(نگر پنچایت سِوال خاص [میرٹھ ]سے آگرہ ،لکھنؤ اورشاہ جہاں پور)
ہندوستا ن کے سولہویں عام پارلیمانی انتخابات 2014کے دوران،میں اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی سلسلے کو مزید مستحکم بنانے کی غرض سے شاہ جہاں پور جانا چاہتا تھا ۔ خورشید حسن خاں(فرزندِ اکبر رشید حسن خاں) سے موبائل پر شاہ جہاں پورآنے کے بارے میں کئی مرتبہ گفتگو ہوئی ۔ انھوں نے میرے شاہ جہاں پور آنے کواپنی رضا مندی دے دی ۔ میں نے شاہ جہاں پور جانے کے لیے اپنے ساتھ محترم انیس احمد الحسینی متخلص انیسؔ میرٹھی کا بھی ٹکٹ نوچندی ایکسپریس سے بُک کرالیا۔ لیکن میں نے روانگی سے ایک روز قبل رسماََ خورشید حسن خاں کو شاہ جہاں پرآنے کی اطلاع دی۔ انھوں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ کہیں باہر جانے کی بات کہی اور اس طرح میرا شاہ جہاں پور کاسفر ملتوی ہوگیا ۔
وقت برق رفتاری کے ساتھ گزرتا گیا ۔ میں محکمہ بنیادی تعلیم اتر پردیش سے (Basic Education) 31دسمبر 2014 کو مستعفی ہو کر دہلی چلا گیا اور وہاں پر ٹی۔جی۔ٹی اُردو کے عہدے پر کام کرنے لگا ۔دہلی میں درس و تدریس کی ذمہ داریوں میں اتنامصروف رہتا کہ شاہ جہاں پور جانے کے بارے میں بھی سوچنے کی فرصت ہی نہ تھی۔ اس دوران اخترؔشاہ جہاں پوری ، ربابؔ رشیدی اور حنیف سید (آگرہ )سے رابطہ قائم رکھا ۔ پورے ایک سال 2 ماہ بعد یعنی 23 مئی 2015دن سنیچر دوپہر 1 بج کر 15 منٹ پر سہراب بس ڈپو، میرٹھ سے آگرہ کے لیے روانہ ہو گیا ۔ اس بار عزیزم ریاض الدین میرے ہمراہ سفر کرنے والے تھے ۔ عین وقت پر وہ بھی معذرت خواں ہو گئے ۔ لیکن ریاض صاحب مجھے وداع کرنے سِوال خاس سے، بس ڈِپوسہراب گیٹ ،میرٹھ تک آئے۔
عین دوپہر ی میں جب میں بس میں سوار ہوا تو دل میں اس پہلے ادبی سفر کو لے کر طرح طرح کے خیالات پیدا ہو رہے تھے۔ گرمی کے مارے میرا بُرا حال تھا۔سارا بدن پسینوں سے شرابور تھا۔ پیاس بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ بجھتی بھی کیوں ؟ کیوں کہ یہ علمی تشنگی کا سفر تھا ۔ میں نے پہلی فرصت میں حنیف سید صاحب (آگرہ) کا فون لگایا ۔ دُعا سلام کے بعد اُن سے ملنے کا وقت طے کرلیا ۔ دوران ِسفر حنیف صاحب کے کئی فون یہ معلوم کرنے کے لیے آئے کہ میں کس مقام تک اور کہاںتک آ گیاہوں اور آگرہ کتنی دیر میں ان کے دولت کدے پر پہنچ جائوں گا ۔ لیکن بس ڈرایٔور نے قسم کھا رکھی تھی کہ آج میرٹھ سے آگرے خراماں خراماں چلنا ہے ۔ تمام سواریاں گرمی کی وجہ سے بے حال تھیں ۔ سب لوگ ڈرائیور کو اچھے اچھے القاب سے نواز رہے تھے ۔لیکن ڈرایئور پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا ۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ، پانچ گھنٹے کی طویل مسافت کے بعدآگرہ کی سر حدپر ’’خوش آمدید‘‘کے شائن بورڈ (Signboard) نظر آنے لگے ۔ میں نے حنیف سید صاحب کو اطلاع دی کہ میں آپ کے پاس جلد پہنچ جائوں گا۔ دورانِ گفتگو انھوں نے مجھے اپنے گھر کا پتا نوٹ کرا یا ۔ آخر کار رات کے 9 بجے میں واٹر بکس ( آگرہ ) اُتر گیا اور وہیں سے بجلی گھر کے لیے آ ٹور کشہ میں سوار ہو گیا ۔ آگرہ میں قدم رکھتے ہی عجیب سی حالت ہو گئی ۔ مجھے اس شہر میں نظیر ؔ، میرؔ اور عالبؔ کے گزارے ہوئے ایام یاد آنے لگے ۔ ساتھ ہی مغلیہ حکومت کی شان و شوکت،جاہ و جلال کے عکس نمایاں ہونے لگے۔ قدیم اور جدید طرز کی عمارتیں ہر طرف دکھائی دے رہی تھیں۔ دل میں طرح طرح کے خیال پیدا رہے تھے ۔ رہ رہ کر دماغ اُس دور میں پہنچ جاتا جہاں جانا ممکن نہ تھا ۔ اتنے میں آٹو والے نے بتایا کہ بابو جی بجلی گھر آ گیا ۔ سفر کب پورا ہوا معلوم ہی نہیں ہوا ۔ بجلی گھر سے میں نے فوارہ کے لیے رکشہ کیا ۔ فوارہ کا علاقہ آگرہ فورٹ جامع مسجد کے نزدیک واقع ہے ۔ جب میں آگرہ کی شاہی جامع مسجد کے قریب سے گزرا تو مجھے فوراََ دہلی کی جامع مسجد یاد آ گئی ۔ پتا کرنے کے پر معلوم ہوا کہ اس جامع مسجد کی تعمیر کسی مغل شہزادی نے کرائی تھی۔ باتوں باتوں میں فوارہ بھی آ گیا ۔ میں نے حنیف سید صاحب کو فون ملایا ۔ انھوں نے برگد کے نیچے والے مندر کے پاس آنے کو کہا ۔ چند قدم کے فاصلے پر وہ مندر تھا ۔ 5 منٹ کے انتظار کے بعد حنیف صاحب میری نظروں کے سامنے تھے ۔ مصافحہ کے بعد ہم دونوں سوئی کٹرا(حنیف سید کا گھر) کی جانب پیدل ہی روانہ ہو لیے ۔ راستے میںایک دکان پر اُردو کا سائن بورڈ نظر آیا تو طبیعت خوش ہوگئی ۔ اسی درمیان حنیف صاحب کا مکان آ گیا ۔ انھوں نے اپنی چھوٹی بیٹی نِمّی کو آواز دے کر دروازہ کھلوایا ۔ بیٹھک میں داخل ہوتے ہی سامنے حنیف صاحب کی ذاتی لائبریری تھی ۔ لائبریری میں رشید حسن خاں کی تخلیق اور مرتب کردہ کئی کتابیں موجود تھیں ۔ میری حیرانی میں اضافہ تب ہوا جب معلوم ہوا کہ رشید حسن خاں نے حنیف سید صاحب کو اپنے دستخط کردہ گلزارِ نسیم کتاب تحفتاََ دی تھی ۔ رات کو کھانے سے فارغ ہو کر ہم دونوں نے خاں صاحب کی علمی فتوحات اور ادبی کارناموں پر خوب باتیں کیں ۔ حنیف سید باتوں میں اس قدر محو ہوئے کہ وقت کا پتا ہی نہیں چلا کہ کب رات کے 12بج گئے ۔ دورانِ گفتگو گئی چونکا نے والے خلاصے ہوئے ۔ حنیف سید نے بتایا کہ کیسے خاں صاحب لوگوں سے کم ملتے تھے اور آنے والوں کو تاکید کر رکھی تھی کہ اگر مجھ سے ملنا ہے تو پہلے ٹیلی فون کر لیا کرو ۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ میں نے خاں صاحب کو مبارک شمیم ( ڈاکٹر قمر رئیس کے بڑے بھائی) کی کتاب کا رسمِ اجرا کرنے کے لیے بہت مشکل سے تیار کیا تھا ۔ لیکن میں ہی اُس تقریب میں پہنچ نہیں سکا ۔ مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہونے لگا تھا ۔ کیوں کہ میں دن بھر کے سفر سے تھک چکا تھا ۔ اب مجھے آرام کی سخت ضرورت تھی ۔ میں نے حنیف سید صاحب سے سونے کے لیے کہا ۔ بھلا وہ اس خاص گفتگو کو ادھورا کیوں چھوڑتے ۔ میں دھیرے دھیرے نیند کے آغوش میں چلا گیا ۔(یہ بھی پڑھیں مظہرامام کانظمیہ متن – پروفیسر کوثر مظہری)
سویرے جب آنکھ کھلی تو دن ، تاریخ اور وقت تینوں بدل گئے تھے ۔ صبح کے 6:30 بج چکے تھے ۔ حنیف صاحب تو مجھ سے پہلے ہی جاگ گئے تھے ۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ میں رات بھر خراٹے لیتا رہا اور دوسروں کی نیند بھی خراب کرتا رہا۔ خیر! تھوڑی دیر میں اندر سے ناشتہ آ گیا ۔ دوروٹی اور چار پراٹھے کے ساتھ چاے ۔ ناشتہ سے فارغ ہو کر میں نے تاج محل دیکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔ حنیف سید صاحب کی بیگم نے گرمی کا حوالہ دے کر اُنھیں گھر پر ہی رہنے کی تاکیدکی ۔ میں نے اکیلے ہی دنیا کی اس عظیم اور خوب صورت عمارت کا دیدار اکرنے کا فیصلہ کیا ۔ صبح 9بجے میں سوئی کڑہ سے تاج محل کی جانب نکل پڑا۔ کیوں کہ یہ میرا آگرہ میں پہلا سفر تھا ۔ ویسے میں تاج محل کی تصاویر کو اخبارات اور ٹیلی ویژن کے ذریعے دیکھ چکا تھا ۔ لیکن بہ چشم خود نہیں دیکھا تھا ۔ میرے دماغ میں شاہ جہاں اور ممتازبیگم کے طرح طرح کے عکس اُبھرنے لگے ۔ تقریباََ آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد آٹو والے نے مجھے تاج محل کے سائوتھ گیٹ پر چھوڑ دیا ۔ پہلی فرصت میں ،میں نے ٹکٹ خریدا اس کے بعد لائن میں لگ کر تاج محل کے اندر داخل ہوا ۔ تاج محل کے صدر دروازے کے دل کش منظرنے اورسامنے دروازے سے نکلتے ہوئے تاج محل نے میرا من موہ لیا ۔اس عظیم اور عالی شان عمارت کے دیدار نے مجھے جنونی بنا دیا ۔سورج کی تمازت بھی اپنا رنگ اور تیور دکھانے لگی تھی۔ صدردروازے کے دیدار کے بعد میں اندر چلا گیا ۔ سامنے محبت کا عظیم مقبرہ دھوپ ، بارش اور سردی کو برداشت کرتے ہوئے متواتر لوگوں کو بتا رہا ہے کہ دیکھو میں محبت کی ایجاد ہوں ۔ میں تو پہلی نگاہ میں ہی تاج کا گرویدہ ہو گیا تھا ۔ تاج محل سے نظر یں ہٹانے کا سوال ہی نہ تھا ۔ میں تاج کے بارے میں نئے نئے زاوئے سے غورو فکر کرنے لگا ۔ خیر ایک فوٹوگرافر نے آکر مجھے پکارا ، فوٹو پلیز!میں نے چار فوٹو تاج کے سامنے کے کھنچوائے۔ اس کے بعد میں اصل عمارت کے دیدار کرنے کے لئے تاج محل کے اندر داخل ہو گیا ۔ میں تاج کا طواف کر رہا تھا ۔ چاروں طرف کا نظارہ کتنا دل کش اور پر کشش تھا اُسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر میں مرحوم رشید حسن خاں پر تحقیق نہ کرتا تو کبھی بھی اس عظیم عمارت کے دیدار نہ کر پاتا ۔ میں نے دل سے مرحوم رشید حسن خاں کا شکریہ ادا کیا۔ پھر سوچا کہ کیا کبھی رشید حسن خاں بھی آگرہ آئے تھے ؟ انھوں نے اس تاریخی عمارت کا دیدار بھی کیا ہوگایا نہیں؟ یا اپنی تحقیق میں وہ اس قدر منہمک رہے ہوں گے کہ ادھر آنے کی فرصت ہی نہ ملی ہو۔ سوچتا ہوں کہ خاں صاحب ایک تحقیقی مضامین تاج محل پر بھی تحریر کر دیتے تو تمام طرح کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جاتا ۔ میں تقریباََ 3گھنٹے اس عمارت میں رہا ۔ میوزیم میں مغلوں کے ہتھیار اور مخطوتات کو غور سے دیکھا ۔ گرمی اپنے پورے شباب پر تھی ۔ جسے برداشت کرنا میرے بس میں نہیں تھا ۔ آگرے شہر جیسی گرمی میں نے کہیں نہیں دیکھی ۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شایدمحبت کی گرمی کوشاہ جہاں اور ممتاج دونوں مل کر پورے آگرے میں تقسیم کر رہے ہیں۔ میں اب جلدی سے سوئی کڑہ پہنچنا چاہتا تھا ۔کیوں کہ گرمی سے میرا بُرا حال تھا۔ آٹو پکڑ کر میں حنیف سید صاحب کے مکان پر پہنچ گیا ۔ میں نے خوب ٹھنڈا پانی پیا ۔ حنیف صاحب مسکرائے اور کہنے لگے برخوردار !یہ پتھر یلا علاقہ ہے ۔ یہاں گرمی اور سردی دونوں جم کر پڑتی ہے۔ میں نے دل میں سوچا کہ باد شاہ اور بیگم دونوں گہری نیند میں سو رہے ہیں اور باہر دنیا اُن کے بنائے ہوئے محبت کے مقبرے کے دیدار کے لیے پاگل ہو رہی ہے ۔ دنیا میں ہندوستان کا نام اس عظیم تاریخی عمارت سے ممتاز ہے ۔ میں آگرے کا اپنا کام جلد ختم کرنا چاہتا تھا۔ حنیف صاحب سے رشید حسن خاں کے بارے میں مزید معلومات اکھٹا کرنے لگا ۔ انھوں نے خاں صاحب کے بارے میں بہت سی کار آمد اور مفید باتیں بتائیں۔ باتوں باتوں میں شام کے 4 بج گئے ۔اب میں تھوڑا آرام کرنا چاہتا تھا۔ بستر پر درازہوتے ہی مجھے نیند آنے لگی۔ سو کر اُٹھا شام کے 6 بج چکے تھے ۔ حنیف صاحب نے کھانا تیار کرا دیا تھا ۔ شاید اُنھیں میرے سفر کی اہمیت کا اندازہ تھا ۔ دونوں نے ایک ساتھ کھانا کھایا ۔ میں اب لکھنؤ جانے کی جلدی میں تھا ۔ کیوں کہ وہاں بھی رشید حسن خاں کے عزیز دوست ربابؔ رشیدی میرا انتظار کر رہے تھے ۔ میں رکشہ سے آگرہ فورٹ اسٹیشن پہنچ گیا ۔ ٹکٹ میں نے پہلے ہی خرید لیا تھا ۔ ریزرویشن نہیں ہو سکا تھا۔ گاڑی ’’ مرود ھرایکسپریس‘‘ مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ لیٹ تھی ۔ میں خوش تھا۔ کیوں کہ لکھنؤیہ گاڑی مجھے علی الصباح 2:30 بجے اسٹیشن پر اُتارنے والی تھی ۔ آخر کار گاڑی آئی اور میں جنرل ڈبیّ میں سوار ہو گیا ۔ جیسے تیسے کر کے ایک سیٹ کا انتظام کیا ۔ میں نے اسٹیشن کے باہر سے ہی آگرہ کی شاہی جامع مسجد اور آگرہ قلع کے دیدار کیے ۔ گاڑی نے ہارن دیا ۔ سواریاں چڑ ھنے لگیں ۔ گرمی بہت تھی ۔ رات میں بھی ہوا گرم چل رہی تھی ۔ شاید یہ گرم ہوا بھی ٹرین میں سوار تمام لوگوں کو عظیم محبت کا گرم احساس کرانا چاہتی تھی ۔ اب میرے دماغ میں لکھنؤکا خاکہ تیار ہونے لگا تھا ۔ رات بھر مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد آخرکار 25 مئی صبح 3بج کر گیارہ منٹ پر چار باغ لکھنؤ اسٹیشن پر اُتر گیا ۔ سوچا اتنی رات گئے رِباب صاحب کو کیوں پریشان کروں؟میں نے اسٹیشن پر ہی موبائل چارج کیا ۔ فجر کی نماز کا وقت قریب تھا ۔ بغل میں ہی مسجد تھی ۔ مسجد گیا تو معلوم ہوا جماعت ہو گئی ہے ۔ نماز ادا کی اور وہیں مسجد میں سو گیا ۔
تقریباََ ایک گھنٹہ کی نیند لینے کے بعد میں نے اپنا سامان اُٹھا کر مسلم مسافر خانہ لکھنؤ کی جانب رُخ کیا ۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ یہاں پر ڈور میٹری یا کمرہ صبح 8 بجے ہی ملے گا ۔ میں پریشان ہو اُٹھا ابھی تو صرف 6 ہی بجے تھے ۔ میں سیدھا مسافر خانے کی کینٹین میں ناشتے کے لئے چلا گیا ۔ ناشتہ سے فارغ ہو کر میں نہانے کے بارے میں سوچنے لگا۔ اِدھر اُدھر گھومنے کے بعد ایک غسل خانہ کھالی نظر آیا اور میں رات کی تکان سے نجات پانے کے لیے اُس میں نہانے لگا۔ چوکی دار محمد اکمل نے جب میرا سامان لاوارث حالت میں دیکھا تو دروازہ زور سے پیٹنے لگا ۔ میں نے کہا بھائی! ذرا نہانے دیجیے۔ اُس نے سختی سے کہا اجنبی آدمی کو ایسے کیسے نہانے دیں ۔ میں نے نہانے کے بعد اُس سے ملنے کا وعدہ کیا ۔ نہا کر جب میں باہر آیا تو وہ میرے انتظار میں وہیں کھڑا تھا ۔ میں نے دس کا نوٹ اُس کی جیب میں ڈال دیا ۔ میں بھی مسکرایا اور سوچا کہ اب تو نہانے کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے ۔ اُس نے دس کے نوٹ کی گرمی سے میرے لکھنؤ آنے کا سبب پوچھا ۔ میں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ربابؔ رشیدی ملاقات کا ارادہ ظاہر کیا ۔ چوکی دار نے گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا کہ ربابؔ صاحب کو لکھنؤ میں کون نہیں جانتا ۔ اُس نے مجھے اُن کے گھر جانے کا راستا اور پتا بتایا ۔ (یہ بھی پڑھیں شبلی اور ان کی نظمیہ اردو شاعری – پروفیسر خالد محمود )
مسلم مسافر خانہ سے نکل کر میں نے رکاب گنج کا آٹو لیا ۔ رکاب گنج سے تازی خانہ چند قدم کے فاصلے پر ہی ہے ۔ میں خرامہ خرامہ رباب صاحب کے گھر کی جانب چل دیا۔ رباب ؔصاحب سے یہ تیسری ملاقات ہونے والی تھی ۔ سفید مسجد کے پاس تازی خانہ ہے ۔ پتا نہیں اس محلے کا نام تازی خانہ کیوں پڑا ۔ اس علاقے کی حالت بہت خستہ ہے ۔ چند منٹوں میں ، میںرباب صاحب کے مکان نمبر 126 تازی خانہ پر موجود تھا ۔ ویسے یہ مکان ربابؔ رشیدی کی خالہ کا ہے ۔ میں نے آواز دی ۔ اندر سے ایک خاتون نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور نام پتا معلوم کرکے اندر چلی گئی ۔ میں اپنی کلائی پر بندھی گھڑی میں دیکھا کہ ابھی تو صبح کے 7 بجے ہیں اور ملنے کا وقت دس بجے مقر ر ہوا ہے ۔آخر غلطی میری تھی کہ میں اتنی جلدی کیوں آیا۔ اُسی خاتون نے اندر آنے کے لیے دروازہ کھولتے ہوئے بیٹھک میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہاں ربابؔ صاحب آرام فرما رہے تھے ۔ انھوں نے مجھ سی مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ برخوردار! رات بھر سفر کیا ہے تم تھکے ہوگے ۔صوفے پر لیٹ جائیے ۔ میں نے سلام عرض کیا ۔ انھوں نے کہا کہ باقی باتیں بعد میں ہوں گی ۔ میں بھی یہی چاہتا تھا کہ تھوڑا سُستہ کر ہی رشید حسن خاں سے متعلق مواد پر گفتگو کی جائے ۔ صوفے پر لیٹتے ہی مجھے نیند آ گئی ۔ صبح 10 بج کر 15 منٹ پر ربابؔ صاحب نے آواز لگائی ۔’’ بر خوردار اُٹھ جائیے ۔مجھے لگتا ہے کہ آپ کی نیند پوری ہو گئی ہوگی ۔‘‘ میں فوراََ ہی اُٹھ گیا ۔ اتنے میں ایک لڑکا پانی لے آیا اور میں نے منھ دھویا ۔ وہی لڑکا ایک منٹ بعد ہی ناشتہ لے آیا ۔ ناشتے میں 3 روٹیاں تھیں ۔ ربابؔ صاحب نے ناشتہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ کیوں کہ وہ ناشتہ سے قبل پہلے اپنی دوائی کھانا چاہتے تھے ۔
ناشتے کے دوران میں نے رشید حسن خاں کا ذکر چھیڑ دیا ۔ کیوں کہ یہاں آنے سے قبل اپنے گھر سے میں نے یوسف ناظم کے خاکے کا تذکرہ کر دیا تھا ۔ رباب ؔصاحب نے کسی لڑکے کو بلایا اور ہدایت کی کہ دانش محل جاکر میرا سلام عرض کرنا اور ایک فوٹو کاپی لے آنا ۔وہ لڑکا چلا گیا ۔ باہر گرمی اپنا قہر برپا رہی تھی اور اندر میری علمی تشنگی مجھے بے حال کر رہی تھی ۔ ربابؔ صاحب نے رشید حسن سے آخری بار نہ ملنے کا افسوس ظاہر کیا ۔ کیوں کہ فروری 2006میں انھیں پیر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے لکھنؤمیں ہی رکنا پڑا ۔ جب کہ خاں صاحب سے ان کی ملاقات کا وقت مقرر تھا ۔ قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ ربابؔ صاحب نے بھرے من سے افسوس ظاہر کیا ۔ اسی دوران ربابؔ صاحب نے ڈاکٹر نسیم اقتدار علی کی دو کتابیں میرے لیے منگوائی تھیں ۔’’ دھوپ چھاؤں چہرے ‘‘اور’’ دیدہ و شنیدہ ‘‘۔ اول الذکر کتاب میں نسیم صاحبہ نے رشید حسن خاں کا دس صفحات پر مشتمل بہترین خاکہ لکھا ہے۔ اس خاکہ میں انھوں نے اپنے اور رشید حسن خاں کے دیر ینہ تعلقات کے علاوہ نجی زندگی سے متعلق بہت سی باتیں تحریر کی ہیں ۔ جن سے اُردو دنیا اب تک انجان تھی ۔ تقریباََ آدھ گھنٹے کے بعد ربابؔ صاحب کا بھیجا ہوا لڑکا اپنے ہاتھ میں یوسف ناظم کا خاکہ لیے حاضر تھا ۔ ربابؔ صاحب نے بتایا کہ میں یہ خاکہ پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں ۔ ربابؔ صاحب نے اپنی مترنم آواز میں ’’خانِ خاناں رشید حسن خاں ‘‘ خاکہ پڑھنا شروع کیا ۔ خاکہ کس انداز میں لکھا گیا ہے یہ تو پڑھنے اور سننے والا ہی بتائے گا ۔ رباب صاحب ہر نکات کی تشریح کرتے جاتے اور وہ یوسف ناظم کا جملہ دہراتے جاتے ۔ واقعی مجھے احساس ہوا کہ یوسف ناظم نے اس خاکہ میں اپنے قلمی جوہرخوب دکھا ئے ہیں۔ اِملا ، زبان و قواعد اور تحقیق کے منفرد لہجے کی نقل ، رشید حسن خاں کے علم کی شہرت پاکستان میں ، حنفی اور منفی کا جس خوب صورت انداز میں ذکر کیا ہے اُس سے قاری کے پیٹ میں بل ضرور پڑ جاتے ہیں ۔ کافی دیر تک ہم دونوں کے درمیان اسی خاکہ پر گفتگو ہوتی رہی ۔ میں نے رباب صاحب سے نیا دور دسمبر 2007 کا رشید حسن خاں نمبر بھی لیا۔ رباب صاحب نے یہ بھی بتایا کہ اگر آپ اُردو اکادمی لکھنؤ جائیں تو وہاں ڈاکٹر فرقان کاکوروی کے پاس خاں صاحب کاکوئی خط مل سکتا ہے کیوں کہ نسیم اقتدار علی کی ایک اور کتاب جو خطوط پر مبنی ہے کی کمپوزنگ وہی کر رہے ہیں ۔ وقت بہت ہو چکا تھا ۔اب میں لکھنؤ سے شاہ جہاں پور جانا چاہتا تھا۔جب میں نے اپنے دل کی کیفیت رباب صاحب کو بتائی تو وہ بہت خوش ہوئے۔شاہ جہاں پور میں جاکر مجھے کن لوگوں سے ملاقات کرنی ہوگی اور کن کن مقامات پر جانا ہے ،ان سب باتوں کی تفصیل ربابؔ صاحب نے میرے سامنے رکھی۔انھوں نے مجھے اپنے برادرِ خورد ماسٹر سہیل احمد کا موبائل نمبر اور ان کے گھر کا پتا لکھ کر دیا۔ساتھ میں یہ تاکیدبھی کی کہ جب تم شاہ جہاں پور ریلوے اسٹیشن پہنچ جاؤ تو مجھے اطلاع ضرورکر دینا۔
ربابؔ رشیدی کے گھر سے وداع ہو کر میں ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی(ایڈیٹر نیا دور،لکھنؤ)سے ملنے کے لیے اُن کے دفتر پہنچ گیا۔سفر کی گرمی سے میں پریشان تھا۔وضاحت صاحب کے دفتر میں ان سے ملاقات ہو ئی۔میں نے یہ شکایت کی کہ نیا دور احقر کو بر وقت موصول نہیں ہو رہا ہے۔انھوں نے اپنے دفتر کے کلرک سے جنوری ،فروری اور مارچ 2015 کے رسالے منگا کر میرے سپرد کیے۔میں نے اُن سے،اپنے لکھنؤ آنے کا مقصد بیان کیا۔وہ بہت خوش ہوئے۔نیا دور لکھنؤ کے دفتر سے فارغ ہو کر میں اُردو اکادمی لکھنؤ کے دفتر گومتی نگر پہنچ گیا۔اُردو اکادمی کی دیدہ زیب عمارت کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔دفتر کی تیسری منزل پرفرقان کاکوری صاحب سے میری ملاقات ہوئی۔میں نے رباب صاحب کا سلام اُن تک پہنچایا۔اور رشید حسن خاں کے خطوط سے متعلق ان سے دریافت کیا۔فرقان صاحب نے مجھے بتایا کہ اکادمی میں رکھے ہوئے تمام خطوط کو میں ڈاکتر نسیم اقتدار علی کے حوالے کر چکا ہوں۔میں مایوس ہوا۔اس کے بعد میں اکادمی کی لائبریری گیا تاکہ وہاں رشید حسن خاں پر کچھ مواد مل سکے۔لائبریری میں ’’مرقع معاصرین‘‘نامی کتاب میں رشید حسن خاں کی تصویر ’’محقق‘‘ کے صفحات پر لگی ہوئی تھی۔اس کتاب کی سنِ اشاعت اور پبلشرز وغیرہ کا نام میں نے اپنی ڈائری میں نوٹ کیا۔ لائبریری انچارج احسن قدوائی نے اپنے اور رشید حسن خاں کے تعلقات کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔میں خوش تھا کہ رشید حسن خاں سے متعلق جو معلومات(میری جان کاری کے مطابق) کتابوں میں درج نہیں تھی وہ مجھے تگ و دو کے ذریعے حاصل ہو گئی تھیں۔احسن قدوائی نے رشید حسن خاں کے ایک قصہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ خاں صاحب اکادمی کے مجلسِ مشاورت کے رکن ہونے کی وجہ سے اکثر لکھنؤ آتے تھے اور پروفیسر محمود الٰہی سے عمدہ چاے نہ ملنے کی وجہ سے ناراض ہو جاتے تھے اورکہتے تھے’’میاں آپ قاعدے کی چاے تو پلاتے نہیں ہو اور مجھے دہلی سے لکھنؤبلا لیتے ہو۔‘‘محمود صاحب خاں صاحب کی اس بات پر صرف مسکرا دیتے تھے۔کیوں کہ پروفیسر صاحب ان کے عمدہ چاے پینے کے شوق سے بہ خوبی واقف تھے۔بات چیت میں وقت کا پتا ہی نہ چلا کہ کب دوپہر کے تین بج چکے تھے۔مجھے شاہ جہاں پور بھی جانا تھا ۔میں نے احسن صاحب سے اجازت لی اور چار باغ ریلوے اسٹیشن لکھنؤ کے لیے آٹو میں بیٹھ گیا۔
اسٹیشن پر پہنچنے کے بعدمعلوم ہوا کہ شاہ جہاں پور جانے والی ’پنجاب میل‘ گاڑی تھوڑی تاخیر سے چل رہی ہے۔ٹکٹ لینے کی ہڈبڑا ہٹ میں کاؤنٹر پر ہی چالیس روپے بھول گیا۔اسٹیشن پر جمِ غفیر اس قدر تھاکہ تِل رکھنے کی جگہ نہ تھی۔کچھ لمحوں کے بعد پنجاب میل آ گئی اور میں اس میں سوار ہو کر شاہ جہاںپور کی جانب روانہ ہو گیا۔
دورانِ سفر رباب ؔصاحب کے کئی فون اس بات کی تصدیق کے لیے آئے کہ شاہ جہاں پور کتنی دیر میں پہنچ رہا ہوں۔کیوں کہ شاہ جہاں پور میں’’ملہار سنیما ‘‘کے پاس ان کے برادر خورد ماسٹر سہیل احمد میرا انتظارکر رہے تھے۔رات کے تقریباً پونے نو بجے میں شاہ جہاں پور پہنچ گیا۔میں نے رباب صاحب کو یہ اطلاع دی کہ میں بہ خیر ،علم و ادب کے شہر پہنچ گیا ہوں۔رکشہ میں سوار ہو کر میں ملہار سنیما،سرائے ترین کی جانب چل دیا۔اس دوران رکشے والے نے اس شہر کی خوبیوں اور خامیوں سے مجھے باور کرا یا۔جب رکشہ ملہار سنیما کی جانب سے گزرا تو ایک آواز نے مجھے چونکا دیا،ابراہیم افسر میرٹھ!وہ آواز ماسٹر سہیل احمد کی تھی۔حیرت مجھے اس بات کی تھی کہ انھوں نے مجھے پہچانا کیسے؟بہر کیف، میں رکشہ سے نیچے اترا اور سہیل صاحب کے ہم راہ ان کے دولت کدے کی جانب چل دیا جو محض پچاس قدم کے فاصلے پر واقع تھا۔رباب رشیدی اور سہیل احمد کی قد و قامت میں کافی حد تک مشابہت تھی۔گھر میں داخل ہونے کے بعد ماسٹر صاحب نے اپنی آرام گاہ کا دروازہ کھولا۔ان کے گھر میں کوئی چہل پہل نہ ہونے کی وجہ سے میںنے ان سے پوچھا کہ آپ کے بچے کہاںہیں۔اس پر وہ مسکرا دئے۔انھوں نے جواب دیا’’ابراہیم میاں اللہ نے مجھے صرف ایک لڑکی سے نوازا ہے۔‘‘تھوڑا آرام کرنے کے بعد سہیل صاحب نے میز پر دسترخوان لگا دیا۔اس دوران ماسٹر صاحب نے سفر کی تفصیلات اور تکلیفات کے بارے میں دریافت کرنا شروع کیا۔دورانِ گفتگو ماسٹر صاحب نے رشید حسن خاں سے متعلق بہت سی نئی معلومات مجھے فراہم کیں۔وہ بتانے لگے کہ کیسے پورا شاہ جہاں پورخاں صاحب کے علم و فن کی قدر اور ان کے علمی کارناموں پر فخر کرتا تھا۔کھانے سے فارغ ہوتے ہوتے رات کے دس بج چکے تھے۔ سفر کی تکان نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا تھا۔میں بستر پر دراز ہو گیااوراگلے دن کا پروگرام میں نے ماسٹر صاحب کو بتایا۔وہ میرے کام کرنے کے طریقے سے بہت متاثر ہوئے۔انھوں نے میری آنکھوں میں نیند دیکھ لی تھی ۔وہ شب بہ خیر کہہ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ (یہ بھی پڑھیں نظیر اکبر آبادی کا شعری مزاج – داکٹر صفدرامام قادری )
اگلے دن یعنی 26مئی 2015بہ روز منگل کی صبح 6بجے میں نیند سے بیدار ہوا۔ناشتہ کرنے کے لیے ماسٹر سہیل صاحب مجھے اپنے بالائی کمرے پر لے گئے۔کمرے میں ان کا ذاتی کتب خانہ تھا۔کتابوں کی ورق گردانی کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ کتابیں ربابؔ رشیدی نے انھیں تحفتاً دی ہیں۔رشید حسن خاں کی تحریر کردہ کتابوں کی فہرست بھی انھوں نے مجھے دکھائی۔ساتھ ہی خاں صاحب نے جو کتابیں انھیں تحفے میں دی تھیں ان کتابوں کو ایک شیلف میں قرینے سے لگا رکر رکھا گیا تھا۔علاوہ ازیں ماسٹر صاحب نے کتابوں کا ایک رجسٹر بھی تیار کر رکھا تھا۔اس میں اس بات کی بھی تفصیل تھی کہ خاں صاحب کی کون سی کتاب کب اورکہاں کتنی مرتبہ شائع ہو چکی ہے۔ ناشتہ سے فارغ ہونے کے بعد میں نے رشید حسن خاں کے پشتینی گھر کے دیدار کرنے کی خواہش ظاہر کی۔انھوں نے اپنے بچپن کے دوست خورشید حسن خاں سے فون پر رابطہ قائم کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ابھی گھر سے اپنے اسکول میں طلبا کو Mid Day Meal تقسیم کرنے کے لیے جانے والے ہیں۔سہیل صاحب نے میرے آنے کی اطلاع انھیں دی۔انھوں نے خورشید صاحب سے ملاقات کے لیے دس منٹ گھر پر رکنے کی گزارش کی۔خورشید حسن خاں نے اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔ہم فوراً ہی بالائی مکان سے اُتر کر اسکوٹی (Activa)پر سوار ہو کر محلہ باڑوزئی کی جانب چل دیے۔
پانچ منٹ کی مسافت کے بعد ہم دونوں مرحوم رشید حسن خاں کے آبائی گھر کے صدر دروازے پر کھڑے تھے۔خورشیدحسن خاں نے ہم دونوں کو گلے لگا کر گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا۔ہم تینوں گھر کے اندر کی جانب چل دیے۔سامنے برف خانے پر خالد حسن خاں کی بیگم ا ہل کاروں کو ہدایت دے رہی تھیں۔باہر گلی میں بھی آئس کریم کے ٹھیلے کھڑے تھے۔جو اس بات کی تصدیق کر رہے تھے کہ اندر آئس کریم کا کارخانہ موجود ہے۔جرنیٹر کا شور اور مشینوں کی گڑگڑاہٹ کے درمیان ہم لوگ رشید حسن خاں کی بیٹھک میں داخل ہو گئے۔بیٹھک میں داخل ہونے کے بعد میں نے عظیم سالار محقق اور خدائے تدوین کوسلام کیاجن کی علمی فتوحات کا دیدار کرنے کے لیے یہ سفر کیا ۔کمرے میں کتابوں کا انبار لگا ہوا تھا۔چاروں جانب کتابیں ہی کتابیںتھیں۔اگر میں یوسف ناظم کے الفاظ میں کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہاگر کتابیں کمروں کی چھتوں پر ٹانگنے کا رواج ابھی نہیں ہے ورنہ رشید حسن خاں چھتوں پر بھی کتابیں ٹانگ دیتے۔ رشید حسن خاں کی چھوڑی ہوئی نشانیوں کو قرینے سے لگا یا گیا تھا۔کمرہ تنگ ضرور تھا ۔لیکن ادبی اعتبار سے وسیع تھا ۔کمرے میں تین شیلف کتابوں سے ٹھسا ٹھس بھرے ہوئے تھے۔درجنوں قسم کے لغات اس بات کی ضمانت تھے کہ خاں صاحب تحقیق کے تئیں کتنے سنجیدہ تھے۔ ایک کرسی پر خاں صاحب کے ادھورے ادبی کارناموں کے گٹھر بندھے ہوئے تھے۔میز پر ریڈیو اور شیونگ مشین کے علاوہ مرحوم رشید حسن خاں کا چشمہ اور ٹوتھ پیسٹ بھی رکھا ہوا تھا۔دیواروں پر ان کے انعامات و اعزازات کی تصاویر سجی ہوئی تھیں۔سہیل صاحب نے خورشید حسن خاں سے میرا تعارف کرایااور شاہ جہاں پور آنے کا مقصد بیان کیا۔میں رشید حسن خاں سے جڑی ہر چیز کو اپنے موبائل میں قید کرنا چاہتا تھا۔تاکہ میں اپنے تحقیقی مقالے میں ان تمام چیزوں کو شامل کرسکوں۔میں نے اس کارِ خیر کے لیے خورشید حسن خاں کی اجازت چاہی۔انھوں نے بہ خوشی اس کام کی اجازت دے دی۔میں جلدی جلدی ہر اینگل سے تمام چیزوں کی تصویر لینے لگا۔اتنے میں خالد حسن خاں بھی کمرے میں آ گئے۔خورشید حسن خاں نے میرا تعارف خالد حسن خاںسے کرایا اور شاہ جہاں پور آنے کا مقصد تفصیل کے ساتھ بتایا۔خالدحسن خاں نے ہمیں بتا یا کہ والدِ محترم کی ہر کتاب اورچیزوں ی وہ ہی دیکھ بھا ل کرتے ہیں۔ساتھ ہی سال میں ایک بار کتابوں کو دھوپ میںضرور رکھتے ہیں۔تاکہ کتابوں کو سیلن سے بچایا جا سکے۔خالدحسن خاں نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ گروپینگ فوٹوبھی کرائی۔اسی دوران شاہ جہاں پوراور اُردو شاعری میں مشہور ومعروف شاعر اخترؔ شاہ جہاں پوری بھی کمرے میں داخل ہوئے۔میں نے اختر صاحب کو شاہ جہاں پور آنے کی اطلا ع میرٹھ سے روانہ ہونے کے ساتھ دے دی تھی۔ ہم سب اخترؔ صاحب کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔
اخترؔ شاہ جہاں پوری سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔بہ ذریعہ خط اور فون پر ان سے رابطہ بنا ہوا تھا۔خورشید نے اندر سے چاے منگوائی۔چاے کی چسکیوں کے درمیان اختر ؔشاہ جہاں پوری مرحوم رشید حسن خاں کی یادوں کو تازہ کرنے لگے۔بتایا کہ خاں صاحب دہلی سے شاہ جہاں پور آنے کے بعد کچھ پریشان سے رہتے تھے۔۔شہر میں کم لوگ ہی ان سے واقف تھے۔لوگوں کو وہ اپنے پاس کم ہی بلاتے تھے۔لوگوں کے گھر پر ان سے ملاقات کا کم موقع ملتا تھا۔کیوں کہ ملنے سے پہلے فون پر اجازت لینا ضروری تھا۔لیکن اخترؔ صاحب کو گھر پر آنے کی چھوٹ تھی۔شاہ جہاں پور میں وہی خاں صاحب کی ڈاک اور تمام ادبی خدمات کا ذمہ سنبھالتے تھے۔جیسے جیسے دن چڑھتا گیاگرمی بھی اپنے شباب پر آنے لگی۔خالد نے تھوڑی دیر بعد ٹھنڈا شربت منگوایا۔شربت پینے کے بعد میں نے شیلف میں رکھی ہوئی کتابوں کا عملی مشاہدہ کیا۔کتابوں کے عملی مشاہدے کے ساتھ میں رشید حسن خاں کی علمی افادیت اور اہمیت سے روبرو ہورہا تھا۔ساتھ ہی یہ احساس بھی ہو رہا تھا کہ رشید حسن خاں ابھی بول اُٹھیں گے کہ میاں !پہلے کچھ پڑھ لیجیے پھر تحقیق کا دامن تھامنا۔ ایک کونے میں رکھی میز پرر انعمات کی اسناد کوٹکٹکی لگائے دیکھ رہا تھاکہ میری نظر سرسوتی کی تصویر پر جا ٹکی۔ اسے میں نے چھو کر دیکھا۔پھر اس کرسی کو چھوا جس پر بیٹھ کر رشید حسن خاں علمی جہاں کی سیر کرتے تھے۔یہ کرسی خالص شیشم کی لکڑی کی بنی ہوئی تھی۔میز کے اوپر لگے ہوئے بلب کو دیکھا جس کی روشنی سے اُردو تحقیق و تدوین کے نئے باب روشن ہوئے۔میز پر کتابیں سلیقے سے لگی ہوئی تھیں۔میز پر بائیں جانب مسرّت انیس(لاہور)کا ایم اے کا مقالہ ’’رشید حسن خاں احوال و آثار‘‘ ،پیپر ویٹ،لغت اور ٹوتھ پیسٹ رکھا ہوا تھا۔دائیں جانب قلم دان ،قینچی کاغذ،قلم ،فون ،گھڑی اور ایک ریڈیو سیٹ(philips) رکھا ہواتھا۔کمرے کی چھت پر ایک پنکھا ٹنگاہوا تھا۔دوسری میز پر فائلوں کا ایک گٹھرر بندھا ہوا تھا۔اس میں وہ تمام دستاویز تھے جنھیں خاں صاحب نے غیر ملکی لائبریریوں سے منگوائے تھے۔کمرے میںبیٹھے ہوئے تمام لوگ میری اس حرکت کو بہ غور دیکھ رہے تھے۔خالد حسن خاں اپنے کمرے سے خاں صاحب کی د و انمول ڈگریاں اُٹھا کر لائے۔یہ جامعہ اُردو علی گڑھ کی ادیب کامل 1949 اور لکھنؤ یونی ورسٹی کی دبیر کلامل 1952 کی اسناد تھیں۔اس کے علاوہ میں نے اُن کتابوں کو بھی دیکھا جن پر رشید حسن خاں نے اپنے قلم سے املا کی اصلاح کی تھی۔جموں کشمیر حکومت کی اُردو کی پہلی کتاب کا حشر میں نے دیکھا ۔پوری کتاب پر لال روشنائی سے اصلاح دی گئی تھی۔اسی دوران اختر شاہ جہاں پوری نے رشید حسن خاں کی بک شیلف سے کلیات یگانہ مرتب مشفق خواجہ نکالی۔وہ صرف یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ مشفق خواجہ نے اس کلیات کو ترتیب دینے میںخاں صاحب سے کتنے مشورے کیے تھے۔
وقت تیزی کے ساتھ بھاگا جا رہا تھا۔میں اور سہیل صاحب اُن مقامات پر بھی جانا چاہتے تھے جن سے رشید حسن خاں کی یادیں جڑیں ہوئی تھیں۔اِدھر اختر شاہ جہاں پوری بھی مجھے اپنے گھر لے جانا چاہتے تھے۔اب خورشید صاحب نے اسکول جانے کا پروگرام ملتوی کر دیا تھا۔تقریباً ساڑھے گیارہ بجے ہم تینوں(راقم الحروف،ماسٹر سہیل اور اختر شاہ جہاں پوری )نے خور شید اور خالد سے وداع لی۔آخری بار میں نے عقیدت بھری نظروں سے ایک بار پھر رشید حسن خاں کی بیٹھک اور ان کی کتابوں کو بہ غوردیکھا۔
اب میں رشید حسن خاں کی آخری آرام گاہ (پیشاوری قبرستان جو ان کے مکان سے بہ مشکل سو قدم کے فاصلے پرواقع تھا)جانا چاہتا تھا۔ماسٹر سہیل نے
اس قبرستان اور خاں صاحب کی قبر کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔میں نے قبرساتن کے صدر دروازے کی چند تصاویر اپنے کیمرے میں قید بھی کیں۔اسی دوران اختر شاہ جہاں پوری اپنی بائسکل پر سوار ہوکر ہمارے پاس آ گئے۔میں اختر صاحب کی سادگی اور نرم گفتاری کا قائل ہو گیا تھا۔اختر صاحب نے ہم دونوں سے اصرار کیا کہ آپ یہاں سے سیدھے رنگین چوپال آ جایئے ۔ہم دونوں اسکوٹی پر سوار ہو کر رنگین چوپال چلے گئے۔سورج کی تپش بڑھتی جا رہی تھی۔دس منٹ کے بعدہم دونوں اخترصاحب کے مکان کے سامنے حاضر تھے۔اختر صاحب کا گھر علم و ادب کا گہوارہ تھا۔کتابیں چاروں طرف بکھری ہوئی تھیں۔باتوں باتوں میں ہمیں بتایا کہ ان کی عمر کے چالیس برس آرڈنینس کلودنگ فیکٹری میں گزرے ہیں اور اب انھیں فیکٹری سے پنشن ملتی ہے۔اختر صاحب نے اپنی فوٹو البم سے ہمیں رشید حسن خاں کی نایاب تصویریں دکھائیں۔میں نے ان تصاویر کو اپنے کیمرے میں قیدکرلیا۔اس کے بعد اختر صاحب نے رشید حسن خاں کے وہ خطوط دکھائے جو انھوں نے گائر ہال سے ان کے نام تحریر کیے تھے۔ان میں احمد ندیم قاسمی کا وہ خط بھی شامل تھا جو انھوں نے خاں صاحب کی علالت کے دوران لکھا تھا۔میں نے پروفیسر نیّر مسعود کا وہ خط بھی دیکھا جس میں ایوانِ اُردو دہلی میں شائع رشید حسن خاں کے مضمون کی نفی کی گئی تھی۔ان نادر و نایاب خط کی فوٹو کاپی کرانے کے لیے اختر صاحب سے خواہش ظاہر کی۔اسی دوران سہیل صاحب کے گھر سے دوپہرکا کھانا کھانے کے لیے فون آنے شروع ہو گئے۔ادھر اختر صاحب نے بھی اپنے یہاں کھانا بنانے کا حکم صادر کر دیا۔میں اختر صاحب کے گھر پر ہی کھانا تناؤل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔اختر صاحب نے مجھے وہ کتابیں دکھائیں جنھیں پڑھنے کے بعد رشید حسن خاں نے اپنے قلم سے حاشیہ پرتبصرہ کر رکھا تھا۔ جب میں نے ان تبصروں کا مطالعہ کیاتو علم کی گہرائی اور گیرائی میں غوطے لگانے لگا۔اس کے بعد میں اختر صاحب کی لائبریری کا مشاہدہ کرنے لگا۔ان کی لائبریری میں مجھے ایک کتاب ’’مکاتیب رشید حسن خاں بنام رفیع الدین ہاشمی مرتب ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد‘‘ ملی۔کتاب اُرود بازار لاہور سے شائع ہوئی تھی۔یہ کتاب اختر صاحب نے مجھے تحفتاً دی۔میں اس کتاب کو پا کر بہت خوش ہوااور دل ہی دل میں سوچا کہ جس مقصد کے لیے میں نے یہ سفر کیا وہ پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔کچھ دیر بعد خطوط کی فوٹو اسٹیٹ آ گیئں۔دسترخوان پر کھانا لگایا جا چکا تھا۔ہم تینوں نے کھانا کھایا۔کھانے سے فارغ ہوکر میںنے اور سہیل صاحب نے اختر صاحب سے جانے کی اجازت لی۔کیوں کہ دوپہر کے ڈھائی بج چکے تھے اور کام ابھی بہت باقی تھے۔ادھر سورج کی گرمی میں شدت آ چکی تھی۔لیکن میں اس گرمی سے گھبرایا نہیں۔میرے ارادے اور مضبوط ہوتے گئے۔ میںنے رنگین چوپال سے سیدھے شوقین بک ڈپو، مدرسہ بحرالعلوم اور اسلامیہ انٹر کالج جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔سہیل صاحب سب سے پہلے مجھے مدرسہ بحرالعلوم لے گئے جہاں رشید حسن خاں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔مدرسہ کو بود و باس کی حالت میں دیکھ کرمجھے دھچکہ لگا۔کیوں کہ اب یہاں طلبا کی جگہ شہر کے اوباش لوگ اور آوارہ جانور جمع تھے۔مدرسے کی بلڈنگ کے رکھ رکھاؤ کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا۔میںنے اس جگہ کی کئی تصاویر لیں۔اب ہماری منزل اسلامیہ انٹر کالج تھی جہاںرشید حسن خاں نے کچھ عرصے تک بہ حیثیت معلم کام کیا تھا۔مدرسہ بحر العلوم سے ہم پانچ منٹ میں اسلامیہ انٹر کالج کے میں گیٹ پرپہنچ گئے۔لیکن موسم گرما کی تعطیلات کی وجہ سے کالج بند تھا۔کالج کا دروازہ باہر سے بند تھا۔اس کالج کو اندر سے دیکھنے کی حسرت میرے دل میں ہی رہ گئی۔اس تاریخی کالج کی چند تصویریں میںنے اپنے موبائل میں قید کیں۔اب میری آخری منزل شوقین بک ڈپو تھی۔راستے میں سہیل صاحب نے مجھے بتایا کہ کسی زمانے میں یہ بہت بڑی دکان تھی۔اُردو کی نادر کتابیں یہاں ملتی تھیں۔شہر بھر کے تشنگان علم وادب اس دکان پر اپنی علمی پیاس بجھانے آتے تھے۔رشید حسن خاں بھی ان میں سے ایک تھے۔کتابیں پڑھنے کے لیے لے وہ شوقین بک ڈپو روزانہ جاتے تھے ۔بیرون اور اندرون ملک کے اُردو اخبار و رسائل (نگار ،نقوش ،شمع وغیرہ) یہیں سے خریدتے تھے۔رشید حسن خاں اسلامیہ انٹر کالج سے پڑھانے کے بعد سیدھے شوقین بک ڈپو جاتے اور اور اپنی پسند کی کتابیں گھر لے جاتے تھے۔خاں صاحب بھی اپنے مطلب کی کتابیں آرڈر پر ان سے ہی منگواتے تھے۔لیکن اب یہ دکان چار حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔چند منٹ کی مسافت کے بعد ہم دونوں شوقین بک ڈپو کے سامنے تھے۔میں نے خود دیکھا کہ واقعی اب یہ دکان بہت چھوٹی ہو گئی ہے۔لیکن اُردو کے اخبارات اور رسائل آج بھی یہاں رکھے ہوئے تھے۔اُس وقت دکان پر موجودشوقین بک ڈپو کے مالک کے پوتے کو میں نے اپنے آنے کا مقصد بتایا۔وہ بہت خوش ہوا کہ اس بہانے سے ہماری دکان لوگوں کو یاد رہے گی۔اس تاریخی دکان کی ہر اینگل سے تصا ویر اتاریں۔یہاں سے ضروری معلومات حاصل کرنے کے بعد اب دونوں سہیل صاحب کے مکان کی جانب چل دیے۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا ۔میں نے اپنی گھڑی کی جانب دیکھا تو تین بج کر پچاس منٹ ہو چکے تھے۔سہیل صاحب کے گھر پر تھوڑا آرام کرنے کے بعد
میں نے میرٹھ جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔وہ بہ ضدتھے کہ میں اگلے دن میرٹھ جاؤں۔لیکن میرے گھر سے بار بار میری خیریت جاننے کے لیے فون آ رہے تھے۔میں محلہ سرائے ترین سے ریلوے اسٹیشن آیا جہاں پر راجیہ رانی ٹرین(لکھنؤ سے میرٹھ) آنے کا وقت ہو چلا تھا۔تقریباً ساڑھے پانچ بجے میں شاہ جہاں پور سے میرٹھ کے لیے ٹرین میں سوار ہو گیا۔واپسی میں،میںدورانِ سفر آگرہ،لکھنؤ اور شاہ جہاں پور کے کی یادوں میں کھویا رہا۔اور شکریہ ادا کیا مرحوم رشید حسن خاں کا کہ جن کے طفیل میں ،میںنے اپنا طویل علمی ادبی اور تحقیقی سفر مکمل کیا۔راستے میں میں نے ربابؔ رشید ی صاحب کو فون پر یہ اطلاع دی کہ میں شاہ جہاں پور سے کام مکمل کرکے میرٹھ واپس جا رہا ہوں۔رباب ؔصاحب نے مجھے بہت سی دعائیں دیںاور اپنا تحقیقی کام جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت بھی دی۔
راجیہ رانی ایکسپریس میرٹھ ریلوے اسٹیشن پر رات کو نو بج کر تیس منٹ پر پہنچی۔اسٹیشن پر اُترنے کے بعدمیں نے عزیز م ریاض الدین کو فون کیا۔معلوم ہوا کہ وہ مظفر نگر سے میرٹھ آ رہے ہیں۔اس وقت گھر جانے کے لیے کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ریاض صاحب نے مجھ سے کہا کہ ہم دونوں میرٹھ میں مقیم ان کے بہنوئی کے گھر پر قیام کریں گے۔ہم دونوں رات میں تقریباً گیارہ بجے ان کے بہنوئی کے گھر پہنچے۔کھانے سے فارغ ہو کر میں نے ریاض صاحب کو اپنے سفر کی روداد بتائی۔اگلے دن 27مئی 2015بہ روز بدھ ہم دونوںاپنے آبائی قصبہ سِوال خاص(میرٹھ،یو پی) کے لیے روانہ ہوئے۔دورانِ سفر میں سوچ رہا تھا کہ کیسا حسنِ اتفاق ہے،ریاض صاحب میرے ساتھ 23مئی 2015کو بھی تھے ،جب میں نے سفر کا آغاز کیا تھااور آج بھی وہ میرے ساتھ ہے جب میں نے رشید حسن خاں کے ادبی کارناموں کی تلاش و تحقیق میں اپنا پہلا ادبی سفر مکمل کیا۔
( 30مئی2015،بہ روز سنیچر)
مضماننگار کا مختصر تعارف ڈاکٹر ابراہیم افسر )
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
[…] متفرقات […]