شہپررسول کا نام جدید اور معاصر غزل کے اہم ترین شعرامیں شامل ہے۔ شہپررسول کی غزل میں زندگی اور کائنات کے تئیں جو جدلیاتی رویہ نظر آتا ہے، اس کی کوئی دوسری مثال بمشکل ہی ملے گی۔ انھوں نے اپنی شاعری میں رومانوی رویہ سے انحراف کیا ہے اور زندگی کائنات اور انسان کی ٹھوس داخلی حقیقتوں کو اپنی غزل کا موضوع بنایاہے۔ یہاں ان کی ایک غزل کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔
چپ گزر جاتا ہوں حیران بھی ہو جاتا ہوں
اور کسی دن تو پریشان بھی ہو جاتا ہوں
سیدھا رستہ ہوں مگر مجھ سے گزرنا مشکل
گمرہوں کے لیے آسان بھی ہو جاتا ہوں
فائدہ مجھ کو شرافت کا بھی مل جاتا ہے
پر کبھی باعثِ نقصان بھی ہو جاتا ہوں
اپنے ہی ذکر کو سنتا ہوں حریفوں کی طرح
اپنے ہی نام سے انجان بھی ہو جاتا ہوں
رونقیں شہر بسا لیتی ہیں مجھ میں اپنا
آن کی آن میں سنسان بھی ہو جاتا ہوں
زندگی ہے تو بدل لیتی ہے کروٹ شہپر
آدمی ہوں کبھی حیوان بھی ہو جاتا ہوں
غزل کے پہلے شعر میں شاعر نے انسان کی ذاتی کیفیات کو ایک انفرادی تخلیقی اپج اور بہت ہی لطیف قسم کی جدلیات کے پس منظر میں بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کبھی تو اس کائنات کا تماشا دیکھنے میں اسے خاموشی ہی اختیار کرنا پڑتی ہے کیونکہ خاموشی کے سوا اور کچھ اس کے بس میں بھی نہیں یا پھر اسے حیرت زدہ ہونا پڑتا ہے لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جب شاعر اس صورتحال سے پریشان بھی ہو جاتا ہے۔ اس شعر میں خاموشی، حیرت اور پریشانی کے تین کلیدی الفاظ کے ذریعہ آج کے عہد میں جینے والے انسان اور اس کی داخلی زندگی کے بنیادی تضادات کو بے حد خوبی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
سیدھا رستہ ہوں مگر مجھ سے گزرنا مشکل
گمرہوں کے لیے آسان بھی ہو جاتا ہوں
دوسرے شعر میں شاعر نے اپنی ہی ذات کی پیچیدگی کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگرچہ اس کی ذات ایک سیدھی سادی راہ کی طرح ہے لیکن پھر بھی دوسروں کا اس سے گزرنا مشکل ہے یعنی شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس کی ذات بظاہر تو بالکل سادہ نظر آتی ہے لیکن دوسروں کو اس کی گہرائی اور داخلی پیچیدگی یا وجودیاتی جہات کو سمجھ پانا آسان کام نہیں ہے۔ دوسرے مصرعے میں شاعر نے دوبارہ اسی لطیف تضاد کا ذکر کیا ہے جو اس غزل کا طرۂ امتیاز ہے ،یعنی شاعر یہ بھی کہتا ہے کہ مگر یہ راستہ گمراہ لوگوں کے لیے آسان بھی ہو جاتا ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ جو پہلے ہی سے گمراہ ہیں وہ اس کی ذات کی سادگی کے دھوکے میں آکر ایک گمراہ کن راستے پر مزید چل سکتے ہیں۔ یہاں اس شعر کا ایک دوسرا پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ ممکن ہے کہ شاعر اپنی ہی ذات کو ایک گمراہ ذات کہہ کر نشانہ بنارہا ہو اور اپنی وجودیاتی جدوجہد اور کشمکش کو دنیا اور کائنات کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کررہا ہو، اس طرح اس شعر میں معنی کی کئی پرتیں نظر آتی ہیں جس کے بسبب یہ ایک اعلیٰ درجے کا شعر کہا جاسکتا ہے۔
فائدہ مجھ کو شرافت کا بھی مل جاتا ہے
پر کبھی باعثِ نقصان بھی ہو جاتا ہوں
تیسرے شعر میں بھی شاعر نے انسانی زندگی میں چھپے ہوئے اُس پہلو کی طرف ایک بے حد لطیف طنزیہ پیرایہ بیان اختیار کرتے ہوئے یہ کہنا چاہا ہے کہ ایک باضمیر اور ایماندار شخص کو اس دنیا میں بہت طمانیت کے ساتھ جینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کبھی کبھی تو اس کی ایمانداری اور شرافت کا فائدہ اسے اس طور مل جاتا ہے کہ اس کے ضمیر کو طمانیت اور مسرت حاصل ہوتی ہے (واضح رہے کہ یہ کوئی مادی طمانیت نہیں ہے) لیکن دوسروں کے لیے اس کی یہ باضمیر زندگی دنیاوی اعتبار سے نقصان کا سبب بھی بن جاتی ہے یعنی کوئی بھی باضمیر شخص اس دنیا میں جو اخلاقی اعتبار سے زوال کی طرف آمادہ ہے، اس میں اس کا خوش رہنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس طرح اس شعر میں شاعر نے ہماری اخلاقی صورت حال کا المیہ بے حد خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اپنے ہی ذکر کو سنتا ہوں حریفوں کی طرح
اپنے ہی نام سے انجان بھی ہو جاتا ہوں
چوتھے شعر میں شاعر نے اتنہائی خوبصورتی کے ساتھ اپنے وجود کی پوشیدہ جہات کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب کوئی دوسرا اس کا ذکر کرتا ہے تو اس سے اسے کسی قسم کی خوشی کا احساس نہیں ہوتا بلکہ وہ تو اپنے ذکر کو کچھ اس طرح سنتا ہے جیسے کہ اس سے رشک وحسد رکھنے والے لوگ سنتے ہیں۔ دوسرے مصرعے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کبھی کبھی تو وہ اپنے نام کو بھی بھول جاتا ہے یعنی وجودیاتی سطح پہ شاعر دوسروں کے ذریعے پیش کی گئی ایک شئے (Things for others) بن کر نہیں جینا چاہتا ۔ جس دنیا کی عیاری اور منافقت کا پردہ شاعر چاک کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس دنیا کے لوگوں کے ذریعے اپنی تعریف سنتے وقت وہ خود اپنی ہی اس ذات جس کی تعریف کی جارہی ہے سے متنفر ہو جاتا ہے یا پھر اپنی ذات سے بیگانہ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شاعر کسی بھی حال میں اپنی انفرادیت اور خودی کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔اس شعر میں شاعر نے ہمارے سامنے ایک باضمیر انسان کے عین اخلاقی رویہ کو جس خوبصورتی کے ساتھ شعری قالب میں ڈھالا ہے اور جس سادگی کے ساتھ اسے بیان کیا ہے، اس کی جتنی بھی تعریف بیان کی جائے کم ہے۔
رونقیں شہر بسا لیتی ہیں مجھ میں اپنا
آن کی آن میں سنسان بھی ہو جاتا ہوں
اس شعر میں شاعر ہرپل بدلتی ہوئی زندگی اور اس کے تضادات کو بے حد خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ ایک طرف تو ساری رونقوں اور محفلوں نے اس کی ذات میں داخل ہو کر گویا پوری ایک دنیا ہی بسالی ہو مگر دوسری ہی لمحے اچانک اسے اپنی ہی ذات اور اپنے ہی وجود کے بے کراں تاریک نہاں خانوں میں ایک ویرانی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ اسے ایک فلسفیانہ شعر بھی کہا جاسکتا ہے کہ جس میں انسان کے پل پل بدلتے ہوئے رویے اور صورت حال کو مرکز بنایا گیا ہے۔ جدیدنفسیات اور وقت کے فلسفے کے مطابق آدمی عمل اور ردّعمل کا ایک مجموعہ ہے اور پائیداری نام کی کسی بھی چیز کا انسانی ذہن وشعور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تغیر کا نہ ہونا ایک طرح کی موت کہی جائے گی۔ اس شعر میں شاعر نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ تغیر کے اس فلسفے کو ایک زندہ جیتی جاگتی ہستی کی طرح بیان کیا ہے اگرچہ اس شعر کا موضوع نیا نہیں ہے مگر یہاں شاعر کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس فلسفیانہ زاویے کو اپنی ذات کے ساتھ ہم آہنگ کرکے اسے غزل کی شعری نزاکتوں سے آراستہ کرتے ہوئے اس خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ اس پر جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔بادی النظر میں یہ شعر بے حد آسان او ر سادہ س نظر آتا ہے مگر اس کے اندر ایک پورا جہان معنی پوشیدہ ہے ۔
زندگی ہے تو بدل لیتی ہے کروٹ شہپر
آدمی ہوں کبھی حیوان بھی ہو جاتا ہوں
چھٹے اور آ خری شعر میں بھی شاعر نے تقریبا اسی زاویے نظر کو بیان کیاہے لیکن ایک بدلے ہوئے تناظر میں ۔پہلے مصرعے میں شاعر نے کہا ہے کہ کیونکہ وہ زندہ ہے اور ایک زندہ انسان ہی کروٹیں بدلنے پر قادر ہے ۔مردہ انسان کبھی کروٹیں نہیں بدل سکتا یعنی زندگی نام ہی تبدیلی کا ہے اور ایک زندہ انسان کا شعور ہمیشہ ایک جگہ قائم نہیں ہو سکتا جیسا کہ علم النفسیات اورفلسفہ وجو دیت میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ انسان ہمیشہ شعور کی ڈھلان پر پھسلتا رہتا ہے ۔ڈھلان پرانسان پھسلتے رہنے پر ہی مجبورہے۔یہاں ثابت قدمی سے ایک جگہ کھڑے رہنا ناممکن ہے لیکن اس شعر کا کمال یہ ہے کہ دوسرے مصرے میں شاعر نے بڑی بے ساختگی کے ساتھ ایک بار پھر اپنی ذات کو نشانہ بنا یا ہے ۔دوسرے مصرے میں شاعر کہتا ہے کہ کبھی وہ آدمی کی طرح جیتا ہے تو کبھی کبھی وہ حیوان بننے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے ۔یعنی انسانی وجود کو کسی بھی پل قرار نہیں ہے ۔اس شعر میں شاعر نے بڑے فنکارانہ انداز میں مروجہ اخلاق کے جامد تصور پر گہری چوٹ کی ہے ۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے وہ دوسروں کو یا دنیا کو کوئی الزام نہ دے کر یا ان پر کوئی نشانہ نا سادھ کے اپنی ہی داخلی ذات کا بڑی دروں بینی کے ساتھ احتساب کرتا ہے ۔اس اعلی پایہ کے شعر کی معنی خیزی کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے ۔
اس طرح یہ پوری غزل ایک طرح سے یک موضوعی بھی کہی جا سکتی ہے جس میں شاعر نے انسانی ذات ،کائنات اور اشیاء کے تناظر میں اس جدلیاتی عمل کی طرف نشاندہی کی ہے جو کہ نہ صرف ساری دنیا میں کارفرما ہے بلکہ زیریں سطح پر خود انسان کے وجود کے جہات میں بھی پنہاں ہے گویا کہ انسان کی ساری ذات ہی تضادات اوربدلتے ہوئے رویوں اور صورت حال کی سب سے زیادہ نمائندہ صورت قرار دی جا سکتی ہے ۔شہپر رسول کی یہ غزل جدید غزل کے منظر نامے میں ایک اہم اور نمایاں شناخت کی حامل ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |