ممتاز ناقد عبادت بریلوی نے ‘غزل اور مطالعۂ غزل’ لکھا ہے کہ ”غزل صرف عشق و محبت تک محدود نہیں ہے۔ اس میں ان موضوعات کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ اس میں ان موضوعات کے ساتھ ساتھ زندگی کے متنوع پہلوؤں کا احساس اور اس کی ترجمانی بھی موجود ہے۔ فلسفیانہ گہرائیاں بھی ہیں۔ سماجی اور معاشرتی احساس بھی ہے، تاریخی واقعات اور عمرانی نظریات کا عکس بھی ہے۔ صنف غزل کی عظمت کا راز تو اس میں ہے کہ وہ ان تمام پہلوؤں کو ایک ایسے سانچے میں ڈھال کر اور ایک ایسے رنگ میں رنگ کر پیش کرتی ہے جو اسی کے ساتھ مخصوص ہے۔ یہ رنگ وہ ہے جو غم دنیا کو بھی غم معشوق بنا دیتا ہے”۔ بطور صنف سخن غزل کی خوبیوں پر بہت کچھ لکھا بولا گیا ہے لیکن مذکورہ بالا جملے اس ضمن میں سب سے جامع تبصرہ کہے جا سکتے ہیں۔ اردو غزل کے صدیوں کے ارتقائی سفر میں آئی سب سے بڑی تبدیلی بھی یہی ہے کہ اس نے اپنے مباحث کو عشقیہ حوالوں کی حدود سے آزاد کرکے رنگ ہائے زیست کی طرح لامحدود بنا لیا ہے۔ تبدیلی کی یہ آہٹ کلاسیکی غزل میں ہی سنی جانی شروع ہو گئی تھی لیکن زیادہ تر شعرا کو غزل سے روایتی معشوق کو دیس نکالا دینے میں حجاب آتا رہا۔ ادھر کے دنوں میں جیسے جیسے جدید غزل اپنے جوبن پر آئی اس کے رنگین پیراہن میں زندگی کے رنگ اور ان کی دھنک سماتے چلے گئے۔ غزل کے فارمیٹ کی موضوعاتی تنوع کی خوبی اور ہر شعر میں نئے مضمون کی طرف انتقال کی آسانی نے شعرا کو مزید تجربات کا موقع دیا ہے۔ جدید غزل میں ایک منفرد تجربہ یہ بھی کیا گیا کہ ہر شعر میں مختلف موضوع ہونے کے باوجود مباحث میں نازک سا ربط رکھ دیا گیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ اب شعر کو دیکھنے کے دو دریچے کھل گئے۔ اگر شعر کو آئیسولیشن میں دیکھا گیا تو وہ اپنے ایک انفرادی اور مکمل مضمون کے ساتھ نظر آیا البتہ جب اسی شعر کی دیگر اشعار کے ساتھ مربوط قرائت کی گئی تو معانی کے نئے دروازے کھلتے نظر آئے۔ اس تبدیلی کو سمجھنے کے لئے مختلف غزلوں اور متفرق اشعار پر گفتگو کے بجائے صرف ایک غزل کو مثال بناکر دیکھ لیتے ہیں۔ یہ غزل جدید لب و لہجہ کے نسبتا نوجوان شاعر پروفیسر رحمان مصور کی تخلیق ہے اور ہم اس کے پانچ اشعار پر بات کریں گے۔ غزل کا مطلع ہے:
پچھلی شب خواب محبت کا دکھایا گیا تھا
صبح میں پیڑ سے لٹکا ہوا پایا گیا تھا
مطلع کی کرافٹ میں چونکا دینے کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ پہلا مصرع پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ کسی عمومی رومانی واردات کا ذکر ہے۔ مصرع ختم کرتے کرتے قاری ذہن کے گھوڑے دوڑاتا ہے اور اس امکان کو محسوس کرتا ہے کہ اگلے مصرع میں معشوق کی بے وفائی اور وعدے سے پھر جانے کا بیان ہوگا مگر جیسے ہی دوسرے مصرع کو پڑھتے ہیں تو دل ہل کے رہ جاتا ہے۔ واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں بالکل ہی مختلف واقعہ پیش آ گیا ہے اور بات تو آنر کلنگ کی ہو رہی ہے۔ یہیں پر غزل کی لامحدود استعداد بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ وہ ہر رنگ اور ہر دور کے مباحث کو اپنے میں سما لینے کا جگرا رکھتی ہے۔ اگلا شعر دیکھئے:
ان پہ ظاہر تھا میرا عشق حسینی تبھی تو
تپتے صحرا میں مجھے دھوکے سے لایا گیا تھا
یہاں شعر کو معانی کی تہ داریوں میں جس سلیقے سے باندھا گیا ہے وہ پھر چونکا دینے والا ہے البتہ ذرا سا غور کرنا شرط ہے۔ مطلب یہ کہ بظاہر یہ ایک تاریخی روایت کو کام میں لاتے ہوئے معشوق کی خاطر کوئے یار سے سوئے دار تک کے سفر کو تہہ کر لینے کا ذکر اور زمانے کی شقاوت و فریب کا نوحہ ہے۔ البتہ جیسے ہی قاری اس شعر کو مطلع کے پس منظر میں پڑھتا ہے تو یہ اسی کا تسلسل معلوم ہونے لگتا ہے۔ مطلع میں جو واقعہ پیش آیا یہ شعر اس کی تفصل بتاتا محسوس ہوتا ہے کہ واردات کو انجام کیسے دیا گیا؟ کس طرح خالص عشق کے جذبے کا فائدہ اٹھاکر ظلم کو انجام دیا گیا۔ اس کے بعد کا شعر ملاحظہ ہو:
پہلے سورج کیا کرتا تھا زمین کی گردش
پھر زمیں کو بھی اسی طرح گھمایا گیا تھا
موضوعاتی تنوع کی اس سے اچھی مثال کیا ہوگی کہ پہلے شعر میں آنر کلنگ اور دوسرے میں مذہبی اساطیری حوالے کے بعد تیسرا شعر سائنس اور عقائد کی کشمکش جیسے موضوع پر باندھا گیا۔ جو لوگ کلیسا اور سائنس کے نظریاتی جھگڑوں کی طویل تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں وہ شعر کو پڑھتے ہی سمجھ لیتے ہیں کہ یہاں کس کشمکش کا تذکرہ ہے؟۔ اس شعر میں ایک فنکاری اور ہے جو ذرا سا غور کرنے پر ظاہر ہو جاتی ہے۔ واضح مدعا ہونے کے باوجود شعر میں کلیسا، مذہب، سائنس یا گلیلیو جیسی کوئی صراحت نہیں کی گئی ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہوا کہ شعر رومانی اور تاریخی دونوں واردات میں کارآمد ہو گیا۔ اب کوئی چاہے تو اسے یوں بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ پہلے پہل کسی عاشق کے محبت لٹانے اور پھر بے پرواہ ہو جانے کا قصہ ہے۔ کوئی وقت تھا کہ وہ محبوب کی توجہ پانے کو بے قرار رہتا تھا لیکن اب جبکہ وہ خود لاپرواہ ہوا تو محبوب اس کے قرب کا تمنائی ہو گیا۔ غزل کا ایک اور شعر ہے:
دیکھنے والا تھا منظر وہ کھلی آنکھوں سے
جب میں زنجیر بکف شہر میں لایا گیا تھا
حق پسندی کی خاطر مقدر بننے والے مصائب کا ایک اختصاص یہ ہے کہ ان کا ذکر کرتے ہوئے انبساط کا احساس ہوتا ہے۔ مصائب ڈھاتے وقت ظالم کا یہی خیال ہوتا ہے کہ وہ مظلوم کو رسوا کر رہا ہے لیکن ہوتا یوں ہے کہ موقف کی حقانیت کا احساس مصائب کو بھی مظلوم کے وقار میں اضافے کا سبب بنا دیتا ہے۔ اس فلسفے کو مذکورہ شعر میں بڑے سلیقے سے نظم کر دیا گیا ہے۔ ہر چند کہ یہاں کوئی مخصوص پس منظر زیر بحث نہیں آیا لیکن اگر اسی غزل کے عشق حسینی والے سابقہ شعر کے پس منظر میں دیکھیں تو یہ انسانی حریت اور استقامت کا اظہار بن جاتا ہے۔ ہم دیکھتے جا رہے ہیں کہ غزل کا ہر شعر اپنے مضمون اور موضوع کے اعتبار سے انفرادی پہچان لئے ہوئے ہے۔ شاعر نے فنکاری یہ کی ہے کہ متفرق مضامین کو بھی ایک دوسرے سے مربوط کر دیا ہے۔ پانچواں شعر یوں ہے:
اس ہتھیلی پہ اگائے گئے زخموں کے گلاب
جس ہتھیلی پہ نیا خواب سجایا گیا تھا
جدید غزل کے بارے میں مجھ سمیت بہت سوں کا مسلک ہے کہ ان میں ہمارے عہد کا احوال شعری صورت میں ریکارڈ ہو رہا ہے۔ پروفیسر رحمان مصور کی زیر بحث غزل بھی اسی ترتیب احوال کا تسلسل معلوم ہوتی ہے۔ ان میں بھی مذکورہ بالا شعر سب سے خاص ہے۔ جن احباب کو گزشتہ دنوں ظاہر ہوئیں عوامی تحریکوں، دانش گاہوں کے طلبہ خصوصا طالبات کے ذریعہ ان میں قائدانہ کردار اور اس دوران سختیاں جھیلنے سے متعلق واقعات سے آگہی ہے وہ اس شعر کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ بہت سے اشعار مخصوص تاریخی واقعات کا حوالہ بن جاتے ہیں۔ یہ شعر مذکورہ احتجاج کے حوالے کے طور پر یاد رکھے جانے کے لائق ہے۔ ایک غزل کے چند اشعار کی مدد سے ہم نے دیکھا کہ جدید غزل اپنے موضوعاتی تنوع کو نبھانے اور مباحث کو مربوط کرنے کا عمل بیک وقت کس کامیابی سے انجام دے رہی ہے۔ ایک ہی تخلیق میں آنر کلنگ، مذہبی اساطیر، عقیدے اور عقیلت کی کشمکش، انسانی حریت اور عوامی مزاحمت جیسے موضوعات یکے بعد دیگرے ہر شعر میں آتے چلے گئے۔ شاعر نے مزید کامیاب تجربہ کرتے ہوئے ان یکسر مختلف موضوعات میں ایک باہمی ربط پیدا کر دیا۔ اب یہ غزل اس کی مثال بن گئی کہ اس کے اشعار انفرادی قرائت میں بھی مکمل ہیں اور اگر دیگر اشعار کے سیاق و سباق میں دیکھے جائیں تو معنی کے مزید دفتر کھلنے لگتے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |