ٹرین کے اے سی فرسٹ میں
مت پوچھیے کیا کیا دیکھا
چین و سکوں کا پہاڑ دیکھا
اور سناٹوں کی چیخ سنی
قبروں کا ماحول بھی دیکھا
ہا و ہو کا عالم دیکھا
موٹے دیکھے پتلے دیکھے
اپنی سیٹ پہ اکڑے دیکھے
نپے تلے انداز بھی دیکھے
کم سخنی و کم گفتاری دیکھی
کسی سے بھی نہ یاری دیکھی
سب کو خود میں ڈوبا دیکھا
اور موبائل سے چپکا دیکھا
سورت دیکھی بڑودہ دیکھا
گربہ کا انداز بھی دیکھا
کھانا ذائقے دار بھی دیکھا
بنا شور کے سب کچھ دیکھا
اوپر دیکھا نیچے دیکھا
دائیں دیکھا بائیں دیکھا
مکھی مچھر کا کھیل بھی دیکھا
بگلے اور ہنس کی چال بھی دیکھی
کوؤں کی چالاکی دیکھی
چوہوں کی نا اہلی دیکھی
رخساروں پر سرخی دیکھی
بوسہ لیتے مچھر دیکھا
ایک سے سے چھچھندر دیکھے
یہ مت پوچھو کیا کیا دیکھے
سب کچھ دیکھا سب کچھ بھولا
اے سی میں پردیسی دیکھا
اور اپنے جیسا دیسی دیکھا
ادھ ننگا اور ادھ پہنا دیکھا
چکنی دیکھی چکنا دیکھا
سب کچھ دیکھ حیرانی دیکھی
پردوں کے اندر پردے دیکھے
ان میں ننگے پنگے دیکھے
چنکی دیکھی پنکی دیکھی
بن بندیا کے سنگار بھی دیکھا
گھونگھٹ کاڑھے ساڑی دیکھی
برقع کھولے عورت دیکھی
کھٹی دیکھی میٹھی دیکھی
اٹلی دیکھی ڈوسا دیکھا
چاؤ سے سے کھاتے اس کو دیکھا
ایک ہی رات میں سب کچھ دیکھا
اپنے کو جب تنہا دیکھا
خود سے باتیں کرتا پایا
سناٹوں کے اس شور میں
آنکھوں کی باتیں دل سے نکلیں
دل سے ایک شور اٹھا
اب نہ آنا اے دیسی
پردیسی کے بیچ میں
فرسٹ اے سی کی سیٹ پہ
فرسٹ اے سی کی سیٹ پہ
امتیاز احمد علیمی