اردو شاعری کے انتقادِ ادب میں موضوعی اور ہئیتی صنف سخن کو لے کر ہمیشہ سے بحث رہی ہے۔ غزل، نظم، مرثیہ، مثنوی، قصیدہ اور رباعی میں کچھ اصناف موضو عی ہیں تو کچھ ہیئتی،جیسے مرثیہ صرف موضوعاتی صنف کے ذیل میں آتا ہے، قصیدہ اور مثنوی کو ہم موضوعی اور ہئیتی دونوں اعتبار سے پہچانتے ہیں، جبکہ غزل اور رباعی خالص ہیئتی صنف سخن ہیں۔ اس کے علاوہ نظم کو ہم نہ تو ہیئتی صنف کے ذیل میں رکھ سکتے ہیں، نہ ہی صرف موضوعی، نہ ہیئتی اور موضوعی دونوں ہی۔ بلکہ اس میں ہر طرح کے مضامین بیان کیے جاسکتے ہیں، اور ہیئتی اعتبار سے مسدس، مثمن، ترجیع بند کے علاوہ غزل کی ہئیت میں بھی نظم لکھی جاتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ نظم کا اطلاق تمام صنف سخن جیسے مثنوی، مرثیہ، قصیدہ وغیرہ پر بھی کیا جاتا ہے اور ایک خاص صنف سخن کی حیثیت سے بھی پہچانی جاتی ہے۔
اسی خاص صنف سخن کی حیثیت سے نظم میں شعراء نے طرح طرح کے تجربے کیے ہیں۔ ان ہی شعراء میں ایک نام عمیر ثاقب کا بھی ہے۔ عمیر ثاقب کا اصل نام ابو ظفر محمد امین اور تخلص ظفر تھا، لیکن محفل ادب میں ان کی شناخت عمیر ثاقب کے نام سے ہوئی۔ وہ ۲/ ستمبر 1911ء میں سمستی پور کے ایک محلے فاضل پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کانام مولانا عبد الباسط تھا۔ آپ بگھونی کے مشہور مدرسہ اسلامیہ میں استاد کی حیثیت سے فائز ہوئے۔ مولانا عبد الباسط دینی علوم پر دسترس رکھتے تھے۔ لہذا عمیر ثاقب نے بھی اپنے والد کے جوار شفقت میں رہ کر علم و ادب سے آشنائی حاصل کی۔ لیکن ان کا میدان اپنے والد سے مختلف ٹھہرا۔ انھوں نے ایوانِ اردو میں اپنی شناخت قائم کی۔
اردو شاعری میں انھوں نے کافی مشق سخن کی۔ ان کی شاعری وقت کے گرد تلے دب کر قارئین ادب کی نظروں سے اوجھل تھی۔ حال ہی میں ان کی شاعری کا ایک حصہ دستیاب ہوا ہے۔ انھوں نے موضوعی اور ہئیتی دونوں صنف سخن میں کافی تجربے کیے ہیں۔ ان کی نظمیں ”جلوۂ شب“،”اقبال“اور”شب وصل“ میں ہئیت کے تجربے کامیاب ہیں۔”شب وصل“ بھی اسی طرح کی ایک نظم ہے۔ موضوعی اعتبار سے جس پر ایک طرف تو نظم کا اطلاق ہوتا ہے تاہم دوسری جانب ہئیتی اعتبار سے غزل کا۔ لیکن اگر نظم سے اسکے موضوع ”شب وصل“ کو ہٹا دیا جائے تو اس میں وہ تمام خصوصیات ملتی ہیں جو غزل مسلسل کا خاصہ ہیں۔ یعنی نظم”شب وصل“ غزل کی ہئیت میں لکھی گئی ہے۔ اس میں غزل کے تمام اجزائے ترکیبی جیسے مطلع، مقطع، ردیف و قافیہ کا التزام کیا گیا ہے لیکن یہ صنف اپنے موضوع ”شب وصل“ کے اعتبار سے غزل کی ہئیت میں نظم ہی قرار دی جائے گی۔عنوان ”شب وصل“ کی ترکیب سے ہی نظم کا موضوع ظاہر ہے۔ عشق و محبت اور وصال نظم کا مرکزی خیال ہے۔ اردو کے تقریباً تمام شاعروں نے عشق و محبت اور وصل کی تمام کیفیات کو اپنی شاعری میں برتا ہے۔ اسی روایت کی پاسداری عمیر ثاقب نے بھی اپنی نظم ”شب وصل“ میں کی ہے۔ نظم کل ۷/ اشعار پر مشتمل ہے، جو عمیر ثاقب نے بلسنڈمیں ۴۱/ اپریل ۴۵۹۱ء میں تحریر کیا ہے۔ پوری نظم میں عشق مجازی کی عکاسی ملتی ہے۔ عمیر ثاقب کی اس نظم میں وصل اور وصل کے لمحات کی مختلف کیفیات کا بیان ملتا ہے۔ نظم کی شروعات شاعر نے اس طور پر کی ہے کہ
اللہ رے! وہ پہلی ملاقات کا عالم
بیتابیئ شوق و حجابات کا عالم
سرگوشیوں میں حرف و حکایات کا عالم
اور شوخ نگاہوں کے اشارات کا عالم
درج بالا دونوں اشعار میں شاعر نے عاشق و معشوق کی پہلی ملاقات کا ذکر شاعرانہ انداز میں کیا ہے۔ جب دو محبت کرنے والے ایک دوسرے سے پہلی مرتبہ ملتے ہیں تو دونوں کی حالت غیر ہوتی ہے۔ دونوں میں حالت بے قراری یکساں ہوتی ہے۔ خوف و مسرت کی ملی جلی کیفیت کی سرشاری دونوں کے دل و دماغ میں چھائی ہوتی ہے۔ بہت کچھ کہنے سننے کی چاہت لیے کچھ نہ کہہ پانے کی حالت سے دونوں ہی بے تاب رہتے ہیں۔ قوت گویائی کے علاوہ محبت کرنے والوں کے تمام جسمانی اعضاء ایک دوسرے سے عشق کی روداد بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ ان ہی تمام کیفیات کا ذکر شاعر نے ان دو اشعار میں بیان کیا ہے۔
اگرچہ عشق و محبت اور ہجر و وصال کے مضامین کو اردو ادب میں تمام شاعروں نے نظم کیا ہے جن میں کچھ شاعروں نے اپنی سخن وری سے محبت کی کیفیت کو بیان کرنے میں اپنے محبوب کی پاکیزگی اور عزت و عصمت کو اس طرح بیان کیا ہے جس کو پڑھ کر قاری کے دل سے ایک لطیف احساس کا گزر ہوتا ہے۔ اسی ذیل میں ہم عمیر ثاقب کی شاعری کو بھی رکھ سکتے ہیں۔ عمیر ثاقب نے اپنی اس نظم میں شب وصل کی پہلی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ نظم ابتداء، ارتقاء اور انتہا تینوں سطحوں سے ہوکر گزرتی ہے۔
آگے بڑھتے ہوئے نظم اپنے تدریجی ارتقاء پر آگے بڑھتی ہے یعنی شروع کے دونوں شعر میں عاشق و معشوق کے ایک دوسرے کے دیدار، گفت و شنید میں ہچکچاہٹ اور جھجھک کی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے تو آگے کے دو اشعار اس کی ترقی یافتہ شکل ہیں۔
اک سحر طلسمی سے شب روکش جنت تھی
اللہ رے اعجاز طلسمات کا عالم
آغوش محبت میں وہ حسن کا شرمانا
بیتائی دل کی مکافات کا عالم
مذکورہ اشعار میں محبت کرنے والے شب وصل کی ابتدائی مراحل سے گزر کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔پھر شاعر تصور کو بروئے کار لاکر گویا ہوتا ہے کہ میں اس شب ایک طلسم میں تھا اور طلسم کا یہ عالم تھا کہ رات روکش جنت ہو گئی تھی اور محبوب کا پہلو نشیں ہوکر شرمانا اس جادوئی کیفیت میں اضافہ کر رہا تھا، کسی شاعر کا کلام اسی مناسبت سے قابل ذکر ہے کہ
؎کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے
کہا یہ جاتا ہے کہ کسی کام کوکرنے میں اُتنا مزہ نہیں ہے یاوہ کام اُتنا باعث فرحت نہیں ہوتاجتنا کہ اس کام کا تصور ذہن و دل کو آسودگی بخشتا ہے، اور پھرجب وہ تصور محبو ب کے پہلو نشیں کا ہو تو اس کی بات ہی دیگر ہے۔ آگے بڑھتے ہوئے شاعر نے وصل کی رات میں کیے گئے عہد و پیمان کا ذکر بڑے شاعرانہ انداز میں کیا ہے۔
پابندیئ آئین محبت کی قسم کھانا
ابدیت الفت کی مناجات کا عالم
دو محبت کرنے والے جس طرح جوش وجذبے کے ساتھ تا عمر ساتھ نبھانے، خوشی و غم ہر حالت میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ اسی کی شعری تعبیر عمیر ثاقب نے بہت سادگی کے ساتھ اپنی نظم کے اس شعر میں کردی ہے۔ شب وصل کے آخری پہر میں پاکیزگی و طمانیت کے ملے جلے احساس سے محبوب کے چہرے پر ابھرنے والی جاذبیت کا ذکر شاعر نے اگلے شعر میں بڑے اچھے انداز میں کیا ہے۔
مستی بھرے انداز میں انگڑائیاں لینا
مخمور سی آنکھوں میں خرابات کا عالم
مذکورہ شعر کو پڑھتے ہی قاری کے ذہن میں فراق گورکھ پوری کے درج ذیل شعر کا عکس پوری طر ح ابھر جاتا ہے۔
؎ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست
تیرے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
آخر میں شاعر شب وصال کے تمام لمحوں کو تصور میں یکجا کرکے ذہن و دل کے سرور کا سامان کرتے ہوئے طلسم میں کھوکر گویا ہے کہ
ثاقب ہے مجھے یاد ابھی وہ رات سہانی
ہے پیش نظر پہلی ملاقات کا عالم
٭٭٭٭