سبط حسن نقوی
9305279697
آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے
پہلا مصرع کہتا ہے کہ کسی کے آگے کیا ہاتھ پھیلائیں۔اس میں میں نے جان بوجھ کر طمع کو نظر انداز کیا ہے ،اس کو آگے بحث میں شامل کریں گے۔پہلے مصرعے میں جتنے بھی معانی ہیں لیکن مرکزی خیال یہی ہیں کہ کسی کے آگے کیا ہاتھ پھیلائیں۔‘آگے‘ ہاتھ پھیلا نا قبول نہیں ہے ،کیا کسی کے پیچھے یعنی اس کی غیرموجودگی میں دست کو دراز کرنا ممکن ہے؟ناموجودگی میں ہاتھ پھیلانا فضول اور لایعنی بات ہے،تو آگے کے کیا معنی ہیں؟اس کے یہ معنی نکالے جا سکتے ہیں کہ خیال کی دنیا میں دست وا کرنے کی مجبور خواہش سر اٹھا رہی ہے۔اس خواہش کو جذبۂ خودداری کچل رہاہےاور ہاتھ بڑھانے کی مکمل نفی کر رہا ہے۔یہ فیصلہ کسی عام آدمی کا نہیں ہے،ایک شاعر کا فیصلہ ہے اور وہ بھی کسی عام کی نہیں خدائے سخن کی تردید ہے۔ انکار و تردید کا رنگ کیا ہے؟اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
شاعری کا آغاز احساس سےہوتا ہے،اگر یہ حقیقت ہے تو اس شعر میں بھی احساس کا ہونا ایک لازمی بات ہے۔کیا احساس اپنی حقیقی یعنی اصل صورت میں موجود ہوتا ہے؟اس سوال کا جواب ’ہاں‘میں نہیں ہو سکتاالبتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ احساس تک رسائی ہو سکتی ہے۔احساس کیا ہے؟اس سوال کی کچھ وضاحت یہاں ضروری معلوم ہوتی ہے۔احساس حواس کا مرہون منت ہوتا ہے،حواس نہیں تو احساس نہیں۔سامعہ،باصرہ،شامہ،لامسہ اور ذائقہ اپنے رابطے میں جب عمومیت سے ہٹ کر کسی صورتحال کا تجربہ کرتے ہیں تو احساس نمو پاتا ہے۔غیر عمومی کیفیت تجربے کے علاوہ مشاہدہ ،علم اور تخیل بھی محسوس کرتا ہے۔اس کا مفہوم یہ ہوا کہ احساس کے ذرائع میں حواس خمسہ کے ساتھ مشاہدہ،علم اور تخیل بھی شامل ہے۔یہ بات بھی بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ مشاہدہ اورعلم و تخیل میں بھی حواس کی کار فرمائیاں شاملِ حال ہوتی ہیں۔
میر کے مذکورہ شعر میں علم نے احساس کو پیدا کیا ہے۔اپنی اقتصادی حالت اور اپنی ضروریات کی نا ہمواری نے احتیاج کے احساس کو بیدار کیا ہے۔ہر ضرورت اپنی تشفی کی طالب ہوتی ہے۔ضرورت اپنے داخلی اور خارجی حالات سے واقف ہے اور اپنے مزاج،شخصیت کو سمجھتی ہےاور اپنی تسکین کی اہلیت بھی نہیں رکھتی ہے۔ضرورت اگر وجود کے لئے خطرہ نہ ہو تو ضبط ،برداشت اور صبر سے تصفیہ کر لیتی ہے لیکن وجود پر خطرہ ہو تو تصفیہ مطلوبہ شئے ہی سے ہو سکتا ہے،اسی حالت میں ہاتھ پھیلانے کی نوبت آتی ہے۔’ آگے کسی کے کیا کریں دست طمع دراز‘میں احتیاج جامہ سے باہر ہے اور ہاتھ پھیلانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
خواہش سے پیدا شدہ طلب دبائی جاسکتی ہے۔یہ طلب طمع کے درجے میں آتی ہے یعنی طمع پر قابو پایا جا سکتا ہے اور طمع وجود کے لئے کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔شاعر دست ِ طمع کہہ رہا ہے،ہاتھ پھیلانے میں زندہ رہنے اور وجود کو بچانے کی طلب ہوتی ہے،وجود کو بچانے کی فطری ضرورت کو شاعر طمع تصور کر رہا ہے۔وہ مر جانے کو گوارا کرتا ہے لیکن ہاتھ پھیلانے پر تیار نہیں ہے۔وجود کو قائم رکھنا ایسی فطری ضرورت ہے کہ انسان کی شخصیت اس پر قابو نہیں رکھ سکتی۔وجود خود اپنے بے زبان مطالبات حساس سماج کے سامنے رکھنے لگتا ہے۔ بھوک کو لاکھ برداشت کیا جائے ،ایک وقت ایسا آتا ہے جب وجود انسانی احتیاج کی عدم تکمیل کے باعث راہیِ ملک عدم ہو جاتاہے۔
تخلیق متضاد کیفیات کو ہر طرح اور ہر سطح پر رام کرنے کا نام ہے۔حالات ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر رہے ہیں اور مزاج مٹھیاں کھولنےپر کسی حال میں تیار نہیں ہے۔وجود پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔وجود کو مطمئن کرنا ہے ورنہ وجود اپنی زبانِ بے زبانی میں اظہار کرنے لگے گا ۔اب دوہری زبان ہی اس کا تصفیہ کر سکتی ہے۔دوہری زبان سے مراد وہ تخلیقی زبان ہے جس سے مزاج بھی مطمئن ہو جائے اور وجود بھی یہ سمجھے کہ حالات اس کے مطابق عمل کرنے پر آمادہ ہیں۔
شعر فقط وجود و شخصیت ہی کی زبان نہیں بولتا بلکہ سخن،فن اور قاری کی زبان بھی اپنے دہن میں رکھتا ہے۔میر کے زیر بحث شعر میں گفتگو کے سارے زاویے نظر آتے ہیں۔’گفتگو ‘سے قاری کے ذہن میں خود میر کا تصور گردش کر سکتا ہے اور اس کی زبان پر برجستہ یہ شعر آ سکتا ہے۔
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
میر کو گفتگو عوام سے ہے لیکن گفتگو ہے کہ خواص پسند بنتی جا رہی ہے، یا تو میر ناکام ہیں ،یا خواص بس دیکھنے میں خواص ہیں باطن میں عوامی مزاج کے حامل ہیں، یعنی خارجی حالات بدلنے سے داخلی طبیعت تبدیل نہیں ہوتی۔باطنی سطح پر یکسانیت کا یہ علم عوام کو مخاطب کرنے کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔خواص پسندی میر کے لئے کوئی ناگوار شئے نہیں ہےاگر نا گوارہوتی تو اصلاح یا ترک کا راستہ اختیار کیا جاتا۔میر ترسیل و ابلاغ میں ناکامی کی گفتگو نہیں کر رہے ہیں بلکہ اپنے مقصد اور مخاطب کے درمیان تفاوت کا اظہار کر رہے ہیں۔کیا اس شعر میں یہ شکوہ ہے کہ عوام ان کا کلام پسند نہیں کر رہے ہیں؟ظاہر ہے کہ اس گلے شکوے سے شعر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔کیا خواص پسندی میر پر بار ہے؟اس کا بھی جواب نفی ہی میں ہوگا۔شعر پسند کئے جائیں یہ تو میر کا مقصد ہے لیکن ان کا مخاطب حقیقی عوام ہیں،عوام تک گفتگو جس رنگ میں پہنچناچاہیے تھی ،اس رنگ میں نہیں پہنچ رہی ہے،یہ احساس اس شعر کی بنت میں کارفرما ہے۔یہ احساس بھی مشاہدے کی دین ہے۔
اس شعر میں کئی قسم کی گفتگوئیں پائی جاتی ہیں،شعری مزاج ،مشاہدہ،سخن،فن اور قاری سبھی اس میں موجود ہیں۔مقصود شعر(شعری مزاج)،ناکامیِ مقصود(مشاہدہ)،موزینیت،صوتی جمال،ترسیل و ابلاغ(سخن)،گو اور گفتگو،خواص و عوام،پر بمعنی لیکن،پر یعنی شعر پر، خواص پسندی یعنی تعلی حقیقت بیانی کے غیر محسوس رنگ میں (فن)اورشعر اور گفتگو کا تصوراتی فرق، ’گفتگو ‘سےشاعر کا خطیب بننے کا دعویٰ ، خواص پسند کیوں ہیں، عوام پسند گفتگو وہ کیوں کرنا چاہتے ہیں،او ردیگر معنوی جہات(قاری)۔
جس طرح اس شعر میں اجزائے تفہیم کی نوعیتوں کا ذکر، گفتگو کے مراحل کی شکل میں کیا ہے اسی طرح زیر بحث شعر پر بھی روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔سطور بالا میں وجود، شخصیت اور کچھ قاری کے زاویوں سے بات ہو چکی ہے،دیگر مراحل ابھی تشنہ ہیں۔سخن سخن ہے،شاعری شاعری ہے،فن فن ہے،لیکن یہ شخصیتوں میں اتر کر اسلوب کی مدد سے انفرادی صورت اختیار کر لیتا ہے۔میر کا اسلوب ہی ہے جو شاعری کو میر کی شاعری اور فن کو میر کا فن بناتا ہے۔
اسلوب کی تشکیل میں ایک اہم کردار حساسیت کا بھی ہوتا ہے۔خیال کو فن اور خیال و فن کو تخلیق بنانے میں حساسیت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔اب اگر کسی ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حساسیت کیا ہے؟تو یہ بالکل مناسب بات ہے۔ اس مقام پرحساسیت کے متعلق تفصیل سے تو بات نہیں ہو سکتی لیکن کچھ باتیں اختصار سے ضرور کہی جا سکتی ہیں۔حساسیت علم کا ثمر ہوتا ہےلیکن یہ بھی بات صحیح ہے کہ علم کا لازمی نتیجہ نہیں ہے۔علم ہوتے ہوئے بھی کوئی بے حس ہو سکتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ علم اور تصور مل کر حساسیت کو وجود بخشتے ہیں۔تصور کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مجروح نہ ہو،علم اگر تصور کے لئے مجروح ہونے کی خبر بن جائے تو تصور کے قیام کی شدید خواہش اپنے دفاع کے لئے حساسیت کوعمل میں لاتی ہے۔ظاہر ہے یہ باتیں پیچیدہ ہیں اور سہل انگیزی کے لئے مثال کامطالبہ کرتی ہیں۔ماحولیات کا عالم پیڑ کٹنے کے لئے حساس ہو سکتا ہےلیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ انسان دوستی کا شدید تصور بھی رکھتا ہو ۔انسان دوستی سے سرشار عالم ِ ماحولیات پیر کٹنے سے روکنے کے لئے جان کی بازی تک لگا دے گا ۔ وہ اپنی طاقت کے ساتھ سماج،قانون،انسانی جذبات،بیداری اور دوسرے ہاتھوں کی معاونت کو مقصد کے حصول کے لئے ا پنے حق میں جس طرح استعمال کرے گاوہ طریقہ اور اس کی کیفیت اور حالت عالم ماحولیات کے کام کرنے کا اسلوب ہو گا۔
عالم ماحولیات پیڑ کو کیوں نہیں کٹنے دے رہا ہے؟اس کا سبب یہ ہے کہ وہ پیڑ کے نہ ہونے سے انسان کو ہونے والے نقصانات کو سمجھتا ہے،صرف اتنی سی سمجھ حساسیت پیدا نہیں کرتی۔وہ انسانی سماج کو ہونے والے نقصانات کو تخیل کے زور پر اپنی انتہا پر جا کر سوچتا ہے بلکہ دیکھتا ہے،وہ آکسیجن کی کمی سے مرتے ہوئے انسانوں کو دیکھتا ہے،بارش کی کمی کے سبب کسانوں کو پریشاں حال دیکھتا ہے،پیدا وار کی کمی سے آسمان چھوتی ہوئی قیمتوں کو نظر میں رکھتا ہے، قحط اور بھوک سے مرتے ہوئے بچوں کی تکلیف کو محسوس کر تا ہے۔وہ تڑپ جاتا ہے اس کی حساسیت اس کو جنوں کی حدوں میں لے آتی ہے،وہ ہر قیمت پر پیڑ کو بچانے کے لئے سر گرداں ہو جاتا ہے۔اب وہ جو بھی حکمت عملی بنائے گا وہی اس کا اسلوب کہلائےگا۔
شاعر کی حساسیت بھی علم و تصورات کی زمین پر پیر جمائے ہوئے ہوتی ہے۔اس جگہ یہ سوال موزوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک امی انسان، شاعر یا اچھاشاعر ہو سکتا ہے؟ یہ بات ٹھیک ہے کہ عالم ہونے کے احساس کے بغیر شاعر ہونا ممکن نہیں ہے، لیکن اس احساس سے عالم سمجھا جانے والا شخص بھی عاری ہو سکتا ہے۔عالم ہونے کا احساس کیا ہوتا ہے؟علم یقین سے ہم کنار ہو کر نظریہ تشکیل دیتا ہے،نظریہ اپنی عملی وسعتوں کو احوال میں ڈھالتا ہے،یہ احوال نظریہ کے بیج سے درخت بنتا ہے اور یہ درخت جو احوال کی صورت میں نظر آ رہا ہے،یہ تصور کے سبب عالم ِظہور میں آیا ہے۔یعنی تصور اپنے اندر ایک تصویر رکھتا ہے۔عالِم ہونے کے احساس سے میری مراداس تصور تک پہنچنا ہے۔
علم حواس،مشاہدے،تجربے،فکر،تعقل،تخیل و وجدان پر منحصر ہے،یہ بغیر کسی مکتبی اکتساب (درس گاہ)کے بھی حاصل ہوتا ہے اور اس کے حصول کو روکا بھی نہیں جا سکتا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی شخص فقط اصطلاحی معنی ہی میں امی ہو سکتا ہے۔اصطلاحی معنی؟یعنی اس نے کوئی کتاب نہیں پڑھی،کسی شخص سے کسب فیض نہیں کیا،کسی استاد اور کسی مکتب سے علم حاصل نہیں کیا لیکن اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہواکہ امی کے حواس و دیگر اہلیتیں آفاق و انفس میں موجود علم کےخزانوں سے استفادہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔اگر اس کا اکتسابی علم تصور کی منزل تک پہنچتا ہے تو اس کے شاعر بننے اور اچھے شاعر بننے میں کوئی اڑچن نہیں ہے،بشرط یہ کہ اس کے پاس شاعری کا خدا داد ملکہ ہو۔
شاعر کے یہاںانسان سے انسان،انسان سے سماج، انسان سے کائنات اور انسان کاخود اپنے اور کائنات کے خالق کے رشتوں کے درمیان تصورات کی رنگا رنگی ہی اسلوب کی ضمانت ہے۔اب زیر بحث شعر پر مذکورہ معروضات کی روشنی میں نظر ڈالتے ہیں۔شاعری کے متعلق ایک بات بالکل واضح ہے کہ یہ قابل قبول اور قابل انجذاب اسی وقت ہوتی ہے کہ جب یہ جمال سے پُر ہو یعنی صورت اور سیرت دونوں معیاروں پر کھری اترتی ہو۔معیاروں کا بھی اپنا ایک معیار ہوتا ہے۔معیار کے معیار کو صنفِ خاص کی شعریات اور موضوع اور مواد کی شعریات سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔غزل کے دو معیار ہیں ایک معیار یہ طے کرتا ہے کہ یہ صنف غزل ہے اور دوسرا یہ کہ غزل اچھی ہے۔صنف غزل کی شعریات اور غزل کی شعریات یہ دو الگ باتیں ہیں۔در اصل دونوں شعریات حد بندیاں ہیں ایک کی حد بندی دیگر شعری اصناف کے تقابل کے نتیجے میں اور دوسری حد بندی غزل کے اندر شعر کے دائرے کا تعین کرتی ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ یہ شعرمیر کی غزل کا شعر ہے،اس لئے یہاں دوسرے معیار یعنی غزل کے شعر کی شعریات ہی پرنظر رکھنا ہوگی۔
آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے
وجود اور شخصیت کی کشمکش کا کچھ ذکر اوپر ہو چکا ہے،اگر یہ سوال قائم کیا جائے کہ کیا اللہ کے آگے بھی ہاتھ نہیں پھیلایا جا سکتا؟اس سوال کا جواب تصورات کے زائیدہ منظر سے حاصل ہو جائےگا۔یہاں انسان کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بات کہی گئی ہے،اللہ کے آگے ہاتھ پھیلانا دعا ہے۔ اس شعر کا منظر دعا کا تصور نہیں ابھارتا۔دعا کے لئے دونوں ہاتھوں کا بندھنا اور بلند ہونا تصوراتی لحاظ سے ضروری ہے۔‘وہ ہاتھ سو گیا ہے’، میں ایک ہی ہاتھ کی بات کی گئی ہے۔ہاتھ سر کے نیچے ہے بلند نہیں ہے۔دعا کیوں نہیں کی جا رہی ہے؟دعا اپنا ایک مقام رکھتی ہے ،ایک دعا وہ ہے جو انسان اپنی کاہلی، لا پروائی ،تن آسانی ،جد و جہد سے فرار کے نتیجہ میں مانگتا ہے ،جب کہ وہ اپنامدعا اپنی کوششوں سےحاصل کرسکتا ہے۔دوسری دعا وہ ہے جو استعداد سے باہر ہے اور انسانی کوششیں اسی وقت ثمر آور ہو سکتی ہیں جب ان میں قدرت ہاتھ لگا دے۔یہی دعا کا اصل اور حقیقی مقام ہے۔اسی مقام پر با اختیار انسان کی دعائیں باب استجاب پر سجدہ ریز ہوتی ہیں۔ دعا کی پہلی صورت ایک بااختیار انسان کے شایان شان نہیں ہے۔
قاری کی صورت میں سوال کیا جائے کہ ہاتھ سرہانے کیوں دھرا ہوا ہے؟یہ سوال شعر میں موجود مناظر کی طرف ذہن کولے جاتا ہے اور تصور،شخصیت،اسلوب وغیرہ کی پرتوں کو کھولتاہے،فن کی کچھ جھلکیاں بھی دکھاتا ہےاور قرأت کی نئی راہیں بھی استوار کرتا ہے۔ایک قرأت یہ ابھر کر سامنے آتی ہے،آگے کسو کے کیا؟کریں دستِ طمع دراز۔اس سوال کا جواب نفی میں آئے،اس کے لئے‘ طمع’ رکھ دیا ہے،یعنی یہ ضرورت مند کا ہاتھ نہیں کسی طمع پرست کا ہاتھ ہے۔اب اس پر نظر کیجئے کہ سرہانے ہاتھ کیوں رکھا ہے؟سرہانے سے لیٹنے کی تصویر بنتی ہے،لیٹنے سے رات کا منظر ابھرتا ہے۔’سو گیا‘ سے بھی رات کی نیند کی شکل ابھرتی ہے۔فکر مندی کا عالم یہ ہے کہ ہاتھ سو گیا ہے جب کہ سن ہوا ہے لیکن نیند آ جانے کی خواہش نے’سو گیا‘نظم کیا ہے۔اگر مصرع کو یوں کر دیجئے تو ’سو گیا‘کا فنکارانہ استعمال سمجھ میں آجائے گا۔
آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز
شل ہو گیا ہے ہاتھ سرہانے دھرے دھرے
شل کو سُن میں بدلا جا سکتا ہے،لیکن شل اور سُن نظر کو فقط ہاتھ تک محدود رکھتے ہیں،سو گیا میں موجود،رات، نیند،آنکھوں کے بند ہونے کی کیفیت جو نیند کی آرزو میں تڑپ رہی ہے وغیرہ کیفیات و مناظر‘ شل ’میں ندارد ہو جاتے ہیں۔اب یہ تصویر بنائی جا سکتی ہے کہ ایک فکر مند پریشاں حال انسان اپنی پریشانی کا دن گذار آیا ہے اور رات میں سوالیہ لہجے میں کہہ رہا ہے(آگے کسو کے کیا؟۔۔ کریں دستِ طمع دراز)،اور اس ترکیب سے کہہ رہا ہے کہ طمع کی طرف ذہن منعطف ہو جائے اور مثبت جواب کی کوئی امید باقی نہ رہے،اس کے علاوہ رات کا عالم ہے اور نیند اگر آ بھی رہی ہے تو وہ آنکھوں کو نہیں آ رہی ہے ،ہاتھ سو رہا ہے۔رات کے اس پہر میں اگر فیصلہ امید کے بر خلاف بھی ہو جائے تو عمل میں نہیں آ سکتا۔
اس میں تہذیب کا ایک شدت پسند تصور بھی دیکھ لیجئے۔ تہذیب کا تصور فنکارنے‘وہ’سے بنایا ہے۔یہ اشارہ کہنے کو تو ہاتھ کی طرف ہے لیکن اس میں لیٹے ہونے کی کیفیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ایک سوال قائم کرتے ہیں،جس سے یہ تصویر صاف ہو جائے گی،سرہانے دھرا ہوا ہاتھ راست ہے یا چپ،سیدھا ہے یا الٹا؟یہ سوال سوچنے پر مجبور کرتا ہے لیکن فیصلہ دستِ راست کے حق میں ہوتا ہے۔کون سے ایسے اسباب ہیں جن کی بنیاد پر ہاتھ سیدھا ہاتھ بن جاتا ہے؟اس سوال کا جواب ایک سوال ہی سے دیتے ہیں؟ہاتھ ایک ہی سویا تھا، شل ہوا تھا، سُن ہوا تھا دوسرا تو صحیح و سالم تھا،اس کو کیوں نہیں دراز کیا جاتا ہے؟اس سوال کا جواب تہذیب کے تصور کی طرف لے جاتا ہے اور وہ یہ کہ طلب کی تہذیب یہ ہے کہ دستِ راست بڑھایا جائے۔تہذیب سے انحراف ممکن نہیں ہے اسی لئے سیدھے ہاتھ کا سُن ہونا ہاتھ بڑھانے کے عمل سے لاچاری کا بین ثبوت ہے۔
ہاتھ سرہانے رکھ کر لیٹنے کا منظر ایک عام منظر ہے لیکن یہاں یہ منظر افلاس کے پس منظر کے ساتھ ہے لہٰذایہ تصویر عام تصویر سے الگ ہو جاتی ہے ، ساز و سامان اوراسباب کے فقدان کی طرف ایک اشارہ بن جاتی ہے ، وہ یہ کہ تکیہ تک نہیں ہے ،بستر کا تو ذکر ہی کیا، جہاں تکیہ بستر تک نہ ہو وہاں آرام و آسائش کا تصور ہی محال ہے۔
اب دھرے دھرے پر بھی کچھ باتیں کر لی جائیں۔دھرے دھرے کی تکرار میں ایک تو مدت کا احساس ہے اور دوسری طرف کردار کےمطابق زبان کے استعمال کی کیفیت نمودار ہوتی ہے۔دھرے دھرے سے معلوم ہوتا ہے کہ سرہانے ہاتھ رکھے ہوئے کافی وقت گذر گیا ہے۔اس گذرے وقت کے سبب ہاتھ کا سونا اور گہرا ہو گیا ہے ،ہاتھ نہ پھیلانے کی منطق مزید توانا ہو گئی ہے۔دھرے دھرے میں عامیانہ پن اور ایک چڑ چڑاہٹ ہے جوکردار کی صورتحال کے عین طابق ہے ،بات ہو رہی ہے غریب ،مفلس اور پریشاں حال انسان کی،اگر دھرے دھرے کی جگہ رکھے رکھے رکھ کر مصرع پڑھیے ‘ وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانےرکھے رکھے’ تو چڑ چڑاہٹ اور عامیانہ پن زائل ہو جائے گا۔
‘ سو گیا اور دھرے دھرے’ نے تر سیل و ابلاغ پر تخلیق کار کی قدرت کو نمایاں کر دیا ہے۔شعر پڑھنے پر قاری کی توجہ ہاتھ پر مرکوز نہیں ہوتی اور توجہ ہاتھ پر ذرا دیر ٹھہر جائے تو شعر کا جمالیاتی احساس خاک میں مل جائے۔ہاتھ کے لفظ پر حالانکہ صوتی ٹھہراؤ خوب ہےلیکن توجہ کا بہاؤ ہے۔صوتی ٹھہراؤ کو ‘سو گیا’ توڑتا ہے اور توجہ کے بہاؤ کو مہمیز کرتا ہے ،‘دھرے دھرے’اس سلسلے کو آخر تک قائم رکھتا ہے۔
سن ہو گیا ہے ہاتھ سرہانے دھرے دھرے،شل ہو گیا ہے ہاتھ سرہانے دھرے دھرے،وہ ہاتھ سن ہوا ہے سرہانے دھرے دھرے،وہ ہاتھ شل ہوا ہے سرہانےدھرے دھرے،ان مصرعوں میں توجہ ہاتھ پر مرکوز ہوتی ہے۔اب دھرے دھرے کو تبدیل کرکے دیکھیے،وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے رکھے رکھے،وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانےدبے دبے۔ ‘رکھے رکھے،دبے دبے’ کی تکرارتوجہ کو واپس ہاتھ کی طرف موڑ دیتی ہے۔دھرے دھرے کی تکرار توجہ کو واپس نہیں کرتی بلکہ آگے کی طرف بڑھا دیتی ہےاور معنی کی نئی راہیں کھولتی ہے۔معنی کا سلسلہ آگے کیسے بڑھتا ہے؟قاری کی فکرنہ واپس آتی ہے اور نہ ردیف کی مانند اتمام کی منزل میں آتی ہے بلکہ دھرے دھرے پر ٹھہر جاتی ہے۔فکر کا ٹھہرنا نئے معنی کی جستجو ہے۔میر کی یہ غزل غیر مردف اور تکراری قافیوں سے گندھی ہوئی ہے لہٰذا ردیف کا نہ ہونا معانی کے لحاظ سے بڑا سود مند ہے۔
غور کیجئے تودھرے دھرے میں بوجھ کا تصور نظر آتاہے۔بوجھ پر نظر کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اس میں غیریت کا احساس ہوتا ہے یعنی بوجھ جہاں ہوتا ہے وہاں منسلک تو ہوتا ہے لیکن جزو کا مرتبہ نہیں رکھتا۔گویا سرہانے دھرا ہوا ہاتھ جسم کا جزو نہیں ہے، جسم کاغیر ہے۔غیریت کا سبب کیا ہے؟جب ہاتھ ہے ہی نہیں تو پھیلائیں گے کیا۔
مذکورۂ بالا بحث سے شعر کےجمالیاتی پہلو کچھ نہ کچھ اور کسی نہ کسی حد تک سامنے آ چکے ہیں لیکن ان کی طرف باقاعدہ توجہ نہیں دلائی گئی ہے حالانکہ اشارہ ضرور کیا گیا ہے ۔اوپر عرض کیا جاچکا ہے کہ جمال صورت اور سیرت کا خوبصورت امتزاج ہے۔مرزا رسوا نے اپنے تنقیدی مراسلات میں شعر کی خوبی میں امیج کو اولیت دی ہے ،امیج کا اچھا ہونا گویا شعر کے اچھے ہونے کی شرط ہے۔انھوں نے کراہیت کوشعری امیج کے لئے اچھا تصور نہیں کیا ہے۔یہ تو صورت کی بات ہوئی لیکن شعر کی سیرت کیا ہے؟میرے خیال میں معانی کی متحرک کائنات شعر کی سیرت ہے۔اس کا مفہوم یہ ہوا کہ شعر کی امیج اور معانی کی خوبیاں جمال کی ضمانت ہیں۔
جمالیاتی امیج کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ قاری کو حیرت سے دوچار کر دے اور حیرت کا سبب یہ ہو کہ یہ امیج اس کے تجربے میں بھی موجود ہے لیکن معنی کے جو رنگ شاعر نے اس میں بھردئے ہیں ان سے اس کی تصویر یکسر خالی ہے۔میر کی بنائی ہوئی امیج بالکل سادہ اور عام ہے،ہر قاری کے ذہن میں موجود ہے لیکن اس کی لفظی مصوری اور معانی کی کائنات قادر الکلامی کا ایک معجزہ ہے۔
…………………………
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page