کوئی قوم اور معاشرہ تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا۔ صدیوں سے اقوام اور تہذیبوں کی ترقی تعلیم ہی پر منحصر رہی ہے۔ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام نے ہمیشہ علم سیکھنے اور اس کی تبلیغ و تشہیر کرنے پر زور دیا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق، تعلیم معاشرے کے کسی خاص طبقے یا جنس کی حد تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ، اسلام اپنے ماننے والے ہر مرد اور عورت کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ مسلمانوں میں یہ بات ‘ کہقرآن میں نازل ہونے والی پہلی آیت ’پڑھنے‘ یعنی علم کے حصول کی ترغیب دینے سے متعلق ہے‘ ہمیشہ سے ہی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ قرآن کی اس آیت اور اس جیسی دوسری آیتیں اور سنت رسول و آثار صحابہ سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے ماضی میں ایک ایسی تہذیب کو پروان چڑھایا جس کی بنیاد علم پر ہی تھی۔ مشرق سے لیکر مغرب تک، مسلمانوں نے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور بنی نوع انسان کی خدمت کی۔ جگہ جگہ تعلیمی ادارے قائم کئے۔ بغداد کا دار الترجمہ اور مدرسہ نظامیہ، مصر کا جامعہ ازہر، مراکش اور مسلم اسپین کی تعلیم گاہیں مسلمانوں کے روشن ماضی کی بہترین یادگاریں ہیں۔ یہ تعلیم گاہیں اس تعلیمی نظام کا حصہ تھیں جس کا ایک وسیع جال پوری اسلامی دنیا میں پھیلا ہوا تھا۔ اس تعلیمی نظام کو آج مدرسہ کے نام سے جانتے ہیں۔ مسلمان جب ہندستان آئے تو انہوں نے اس نظام تعلیم کو بھی یہاں متعارف کروایا۔ دہلی اور دیگر اہم شہروں میں بے شمار تعلیمی مراکز قائم کئے۔ حالانکہ مدرسہ کا لفظ آج کے دور میں خاص طور سے مذہبی تعلیمی اداروں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن ماضی کے انہی مدارس میں سیاستدان، سائنسدان، انجینئر اور ڈاکٹر وغیرہ سب ہی تعلیم پاتے تھے۔ ایک زمانے تک مدارس نے معاشرے کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کیا، لیکن آزادی کے بعد سے ہندستان میں مدارس کی تعلیمی حالت کمزور ہوتی گئی۔مدارس کی بگڑتی ہوئی حالت کا اثر مسلم معاشرے میں گرتی تعلیم کی شرح اور مفقود ہوتیں تہذیبی و اسلامی قدروں کی صورت میں نظر آنے لگا۔
آزاد ہندستان میں ، مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی و معاشرتی پستی کے باوجود بھی، بعض مسلمانوں نے مدرسہ کی تعلیمی روایت کو باقی رکھا۔ ان نا مساعد حالات میں بھی ان غیور مسلمانوں نے اس بات کو یقینی بنانے میں کہ مسلمانوں کے مذہبی علوم اور ان کے اقدار کی حفاظت کرکےانہیں آئیندہ نسلوں تک منتقل کیا جائے، اپنی زندگیوں کو وقف کر دیا اور مدارس کے ذریعہ بے شمار غریب مسلمانوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کئے۔ ایسے ہی گنے چنے افراد میں ایک نام شیخ عبد الستار سلفی کا بھی شامل ہے۔ ان کا تعلق جھارکھنڈ کے ایک چھوٹے سے گاوٴوں ، ولدھا ، سے ہے۔ انہوں نے جامعہ سلفیہ، بنارس، سے تعلیم حاصل کی۔ فراغت کے بعد شیخ عبد الستار صاحب نے اپنی ساری زندگی اسلام کی تعلیم کے فروغ کے لئے وقف کر دی۔ آپ کا گاوٴوں تعلیمی لحاظ سے بہت پسماندہ تھا۔ مذہبی تعلیم تو دور، وہاں کے عوام کو دنیاوی تعلیم بھی ٹھیک سے میسر نہیں تھی۔ لہذا، فراغت کے بعد، انہوں نے کسب معاش کی بجائے اپنے گاوٴوں کے غریب مسلمانوں کو اسلامی تعلیم کی فراہمی کے لئے وقف کر دیا۔ آپ کے گاوٴوں میں لڑکوں کے مقابلے میں ، لڑکیوں کے لئے کسی بھی مذہبی تعلیمی ادارے کا فقدان تھا۔ اسلئے انہوں نے لڑکیوں ہی کے لئے ایک تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا ارادہ کیا۔
انتھک کوششوں کے بعد بالآخر شیخ عبد الستار سلفی صاحب کو ۱۹۹۱ میں کامیابی ملی۔ آپ نے اپنے گاوٴں ، ولدھا، کے قریب واقع شہر، مدھوپور میں لڑکیوں کا ایک مدرسہ قائم کیا اور اس کا نام ’کلیہ التربیہ السلفیہ للبنات ‘رکھا۔ اس مدرسہ کے لئے انہوں نے ڈھائی ایکڑ کی وسیع زمین میں دو شاندار عمارت قائم کی۔ یہ عمارت ۳۵ کمروں پر مشتمل ہے، جو درس گاہوں اور طالبات کے رہنے اور کھانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اور تقریباً ڈیڑھ سو لڑکیا اس میں ہر وقت زیر تعلیم رہتی ہیں۔ ان کی تعلیم، کھانے اور رہنے کا انتظام مدرسہ انتظامیہ کی طرف سے ہی ہوتا۔
مدھوپور میں مدرسہ قائم کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ علاقہ ’ولدھا‘ کے مقابلے میں بڑا تھا اور یہاں زندگی کی دوسری تمام سہولیات بآسانی میسر تھیں۔ جس وقت انہوں نے یہ مدرسہ قائم کیا، اس وقت مدھوپور یا اس کے آس پاس کے علاقوں میں لڑکیوں کی مذہبی تعلیم کے لئے کوئی بھی مدرسہ موجود نہیں تھا۔ دنیاوی تعلیم کے مقابلے میں اسلامی تعلیم کا مقصد انسان کو تہذیبی قدریں اور اعلی کردار سے مزین کرنا ہے۔ لہذا اس مدرسے کو قائم کرنے کے پیچے شیخ عبد الستار صاحب کا خیال یہ تھا کہ ایک تو مسلم معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم پر کم ہی توجہ دی جا رہی تھی اور دوسری طرف اگر ہمارے معاشرے کی عورتیں تعلیم یافتہ ہوں گی تو وہ اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں اور معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ انہوں نے اس مدرسے میں اسلامی علوم کی اعلی تعلیم کا انتظام کیا۔مدرسہ کے نصاب میں ترجمہ و تفسیر کے ذریعہ قرآن کریم کی تفہیم، علم حدیث اور زبان و ادب میں عربی، فارسی، اردو وغیرہ شامل کیا۔ موجودہ حالات کے پیش نظر، جدید مضامین، جیسے انگلش، حساب، ہندی وغیرہ کی بھی تعلیم کا انتظام کیا گیا۔کلیہ التربیہ کے مقاصد میں صرف مسلم لڑکیوں کو اسلامی تعلیم سے آراستہ کرنا نہیں تھا۔ اسلئے مدرسہ میں ہی مدرسہ بورڈ کے امتحانات کے لئے لڑکیوں کے لئے تربیتی درسگاہیں قائم کی گئیں، تاکہ وہ فراغت کے بعد بورڈ کی ڈگریاں حاصل کرکے حکومتی سطح پر جو سہولیات فراہم کی گئی ہیں انہیں بھی حاصل کرنے کے قابل بنیں۔اس کے علاوہ، لڑکیوں کو خود کفیل بنانے کے لئے سلائی و کڑھائی کا شعبہ بھی قائم کیا گیا۔
کلیہ التربیہ السلفیہ للبنات گزشتہ تین دہائیوں سے پوری آب و تاب کے ساتھ قوم اور دین کی خدمت انجام دے رہا ہے۔اس عرصہ میں سینکڑوں طالبات نے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی اور ان میں متعدد ایسی رہیں جنہوں نے فراغت کے بعد مذہبی و غیر مذہبی اداروں میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ کورونا کے زمانے میں کچھ عرصہ کے لئے یہ مدرسہ بند ہوا تھا، لیکن حالات کے معمول پہ آتے ہی یہ دوبارہ اپنے مشن پر گامزن ہے۔ حالانکہ اس عرصے میں اسے بعض دشواریوں کا سامنا بھی ہوا، لیکن مخلص مسلمانوں اور شیخ عبد الستار صاحب کے حوصلوں نے اسے ثابت قدم رکھا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ مدرسہ ’کلیہ التربیہ‘ اسی شان سے مسلمانوں میں تعلیم کی شمع کو روشن رکھنے میں مددگار و معاون رہے۔ آمین!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page