اک رات ہر چراغ کی لو کا ٹ دی گئی
اور وہ بھی چپ رہے جنھیں پیاری ہے روشنی
نعمان شوق کے اس شعر نے مجھے سرشار کردیا۔شعر کا موضوع یوں تو سامنے کا ہے۔کہ حق کی آواز بلند کرنے والوں کی زبان بند کر دی گئی اور ان لوگوں کی بے حسی اور منافقانہ خاموشی کا ذکر ہے جو اس آواز کو درست سمجھنے کے باوجود صدائے احتجاج بلند کرنے سے قاصر ر ہے۔
اس شعر کا طرز اظہار متعدد فنی امتیازات کا حامل ہے۔شعر میں قابل توجہ ترکیب چراغ کی لو کاٹ دی ہے ۔عام طور پر چراغ کی لو کا بجھ جانا یا بجھا دینا استعمال ہوتا ہے۔شاعر نے چراغ کی لو کے لیے کاٹنے کا فعل استعمال کیا ہے۔کلاسیکی اردو غزل میں شمع اور چراغ عاشق کا استعارہ ہوتا ہے ۔رخ محبوب کا استعارہ ہنتا ہے ۔ظلمت و تاریکی کے برعکس امید کی کرن کی علامت کے طور پر مستعمل ہے۔شمع کو خجل ہوتے ہوے،سر کٹاتے ہوےاورشمع کو غم کے کھا جانے کا مضمون باندھا گیا ہے۔جوش غم سے گھٹ جانے کا مضمون ملتا ہے۔شمع کے حوالے سے محبوب کے چہرہ روشن کے سامنے بجھ جانے کا مضمون عام ہے۔شمع سے زندگی کے عارضی ہونے کا مضمون قایم کیا گیا ہے۔جدید غزل گو شعرا کے یہاں بھی چراغ کی لو کو ایک رخ روشن کے مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے۔فراق گورکھپوری ،ناصر کاظمی،خلیل الرحمن اعظمی کے کلام میں چراغ اور اس کی لو کورخ محبوب کی تابندگی سے استعارہ کے طور پر برتے جانے کی مثالیں ملتی ہیں۔لیکن چراغ کی لو کو زبان کے استعارے کے طور پر پیش کیے جانے کی مثالیں خال خال ملتی ہیں۔زیر بحث شعر میں پیش کردہ موضوع کی مناسبت سے اگر چراغ کی لو کے بجھا دیے جانے کا لفظ استعمال کیا جاتا تو بھی مفہوم بتمام و کمال ادا ہو جاتا۔لیکن شاعر نے چراغ کی لو کے لیے کاٹنے کا فعل لاکر زبان میں مضمر امکان کو بروے کار لانے کی سعی کی اور متعدد معنی کا قرینہ پیدا کردیا۔ شعر کا مفہوم یہ ہوا کہ چراغ کی لو کے کاٹنے سے ایسی آواز بند کردی گءی جو حکومت کو للکارنے والی تھی،جو حکومت کے لیے چیلنج بنی ہوءی تھی۔لفظ چراغ سے اس کے تمام تلازمات قاری کے ذہن میں منور ہو جاتے ہیں۔اس آواز کی صداقت،اس کی تابندگی اور ظلمت و تاریکی کو زایل کرنے کا پہلو پیدا ہو جاتا ہے۔ اس ظالمانہ فعل کے لیے رات کا انتخاب کیا گیا۔رات کے سناٹے میں حق کی آواز خاموش کر دی گءی۔حق کے علمبردار کو اپنی صفاءی پیش کرنے کا کوءی موقع نہیں دیا گیا۔اس ظلم کے خلاف کوءی صداے احتجاج بلند نہیں کیا گیا۔ایسا نہیں تھا کہ لوگ زبان بندی کے اس اقدام سے متفق تھے بلکہ وہ لوگ بھی حق و صداقت کی روشنی کے مداح تھے اسے فروغ دینے کے خواہاں تھے،لیکن مصلحت اور زمانہ شناسی نے ان کے لبوں پر مہر ثبت کردی۔
فارسی لغت میں چراغ بجھانے لیے چراغ کشتن کا مصدر مستعمل ہے۔اس کی تشریح کے ذیل میں چراغ خاموش کردن درج ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہمارے شعرا نے چراغ کے قتل کرنے کا مضمون فارسی لغت سے حاصل کیا ہےاور اس سے نیے نیے معنی پیدا کیے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ نعمان شوق کو اپنے کلاسیکی سرمایے میں اس لفظ کے طرز استعمال سے تحریک ملی ہوگی۔نعمان شوق نے اپنی اجتہادی اور تخلیقی صلاحیت سے ایک نیا مضمون پیدا کیا۔معنی کا ایسا وسیع تنا ظر فراہم کردیا جس میں امکان کے نئے در کھلنے لگے۔ شعر میں چراغ،رات اور روشنی کے مناسبات کے بیان سے شعر کی تعمیری وحدت کا اظہار ہو تا ہے۔
شعر میں مضمون کو ایک واقعہ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔واقعہ کو صیغہ مجہول میں بیان کرنے کا التزام کیا گیا ہے۔فاعل کے عدم تعین سے واقعہ لازمانی اور لامکانی ہو گیا اورشعر کےمعنوی امکانات میں اضافہ ہو گیا۔چراغ کو لفظ ‘ہر’کے ذریعہ اس کے مدلول کے داءیرہ کو وسیع کر دیا گیا ۔
شاعر نے شعر کی بافت میں اتنی فنی ہنر مندی کا مظاہرہ کیا ہے کہ اس سے شعر میں مختلف طرز قرأت کے پہلو پیدا ہو گیے ہیں۔شعر میں استعجاب اور طنز کا لہجہ دبیز ہے۔اس مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نعمان شوق اپنی غزلوں میں روایت سے استفادہ کرتے ہو ئے اپنی تخلیقی انفرادیت کا نقش قایم کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹر معیدالرحمن
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبہ اردو علی گڈھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page