اس کرۂ ارض پر ابتدا ہی سے خالق و مخلوق کا اٹوٹ رشتہ رہا ہے اور فطری طور پر انسان اپنے رب کا معترف رہا ہے جس کا اقرار قرآن اس حسین پیرایہ میں یوں کرتا ہے : ” أ لست بربکم ۔ قالوا بلی” ( الأعراف : 172) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کا اقرار جو اپنے بندوں سے عالم ارواح میں کرایا اور بندوں نے بلا تامل جو اس کا اقرار ” بلی ” کرتے ہوئے کیا اسی وعدہ کی تذکیر و تکمیل کے لئے رب کائنات نے ہر دور میں مختلف انبیائے کرام مبعوث فرمائے اور مختلف کتابوں کے ذریعے رہنمائی کی تاکہ بندہ اپنے اس کئے ہوئے وعدے کی تکمیل بآسانی کرسکے۔ اور یہ تمام کتابیں کسی نعمت سے کم نہیں تھیں۔ انہی بیش بہا انعامات میں سے ایک بیش قیمت خزانہ جو امت مسلمہ کو دیا گیا وہ رب کریم کا عطا کردہ انمول عطیہ قرآن مجید ہے جو تمام بنی نوع انسانی کے لئے یکساں ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ ہے جس پر کچھ بھی قلمبند کرنے کے لیے الفاظ کے ذخیرے کم پڑ جاتے ہیں مگر اس کا حق کما حقہ ادا نہیں ہو سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ چودہ صدیوں سے متواتر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے مگر ہر دن قرآن مجید کا ایک نیا زاویہ نگاہ کے سامنے آجاتاہے۔ ذیل میں انہی چند پہلؤوں پر نظر ڈالنے کی ایک ادنی سی کوشش کی ہے۔
قرآن کریم وہ منبع حیات ہے جس کے اٹھتے بلبلے انسانیت کی سیرابی و شادابی کا وہ ذریعہ ہیں جو دنیائے انسانی کے خزاں رسیدہ چمن میں بہار لانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ کتاب وہ چراغ ہدایت ہے جس کی تابناک شعائیں کفر و ضلالت کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں ہمارے لڑکھڑاتے قدموں کو بچانے میں آہنی پنجہ ثابت ہوتی ہیں۔
قرآن کریم ہمارے لئے رب کائنات کی جانب سے امید و بیم کا وہ عظیم تحفہ ہے جو گناہوں کے دلدل میں پھنسے نادان و غافل انسان کو مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر امید و رجا کی شاہراہ پر لا کھڑا کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسہم لا تقنطوا من رحمۃاللہ ۔ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا۔ إنه هو الغفور الرحيم. ( سورۃ الزمر : 53)
ترجمہ : اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے ان بندوں سے کہہ دیجئے ، جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بےشک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دے گا۔ بےشک وہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے).
یہ آیت اللہ تعالیٰ کی کامل رحمت ، بے پایاں فضل و احسان کی ایک خوبصورت اور سچی تصویر ہے جسے ہم اپنی زندگی میں ہمہ وقت محسوس کرتے ہیں۔ خدا کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہمارا جسمانی وجود ہے جو ہر پل رحمت خداوندی کا محتاج ہے۔ وہ اس طور پر کہ حکم خدا کے بغیر ہمارا سانس لینا بھی ناممکن ہے ۔ علاوہ ازیں جسم کا کوئی حصہ نہ پر مار سکتا ہے اور نہ ہی ایک قدم آگے بڑھ سکتا ہے ۔ رب کی عنایتوں کی بدولت اگر ہمیں یہ نعمت عظمیٰ میسر ہے تو شکر خداوندی میں ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ہر لمحہ اطاعت الٰہی میں گزاریں مگر ہم دانستہ یا نادانستہ طور پر ہر وقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں ملوث اپنا وقت گزارتے ہیں اور پھر نتیجتاً ہمیں اس کی پاداش میں سزا ملنے کے بجائے مزید نوازشات عطا کی جاتی ہیں تو یہ رحمت الٰہی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہی ہے وہ اللہ کی رحمت جس کا اس آیت میں مژدہ سنایا گیا ہے۔
قرآن ہمارے لئے ایمان و یقین کا وہ مکمل شہ پارہ ہے جو کائنات میں ہر سو چھائی ہوئی تاریکی کے باوجود خالق کائنات سے رشتہ استوار کرنے کا تمغہ عطا کرتا ہے اور دعا کو عبادت کا مغز قرار دیتے ہوئے اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ رنج و آلام ، مصائب و مشکلات کی پرپیچ وادیوں میں کوئی ذات ہے جو ہمیں اپنے سے قریب تر کرنے کی کوشش میں ہے اور اس کی اصل منشا ہی یہی ہے کہ ہم اس کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے اس ذات باری تعالٰی کو اپنے سے قریب تر محسوس کریں ۔ چنانچہ کہیں ” و اذا سألک عبادی عنی فانی قریب ” تو کہیں ” انہ قریب من حبل الورید ” کی خوشخبری سنا کر ہماری ناامیدی کو امید میں بدلنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔
قرآن وہ چراغِ جاوداں ہے جو تعمیر حیات کے لئے ایک جسر فاخر ہے جس پر چل کر انسان اپنی شخصیت کو چار چاند لگا سکتا ہے۔ اس کی واضح اور درخشاں مثال سورہ نور ، سورہ احزاب ، سورہ لقمان اور سورہ حجرات اور بعض دیگر آیات میں پنہاں ہیں جو آج کی موجودہ مادہ پرست اور اخلاقی تعلیمات کے عین مطابق بلکہ ان سے اعلی و ارفع ہیں۔ آج شخصیت سازی کے لئے جن اصولوں کو اپنانے کی تعلیم دی جاتی ہے مذکورہ بالا آیات چودہ صدی قبل ہی ان سنہری اصولوں سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔ چنانچہ کسی سے ملاقات کے وقت سلام و آداب کا اہتمام ، بدگوئی و بدگمانی سے احتراز ، غیبت و چغل خوری سے اجتناب ، بہتان طرازی و الزام تراشی سے دوری ، صبر و تحمل نیز عفو و درگزر وغیرہ کی تعلیمات جو ان آیات کا خاصہ ہیں آج انہی تعلیمات کو شخصیت سازی personality development کا نام دیا جاتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں حسن قرأت و تجوید کی اہمیت و فرضیت – ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی )
قرآن وہ میزان عدل ہے جو ” اذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل ” (سورۃ النساء:58) کے جانفژاں نعروں سے فضائے عدلیات کو مخمور کرتا ہے تو باطل پرست نام نہاد عدل و انصاف کا کھوکھلا دعویٰ کرنے والی قوتیں بھی اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہیں اور قرآنی میزان انصاف پر عش عش کی صداؤں سے سارا جہاں گونج اٹھتا ہے۔ کیونکہ اس آیت میں ” الناس ” کا ذکر کرکے بلا تفریق مذہب و ملت عمومی عدل و انصاف کی تاکید کی گئی ہے اور دنیا کی کسی بھی عدالت میں اس بے مثال انصاف کی ادنی سی بھی جھلک نہیں ملتی۔
قرآن ہمارے لئے وہ دستور حیات ہے جو محض مرد آہن کے لئے ہی نہیں بلکہ صنف نازک کے تمام حقوق کا پاسدار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب قرآن نے ” للرجال نصیب مما اکتسبوا و للنساء نصیب مما اکتسبن ” کے نعرے لگائے تو عربوں میں عورتوں کے تئیں وہ بیداری پیدا ہوئی کہ عورتوں کو ذلت و خواری کا سبب گرداننے والے عرب عورتوں کی بصیرت افروز تقاریر اور ان کے جائز مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم کر دیئے اور عورت کی حیثیت جن کے نزدیک محض ایک ساز تجارت تھی جو کبھی ایک تو کبھی دوسرے فریق کی جاگیر ہوا کرتی تھی وہ پاکباز ملکہ بن کر گھروں میں حکومت کی ڈور سنبھالنے میں مصروف ہوگئی۔ لہذا ہم ببانگ دہل یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقوق نسواں کی علمبردار آج کی نام نہاد مغرب اور فاشسٹ قوتیں نہیں ، بلکہ ہمارا قرآن ہے جس نے حقوق وفرائض سے متعلق تمام تفصیلات کو کھول کھول کر بیان کیا کہ جس کے بعد کسی وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی۔
قرآن کریم علوم و معارف کا وہ عظیم شاہکار ہے جس کا آغاز لفظ ” اقرأ” سے ہو کر علوم و فنون کے باب کھولتا ہے اور وہ علم و فن ہی ہے جس کے دریچے سے گزر کر بھٹکے ہوئے انسان کو صحیح منزل کی رہنمائی ہوتی ہے۔
یہی نہیں بلکہ قرآن علم و ادب کا وہ عظیم شہ پارہ ہے جس کے سامنے فصیح و بلیغ عرب بھی بھونچکا رہ گئے اور ولید بن مغیرہ جیسی عظیم ادبی شخصیت بھی قرآن کے چیلنج ” فأتوا بسورۃ من مثلہ ” کا مقابلہ نہ کر سکی۔
قرآن ہمارے لئے فکر و فن کا وہ سر چشمہ ہے جس کی گہرائی میں غوطہ زنی کرکے انسان کہیں بگ بینگ تھیوری سے پردہ اٹھانے کا کام کرتا ہے تو کہیں تخلیق کائنات کے مظاہر سے اندھیروں میں پڑی انسانیت کے لئے ایک شمع روشن کرتا ہے جس کی روشنی میں بندہ اپنے قدم راسخ کرنے کی جرأت کرسکتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ٹوٹتے خاندان اور پنپتی رسومات: اسباب و حل – ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی )
قرآن ہمارے لئے وہ انمول شفاخانہ ہے جس میں داخل ہونے کے بعد انسان کا ناکام لوٹنا ناممکن ہے اور ” و ننزل من القرآن ما ھو شفاء و رحمۃ للمؤمنین” (سورۃ بنی اسرائیل : 82) کا اعلان امت کے لئے ایک عظیم انعام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم نے خالص ایمان و ایقان کے ساتھ علاج بالقرآن کی کوشش کی تو کینسر جیسے مہلک مرض سے بھی شفایاب ہوئے ۔
قرآن ہمارے لئے وہ ضابطہ حیات ہے جو معاشی ، معاشرتی ، اقتصادی، علمی ، تعلیمی اور اخلاقی غرضیکہ زندگی کے جملہِ میدان میں تمام اصول و ضوابط بیان کردیئے جس پر عمل درآمد کے بعد کسی اور دستور حیات کی ضرورت باقی نہیں رہتی لہذا یہ ایک جامع نظریہ ہے کہ قرآن اپنی تفسیر آپ ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حقوق نسواں کی دعویدار تنظیمیں ہوں یا حقوق انساں کی علمبردار انجمنیں آج تک اس معیار پر پوری نہیں اتر سکیں جس کا قرآن ہم سے مطالبہ کرتا ہے۔ یہ قرآن کا طرۂ امتیاز ہے کہ چودہ صدی گزر جانے کے بعد بھی اس میں کسی آیت کیا ، ایک حرف میں بھی ردو بدل نہیں ہو سکا اور قرآنی تعلیمات کے سامنے تمام باطل دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے ۔ مگر افسوس اس امت کی زبوں حالی پر کہ جسے تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا ہے آج وہ اسی سے غافل مغرب کی اندھا دھند نقالی پر آمادہ نظر آتی ہے۔
آئیے ہم عہد کریں کہ اس دستور حیات کو زندگی کا حصہ بنائیں جس کے حرف حرف سے ہدایت کی پھوٹتی کرنیں فضا کو منور کرتی ہیں۔ فکر و فن کے اس چشمہ سے اپنے ذہنوں کو سیراب کریں جس کے سوتے تابہ ابد قائم رہنے والے ہیں ۔ انصاف کے ترازو سے اپنے عدالتی نظام کا پلڑا بھاری کریں تاکہ جبر و استبداد ، ظلم و ستم اور اہانت و رذالت کا سد باب ہو سکے۔ ان تعلیمات سے اپنے اخلاق کو سنواریں جس کی پر نور شعاع سے معاشرے سے تمام اخلاقی پامالیاں دور ہو سکیں اور سسکتا معاشرہ دمکتا ماہ و آفتاب بن جائے جن کی کرنوں کے بغیر زندگی کا تصور نہیں۔ اور قید و بند سے آزاد ایک معاشرہ وجود میں آ سکے جو انسانیت کی آکسیجن میں سانس لے رہا ہو اور باطلانہ نظام کی آلودگی سے پاک صاف ہو۔ تعصب و فرقہ پرستی کی آگ سے نکل کر امن و آشتی اور اخوت و بھائی چارگی کی صاف و شفاف آب و ہوا میں سانس لیتا ہوا ایک مستحکم معاشرہ منظر عام پر آئے جو اقوام عالم کے سامنے امن کا داعی بن کر اسلام کا بول بالا کرسکے اور خیر امت کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرسکے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کو اس طرح سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے جس طرح اس کو سمجھے جانے اور اس پر عمل کرنے کا حق ہے۔ آمین۔
و ما علینا الاالبلاغ
ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی
آراضی باغ، اعظم گڑھ
مضمون نگار کا مختصر تعارف ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
[…] اسلامیات […]