خیام/ علامہ سید سلیمان ندوی – زین العابدین ہاشمی
مبصر: زین العابدین ہاشمی
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ
حکیم عمر خیام چھٹی صدی ہجری کے معروف فارسی شاعر اور فلسفی ہیں۔ خیام نیشاپور میں پیدا ہوئے۔ علوم و فنون کی تحصیل کے بعد ترکستان چلےگئے۔ جہاں قاضی ابو طاہر سے تربیت حاصل کی اور آخر شمس الملک خاقان بخارا کے دربار میں جا پہنچے۔ ملک شاہ سلجوقی نے انہیں اپنے دربار میں بلا کر صدر خانۂ ملک شاہی کی تعمیر کا کام ان کے سپرد کر دیا۔ انہوں نے یہیں سے فلکیاتی تحقیق کا آغاز کیا، اور زیچ ملک شاہی لکھی۔
خیام اپنی رباعیات کے حوالے بہت مشہور ہیں۔ ان کا ترجمہ دنیا کی تقریباً تمام معروف زبانوں میں ہوچکا ہے۔ خیام علوم نجوم و ریاضی کے بہت بڑے عالم تھے۔ ان کی تصانیف میں ما الشکل من مصادرات اقلیدس، زیچ ملک شاہی، رسالہ مختصر در طبیعیات، میزان الحکم، رسالۃ اکلون و التکلیف، رسالہ موضوع علم کلی وجود، رسالہ فی کلیات الوجود، رسالہ اوصاف یا رسالۃ الوجود، غرانس النفائس، نوروزنامہ، رعبایات خیام، بعض عربی اشعار، مکاتیب خیام فارسی ’’جو اب ناپید ہے‘‘ قابل ذکر ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب (خیام) ہندوستان کے معروف اہل علم مؤرخ علامہ سید سلیمان ندوی کی کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے حکیم عمر خیام کی سوانح اور شاعری پر لکھی گئی کتب کا ناقدانہ جائزہ بھی لیا ہے اور ان کی زندگی کے مخفی حقائق کو منکشف کیا ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک منفرد اور تحقیقی کتاب ہے۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں۔
"خیام پر سید صاحب کی تصنیف سامنے آئی، تو دل باغ باغ ہو گیا کہ ایک تصنیف اردو میں دیکھنے میں آئی، جو کسی زبان کے بڑے سے بڑے تحقیقی کارناموں کے ساتھ رکھی جاسکتی ہے، اس کتاب کی تصنیف میں سید صاحب کے حیرت انگیز طالب علمانہ شغف، مؤرخانہ ژرف نگاہی، ادبی پر کھ اور عالمانہ بصیرت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، معمولی سے معمولی دعوے کو مستند سے مستند ماخذوں سے مستحکم کیا ہے، ماخذات کے لئے کس کس بے کنار و سنسان اور دشوار گذار جنگل اور کھائیوں سے گزرنا پڑا ہو گا، تب کہیں جا کر کسی رہرو کے قدم ملے ہوں گے، اور جادہ منزل کے متعین کرنے کا امکان پیدا ہوا ہوگا، معلوم نہیں۔“
(ہم نفساں رفتہ ص 26)
اسی طرح پروفیسر عبد الشکور اس کتاب کی اہمیت و افادیت کے متعلق لکھتے ہیں:
"اس کی عبارت بہت سنجیدہ ودلکش ہے ، خصوصیت کے ساتھ وہ طرز انشاء ہے جو نقاد کے لیے سب سے زیادہ مناسب ہوتا ہے ……… یہ کتاب اردو کے تنقیدی ادب میں بڑا یاد گار اضافہ ہے اور بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے اتنی بلند تنقیدی کتابیں اردو تنقید کے گذشتہ دور میں بہت کم ہیں،،۔
(تنقیدی سرمایہ ص 120 پروفیسر عبد الشکور)
پروفیسر موصوف ایک دوسری جگہ رقم طراز ہیں "یہ کتاب مؤلف بڑی محنت اور کے بعد لکھی ہے اندازہ ہوتا کہ یہ کتاب کئی سال کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے”
(تنقیدی سرمایہ ص 119 پروفیسر عبد الشکور)
کتاب کی ترتیب:
کتاب کی ترتیب یہ ہے کہ سید صاحب نے پہلے سوانح کے ماخذ ومصادر پر ناقدانہ تبصرہ کیا ہے، پھر اس کی مشہور داستان معاصرت پر تنقید کی ہے، اس کے بعد خیام کے فضل و کمال کی تفصیل پھر اس کی تصنیفات کی فہرست اور ان پر تبصرہ بھی کیا ہے، اسکے بعد عربی و فارسی کے متعد رسالوں کا ذکر ہے اور آخر میں رباعیات خیام پر گفتگو کی ہے، اس کا صحیح مواد کے حصول کے لیے کتب خانہ الاصلاح دیسنہ (پٹنہ) کے ایک مستند قلمی نسخہ کی مدد سے کی گئی ہے۔
تلاش و تحقیق:
سید صاحب نے "خیام” میں سنین کی تحقیق و تطبیق، واقعات کی تلاش وتحقیق ، ماخذوں، سندوں اور حوالوں کے پہچان اور خیام کی فلسفیانہ تصانیف کی جستجو و تلاش اور مختلف کتب خانوں کے مستند قلمی نسخوں کی مدد سے خیام کی خالص رباعیات کی جمع و ترتیب میں نہایت کد و کاوش اور جانفشانی سے کام لیا گیا ہے۔
سید صاحب اس کتاب کی تصنیف کے دو وجوہات بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
"ایک تو یہ کہ اس کے بعض واقعات، تصانیف اور سنین کے متعلق مجھے کچھ کہنا تھا، اور اپنی فکر و کاوش اور جد و جہد کے نتیجے ارباب نظر کے سامنے پیش کرنے تھے، اور دوسری یہ کہ اب تک لوگوں نے اس کو صرف اس کی رباعیوں کے ذریعہ سمجھا تھا، جن کی تعیین سراسر مشکوک ہے، اور میں نے اس کو خاص فلسفیانہ تصانیف کے ذریعہ روشناس کیا ہے، جن میں وہ بالکل ایک نیا شخص معلوم ہوتا ہے، اس لئے کتاب کے آخر میں اس کی فلسفیانہ تصانیف کا حصہ بھی شامل کر دیا ہے، تا کہ ہر شخص اس کو آئینہ میں دیکھ کر پہچان سکے۔”
(دیباچہ خیام ص 1)
عمر خیام پر لکھنے والوں میں سب سے پہلا نام علامہ شبلی نعمانی کا آتا ہے انہوں شعر العجم میں خیام پر تفصیل سے لکھا اور تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کیا، ان کے بعد سید سلیمان ندوی دوسرے مصنف ہیں جنہوں نے خیام پر بہت شرح و بسط اور تحقیق و تنقید کے ساتھ لکھا، اس تصنیف کا سبب شبلی کے معترضین کو جواب دینا تھا، حافظ محمود شیرانی اور ان کے رفقاء نے شبلی کی شعر العجم پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کیا تھا، اسی سلسلے کا ایک مضمون "شعر العجم اور خیام” بھی تھا، پھر
جب سید صاحب کا قلم چلا تو خیام کی شاعرانہ شخصیت حلقہ شام و سحر نکل کر جاوداں ہو گئی۔
عمر خیام سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ:
اس کتاب کی سب بڑی خوبی یہ ہے اس میں خیام کی اصل تصویر پیش کی گئی ہے، خیام جیسے نامور حکیم اور جلیل القدر فاضل کو اہل یورپ نے ایک عیاش اور بدمست رند، لا ابالی کی شکل میں پیش کیا ہے، جو ہمیشہ شراب میں غرق رہتا ہے اور جس کا مقصد حیات صرف عیش پرستی ہے، سید صاحب نے مدل طور پر ثابت کیا ہے کہ خیام کی اصل تصویر اس سے بلکل مختلف ہے وہ محض ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم فلسفی بھی ہے، ہیئت و نجوم اور ریاضیات کا بہت بڑا عالم اور دوسرے علوم عقلیہ کی مہارت بھی رکھتا ہے، اس کی زندگی زاہدانہ تھی، مذہبی حیثیت سے وہ ایک دیندار مسلمان بھی تھا۔ جیسا کہ شاہ معین الدین ندوی نے لکھا ہے کہ "اہل یورپ کا مذاق خود رندانہ ہے اس لئے رباعیات کے ظاہری آئینہ کی جو تصویر دیکھی وہ ہم مشربی کی بنا پر بڑی دلکش نظر آئی ، چنانچہ اسی کو اصل سمجھ کر اس کی اتنی تشہیر کی کہ عمر خیام اور بدمست شرابی ہم معنی بن گئے”
(سید صاحب کی دینی اور علمی خدمات (مضمون) معارف سلیمان نمبر ص 200)
حالانکہ بڑے بڑے مسلم صوفی شعراء کا کلام بھی شراب و شاہد کے ذکر سے خالی نہیں ، ابوسعید ابوالخیر، اور مولانا روم جیسے بزرگوں کے کلام میں بھی شراب کی رنگینیاں اور شاہد کی رعنائیاں موجود ہیں، حافظ کا تو پورا کلام رندی و سرمستی سے مملو ہے، در اصل یہ مشرقی شاعری کے مزاج و روایت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے، شراب و شاہد، چنگ و رباب ، گل و بلبل اور ہجر و وصال سب فارسی شاعری کے ایسے لوازم بن گئے ہیں کہ ان کے سہارے کے بغیر شاعری کے میدان میں ایک قدم بھی نہیں چلا جاسکتا، اور نہ ان سے صرف نظر کر کے کلام میں حسن و دلکشی پیدا ہوسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ حکیم فلسفی اور صوفیاء شعراء بھی ان استعارات و کنایات کے استعمال پر مجبور تھے، غالب نے تو اس حقیقت کو بہت ہی عمدہ پیرائے میں واشگاف کر دیا ہے۔
ہر چند کہ ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں بادہ و ساغر کہے بغیر
(اسداللّٰه خاں غالب)
اسی طرح سید صاحب نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خیام کی شراب در اصل دنیوی شراب نہیں تھی بلکہ وہ بادہ حقیقت تھی سید صاحب لکھتے ہیں :
"اس کی رباعیوں کی صحت کا اگر تعین بھی کر لیا جائے تو بھی یہ عامیانہ خیال درست نہیں کہ اس کی ہر رباعی میں شراب سے "دہی تلخوش” مراد ہے جو صوفیوں کے محاورے میں "ام الخبائث” ہے، اس لئے اس کی ہر رباعی کو جس میں بادہ و جام و ساقی کا ذکر ہے، تنہا شراب خانہ شمار نہیں کہہ سکتے۔ خیام کے میکدہ سخن میں شراب کی جتنی بوتلیں ہیں، صاحب ذوق کی نظر انداز کرتی ہے کہ وہ یکساں نوعیت کی نہیں ہیں۔
(خیام ص 236)
اسی طرح خمریہ شاعری کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
"چونکہ آب و ہوا اور ساری فضا میں شراب کا نشہ بھرا ہوا تھا اس لئے زاہد و عابد اور عالم و فاضل سے لے کر رند و آزاد تک اگر شراب پیتا نہ تھا تو شراب بولتا ضرور تھا، اور گل د بلبل کی طرح شراب و جام بھی تشبیہات و استعارات کا ضروری جزو بن گئے تھے۔”
(خیام ص 435)
علامہ اقبال نے اس کتاب کے متعلق بجا فرمایا ہے ,, عمر خیام پر آپ نے جو کچھ لکھ دیا ہے اس پر اب کوئی مشرقی یا مغربی عالم اضافہ نہ کرسکے گا۔،،
(اقبال نامہ مرتبہ شیخ عطاء اللہ ص 178)
مجموعی طور پر یہ کتاب سید صاحب کی علمی زندگی کا اہم ترین کارنامہ ہے، اور عمر خیام کی زندگی اور اس کی شاعری پر حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے،
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page