انسان اپنی زندگی میں بہت سے مشاہدات اور تجربات سے گذرتا ہے۔اور یہ مشاہدات وتجربات اس کے خلاقی ذہن سے مل کر ایک اعلی پائے کی تخلیق کو جنم دیتی ہے۔ سیدمحمد محسن ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے افسانے میں اپنے فکر کی ارتفاعی رنگ کی آمیزش سے افسانہ کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔ ان کا تعلق صوبہئ بہار کے سر زمین عظیم آباد سے ہے۔ ان کی پیدائش عظیم آباد کے محلہ سبزی باغ میں ۰۱ جولائی 1910 کو ہوئی۔ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔1931میں پٹنہ کالج سے فلسفے میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور یہیں سے مں 1934 ایم۔اے اول درجہ سے پاس کیا۔ 1938 میں عارضی طور پرپٹنہ کالج میں فلسفہ کے لکچرر منتخب ہوئے اور پھر مستقل طور پر وہیں ان کی تقرری ہو گئی۔ 1946-48 میں تحقیق کے سلسلے میں اڈنبرا یونیورسیٹی (برطانیہ) گئے،وہاں علم نفسیات اور فلسفہ کی تعلیم علیٰحدہ ہوتی تھی، یہاں تک کہ اس کے لئے الگ سے ایک شعبہ بھی قائم کیا گیا تھا۔ اس لئے محمد محسن کا رشتہ فلسفہ کے ساتھ ساتھ علم نفسیات سے بھی جڑ گیا۔جب وہ برطانیہ سے لوٹے تو ان کا تقرر پٹنہ کالج کے شعبہ نفسیات میں بطور لکچرر ہو گیا اوریہی سے سبکدوش بھی ہوئے۔ سیدمحمد محسن کے تخلیقی سفر کا آغاز ترقی پسند عہد میں ہوا۔ ان کا پہلا افسانہ ”انوکھی مسکراہٹ“ رسالہ ساقی میں شائع ہو کرمنظر عام پر آیا جسے ادبی حلقے میں بہت شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے اور بہت سے افسانے لکھے جن میں،”تعمیرجنوں“،”زہری“،”رد علم“،”طوائف“،”احساس گناہ“،”شکست عزم“،”فرار“،”نئی ماما“،”جھوٹی بھوک“،”لذت اعزار“،”باغی“،”ماں“، اور”خون اثر“، قابل ذکر ہیں۔ یہ تمام افسانے ان کے مجموعہ انوکھی مسکراہٹ میں شامل ہیں۔
سید محمد محسن کی وابستگی فلسفہ کے ساتھ ساتھ علم نفسیات سے بھی تھی لہذا ان کے زیادہ تر افسانے کسی نہ کسی نفسیاتی پہلو کو نمایاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان افسانوں کے علاوہ انہوں نے ایک اورافسانہ ”مزدور کا بیٹا“ لکھا تھاجو پوری طرح سے ترقی پسندی تحریک کی نمائندگی کرتا ہے۔لیکن اس کے بعد جتنے افسانے انہوں نے لکھے وہ تمام افسانے ”انوکھی مسکراہٹ“ کے طرز پر لکھے۔”انوکھی مسکراہٹ“ کے پیش لفظ میں وہ رقم طراز ہیں:
”انوکھی مسکراہٹ“ میرا پہلا شائع شدہ افسانہ ہی نہیں بلکہ یہ میری پہلی افسانوی کوشش ہے۔اس کے بعد میں نے اس دور کی ترقی پسند تحریک سے متاثر ہو کر ایک دوسرے طرز کا افسانہ ”مزدور کا بیٹا“ لکھا جو اس مجموعے میں شامل نہیں ہے۔یہ افسانہ بھی ساقی کے خاص نمبر میں شائع ہوا تھا۔ اور چند سال تک میٹریکولیشن کورس کے منتخب ادبی نگارشات میں اسے بھی جگہ ملتی رہی۔اس کے بعد میں نے اپنی ہر افسانوی تخلیق کو ”انوکھی مسکراہٹ“کے طرز پر ڈھالنے کا فیصلہ کر لیا اور بعد میں جو افسانے لکھے مواد کے اعتبار سے ان میں ایک مستقل تسلسل قائم رکھا۔“
میرے پیش نظر ان کا پہلااور مشہور افسانہ ”انوکھی مسکراہٹ“ ہے۔ یہ افسانہ اس دور میں اپنے جدید فکر واسلوب کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکزرہا۔ اس سلسلے میں محمد محسن کی یہ بات یہاں رقم کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو انہوں نے ”یہ افسانے“ کے نام سے لکھے اپنے پیش لفظ میں کہی ہے:
”انوکھی مسکراہٹ“ اردو افسانے کی تاریخ میں کچھ ایسا ناقابل فراموش تاثر چھوڑ گیا کہ چھتیس سال گزر جانے کے بعداب تک بہار کی یونیورسیٹیوں کے نصاب میں قدیم و جدید افسانوں کے انتخاب کے پیش نظر اسے بھی شامل کرلیا جاتا ہے گر چہ عام طور سے اس افسانے کے مصنف کی شخصیت اس شخص سے الگ سمجھی جاتی ہے جسے لوگ سید محمد محسن معلم نفسیات کے حوالے سے جانتے ہیں۔ اس کا ترجمعہ ہندی میں انوکھی مسکان، انگریزی میں سونیا، چند اور بہت سے دوسری ہندوستانی زبانوں میں دوسرے عنوان کے ساتھ شائع ہوئے۔“
یہ افسانہ پوری طرح سے ایک نفسیاتی افسانہ ہے جو انسانی جبلتوں کو پوری طرح نمایاں کرتا نظر آتا ہے۔ اس افسانے کو لکھنے کا محرک کیا بنا اس کا بیان بھی سید محمد محسن نے اپنے مجموعے میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
”یہ افسانہ جس تاثر کے پیش نظر لکھا گیا تھا اس کا ذکر نہ مناسب نہ ہوگا،میرے پھوپی زاد بھائی کا ایک آٹھ دس سالہ لڑکا فوت ہو گیا۔ ہم لوگ اس کا جنازہ شہر کے قدیم گورستان پیر منہاری میں سپرد خاک کرنے کو لے گئے۔ہم سب جنازہ سامنے رکھے غم سے چور منتظر بیٹھے تھے۔گورستان کا مجاور مزدوروں کو قبر کی کھدائی پر مستعد کئے ہوا تھا۔ہم سے کچھ دور ایک الہڑ دوشیزہ جنازہ پر نظریں جمائے کھڑی تھی۔اس کے چہرے پر مسکرہٹ کھیل رہی تھی جو اس سوگوار پس منظر میں نمایاں ہو رہی تھی۔اس کی مسکراہٹ میرے دماغ پر مرتسم ہو رہی تھی دوسرے ہی دن میں نے اس تاثر کو افسانے کے قالب میں ڈھال دیا۔ “
اس طرح سے دیکھا جائے تو اس افسانے کو لکھنے میں خالص سید محمد محسن کا ذاتی تجربہ تھا جسے انہوں نے اپنے علمی اور فکری مشاہدات کے رنگ میں ڈھال کر پیش کیا۔ چونکہ انہوں نے فلسفہ اور نفسیات دونوں کی تعلیم حاصل کی تھی اس لئے اس افسانے کا تانا بانا بھی انہیں دوسبجیکٹ کے ارد گرد بنا گیا ہے۔ محمد محسن کے عہدمیں جو افسانے لکھے جا رہے تھے۔ ان میں ایک تو وہ تھے جو کارل مارکس کے نظریہ کی پیروی کرتے ہوئے جماعت سے فرد کی طرف اور دوسرا وہ تھا جو ماہر نفسیات کے نظریات کی پیروی کرتے ہوئے فرد سے جماعت کی طرف کا تھا۔محمد محسن کا یہ افسانہ بھی ماہر نفسیات کے نظریات کی روشنی میں لکھا ہوا ایسا افسانہ ہے جو کہ ایک فرد کی نفسیاتی ہیجان کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس افسانے میں فرائیڈ کے نفسیاتی فلسفہ جس میں اس نے انسان کی بنیاد کو چند نفسیاتی عوامل کے طابع قرار دیا ہے اور جسے اس نے چار خانوں میں تقسیم کیا ہے۔ شعور کی سطحیں،شخصیت کی تشکیلی عناصر، شخصیت کی حرکیات اور شخصیت کی نشوو نماجیسے اصطلاحات کی جھلک بھی یہاں نظر آتی ہے اور ماہر نفسیات ایوان پاولو(Ivan Pavlov )کی Classical conditioning theory کو بھی اس افسانے میں واضح طور پردیکھا جا سکتا ہے۔( یہ بھی پڑھیں نیا قانون : مابعد نو آبادیاتی مطالعہ – محمد عامر سہیل )
افسانے کا قصہ ایک گورکن اور اس کے بیٹی کا ہے۔گور کن اور اس کی بیٹی شہر سے دور ایک قبرستان کے قریب رہتے ہیں۔اور وہ بہت خستہ حال ہیں۔ گور کن کا پیشہ ماند پڑ گیا ہے۔ لوگ کم مر رہے ہیں۔ کیوں کہ اسے قبر کھودنے سے آمدنی ہوتی تھی اور جب لوگوں کی موت ہی نہیں ہوگی تو اسے کوئی کام کیسے ملے گا۔ دونو ں اپنے پرانے دن کو یاد کر کے دکھی ہوتے ہیں اورسوچتے ہیں کہ وہ کیا دن تھے جب لوگ بہت زیادہ مر رہے تھے۔اقتباس دیکھئے:
”بیٹا جب تو چھوٹی تھی تو اسی قبرستان میں دو دو تین تین مردے روز آیا کرتے تھے۔دور دور تک کوئی اور قبرستان نہ تھا۔مجھے دن دن بھر فرصت نہیں رہتی تھی۔اکیلا آدمی دفن کا سارا انتظام مجھی کو کرنا پڑتا تھا۔پیسے کی کوئی کمی نہ تھی جو ملتا تھا اسے اٹھا دیتا۔اس دن کی خبر نہ تھی ایک تویہاں صرف غریبوں کے مردے آتے ہیں۔لڑ جھگڑ کر کہیں ان سے دو چارپیسے وصول ہوتے ہیں۔برس چھ مہینے میں کوئی امیر مسافر مر گیا یا اس کے عزیز آگئے تو کچھ رقم مل گئی۔لیکن آج کل ایسا سناٹا ہے کہ دو دو چار چار دن کوئی مردہ نہیں آتا ہے۔“
محولہ بالا اقتباس انسان کی اس جبلت کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس میں بنیادی طور پر موجود ہوتا۔انسان جب کوئی پیشہ اختیار کرتا ہے تو وہ اس کا ذریعہئ معاش ہوتا ہے جس سے اس کے گھر کے اخراجات چلتے ہیں اس کا کھانا پینا،کپڑا لتا،زندگی کی تمام ضروریات اس کے پیشے پر ہی ٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کہانی کا کردار ایک گور کن اور اس کی بیٹی ہے۔ اور اس کی معاشی زندگی کی بہتری کے لئے لوگوں کا مرنا ضروری ہے اس لئے شعوری طور پرمذکورہ بالا خیالات کا آنا انسانی جبلت کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کی بیٹی بھی تعجب کرتی ہے کہ لوگ کیوں نہیں مرتے؟ اور وہ یہ سوچ کر پریشان ہے کہ اگر مردے آنا بند ہو گئے تو اس کا باپ کیا کرے گا؟دال چاول کہاں سے آئیں گے؟ وہ اپنے باپ کو پکا کر کیا دیا کرے گی؟ اورپھر وہ اپنے ان دنوں کو سوچتی ہے کہ کیا دن تھے جب ہمارے شہر میں طاعون پھیل گیاتھا اور ہماری زندگی خوش حال ہو گئی تھی۔اقتباس ملاحظہ کریں:
”وہ سوچنے لگی۔پار سال کیا اچھا زمانہ تھاجب سارے شہر میں طاعون پھیلا ہوا تھا۔قبرستان میں دن بھر لاشوں کا تانتا بنا رہتا تھا۔اس کا باپ کتنا خوش نظر آتا تھا،باوجود دن بھر کی مصروفیت کے۔اپنے باپ کو کبھی اس نے اتنا خوش نہیں دیکھا۔وہ اس کے لئے طرح طرح کی مٹھائیاں لاتا۔اتنی مٹھائیاں اس نے کبھی نہیں کھائی تھیں کسی تہوار میں بھی نہیں۔اس کے اچھے کپڑے اسی زمانہ کے تھے۔یہ کرتہ بھی جس میں وہ پیوندلگا رہی تھی کیسااچھا کپڑا تھا۔اتنا پرانا ہونے کے بعد بھی اس کی آب وتاب ویسی ہی تھی۔اور وہ ساڑی جو اس نے عید پر پہنی تھی اس کا باپ کہتا تھا کہ اسے بہت بھلی لگتی تھی۔اب کے تہوار پر وہ اس ساڑی کو پھر پہنے گی۔“
یہاں پر فرائڈ کے اس نظریہ کی طرٖف ذہن جاتا ہے۔ جس میں اس نے انسانی تشکیلی عناصر کو بیان کیا ہے۔ فرائڈنے انسان کی تشکیل جن عناصر سے ہوتی ہے اس کی تعداد تین بتائی ہے جس میں اڈ۔ایغو، اور فوق الایغو آتا ہے۔ اڈ کے بارے فرائڈ کا یہ نظریہ ہے کہ یہ وہ عضویاتی اور حیاتیاتی خواہشات ہیں جو ہر قسم کے سماجی اور اخلاقی بندشوں سے آزاد ہوتی ہے اور صرف اپنے خواہش کی تکمیل کی متمنی ہوتی ہے۔مذکورہ بالا اقتباس پوری طرح سے اسی عنصر کا غمازہے۔ افسانے میں افسانہ نگار کا یہ جملہ”دنیا والے کسی کی موت پر روتے ہیں یہ دونو باپ بیٹی دنیا والوں کی زندگی پر آنسو بہا رہے تھے۔ انسانی تشکیل کی اسی جبلت کو واضح کر رہا ہے۔
مذکورہ افسانہ انسانی فطرت کی تمام تر بنیادی عناصر سموئے ہوئے ہے اور افسانہ نگار نے جگہ جگہ پر جومناظر پیش کئے ہیں اور اس میں جو انسانی ذہن اور انسانی سوچ کو ابھارا ہے اس سے ماہر نفسیات کے ذریعہ قائم کردہ تمام انسانی تشکیلی عناصر ابھر کرہمارے سامنے آتے ہیں۔ایک رات جب گورکن معاشی تنگی سے پریشان اور گزرتے ہوئے عمر اور بیٹی کی بڑھتی ہوئی عمر کے فکر میں مغموم لیٹا ہو ا تھا تب اس کے داروازے پرکسی نے آواز دی اور کہا کے دہلی والے تاجر کے بیٹے کی موت ہو گئی ہے اس کے لئے قبر کھودنی ہے۔ اس غربت کے عالم میں یہ خبر اس کے لئے باعث انبساط ہوتی ہے۔ اقتباس دیکھئے:
”غایت مسرت میں اس نے رات کا باقی حصہ آنے والے روپیوں کی چمک اور چھنک کے تصور میں جاگ کر گزار دی اور صبح سے پہلے قبر کے انتظام میں گھر سے نکل گیااس کی سوکھی ہوئی ٹانگوں میں پھرتی آگئی تھی اور کمر کی خمیدگی میں کچھ کمی۔مسرت اور انبساط میں ہی قوت اور توانائی کا راز مضمر ہے۔اس کا لگاؤ مستقبل کے خیالی شہ پا روں ہی سے کیوں نہ ہو۔“
ایک طرف افسانے میں باپ کو خوشی ہے کہ اس بڑے آدمی کے بیٹے کی مو ت سے اس کاافلاس دور ہوگاتو دوسری طرف جمنی اس بات سے خوش ہے کہ آج اس کے باپ کی پریشانی دور ہوگی اور اس کے گھر کی دلیدری بھی مٹے گی جو کہ لوگوں کے نہ مرنے کی وجہ سے اس کے گھر میں آگئی ہے۔ اس کی اس خوشی کا اظہار افسانے میں کچھ اس طر ح ملتا ہے:
”جمنی ان کی گفتگو غور سے سنتی رہی اور جب وہ کچھ آگے نکل گئے تو جناز ے پر نظریں جمائے بے اختیارانہ ہنسنے لگی۔اور پھر جھونپڑی کے اندر جا کر جانے کب تک ہنستی رہی۔جھاڑو دینے میں اسے آج ایک خاص لذت محسوس ہو رہی تھی وہ اور دن جلدی جلدی جھاڑو دیکر دوسرے کام میں مصروف ہو جایا کرتی تھی لیکن اس کا جی چاہ رہا تھا کے برابر جھاڑو دیتی رہے اور ساتھ میں ہنستی جائے۔ آج اس کے جھاڑو دینے کے انداز میں رقص کی کیفیت تھی۔جھاڑو کی حرکت اور کمر کی جنبش میں ایک انوکھی ہم آہنگی تھی۔“
جب جمنی کے باپ کی موت واقع ہو جاتی ہے تب اس کی کیفیت بھی بڑی عجیب ہوتی ہے ایک تو وہ اس موت کو سمجھنے سے قاصر ہے جو اس کے باپ کی ہوئی تھی اس نے مردے توبہت دیکھے تھے مگر اس مردے کا اندازہ اسے اس کے باپ کی موت سے ہوا تھا۔ وہ باپ جو مردے دفنا کر آتا تھا تو اس کے لئے مٹھائی کپڑے لایا کرتا تھا مگر آج وہ خود بے جان پڑا تھا۔اس کے ذہن میں ایک ایسا تصور تھا کہ جب موت ہوگی تو اس کے گھر میں افراط و تفریط ہوگی اور یہ بات اس کے ذہن میں اس طرح سے بیٹھ گئی تھی کہ اسے اپنے باپ کی موت کا غم ہو کہ خوشی اس کافرق کرنے سے بھی قاصر تھی اس کی اس کیفیت پر لاشعور کا غلبہ طاری تھا۔ اقتباس دیکھیں:
” جمنی نے مردے ہزاروں دیکھے تھے لیکن کفن کے اندر ڈھکے ہوئے۔موت کا منظر اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔اس کے باپ کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔سانس کی آمد و رفت بند ہو چکی تھی۔بدن سرد ہو گیا تھا۔باپ کی حالت دیکھ کر اس کے اندر ایک گداز پیدا ہوا۔اور وہ بے اختیارانہ رونے لگی۔ اس لئے نہیں کہ اس کا باپ اس سے ہمیشہ کے لئے چھوٹ گیا بلکہ اس لئے کہ وہ اپنے باپ کی اس غیر معمولی حالت کو سمجھنے سے قاصر تھی۔ اس کے آنسو اس کے فہم و ادراک کی مجبوری کا اظہارتھے۔“
ایک اور اقتباس دیکھیں:
”جنازہ تجہیز و تکفین کے بعد قبرستان لے جایا جانے لگا تو جمنی کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔وہ مسکرانے لگی اور جب تک جنازہ اس کے سامنے رہامسکراتی رہی۔“
چونکہ کوئی بھی موت یا جنازہ جمنی کے ذہن پر انبساط کے تاثر چھوڑتا تھا اس لئے وہ اپنے باپ کے موت پر بھی مسکرا رہی تھی یہاں پر اسے نفسیات کے conditioned stimulus اصطلاح کو بھی رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے conditioned stimulus میں جب کوئی ایک طرح کے حالات سے گزرتا ہے تو لاشعوری طور پر اس سے وہ حرکت ہو تی رہتی ہے۔ جمنی جب بھی کسی کی میت دیکھتی تھی تو اسے خوشی ہوتی تھی اور وہ ہنستی تھی اس لئے جب اس کے باپ کی بھی موت ہوتی ہے تو conditioned response کرتی ہے اور ہنسی اس کے چہرے پر لاشوری طور پر آجاتی ہے۔
اپنے باپ کی موت کے بعد جمنی کی یہ کیفیت ہو گئی تھی کہ محلے میں جب کسی کی موت واقع ہوتی تو وہ اسے ضرور دیکھنے جاتی کسی کی موت اس کے لئے انبساط کا ذریعہ تھی اس سے اس کی زندگی خوش حال ہوتی تھی اس کی دلیدری دور ہوتی تھی تو کسی کی بھی موت اس کے لئے ایک سامان لذت تھی۔ اور جب کسی کی موت ہوتی تو وہ اپنے آپ کو نہ روک پاتی اور اسے دیکھنے جاتی اور میت کو دیکھتے وقت ایک عجیب مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر رہتی۔ وہ اس response کی اس طرح سے عادی ہو چکی تھی کہ اس کا ہواس اب یہ نہیں سوچتا کہ اسے کیا کرنا چھاہیے اس لئے وہ کسی کی موت سے دکھی ہونے کے بجائے ہنستی ہے۔ اقتباس دیکھیں
”جمنی ہمسایہ کے یہاں گئی تو بچہ کی لاش کو کفنایا جا راہا تھا۔وہ ایک طرف کھڑی ہو گئی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔وہ اس منظر سے لذت حاصل کر رہی تھی۔“
کسی کی موت کی لذت جمنی کے دل و دماغ میں ایسی گھر کر گئی ہے کہ نیند کے عالم میں بھی اسے کسی کی موت دکھتی ہے۔ اپنے بیمار بیٹے کو اسی کیفیت میں وہ زہر دے دیتی ہے جسے ڈاکٹر نے یہ کہہ کر لگانے کے لئے دیا تھا کے اسے صرف لگانا ہے اس میں زہر ہے اگر اسے بچے کو کھلا دیا تو اس کی موت ہو سکتی ہے۔ اس کے بیٹے کی حالت بگڑ جاتی ہے۔ اور اس کی موت ہو جاتی ہے۔بیٹے کی موت پر بھی جمنی کی مسکراہٹ اسکے شوہر کو یہ ا شارہ کرتی ہے کہ اس نے ہی اسے زہر دے دیا ہے وہ اس کی اس حالت کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے اور وہ بھی بیمار پڑ جاتا ہے اور بسترمرگ پر پہنچ جاتا ہے جب اس کی موت قریب ہوتی ہے اور اس کا بھائی اسے دیکھنے آتا ہے تو آخری لفظ اس کے ہونٹ پر زہر کا ہوتا ہے ادھر جمنی کی مسکراہٹ اس کے بھائی کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ اس کے بھائی کو اس کی بیوی یعنی جمنی نے زہر دے دیا ہے جس کی وجہ سے اس کی موت ہوئی ہے۔جمنی کے شوہر کا بھائی اس پر کیس کر دیتا ہے جب پولس تفتیش کرتی ہے تو گھر سے وہی زہر کی خالی شیشی نکلتی ہے جسے ڈاکٹر نے اس کے بیٹے کی بیماری میں مالش کے لئے دیا تھا جسے اس نے خواب کی لاشعوری حالت میں کھلا دیا اور بچے کی موت ہو گئی تھی۔ اس سے جمنی پر جرم عائد ہوتا ہے اور اسے جیل ہو جاتی ہے۔ افسانے کا یہ آخری اقتباس جمنی کی نفسیاتی ہیجان جس کا وہ بچپن سے شکار تھی اس کا بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
جمنی اب تک قید خانہ میں زندگی کے دن گذار رہی ہے۔وہ بہت اداس اور غمگین رہتی ہے۔لیکن اب اس کی نظر کسی قیدی کی میت پر پڑجاتی ہے تو وہ کھلکھلا کر ہنس دیتی ہے اور دیر تک دیوانہ وار ہنستی رہتی ہے۔“(ص:۲۲)
مذکورہ بالا اقتباس ivan pavlov کے classical conditioning theory کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس نے جو unconditioned stimulusاور conditioned stimulus اصطلاح قائم کی تھی مذکورہ اقتباس اس کا مظہر ہے۔جمنی جو کہ اپنے شوہر کے قتل کی سزا کاٹ رہی ہے اور جیل میں مغموم رہتی ہے مگر جیل میں بھی جب کسی قیدی کی میت دیکھتی ہے تو ہنستی ضرورہے۔ کیوں کہ اس کی زندگی کی خوش حالی کا دارو مدار لوگوں کی موت پر تھا لوگ مرینگے تو اس کے باپ کوتدفین کرنے کا پیسہ ملے گا اور اس کے یہاں اچھا کھانا بنے گا اسے اچھے کپڑے ملیں گے۔ کسی کی موت پر اسے خوشی ملتی تھی اور یہ خوشی کا ذریعہ اس کے ذہن میں ایسا ثبت ہو گیا کے اسے اب موت کے منظر کو دیکھتے ہی لاشعوری طور پر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی۔ افسانہ”انوکھی مسکراہٹ“ پوری طرح سے نفسیاتی نظریات پر قائم ہے اور اس افسانے میں انسانی جبلت کی بہت ساری بنیادی اور فطری عناصر کو افسانہ نگار نے افسانے کی قالب میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |