اسماعیل میرٹھی کا شمار اردو کے اہم شعرا میں ہوتا ہے۔انہوں نے مختلف موضوعات پر نظمیں کہی، جدید نظم نگاری میں اسماعیل میرٹھی پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اپنی نظموں میں ہئیت کے تجربے کئے۔ان کی شاعری میں معاصر رویے سے انحراف بھی ملتا ہے۔انہوں نے اپنی شاعری کا آغاز تو غزل گوئی سے کیا مگر اس کے بعد انہوں نے تقریبا تما م شعری اصناف میں طبع آزمائی کی۔مولانا اسماعیل میرٹھی کی شاعری میں تاریخی، قومی، سماجی، اخلاقی، علمی تصوف اور دیہی زندگی سے متعلق موضوعات ملتے ہیں۔اسماعیل میرٹھی کے ساتھ ایک بڑی نا انصافی یہ ہوئی کہ انہیں بچوں کا شاعر اور ادیب سمجھ لیا گیا،یہ ایک المیہ ہے۔ میرے کہنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ بچوں کا ادیب ہونا کوئی عیب کی بات ہے یا اس سے شاعر و ادیب کی تضحیک کا کوئی پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ دراصل کسی بھی ادیب کو کسی خانے میں مقید کرنے سے اس کے متن کی جہتیں محدود ہو جاتی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ اسماعیل میرٹھی کے یہاں بچوں پر کہی گئی نظموں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ وہ بچوں کی نفسیات سے زیادہ واقف تھے،اور اس کی ایک بڑی وجہ ان کا استاد ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بچوں کے لیے جو نظمیں کہی وہ یقینا بچوں پر لکھی گئی نظموں کی پہلی فہرست میں شمار کیے جانے کے قابل ہیں۔ان نظموں میں فطرت کا حسن ابھر کر سامنے آتا ہے، ان نظموں کی ایک خاص بات یہ کہ اس میں مسرت، سادگی اور جوش پایا جاتا ہے۔چونکہ اسماعیل میرٹھی نے ادب اطفال پر زور دیا شاید یہی وجہ ہے کہ بیشتر ناقدین نے انہیں بچوں کے ادیب کے طور پر دیکھا اور پیش کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں بڑے کینوس میں دیکھا جائے۔ بہرحال یہاں میرا ارادہ ان کی مشہور نظم جس کا عنوان نظم”بارش کا پہلا قطرہ کا تجزیاتی مطالعہ“ کا جائزہ لینا ہے۔ میں نے مذکورہ نظم کی روشنی میں اسماعیل میرٹھی کی نظم نگاری کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
اردو نظم نگاروں نے بارش کو موضوع بنا کر کئی دلکش، خوبصورت اور لازوال نظمیں کہی ہیں۔اس ضمن میں مولانا الطاف حسین کی نظم ”برکھا رت“کو خاص اہمیت حاصل ہے۔حالی نے اپنی نظم”برکھا رت“ میں برسات سے قبل کی صورت حال کو پیش کرتے ہوئے بارش کے بعد آئی تبدیلی کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ اسماعیل میرٹھی کی مذکورہ نظم ان معنوں میں برکھا رت سے مختلف ہے کہ انہوں نے برسات کی اہمیت کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بارش کے اس پہلے قطرے کی بہادری کو مرکزیت دی ہے۔بلکہ اسماعیل میرٹھی کے یہاں بارش کا پہلا قطرہ ایک علامت بن جاتا ہے۔ اس نظم کو پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسماعیل میرٹھی نے ایک خاص مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ نظم کہی ہے۔ نظم کا ابتدائیہ حصہ ملاحظہ کریں:
گھنگھور گھٹا تُلی کھڑی تھی
پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی
ہر قطرہ کے دل میں تھا یہ خطرہ
ناچیز ہوں میں غریب قطرہ
تر مجھ سے کسی کا لب نہ ہوگا
میں اور کی گوں نا آپ جوگا
کیا کھیت کی میں بجھاوں گا پیاس
اپنا ہی کروں گا ستیا ناس
اسماعیل میرٹھی کی بیشتر نظموں کا مقصد اصلاح قوم ہے۔اس غرض سے انہوں نے کہیں بے جان اشیاء کا سہارا لیا اور کہیں قدرتی وسائل کو استعمال کیا ۔وہ قوم و ملت کے اندر حوصلہ اور اس کی اصلاح کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ دراصل وہ ان کرداروں کی آڑ میں قوم کو محنت بہتر اخلاق اور قوت عمل کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ نظم کے پہلے حصے کو پڑھتے ہوئے ہمیں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ شاعر قوم کے اندر حوصلہ اور عمل کے جذبہ کو پیدا کرنا چاہتا ہے۔ گھنگھور بادل ہونے کے باوجود بارش کی بوندیں اس بات کے لئے خود کو تیار نہیں کرپارہی ہیں کہ آخر کون پہلے جائے گا، ہر بوند کو اس بات کا خوف ہے کہ وہ زمین کی تپش سے جل جائے گا۔ اگر ہم اس نظم کے سن اشاعت کو پیش نظر رکھیں تو ہمیں اس بات کا احساس ہوجائے گا کہ اسماعیل میرٹھی کے عہد میں کس قسم کا ماحول رہاہوگا۔ 1857 کی ناکام جنگ آزادی کے بعد انگریزی حکومت نے بالخصوص مسلمانوں پر جو ظلم ڈھائے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ قوم کے لیے بہتر کرنے کا جذبہ رکھنے والے مصلح قوم اس بات سے خوفزدہ نظر آتے ہیں کہ کیا وہ قوم و ملت کی خدمت کر سکیں گے۔ ان کی حالت بھی بارش کے ان بوندوں جیسی ہی ہے،یعنی جو خوف بارش کے ان بوندوں کو ہے کہیں نہ کہیں ہمارا سماج بھی اسی طرح خوفزدہ ہے۔ بارش کی بوندوں کی زبانی اسماعیل میرٹھی نے ان حالات کا ذکر کیا ہے۔
خالی ہاتھوں سے کیا سخاوت
پھیکی ہاتھوں میں کیا حلاوت
کس برتے پہ میں کروں دلیری
میں کون ہوں کیا بساط میری
ہر قطرہ کے دل میں تھا یہی غم
سر گوشیاں ہو رہی تھیں باہم
کھچڑی سی گھٹا میں پک رہی تھی
کچھ کچھ بجلی چمک رہی تھی
بارش کی بوندوں کا آپس میں گفتگو کرنا بلکہ سرگوشی کرنا اس بات کی جانب بھی اشارہ ہے کہ ان کے اندر ہمت کی کمی ہے، وہ خوفزدہ ہیں اوررہنمائی کرنے کے بجائے رہنما کی تلاش میں ہیں۔ ان بوندوں کو اس بات کا خدشہ لاحق ہے کہ اگرانہوں نے پیش رفت کی تولوگوں کو سیراب کرنے اور پیاس بجھانے کے بجائے زمین کی تپش سے اس کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔ مگر ان بوندوں کے درمیان ایک ایسی بھی بوند تھی جس نے ہمت اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے اور اپنے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کا ارادہ کیا۔ اشعار دیکھئے:
اک قطرہ کہ تھا بڑا دلاور
ہمت کے محیط کا شناور
فیاض و جواد و نیک نیت
بھڑکی اس کی رگ حمیت
بولا للکار کر کہ آؤ!
میرے پیچھے قدم بڑھاؤ
بارش کا یہ قطرہ جسے اسماعیل میرٹھی نے پہلا قطرہ لکھا ہے، وہ کون ہے؟ یکبارگی کو ہمارا ذہن سرسید احمد خاں کی طرف جاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر کے حصے میں بیان کیا ہے کہ 1857 کی ناکامی صرف جدوجہد آزادی کی ناکامی نہیں تھی بلکہ مسلمانوں کے حوصلے کی شکست بھی تھی، انگریزوں نے اس بغاوت کا انتقام بالخصوص مسلمانوں سے لیا، گویا حکومت کے چھین جانے کے ساتھ مسلمانوں کو قتل و غارت گری کا شکار بھی ہونا پڑا۔ ایسے نازک موقع پر مسلمانوں کے اندر اعتماد کی کمی پیدا ہوگئی۔ پوری ملت ایک انتشار کی کیفیت سے دوچار تھی،حالانکہ اس وقت علماء کرام کی ایک جماعت موجود تھی، ان کے اندر قوم و ملت کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ بھی تھا، مگر ان کی حالات بارش کی ان بوندوں جیسی تھیں جسے اپنے مقصد کی ناکامی کے ساتھ ساتھ فنا ہونے کا خطرہ بھی درپیش تھا۔ ایسے موقع پر ایک رہنما جو پورے آب و تاب، ہمت و شجاعت اور نیک نیت سے ہمارے سامنے آیا وہ کوئی اور نہیں سرسید تھے۔سرسید نے مسلم قوم کی اصلاح کی ذمہ داری کو اپنا فرض العین تسلیم کیا، اور بارش کے پہلے قطرے کی طرح ان کے اندر جوش و جذبے پیدا کیے، ان کی حمیت کو بیدار کیا اپنے قوم کو للکارتے ہوئے وہ کہا جسے بارش کے پہلے قطرے کی زبانی اسماعیل میرٹھی نے پیش کیا ہے:
کر گزرو جو ہوسکے کچھ احسان
ڈالو مردہ زمیں میں جان
یارو! یہ ہچر مچر کہاں تک
اپنی سی کرو بنے جہاں تک
مل کر جو کروگے جاں فشانی
میدان پہ پھیر دو گے پانی
کہتا ہوں یہ سب سے بر ملا میں
آتے ہو تو آؤ لو چلا میں
یہ کہہ کے وہ ہوگیا روانہ
”دشوار ہے جی پہ کھیل جانا“
ہر چند کہ تھا وہ بے بضاعت
کی اس نے مگر بڑی شجاعت
ظاہر ہے بارش کے پہلے بوند نے جس طرح ہمت کا مظاہرہ کیا اور اپنے ساتھیوں کے اندر ایک جوش بھر دیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ ساتھی جو اب تک کشمکش کا شکار تھے، انہوں نے بھی پہلے قطرے کی للکار پر لبیک کہا۔
دیکھی جرأت جو اس سکھی کی
دو چار نے اور پیروی کی
پھر ایک کے بعد ایک لپکا
قطرہ قطرہ زمیں پہ ٹپکا
آخر قطروں کا بندھ گیا تار
بارش لگی ہونے موسلا دھار
پانی پانی ہوا بیاباں،
سیراب ہوئے چمن خیاباں
تھی قحط سے پائمال خلقت
اس مینہ سے ہوئی نہال خلقت
جرأت قطرہ کی کرگئی کام
باقی ہے جہاں میں آج تک نام
اتحاد کی اہمیت کی جانب مذہبی صحیفوں سے لے کر ادبی کتابوں میں ذکر ملتا ہے۔اتحاد کامیابی و کامرانی کی علامت ہے، یہی سبب ہے کہ بارش کا ہر قطرہ انفرادی طور پرپیش رفتی سے گھبرایا ہوا تھا، مگر جیسے ہی پہلے قطرے نے پیش رفت کی اور ان کے اندر اتحاد پیدا ہوا، بارش نے پورے ماحول بیاباں، خیاباں گویا پوری خلقت کوسیراب کردیا۔ ٹھیک ویسے ہی جب سرسید احمد خاں نے قوم کے اندر جواتحاد کی جوت جگائی تھی اسی کا اثر تھا کہ سرسید کی کوشش نے ہندوستانی مسلمانوں کے اندر سماجی، سیاسی، علمی، ادبی اصلاحات کئے جس کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کے اندر انقلابی طور پر تبدیلی آئی۔ یہی سبب ہے کہ سرسید آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ اسماعیل میرٹھی کا یہ شعر اسی جانب اشارہ کرتا ہے:
جرأت قطرہ کی کرگئی کام
باقی ہے جہاں میں آج تک نام
جیسا کہ میں نے ذکر کیا اسماعیل میرٹھی کی نظموں میں اصلاح کا کوئی نہ کوئی پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ مذکورہ نظم ”بارش کا پہلا قطرہ“ بھی اس سے الگ نہیں۔ اس نظم میں اسماعیل میرٹھی نے اتحاد کی اہمیت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ یہی نہیں اس نظم کی قرأت کرتے ہوئے ہمیں سرسید اور ان کی خدمات کی جانب بھی اشارے ملتے ہیں۔ نظم کے آخری دو اشعار دیکھئے جس میں اسماعیل میرٹھی کی مقصدیت کی جانب اشارہ بھی ہے اور سرسیدکے کاموں کا اعتراف بھی۔
اے صاحبو! قوم کی خبر لو
قطروں کا سا اتفاق کرلو
قطروں ہی سے ہوگی نہر جاری
چل نکلیں گی کشتاں تمہاری
اسماعیل میرٹھی کی مذکورہ نظم کو میں نے ایک نئے اور الگ تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس نظم کی قرأت کرتے ہوئے میں نے جو محسوس کیا اس کو سپرد قلم کردیا ہے۔اب میں اس مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوا اس کا فیصلہ قارئین کے حوالے کرتا ہوں۔
نوٹ: مضمون نگار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں گیسٹ ٹیچر ہیں۔
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
2 comments
اردو اک ایسی میٹھی پیاری زبان ہے جسمیں حد او ادب خود سے ہے
اردو خالق نے خلق کی جو زبان وہ سب سے پہلی زبان اردو ہے