کائنات کے جاری و ساری نظام کے مطابق زندگی کے ایام متعدد مراحل سے گزرتے ہوئے ماہ و سال میں بدلتے رہتے ہیں۔ چنانچہ حیات انسانی کبھی بہار سے لطف اندوز ہوتی ہے تو کبھی خزاں کی زد میں ہوتی ہے ۔ جس طرح سے رات کی سیاہی اپنی چادر پھیلا کر بالآخر نئی صبح کی نوید سناتی ہے اور موسم خزاں اپنا سفر طے کرتے ہوئے اپنی منزل مقصود بہار کو پا لیتا ہے بالکل اسی طرح انسان گردش ایام کا سامنا کرتے ہوئے کبھی فرحت و مسرت کا ہم رکاب ہوتا ہے تو کبھی غم و آلام سے نبردآزما ہوتا ہے۔
زندگی کے نشیب و فراز اور مدو جزر سے گزرتے ہوئے انسان اپنی ذہنی تسکین کی خاطر ہمہ وقت جشن و تقریبات کا اہتمام کرتا نظر آتا ہے۔ لہذا انہی فرحت و انبساط کے مواقع میں سے ایک سال نو کا جشن جو دور جدید میں عام طور پر پہلی جنوری کو منایا جاتا ہے ، جس میں حیا و اسلامی شعائر کو بالائے طاق رکھ کر بے باکانہ خرمستیاں کی جاتی ہیں اور یہ بیہودگیاں اسلام کے زریں اصولوں کو پلید کرتی نظر آتی ہیں جو امت مسلمہ کے لئے درس عبرت ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہر قوم کے لئے ان کا اپنا کیلینڈر ہوتا ہے جسے وہ کسی نہ کسی واقعے سے جوڑ کر اپنے سال کا آغاز کرتی ہے۔ یہ تمام تقریبات کچھ خاص واقعات اور خاص مفلوک الحال گروہوں کی یادداشت میں منائی جاتی ہیں جہاں یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ محض اس خاص دن میں فلاں طبقہ تعظیم کے لائق ہے اور فلاں شخص قابل احترام ہے۔
مگر افسوس امت کی اس حالت زار پر کہ وہ اندھا دھند غیروں کی نقالی پر آمادہ ہے اور اس سنہری اصولوں سے غافل ہے جس سے مذہب اسلام مزین ہے۔ یہاں تک کہ امت کے بیشتر افراد اسلامی مہینوں کے نام اور اس کے آغاز اور ہجری کیلنڈر کی ترویج کے اسباب و عوامل سے نابلد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دن کے جشن سے اپنے آپ کو حقوق انسانی کا علمبردار گردانتے ہیں اور بھول جاتے ہیں رب کریم کے بے پایاں احسانات کو جو وہ ہمیں اسلام کی صورت میں عطا کرکے ہر لمحہ عدل وانصاف ، دست گیری و خدمت گزاری اور حقوق العباد کی ادائیگی کا پابند بناتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں حسن قرأت و تجوید کی اہمیت و فرضیت – ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی )
عیسوی سال نو کا جشن مسلمانوں کی ملی روایات کے خلاف ہے اور اسلامی نقطۂ نظر سے اس جشن کا انعقاد محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو ہونا چاہیے مگر چونکہ آج انگریز قوم اپنی سائنس و ٹیکنالوجی اور صنعت و حرفت کے بل بوتے پر فاتح اقوام بنی بیٹھی ہے جب کہ فاتح اقوام کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے قانون و قاعدے ، معاشرت و عمرانیات اور تہذیب و تمدن اپنی زیر اثر رعایا پر مسلط کردیتے ہیں۔ لہذا موجودہ حالت میں اگر مسلمان بالکلیہ اسلامی کیلنڈر کے مطابق اپنی زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھائیں تو وہ باقی دنیا سے کٹ جائیں گے لہذا دنیوی امور میں اس عیسوی کیلنڈر کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ شمسی و قمری نظام اللہ کا ہی بنایا ہوا ہے مگر چونکہ اسلامی عبادات و احکامات قمری نظام کے تحت ہیں لہذا اس ہجری حساب کو یکسر فراموش کرنا ہرگز جائز نہیں۔ اس سلسلے میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ :” چونکہ احکام شریعت کا مدار حساب قمری پر ہے ، اس لئے اگر ساری امت دوسری اصطلاح کو اپنا معمول بنالے جس سے قمری حساب ضائع ہو جائے تو سب گنہگار ہوں گے اور اگر وہ محفوظ رہے تو دوسرے حساب کا استعمال بھی مباح ہے، لیکن سنت سلف کے خلاف ضرور ہے اور حساب قمری کا برتنا بوجہ اس کے فرض کفایہ ہونے لابد افضل و احسن ہے”.[1]
اب سے کچھ ہی دنوں میں ہم ایک محترم مہینے میں داخل ہونے جارہے ہیں جو اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جو ہمارے لئے جشن بہاراں کی نوید سناتا ہے ۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم تقویم ہجری کے اسباب و عوامل پر غور کریں اور اس مہینے کی فضیلت و تقدس کو سمجھیں اور پھر زندگی کا ایک لائحہ عمل تیار کریں کہ آیا ہم نے رب کائنات کی اس عظیم نعمت کا شکر ادا کیا یا نہیں ؟ آیا یہ موسم جشن کا ہے یا محاسبہ نفس کا؟
تقویم اسلامی کا تعین امت مسلمہ کے لئے عظمت و رفعت اور فتح و نصرت کا عملی پیغام ہے۔ جیساکہ محمد علاءالدین ندوی رقم طراز ہیں :” تقویم ہجری کے لئے وہ ( صحابہ کرام) ولادت رسول کے واقعے کو بھی منتخب کرسکتے تھے لیکن اس کا امکان تھا کہ اس کے اختیار کرنے میں شخصیت کا عکس جھلکتا ۔ پھر اس صورت میں خطرے کا بھی امکان تھا کہ دعوت اسلامی کا حصہ شخصیت پرستی کے آئینہ میں چھپ جاتا۔ ان کے سامنے بعثت کا واقعہ بھی تھا لیکن وہ تحریک اسلامی کا نقطۂ آغاز تھا۔ عقبہ اولیٰ اور ثانیہ کی بیعتیں تھیں لیکن یہ کوئی فیصلہ کن موڑ نہ تھیں ۔ بدر، حدیبیہ، فتح مکہ کی فتوحات تھیں لیکن یہ بنیادیں نہ تھیں ۔ بنیاد پر قائم شدہ ڈھانچے تھے ۔ حجۃالوداع کا عظیم الشان اجتماع فتح و نصرت کا آخری باب تھا لیکن یہ فتح و بشارت کا موقع بھی ہجرت کا رہین منت تھا ".[2]
تقویم ہجری کے اسباب پر الحافظ احمد بن علی تجزیہ کرتے ہوئے تمام واقعات پیش کرتے ہیں جس میں سے ایک واقعہ بطور خاص پیش خدمت ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ :” حضرت ابو موسیٰ اشعری ( جو یمن کے گورنر تھے ) نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ ہمارے نام آپ کی طرف سے ایسی دستاویز آتی ہیں جن میں تاریخیں نہیں ہوتیں ، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کو بلوایا اور ان سے مشورہ طلب کیا ۔ بعض لوگوں نے یہ رائے دی کہ بعثت نبوی سے سن کا آغاز ہو۔ بعضوں نے کہا کہ واقعہ ہجرت سے ابتدا کی جائے۔ حضرت عمر نے فرمایا ہجرت حق وباطل کے درمیان فرقان ہے لہذا اسی سے تاریخ سن کی ابتدا کرو”.[3]
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باہمی مشورے سے ہجرت کو حق و باطل کے درمیان تمیز کی بنیاد بنا کر مسلمانوں کے قومی و ملی تشخص کو اجاگر کیا۔ ہجرت جو کہ دین اسلام کے فروغ کی اساس ہے اس سے ہجری سال کا آغاز کیا گیا اگرچہ مہینوں کی ترتیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور عربوں میں رائج محرم الحرام کو ہی پہلا مہینہ قرار دیا گیا اور اس طرح 17 ہجری سے قبل تمام سالوں کو زیرو کردیا گیا۔ (یہ بھی پڑھیں ٹوٹتے خاندان اور پنپتی رسومات: اسباب و حل – ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی )
یہ مہینہ مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہے:
- یہ وہ مہینہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عظمت و عزت سے نوازا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” السنة اثنا عشر شهراً منها أربعة حرم . ثلاثة متواليات ذو القعده و ذو الحجه والمحرم و رجب مضر الذى بين جمادى و شعبان.
ترجمہ : سال میں بارہ مہینے میں ہوتے ہیں جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں ، ان میں سے تین ذوالقعدہ، ذوالحجۃ اور محرم متواتر ہیں اور رجب مفرد ہے جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے۔
- یہ مہینہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ مہینہ ہے ۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ما رأيت النبى صلى الله عليه وسلم يتحرى صيام يوم فضله على غير إلا هذا اليوم يوم عاشوراء و هذا الشهر يعنى شهر رمضان”.[4]
ترجمہ: میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص دن روزہ کا اہتمام کرتے ہوں اور اس کو کسی دوسرے دن پر فضیلت دیتے ہوں سوائے دس محرم کے دن کے اور اس مہینہ یعنی رمضان المبارک کے مہینہ کے۔
- یہ مبارک مہینہ گناہوں سے معافی کا مہینہ ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "صيام يوم عاشوراء احتسب على الله أن يكفر السنة التى قبله ".[5]
ترجمہ: میں یہ گمان کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس دن یعنی عاشوراء کا روزہ رکھنے والے کے گزشتہ سال کے گناہ معاف کردیتا ہے۔
- روزہ رکھنے کے اعتبار سے یہ مہینہ رمضان کے بعد سب سے افضل مہینہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے معزز مہینہ ہے کیونکہ اس کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے۔ اور یہ اعزاز سال کے کسی اور مہینے کو نہیں نصیب ہوا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :” افضل الصيام بعد رمضان شهر الله الذى تدعونه المحرم ".[6]
ترجمہ : رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے اس مہینے کا روزہ ہے جسے تم محرم کہتے ہو۔
- یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دی۔ اور دوسری قوموں کی بھی توبہ قبول کرنے کی بشارت دی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اس کی عظمت کو بیان کیا وہیں قرآن مجید نے اس بات کا حکم دیا کہ ” فلا تظلموا فیہن انفسکم ” ۔ لہذا ان مہینوں میں جنگ و جدل کی ممانعت کردی ۔ اور سب سے بڑا ظلم و زیادتی یہ ہے کہ انسان رب العزت سے دور ہو جائے اور اپنے آپ کو گناہوں سے قریب کرلے۔
ان تمام فضائل کے پیش نظر ہمارے لئے سال نو یکم محرم الحرام جشن بہاراں کا دن ہے جسے ہم بطور شکر خداوندی فرحت و مسرت کے ساتھ گزارنے کے اہل ہیں کہ اللہ نے ہمیں ایک سال اور فراہم کئے جس میں ہم ان نعمتوں سے مستفید ہو سکتے ہیں جنہیں اللہ نے ہمارے لئے خاص کر دیا ہے۔ مگر اس کا طریقہ کار محض اسلامی شعائر کے مطابق سجدہ شکر و حمد کی صورت میں ہو اور ساتھ ہی محاسبہ نفس کا آغاز بھی کہ گزشتہ سال ہمارے نامہ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں ؟ کیا ہم نے یہ سال ایسے نیک اعمال میں گزارے کہ کل قیامت کے دن ان کو دیکھ کر خوش ہو سکیں اور جو ہمارے لئے دونوں جہاں میں نفع بخش ثابت ہوں ؟ یا ہم نے اپنے دن ایسے گزارے جو ہماری دنیا و آخرت کی ناکامی کا ذریعہ بنیں گے؟
ہماری عبادت وریاضت ، اطاعت و طریقت احکام الٰہی کے مطابق رہیں یا پھر سود و زیاں کا باعث ؟ ہمارے صدقات و زکوٰۃ ، فرائض و نوافل ہمارے نفس میں خشوع و خضوع کا باعث بنے یا محض عادتاً انجام دیا گیا کہ تمام تر مشقت کے باوجود نامہ اعمال میں بڑھوتری کا سبب نہ بن سکے ؟
معیشت و معاشرت اور اخلاقیات کے میدان میں ہمارے اخلاق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا نمونہ بنے یا نہیں ؟ حقوق العباد مثلاً والدین، رشتہ داروں ، پڑوسیوں ، یتیموں اور بیواؤں وغیرہ کے حقوق کی ادائیگی کو ہم نے اپنا فرض منصبی سمجھا یا نہیں ؟ اولاد کی تربیت کے معاملے میں ہم نے فرامین الٰہی کو مقدم رکھا یا محض دنیوی مقاصد کے حصول میں انہیں سرگرداں رکھا؟ حصول علم اور اس کے تقاضے کو مد نظر رکھا یا پس پشت ڈال دیا؟ غرضیکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے تئیں ہم سنجیدہ ہوئے یا محض حیوانی طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے زندگی کے مقاصد سے بے خبر روز و شب گزارنے میں مشغول ہیں؟
علاوہ ازیں سال نو ہجرت کے عظیم واقعہ کی یاد دلا کر اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو دین حق کی سر بلندی کے لئے مصائب و آلام سے دوچار ہونا پڑے تو ایسے پرآشوب دور میں کفر کے ساتھ رواداری کا رویہ اپناتے ہوئے اپنے عقائد ونظریات میں لچک نہ پیدا ہونے دیں خواہ اس کے لئے جان ومال کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔
یہ وقت ہے اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کا تاکہ ہم عند اللہ محبوب ہو سکیں اور وقت سے پہلے اپنے رب کو راضی کر سکیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔1) بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے 2) مرنے سے قبل زندگی سے 3) مشغلات سے قبل فراغت سے 4) غربت آنے سے قبل مال سے 5) بیماری سے قبل صحت سے۔[7]
اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے نہیں ہٹ سکتا یہاں تک کہ وہ مذکورہ سوالات کا جواب دیدے:
زندگی کہاں گزاری ؟ جوانی کہاں لگائی ؟ مال کہاں سے کمایا ؟ یعنی حصول مال کے اسباب حلال تھے یا حرام؟ مال کہاں خرچ کیا؟ یعنی مال سے متعلق اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کئے یا نہیں ؟ علم پر کتنا عمل کیا؟[8]
لہذا یہ وقت ہے کہ ہم عیسوی سال کا جشن منانے کے بجائے یکم محرم کو سال نو کا درجہ دیتے ہوئے اس کا بحسن وخوبی استقبال کریں اور یاددہانی کے طور پر اسی دن کو مبارکباد کا حصہ بنائیں تاکہ ہر نفس ایک طرف ایک سال اور ملنے پر سجدہ شکر بجا لانے کا اہتمام کرے وہیں عمر کا ایک سال کم ہونے پر محاسبہ نفس کا عمل بھی جاری رکھے اور پھر اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں سے اجتناب برتنے کا عزم مصمم بھی کر لے اور رب کائنات کی بارگاہ میں دعاگو بھی اور ساتھ ہی تجدید عہد کرتے ہوئے عقائد و نظریات کو اپنے دلوں میں راسخ کرلے۔ اگرچہ معاشی و معاشرتی اقدار سے جڑنے کے لئے بعض معاملات میں عیسوی کیلنڈر کے استعمال پر بھی کوئی قباحت نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی کے مقصد کو سمجھنے اور وقت کی قدر کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔
مراجع ومصادر
- قرآن کریم
- حدیث شریف
- فتح الباری ، حافظ ابن حجر العسقلانی ، دار الایان للتراث
- ہجرت مصطفی ، محمد علاء الدین ندوی ،
- https://kashmiruzma.net/NewsDetail?
[1] مقالہ : سال نو اور مسلمان : منظر اور پس منظر ، ہلال احمد تانترے بحوالہ بیان القرآن
https://kashmiruzma.net/NewsDetail?….
[2] ہجرت مصطفی ، محمد علاء الدین ندوی ، ص 398-399
[3] فتح الباری ، حافظ ابن حجر العسقلانی ، ج 7 ، صفحہ 248
[4] متفق علیہ
[5] صحیح مسلم ، ابوداؤد و مسند احمد
[6] ترمذی ، 1/ 157
[7] مستدرک الحاکم ، 1846
[8] ترمذی ، 2416
نوٹ: مضمون نگار کا مختصر تعارف ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی
ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی
آراضی باغ، اعظم گڑھ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |