مختار شمیم :حیات اور ادبی کارنامے/ ڈاکٹر محمد ناظم حسین -ڈاکٹر ابراہیم افسر
زیر تبصرہ کتاب ’’مختار شمیم:حیات اور ادبی کار نامے‘‘پر ڈاکٹر محمد ناظم حسین کا تحقیقی مقالہ ہے جس پرموصوف کو وکرم یونی ورسٹی اُجین (ایم پی)نے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی ہے۔ڈاکٹر محمد ناظم نے اپنے تحقیقی و تنقیدی مقالے کو ڈاکٹرظفر محمود شعبۂ اُردو مادھو کالج اُجین کی زیر نگرانی 2016 جولائی کو مکمل کیا۔27مئی2107کو ڈاکٹر محمد ناظم حسین کو اس مقالے پر یونی ورسٹی نے پی ایچ ڈی کی سند تفویض کی۔
ڈاکٹرمختار شمیم اُردو دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ موصوف نے رئٹائرمنٹ تک مدھیہ پردیش کے مختلف ڈگری کالجز میں اُردو زبان و ادب کی خدمات انجام دیں ہیں۔اپنے استاد محتر م ڈاکٹر ابو محمد سحر مرحوم کی سنجیدگی،گہرے ادبی مطالعے اور منصفانہ مزاج سے انھیں والہانہ عقیدت تھی۔’’صاحبِ فکرو نظرڈاکٹر ابو محد سحر‘‘کے نام سے2006 میں کو ثر صدیقی کے ساتھ مختار شمیم نے ایک کتاب مرتب کی ۔اس کتاب میں ڈاکٹر مختار شمیم نے ڈاکٹر ابو محمد سحر کی کتابوں کے علاوہ ان کی علمی و ادبی فتوحات پر قلم اٹھا یا۔ابو محمد سحر کے علمی و ادبی کارناموں پر مبنی ایک اور کتاب’’استاذی ڈاکٹر ابو محمد سحر اور ان کے شفقت نامے‘‘(2016)منظر عام پر آئی۔یہ دونوں کتابیں ایک شاگرد کا اپنے استاد کی علمی صلاحیتوں کا اعتراف نامہ ہیں ۔ڈاکٹر محمد ناظم حسین کی کتاب ’’مختار شمیم :حیات اور ادبی کارنامے ‘‘منظر عام پر آنے سے قبل محمد توفیق خاں نے ’’مختار شمیم ایک تاثر ‘‘کے عنوان سے کتاب تحریر کر مختار شمیم کے ادبی کارناموں خاص کر شاعری ،تحقیق ، تنقیداور اُردو صحافت سے اُردو ادب کے سنجیدہ قاری کو رو شناس کرایا۔اس کے علاوہ ماہ نامہ ’شاعر‘ممبئی نے2005میں مختار شمیم کی ادبی خدمات کے حوالے سے ایک گوشہ نکالا۔اس گوشے میں ان کے علمی و ادبی کاموں پر ملک کے نامور ادیبوںنے مختار شمیم کی شخصیت اور فن پر خامہ فرسائی کی۔ارباب عقد و حل نے اس گوشے پر اپنی مثبت رائے کا اظہار کیا۔سیفی سرونجی کی ادارت میں نکلنے والے رسالے’انتساب‘میں ایک خصوصی گوشہ مختار شمیم کی شخصیت کے شایان ِ شان نکالا گیا۔سیفی سرونجی نے اس خصوصی گوشے کے علاوہ اس نابغۂ روزگار شخصیت کے کار ہائے نمایاں پرایک کتاب’’ایک مہربان دوست‘‘کے نام سے تخلیق کر ارباب نظر کے سامنے پیش کی۔اس کتاب کو ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ڈاکٹر محمد ناظم حسین نے مدھیہ پردیش کی اس ذی شعور اور علم و ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والی شخصیت پر تحقیقی مقالہ لکھ کر صحیح معنی میں علمی خراج عقیدت کے ساتھ ان کے تحقیق اور تنقیدی کارناموں کا حق بھی ادا کیا ہے۔میں یہاں یہ عرض کر دوں کہ ڈاکٹر محمد ناظم حسین اس موضوع سے قبل ’’محمد خالد عابدی بھوپالی :حیات و ادبی خدمات‘‘پر کام کرنا چاہتے تھے لیکن نگراں ڈاکٹر غلام حسین ،صدر شعبہ اُردو مادھو کالج اُجین نے محمد ناظم حسین کو تحقیقی مقالہ سپرد قلم کرنے کے لیے ڈاکٹر مختار شمیم کا نام تجویزکیا۔اس طرح محمد ناظم حسین کا یہ تحقیقی سفرپایۂ تکمیل کو پہنچا۔ ڈاکٹر محمد ناظم حسین اپنی کتاب ’’ڈاکٹر مختار شمیم :حیات اور ادبی کارنامے ‘‘کے دیباچہ میں ڈاکٹر مختار شمیم کی شخصیت اور علمی کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے یوں رقم طراز میں:
’’مختار شمیم کا شمار عہد حاضر میں صاحب نظر ادیب،کہنہ مشق شاعر،بے باک صحافی اور محتاط محققین و ناقدین میں ہوتا ہے۔ادب کے قدیم و جدید رجحانات پر ان کی نظر رہتی ہے۔ان کی تحریروں میں تحقیقی اصولوں کی کارفرمائی اور فکر و نظر کی کار فرمائی اور فکرو نظرکی وہ آئینہ داری ہے کہ ان کی اصبات رائے،ارباب حل و عقد کے مابین مسلم ہے ۔مدھیہ پردیش میں تحقیقی و تنقیدی روایات کو فروغ دینے میں ان کی ادبی،تحقیقی و تنقیدی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔حقیققت پسندی ،راست گوئی ،بے لاگ فیصلوں اور اہم کارناموں کے سبب مختار شمیم اہل نظر میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ تحقیق ہو یا کہ تنقید ان کے لیے’بند غم‘نہیں بلکہ ’قید حیات‘ہے۔ان کے تحقیقی و تنقیدی کارنامے حرف و لفظ کی حرمت کے باعث لائق احترام ہیں۔‘‘
(دیباچہ،مختار شمیم ،حیات اور ادبی کارنامے،دارالاشاعت مصطفائی،دہلی،2017،صفحہ7)
ڈاکٹر محمد ناظم حسین نے اس کتاب کو چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔پہلے باب میں موصوف نے ڈاکٹر مختار شمیم کی حیات و شخصیت کے بارے میں تفصیلات بیان کی ہیں۔مختار شمیم کے نام کے حوالے سے ناظم حسین نے لکھا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے قاری محمد طیب نے ان کا نام ’’اخترالاسلام‘‘تضویض کیا تھا۔ان کی والدہ نے ان کا نام’شمیم ارشد‘رکھا۔مختار شمیم کی تاریخ ولادت دو درج ہیں۔پہلی23 مارچ 1944ا ور دوسری2 اگست 1945۔ڈاکٹرمختار شمیم نے اپنا تحقیقی مقالہ’’ریاست ٹونک اور اُردو شاعری‘ ‘‘کے نام سے رقم کیا۔دوسرا باب ’سرونج کی تاریخی اور ادبی صورت حال‘کے عنوان سے قائم کیا گیا ہے۔اس باب میں ’سرونج ‘کے علمی،ادبی اورسیاسی وقار و افتخار کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔تیسرے باب میں مختار شمیم کی افسانہ نگاری(افسانوی مجموعہ پس غباراور ریڈیائی ڈراموں کے حوالے سے) پر ڈاکٹر محمد ناظم نے سیر حاصل گفتوگو کی ہے۔’پس غبار میں شامل چھ کہانیوںاور ریڈیائی ڈراموں کا تنقیدی جائزہ اس باب میںپیش کیا گیا ہے۔چوتھے باب میں مختار شمیم کی شاعرانہ صلاحیتوں پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ان کے شعری مجموعوں’نامۂ گل‘(1978)،’دریچۂ گل(1984)،’حرف حرف آئینہ(1986) اور’ہجر کی صبح ہجر کی شام‘(2016) کی غزلوں اور نظموں پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے ڈاکٹر محمد ناظم نے اپنی تنقیدی بصیرت کا مسلم ثبوت پیش کیا ہے۔نمونۂ کلام کے طور پرمختار شمیم کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
میں ایک نقطۂ بے فیض و بے سبب کیا تھا
جو لفظ لفظ پہ ہوتا نہ اختیار مجھے
( یہ بھی پڑھیں نسائی احساسات کی ایک معتبر شاعرہ -ڈاکٹر مینا نقوی – ضیاؔ فاروقی)
اجداد سے وہ کرب ملا ہے کہ اے شمیمؔ
ہر سانس پر گماں ہے مسلسل عذاب کا
٭
ہمارے درد کو پڑھ لو !کھلی کتاب ہیں ہم
ہر ایک چہرہ یہ کہتا دکھائی دیتا ہے
پانچوے باب میں مختار شمیم کی تحقیقی و تنقیدی کاوشوں کا (ریاست ٹونک اور اُردو شاعری،ظہیر دہلوی حیات و فن،تناظر و تشخص اور سوادِ حرف اور دوسرے تحقیقی و تنقیدی مضامین )تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔آخری یعنی چھٹے باب میں مختار شمیم کی صحافتی خدمات کا عمومی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔مختار شمیم کی ادبی شناخت اور پہچان بنانے میں رسالہ ’’راہی‘‘ (1963)کا کردار نمایاں ہے۔ اس رسالے کے کئی خاص نمبر’افسانہ نمبر‘اور’ غزل نمبر ‘بھی نکالے گئے۔رسالہ ’امیر‘،اخبار’اداریہ‘اور رسالہ’ہلچل‘میں مختار شمیم کی صحافتی خدمات کا جائزہ لیاگیا ہے۔ماحصل کے تحت ڈاکٹر محمد ناظم حسین نے اپنے تحقیقی مقالے کا نچوڑ پیش کیا۔ضمیمہ کے تحت ’کلیات غزلیات ظہیر دہلوی‘اور ’استاذی ڈاکٹر ابو محمد سحر اور ان کے شفقت نامے ‘پر تنقیدی گفتگو کی گئی ہے۔کتاب یات کے باب میں 63 تحقیقی اور تنقیدی کتابوں کی فہرست پیش کی گئی ہے۔کتاب یات کے تحت ڈاکٹر محمد ناظم حسین نے اُردو تحقیق کی بنیادی کتابوں کے نام شامل نہیں کیے ہیں۔ کتاب یات میں ان کتابوں کے نام شامل نہ ہونے کی وجہ سے قاری کو کتابوں کی فہرست نا مکمل سی لگتی ہے۔اگر فہرست کتب میں تحقیق کا بنیادی ماخذ نہیں ہوگا تو تحقیقی کام پر سنجیدہ قاری برہم ضرور ہوگا۔مقالہ نگار نے ڈاکٹر مختار شمیم اور کوثر صدیقی کی ترتیب کردہ کتاب ’صاحبِ فکر و نظر ڈاکٹر ابو محمد سحر‘کو کتاب یات کی فہرست میں شامل نہیں کیاہے۔ اس کتاب نے مختار شمیم کی ترتیبی صلاحیتوں کو بام عروج پر پہنچانے میں کلیدی کرادر ادا کیا۔ بحرکیف!ڈاکٹر محمد ناظم نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر8 اور سطر نمبرسات پر مردہ لوگوںاور زندہ لوگوں پر تحقیق کرنے کے نقطۂ نظر پر بحث کی گئی ہے۔میری نظر میں یہ بحث گذشتہ صدی میں بھی تھی اور آج بھی ہے۔مردہ اور زندہ لوگوں پر تحقیق کرنے کے سلسلے میں ایک طبقے کا یہ ماننا ہے کہ زندہ لوگوں پر تحقیق نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ جب تک انسان زندہ ہے اس کے نظریات اور خیالات میں تدیلی ممکن ہے اورجب تک وہ بقید حیات ہے اس کا ادبی کام بھی مکمل نہیں مانا جائے گا۔وہیں دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ اگر ادبی شخصیات ایک پختہ عمر کو پہنچ جائے تو ان کے ادبی کارناموں پر تحقیقی مقالے تحریر کیے جا سکتے ہیں۔اس تحقیقی مقالے کا کتابی صورت میں منظر عام پر آنا باعث افتخار ہے۔ورنہ یہ دیکھا گیا ہے کہ تحقیقی مقالے ایک مدت گزر جانے کے بعد کتابی صورت میں پیش ہوتے ہیں(یا ہوتے ہی نہیں ہیں)۔میں ڈاکٹر محمد ناظم کو ان کی تحقیقی و تنقیدی کاوش ’’مختار شمیم حیات اور ادبی کارنامے ‘‘کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ کتاب میں جو کمیاں اور خامیاں در آ گئی ہیں (کتاب یات اور زندہ اور مردہ لوگوں پر تحقیق کرنے کے تعلق سے)انھیں آیندہ اڈیشن میں ضرور دور کرلیا جائے گا۔اس کتاب کے منظر عام پر آنے سے ڈاکٹر مختار شمیم کی ادبی زندگی کو کوزے میں بند کیا گیا ہے۔
٭٭٭
1 comment
[…] کتاب کی بات […]