نظم ’’جلوۂ شب‘‘ کے خالق کا نام عمیر ثاقب ہے۔ عمیر ثاقب ۲ ستمبر ۱۹۱۱ میں پیدا ہوئے۔ وہ بہار کے ایک ضلع سمستی پورکے محلے فاضل پور کے رہنے والے تھے۔ ان کے والد کا نام مولانا عبدالباسط تھا۔ مولانا عبدالباسط کی تعلیم و تربیت دیوبند میں مکمل ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے درس و تدریس کے لیے بگھونی کے المعروف مدرسہ اسلامیہ کا انتخاب کیا۔ عمیر ثابق کی پرورش بھی اپنے والد ماجد کے زیر تربیت ہوئی۔ لہذا عمیر ثاقب کا علمی شغف بھی روز بروز نکھرتا گیا۔
عمیر ثاقب کا ذہنی رجحان اردو ادب کی طرف تھا۔ عمیر ثاقب کا ذہن جب بالیدگی کی طرف سفر کر رہا تھا۔ اس وقت اردو ادب میں اقبال کی شاعری کا طوطی بول رہا تھا۔ اقبال کی شاعری دنیا ئے اردو میں ایک نئی لے اور سمت و رفتار لیے ہوئے تھی۔ فطری طور پر اس وقت ابھرنے والے زیادہ تر شعرا اقبال کی شاعری سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اگر کوئی شاعر و ادیب ان کا مقلد نہیں تھاپر ان کی شاعری کا معترض بھی نہیں تھا۔ عمیر ثاقب کا شماربھی حامیانِ اقبال میں کیا جاسکتا ہے۔ ان کی شاعری میں اقبال کے لیے عقیدت و محبت کی کرن پھوٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔
’’جلوۂ شب‘‘ ۱۲ اشعار پر مشتمل ایک چھوٹی سی نظم ہے۔ زیر نظم ’’ڈھاکہ ،۲۴جنوری ۱۹۵۸ء ‘‘ڈلی ہوئی ہے ۔نظم کے عنوان جلوۂ شب کے نیچے بریکٹ میں (ایک بلبل رنگیں نواکی روانگی سے متاثر ہوکر) لکھا ہوا ہے۔ جس سے پہلی قرأت میں قاری کو اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ نظم کا پس منظر کیا ہے۔ کیونکہ کہیں بھی اقبال کو براہِ راست مخاطب نہیں کیا گیا ہے ۔ لیکن نظم کے باربار مطالعہ سے قاری کو علم ہو جاتا ہے کہ نظم کا مخاطب کوئی معتبر شاعر یا ادیب ہے،جس سے شاعر کو کافی عقیدت و محبت ہے۔ پھر نظم کے فلسفیانہ انداز، اسکا لہجہ، نظم میں بیان کی گئی تمام خصوصیات اور فنّی لوازم قاری کے ذہن کو اقبال کی شخصیت پر مرکوز کردیتے ہیں۔
نظم ’’جلوۂ شب‘‘ تکنیکی اعتبار سے غزل کی ہئیت میں لکھی گئی ہے۔ مطلع اورحسن مطلع کا بھی التزام رکھا گیا ہے۔ غزل کی اہم خصوصیات یہ ہے کہ غزل کا ہر شعر ایک مکمل اکائی ہوتا ہے۔ یہ نظم اس شرط کو بخوبی پورا کرتی ہے۔ البتہ غور کرنے پر اس نظم میں ایک قسم کی وحدت کا اطلاق ہوتا ہے۔ جلوۂ شب ایک تمثیلی نظم ہے۔ یہ نظم اقبال کے انتقال پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھی گئی ہے۔ جسے اقبال کا مرثیہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
۱۹۳۸ میں اقبال کا انتقال ہوا۔ اقبال کی وفات صرف ایک شخص کی موت نہ ہوکر بلکہ ایک پورے عہد کا خاتمہ تھا۔ اس ناقابل تلافی نقصان کا اثر کسی نہ کسی طور پرتمام اہل علم و ادب پر پڑا۔ لہذاتمام شعراء و ادباء نے اپنی تحریروں سے اقبال کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ ان میں ہی ایک نام عمیر ثاقب کا بھی ہے۔ انہوں نے نظم ’’جلوۂ شب‘ لکھ کر اقبال کو خراج تحسین دیا ہے۔ نظم کی ابتدا ذیل کے پرتاثیر مطلع سے ہوتی ہے۔
الوداع ! اے شمع محفل الوداع
اے مرے معصوم قاتل الوداع
اتبدا سے ہی نظم قاری کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ اور تجسس کی کیفیت اسکے پورے وجود میں سرایت کرجاتی ہے کہ شاعر کا مخاطب شاید اسے چھوڑ کر چل بسا ہے۔ اور شاعر اس پر کف افسوس ملتے ہوئے اسے الوداعیہ کلمات سے نواز رہا ہے۔ لہذا قاری کا ذہن پوری نظم کو پڑھنے کے لیے چوکنّا ہوجاتا ہے۔جو ایک نظم کی کامیابی کا ضامن ہے فنّی نقطہ نظر سے نظم کی ایک اورخوبی اسکا کامیاب اور پرتاثیر مطلع بھی ہے۔ جس سے عمیر ثاقب کی ذہنی پختگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔’’ شمع محفل‘‘ کا استعارہ مطلع میں جان ڈال دیتا ہے۔ جس سے اندازہ ہو تا ہے کہ گزرنے والی شخصیت کسی پروقار عہدے کی متحمل تھی۔اسی نقطہ سے قاری کا ذہن شاعر کے مخاطب کے تعاقب میں نکل پڑتا ہے۔ نظم کے دوسرے شعرمیں شاعر کہتاہے۔
لائے تم اپنے جلو میں وہ بہار
مان لی فصلِ خزاں نے جس سے ہار
مذکورہ شعر میں شاعر نے اپنے مخاطب کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمہارے دم سے خزاں کو شکست ہو گئی یعنی اقبال کی شاعری سے پہلے اردو کی شعری دنیا میں روایت پر ستی کی گہماگہمی تھی۔ اگرچہ حالی اور آزاد کی مشترکہ کوششوں سے جدید شاعری کی بنیاد پڑگئی تھی۔ لیکن اقبال نے اردو شاعری کو ایک خاص سمت و رفتار عطا کی۔ اقبال نے پرانے رموز و علائم، تشبیہات و استعارات جیسے گل و بلبل، ساقی و مہ خانہ، شمع و پروانہ، شاہین و ابلیس وغیرہ کو ایک خاص علامت میں برتا۔ جسکی تقلید میں شاعروں کا ایک بڑا گروہ نکل کر سامنے آیا۔ عمیر ثاقب نے انہیں تمام خصوصیات کو اپنی نظم کے ان ا شعار میں اشارہ کیا ہے۔ آگے بڑھتے ہوئے نظم کے دوسرے اور تیسرے شعر میں کہتے ہیں۔
تم جو محفل میں ہوئے نغمہ سرا
گونج اٹھے بربط فطرت کے تار
اہل محفل کا لٹا صبر و سکوں
جان و دل سے ہو گئے تم پر نثار
علامہ اقبال کے کلام میں جہاں ایک طرف علمیت کا زور، تخیّل کی بلندی اور معنی آفرینی تھی وہیں دوسری طرف ان کی آواز میں بلاکا ترنم اور جاذبیت بھی تھی۔ ماہرین اقبال کے مطابق جب وہ ’’انجمن حمایت الاسلام‘‘ کے جلسوں میں اپنی نظمیں ترنم کے ساتھ پڑھتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ پورے مجمع میں سکوت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پورے مجمع کی حالت یہ ہوتی کہ اقبال کی آنکھوں سے اشکوں کی جتنی لڑی گرتی، اس سے کہیں زیادہ اہل مجمع زاروقطار سے اشک افشانی کرتے نظر آتے۔ عمیر ثاقب نے اپنے اس شعر میں ’’بربط فطرت‘‘ کی ترکیب استعمال کرکے ذہنی مشاطگی کا ثبوت دیا ہے۔بربط ستار کی ایک قسم ہوتی ہے۔ لہذا اس ترکیب کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے ساتھ قدسِ آسمانی بھی گلوگیر ہوجایاکرتے تھے۔ اقبال کی فکر کا ماخذ بنیادی طور پر قرآن و احادیث تھے۔ لہذا یہاں پر بربط فطرت کی ترکیب اوپر بیان کیے گیے ماحول سے کافی مطابقت پیدا کردیتی ہے۔
ہائے وہ برق تبسّم کی چمک
اف رے وہ تیری نگاہِ سحر کار
مذکورہ شعر میں عمیر ثاقب نے اقبال کی شخصیت میں شامل ایک مخصوص پہلوپر روشنی ڈالی ہے۔سحر کاری اور صبح صادق کی اقبال کی نظرمیں ایک خاص اہمیت تھی۔ وہ رات کے تہائی حصے میں اٹھ کر عبادت و ریاضت کیا کرتے تھے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ سحر خیزی کا ذکر کیا ہے ۔ ایک بہت مشہور شعر ہے۔ ملاحظہ ہو:۔
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی
محولہ بالا شعر سے اقبال کے نظریہ سحر گاہی کے متعلق بخوبی علم ہوجاتا ہے ۔ جس کی شاعرانہ تشریح عمیر ثاقب کے درج بالا شعر میں کی گئی ہے۔اور اسی شعر پر پہنچ کر قاری کے سامنے آئینہ کی طرح شفاف ہوجاتا ہے کہ یہ نظم اقبال کی شان میں ہی لکھی گئی ہے۔آگے بڑھتے ہوئے عمیر ثاقب نے اقبال کی شخصیت و شاعری کا خاکہ نہایت مدلل ترکیبوں میں کھینچ دیا ہے۔
مرگ نینی، گل بدن، کافر ادا
سروقد، غنچہ دہن اور گلعذار
خوش گلو، شیریں سخن اور زہرہ جبیں
چال میں مستی اور آنکھوں میں وقار
میں سراپا تیرا اے جاں! کیا لکھوں!
خالق اکبر کا تو ہے شاہکار
درج بالا اشعار میں شاعر نے اپنے مخاطب کی سراپانگاری میں محبت اور عقیدت مندی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ تمام جسمانی اوصاف بیان کرنے میں استعمال کی گئی مرگ نینی، گل بدن، کافر ادا، سروقد، غنچہ ذہن اور گلعذار جیسی ترکیبیں مخاطب کی بڑی جاندار تصویر قاری کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ اس کے بعد شاعر مخاطب کی تحریری اور تقریری صلاحیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے کہ میں ترا سراپا لکھنے سے قاصر ہوں الغرض تو خالق اکبر کا شاہکار ہے۔ عمیرثاقب نے اقبال سے اپنی محبت و عقیدت کو اپنی شاعری کی شکل میں ایک سادہ و پاکیزہ پیکر عطا کر دیا ہے۔
دے کر کچھ لمحے خوشی کے چل دیے
لے چلے تم لوٹ کر صبر و قرار
اٹھ گئی محفل، ہوئے خاموش ساز
چھا گیا ہر سو، سکوت کوہسار
نظم کے آخری حصّے میں شاعر اپنے مخاطب کے دنیا سے رخصت ہوجانے پر کافی افسردہ و مضمحل نظر آتا ہے۔ دست افسوس ملتے ہوئے شاعر اپنے مخاطب سے کہتا ہے کہ تیرے چلے جانے سے بزم ادب درہم برہم ہوگئی ہے۔ اور تیرے پیچھے رہ جانے والے وارثین ادب رنج و الم کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ جس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محفل ادب میں کوہسار کی خامشی نے گھر کرلیا ہو۔ عمیر ثاقب کو نادر تر کیبیں استعمال کرنے میں کافی مہارت تھی۔ رنج و الم کی کیفیت پر سکوتِ کوہسار کی ترکیب بہت برمحل استعمال کی گئی ہے۔ آگے بڑھتے ہوئے اپنے مخاطب کو دعائیہ کلمات سے نوازا ہے۔ نئی محفل اور نئی منزل پر سرخ روئی کے لیے دعا کی ہے۔ اور مبارکباد دیتے ہوئے نظم کے مطلع پر ہی نظم کا اختتام کردیاہے۔ یہاں پر عمیر ثاقب نے روایت شکنی کی ہے اور نظم میں مقطع کا التزام نہیں رکھا ہے۔ جوان کی ایک اچھی کوشش کہی جاسکتی ہے ملاحظہ ہو۔
ہو مبارک محفل غشاق نو
راس آئے منزل نو کی بہار
الوداع! اے شمع محفل الوداع
اے مرے معصوم قاتل الوداع
عمیر ثاقب کی نظم کے اس تجز یے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں جس طرح اقبال کی شخصیت سے عقیدت و شیفتگی تھی اسی طرح ان کی تحریریں بھی اقبال کی تحریروں سے متاثر نظرآتی ہیں۔ انہوں نے اقبال کی صحت مند تقلید کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ جہاں تک اقبال کی فکری جہات کا تعلق ہے تو اس میں ایک بحر بیکراں موجزن ہے۔ جس سے عمیر ثاقب کی شاعری بری الذّمہ نظر آتی ہے۔ الغرض یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری کی دریافت اردو ادب کے لئے ایک صحت مند اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔
نوٹ: مضمون نگار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ریسرچ اسکالر ہیں۔
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |