نورین عامر کا ناول "راستی کا راستہ” – قانتہ رابعہ
کہتے ہیں اللہ تک پہنچنے کے اتنے ہی راستے ہیں جتنے ریت کے ذرے ۔۔۔یا درختوں کے پتے ۔ ان راستوں میں سے ایک راستہ ذرا ہٹ کر ہے تصوف و سلوک اور روحانیت کا راستہ ۔۔۔جو اسے تسلیم کرتے ہیں ان کے لئے عشق حقیقی ہی بس معراج ہے جو تسلیم نہیں کرتے وہ لفظ عشق کو خدا اور رسول کے لئے جائز نہیں سمجھتے ان کے نزدیک یہ لفظ ان دونوں سے محبت کے لئے عامیانہ ہے ۔
دونوں کے پاس دلائل کے انبار ہیں ۔حق بات یہ ہے کہ انسان خود شناس نہ ہو تو خدا شناسی بھی نصیب نہیں ہوتی ۔
خدا شناسی ہی تصوف اور روحانیت کا دروازہ کھولتی ہے ۔میرے سامنے اس وقت محترمہ نورین عامر کا ناول ” راستی کا راستہ” ہے ۔
ناول کا موضوع وہی ہے جسے عشق حقیقی کہتے ہیں جس کے حصول کے لیے اندر کا دروازہ نہ کھلے تو انسان جتنا بھی عابد زاہد بن جائے وہ رب کی معرفت کا ذائقہ نہین چکھ سکتا ۔
یوں تو عمیرہ احمد،نمرہ احمد ،سمیرا حمید وغیرہ نے معرفت کے اشاروں پربہت لکھا۔ ان کا لکھا ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے لیکن نئے لکھنے والوں میں بھی بہت سے نام ہیں ،نورین عامر ان میں سے نمایاں نام ہے ۔
انہوں نے کتاب کا انتساب بی بی راستی ( سلطان باہو کی والدہ ماجدہ) کے نام کیا ہے ۔درحقیقت ناول میں بھی خداشناسی کے مراحل بھی سلطان باہو کی شاعری سے طے ہوتے ہیں۔ ناول کی کہانی بہت دلچسپ اور فطری ہے ۔کہیں کسی کردار کو پڑھتے ہوئے زبردستی کی بھرتی کا احساس نہیں ہوتا۔چند گنتی کے کردار ہیں ۔سب کے سب حق کی تلاش میں ہیں ،خواہ بینجمن ہو یا جیسپر ، سب کے دلوں میں وہ نور پہنچ جاتا ہے جسے اسلام کہا جاتا ہے ۔
ناول کے مرکزی کردار عفت اور ہارون ہیں جو بغرض تعلیم انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ نیکو کاروں کو نیکو کاروں کی صحبت مل ہی جاتی ہے یوں پردیس میں عفت کو ادریسہ جس کا تعلق مراکش سے ہے کی صحبت میسر آتی ہے ۔تعلیمی سلسلہ میں عفت کو ادریسہ سے جدا ہونا پڑ جاتا ہے ،وہ دوسرے شہر میں سفر کے دوران کسی شخص کو حادثاتی طور پر ملتی ہے۔ یہ شخص ہارون ہے جس کا تعلق جھنگ پاکستان سے ہے اور وہی آنے والے صفحات میں ناول کا مرکزی کردار ہے ۔
من و تو کے اس قصے میں ایک ہونے کا مقام آسانی سے نہیں آتا۔
درمیان میں مارتھا کی شیطانی نظریات والی تنظیم ہے ۔اس کا طریقہ واردات ہے کیسے وہ نوآموز طلبہ کو شکار کرتے ہیں۔
ناول میں فلسطین سے تعلق رکھنے والا ایک جاندار اور ہمیشہ یاد رہنے والا کردار بنجیمن کا ہے جو در حقیقت صیہونیوں کے حملے میں شہادت کا رتبہ پانے والے خاندان میں سے تھا زندگی اسے ایک چرچ میں لے آئی اور اس کا نام بینجمن رکھ دیا گیا ۔ بینجمن کا کردار جدوجہد اور بلند مقصد کے حصول کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے والا خوبصورت کردار ہے ۔اس کی القدس سے محبت کے لئے فقرے اتنے دلپذیر ہیں کہ آنکھیں نم ہوجاتی ہیں بالخصوص اس کی پراسرار روانگی اور یہ پیغام:
"میری ارض مقدس سے وابستگی نے مجھے جہاد کی لوریاں سنا کر پروان چڑھایا ہے میری رگوں میں حریت کا جذبہ لہو کے ساتھ دوڑتا ہےمیرے دل کی دھڑکنیں رب تعالٰی سے قبلہ اول کی آزادی کے لیے دعاگو رہتی ہیں میری اولین ترجیح الاقصی کی فتح ہےجہاں سے میرے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر معراج فرمایا تھا۔
مسجد اقصی میرا عشق ہے۔ میں مجاہد پیدا ہوا ہوں اگر میں غازی بن کر لوٹا ۔ یہ اس وقت ہو گا جب میں ارض مقدس ہرفتح کا جھنڈا لہراتا دیکھوں گا اور اگر شہید ہوگیا توتمہارا دل تمہیں اطلاع دے دے گا پھر ہم روز محشر شافع محشر جھنڈے تلے اکھٹے ہوجائیں گے۔تم غم نہ کرنا شہید زندہ ہوتے ہیں اور اپنے دل سےبھی غافل مت ہوجانا وہ مقام ہے جہاں ذات باری تعالٰی تخت نشین ہین وہ زمین میں سماتے ہیں نہ آسمان میں بجزبندہ مومن کے قلب کے۔”
یہی غافل دل ہے جسے ناول نگار نے بندہ مومن کا بنانے کے لئے خوبصورت اشعار، سلطان باہو کے عارفانہ کلام ،تشبیہات ایک مصلح کے کردار، خان صاحب کے دلپذیر وعظ، قرآنی آیات اور تمثیلات کا برمحل استعمال کیا ہے ۔
ہر اہم موقع پر قرآنی آیات اور باہو کے کلام اور خان صاحب کی مشفقانہ اور ناصحانہ باتوں سے قاری کو صوفی ازم کے راستے کی ترغیب دی ہے ۔کتاب میں جتنے بھی کردار ہیں سب بہت پرفیکٹ ہیں ۔کہانی میں کوئی جھول نہیں ۔
میچور سوچ کے ساتھ عشق حقیقی کے حصول کی کارگزاری ہے ۔دنیاداری کے لئے وہ نری دشواری ہے لیکن خیر والے دل اسے قبول کر لیتے ہیں جیسے عفت نے کیا۔جیسپر نے جنید بن کر کیا ۔
ناول کے انداز تحریر سے مصنفہ کے وسیع مطالعہ اور پنجابی عارفانہ کلام کے ساتھ اردو فارسی کے کلام سے دلی وابستگی کا پتہ چلتا ہے ۔
میں امید کرتی ہوں کہ نورین عامر مختلف ڈائجسٹوں اور رسائل میں لکھیں گی تاکہ ان کی خوبصورت تحریر کے قارئین کا حلقہ وسیع ہو۔
بہت عمدگی سے آمادہ کرتی ہے ۔کتاب کی طباعت بہت عمدہ ہے۔
میں پی پی ایف کے جناب پروفیسر ظفر اقبال صاحب اور ان کی ٹیم کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتی ہوں ۔بے شک یہ تصوف و سلوک کے موضوع پر قارئین کے لئے خوبصورت اضافہ ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page