرنود "میں ذہینہ سائیکی کاایک مضمون شامل ہے، اس کاعنوان ہے "مردبرقع اوڑھیں "اس مضمون میں جون ایلیانے پردے کے عام سماجی تصورپرجی بھرکے چوٹ کی ہے، انھوں نے لکھاہے کہ جس قسم کاپردہ برصغیریامعاصرمسلم معاشرے میں رائج ہے، وہ اصل میں پردہ ہے ہی نہیں، ان کااستدلال گوبہت سے لوگوں کے لیے تعجب خیزہو، مگرہے دلچسپ، فرماتے ہیں: "سچ پوچھیں توپردہ مردہی کرتے ہیں، آپ نہیں کرتیں، کرہی نہیں سکتیں، یہ کہیں آپ کے بس کی بات ہے؟!یہ پردہ خوب ہے کہ آپ تو نقاب کی جالیوں سے بڑے اطمینان کے ساتھ اپنی شرم وحیاکی شعاع افگنی کرتی رہیں اورمردکی پلک بھی جھپک جائے تودیدہ دلیرکہلائے، سیدھی سی بات ہے کہ آپ پردے کوبالکل اس طرح استعمال کرتی ہیں، جس طرح مردگہرے رنگین چشمے کو، مقصددونوں کا "نظربازی "اور "چشم پوشی ہے "ـ
"چشم پوشی "جس معنی میں یہاں استعمال کیاگیاہے، وہ صاحبِ ذوق قاری کومزادے جائے گا ـ
ویسے مجموعی فکری تانے بانے سے قطعِ نظر یہ مضمون معرکے کاہے، اس کی بیشترسطریں اورجملے حسنِ انشااور نثری جمال وکشش کے ہزاررنگ رکھتے ہیں، اس مضمون کے کئی جملے توایسے ہیں، جواپنی معنویت، لفظوں کوبرتے جانے کے منفردہنراور جون کے شعور و ادراک کی گیرائی ووسعت کی وجہ سے ضرب المثل بن چکے ہیں اور آج کل سوشل میڈیاپربکثرت دیکھنے کومل جاتے ہیں، مثال کے طورپر:
"جھوٹ زندگی کی بہت بڑی ضرورت ہے؛ لیکن اگر کبھی کبھی سچ بھی بول لیاجائے، توکوئی بری بات نہیں ہے "ـ
"ہماری حرم سراؤں اورحویلیوں کی داستانیں شاہدہیں کہ پردے کے پیچھے کیسے کیسے ناٹک کھیلے گئے ہیں”ـ
"کیاپردے نے "پردہ پوشی”کے علاوہ کوئی فرض انجام دیاہے”ـ
"پردے کے ذریعے صرف پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے ” ـ
ان کے اوربھی دلچسپ طنزیہ جملے اس مضمون کاحصہ ہیں، ظاہرہے جون نے اس میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان کی کلیتاً تاییدنہیں کی جاسکتی؛ کیوں کہ انھوں نے یک رخی فکر کوپیش کیاہے، مگراس حقیقت سے انکاربھی ناممکن ہے کہ یہ مضمون ادبی ونثری خوبیوں اور جمال وکمال کامرقع ہے ـ نہ معلوم انھوں نے "ذہینہ سائیکی "کے لبادے میں اورکتنی دلچسپ تحریریں لکھی ہوں گی، اگروہ سب محفوظ ہوتیں،توخاصے کی چیزہوتیں ـ
جون کاایک خودتراشیدہ نام "افروزآفشید "بھی تھا، اس نام سے انھوں نے متعددکہانیاں لکھیں اورکئی تراجم کیے، جواب نایاب ہیں، خالدانصاری کے مطابق انھوں نے کچھ تحریریں "آدم افرودیسی "کے نام سے بھی لکھیں، مختلف خوب صورت نسوانی ناموں سے لکھی گئی نثرکوپڑھ کرخودجون کے کئی احباب نے ان "ناپید "خواتین سے عشق لڑانے کی بھی کوششیں کیں، مگرجب حقیقت آشکارہوئی، توسرپیٹتے رہ گئے ـ
جون کاایک اورہمزاد نوے کی دہائی میں نمودارہوا، جواپنے خط وخال، چال ڈھال، کردارواعمال، گفتگوکے طور اور حکمت پژوہی کی خو کے پیشِ نظر کوئی یونانی فلسفی لگتاہے، وہ معاشرے میں انسانی اقدارکی شکستگی پرسخت رنجیدہ وافسردہ ہے، جب وہ جون ایلیاسے ملتاہے اوردونوں میں گفتگوہوتی ہے، پھراس گفتگوکوجون صفحۂ قرطاس پررقم کرتے ہیں توقاری اس کے سحرمیں ڈوب جاتاہے، مختلف مہتم بالشان سماجی مسائل پرجون کی اپنے ہمزادنشیان سے گفتگو ایسی ہے کہ اس کالفظ لفظ ہم میں سے ہرشخص کے دل کی آوازلگتا ہے، ہردورکے مکروب انسانوں اور محروم القسمت اقوام کی ترجمانی کرنے والالفظ لگتاہے ـ مگرچوں کہ جون اپنی ذات اورشخصیت میں تمام ترپیچیدگیوں اور بوقلمونیوں سمیت ایک مکمل فلسفی تھے، ان کی سوچ فلسفیانہ تھی؛بلکہ بتدریج ان کاپوراہیولی ہی فلسفیانہ تصور کامحسوس پیکرہوگیاتھا،سو نشیان اورجون ایلیاکی باہمی گفتگوگرچہ عام سماجی وسیاسی مسائل ومشکلات سے پردہ اٹھاتی ہے، مگر جومکالمے ہیں، ان کے مشمولات ایسے ہیں، گویا چوتھی پانچویں صدی کے دوفلسفی آپس میں بات چیت کررہے ہوں ـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page