سرِ دار(ناول)/ابراہیم اختر – ڈاکٹر ابراہیم افسر
زیر تبصرہ ناول”سرِ دار“ہمہ جہت شخصیت کے مالک ابراہیم اختر کا تازہ ترین ناول ہے۔اس ناول سے قبل ابراہیم اختر کے کئی ناول منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔جن میں ”پیاسا دِل“اور ”خاک ہو جائیں گے ہم“اہمیت کے حامل ہیں۔ابراہیم اختر کا شمار مہاراشٹر کے سر کردہ اُردو مصنفین کی فہرست میں ہوتا ہے۔ابراہیم اختر پربھنی ضلع پریشد میں اکاونٹنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ فی الوقت موصوف گھر پر رہ کر اُردو ادب کی خدمت انجام دے رہے ہیں(آج بتاریخ 1 جون 2021 کو ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ ایڈیٹر)۔ان کی اب تک نو کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔جن میں ’ہندو فلسفہ‘(مضامین کا مجموعہ) اور’خوشبو تیرے دیارکی‘ (افسانوی مجوعہ)کو شہرت دوام حاصل ہو چکی ہے۔موصوف نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز1962میں کیا اوریہ سلسلہ تا ہنوز یہ جاری و ساری ہے۔
ابراہیم اختر نے اپنے ناول”سرِ دار“کو 17ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ہر باب پچھلے باب سے پیوستہ ہے۔یعنی ہر باب میں ناول کی کہانی کو آگے بڑھا یاگیا ہے۔ناول سرِ دار میں ایک ہی خاندان کی کہانی کو پیش کیا گیا ہے۔اس ناول کے کرداروں میں نریش،سریش کملا کے علاوہ راوی یعنی اشک صاحب کا کردار ہے۔ ان کرداروں میں سب سے جان دار اور متحرک کردار کملا کا ہے۔وہ اس ناول کی ہیروئین کے ساتھ اپنے معاشرے کی نمایندہ بھی ہے۔کملا کے بعد سریش کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔وہ اس پورے ناول پر گہری چھاپ چھوڑتا ہے۔اگر سریش کا کردار اس ناول میں نہیں ہوتا تو یہ ناول بے جان ہوتا۔نریش کا کردار بھی اُتنا ہی اہم ہے جتنا کہ باقی کے کردار۔لیکن نریش ناول کے تین ابواب کے بعد پندرہویں باب میں نمودار ہوتا ہے اور اپنی جواں و خوب صورت بیوی کا قتل اپنے ہاتھوں سے کر دیتا ہے۔کملا کا قتل اس ناول کا نکتۂ عروج ہے۔کملا کے قتل کے بعد قارئین ناول کے اختتام اور انجام سے بھی واقف ہوجاتے ہیں۔اس ناول میں اشک صاحب کا کردار قاری کو آگے کی کہانی بتانے کا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ادب،تہذیب اور ثقافت کا امین میرٹھ کا”میلا نوچندی“ – ڈاکٹرابراہیم افسر)
ابراہیم اختر نے اپنے ناول کے لیے جس پلاٹ کا انتخاب کیا وہ جنسی بے راہ روی اور جنسی تشنگی کی روداد ہے۔ناول سرِ دار میں نریش کی شریکِ حیات حسین و جمیل ہونے کے ساتھ بہت ہی شوخ اور چنچل ہے۔وہ اپنے حسن کے جادو سے نریش کے دل،جسم اور دماغ کو قابو میں کیے ہوئے ہے۔لیکن کملا کا دیور سریش بھی کملاکے حسن میں گرفتار ہو کر اس کا دیوانہ ہوچکا ہے۔وہ اس کے حسن اور جسم میں ڈوب کر اپنی جنسی تشنگی کو دور کرنا چاہتا ہے۔وہ اپنے جذبات کا اظہار کملا سے کئی مرتبہ کرچکا ہے۔ لیکن کملا لوک لحاظ اور اپنی شادی شدہ زندگی میں اُٹھنے والے طوفان کو روکنے کی وجہ سے سریش کی نا زیبا حرکات کا تذکرہ کسی سے نہیں کرتی۔سریش ہر روز کملا سے اپنی دل لگی اور دیوانگی کا اظہار کرتا ہے۔آخر کملا کے دل کے کونے میں بھی سریش کے لیے نرم گوشہ اُبھر آتا ہے۔وہ اس کی مدہوش کر دینے والی باتوں کے جال میں پھنس جاتی ہے۔نریش جب اپنا کاروباراور کملادونوں کو اپنے چھوٹے بھائی سریش کے ہاتھوں سپرد کر، نئے کاروبار کے سلسلے میں پونا چلا جاتا ہے تو سریش کو اپنی منزل یعنی کملاکو حاصل کرنے کا موقع فراہم ہو جاتا ہے۔کملا بھی اب نریش کے بجائے اپنے دیور سے دل اورجسم کا رشتہ جوڑ لیتی ہے۔کملا اور سریش،نریش کی غیر موجود گی میں اپنی راتوں کو رنگین بناتے ہیں۔کملا،سریش کے کہنے پر شراب نوشی کی عادی ہو جاتی ہے۔شراب کا نشہ جب سر چڑھنے لگتا ہے تو دونوں ایک دوسرے کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ بن جاتے ہیں۔جنسی آسودگی اور کملا کی محبت میں گرفتار ہونے کی وجہ سے سریش کا کاروبار گھاٹے میں چلا جاتا ہے۔اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سریش اپنی محبوبہ کو بغیر بتائے اس کی ایک رات کا سوادا دس ہزار میں شہر کے بڑے کاروباری دوارکا داس سے کر دیتا ہے۔کملا کو جب اس بات کا علم ہوتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔سریش اپنی ناجائز مانگوں کو پورا کرنے کے لیے کملا کی عزت سرِ بازار نیلام کر دیتا ہے۔کملا کو سریش نیم بے ہوشی کی حالت میں گھر لے آتا ہے۔اگلی صبح کملا گذشتہ رات کے خوف ناک واقعے کو سوچ سوچ کر پریشان ہے۔ابراہیم اختر نے کملا کی جسمانی اور نفسیاتی حالتِ زار کا بیان تیرہیوں باب میں درج ذیل الفاظ میں کیا:
”کمرے میں سورج کی روشنی پھیل گئی تو کملا نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور چاروں طرف دیکھنے لگی۔کمرہ اس کا اپنا ہی تھا۔رات کے واقعات اس کے وجود میں کیلیں ٹھوکنے لگے۔اس نے ایک سرد آہ کے ساتھ کروٹ بد لی اور تھوڑے توقف کے بعد آئینے کے سامنے جا کر اپنے سراپا کا جائزہ لینے لگی۔اسے اپنا اس طرح لُٹ جانے پر بڑا دکھ ہورہا تھا۔آئینے کی صاف اور شفاف سطح پر اس کو اپنا دھندلا دھندلا عکس نظر آیا تو اس نے دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا لیا اور سسک سسک کررونے لگی۔ اس کی شبیہہ مسخ ہو کر رہ گئی تھی۔جگہ جگہ اس پر خراشیں پڑ گئیں تھیں۔دوارکا داس نے اسے بڑی درندگی سے نوچا تھا۔کتنا بڑا فریب دیا گیا ہے اُسے۔کتنی برباد ہو گئی ہے وہ،سریش کتنا کمینہ ہو گیا ہے۔میرا دلال بن گیا ہے اور مجھے ایک طوائف،بازاری عورت اور آبرو ساختہ بنا دیا ہے۔میری ازدواجی زندگی اجاڑ دی کہیں کا نہیں رکھا مجھے۔ کیا ایک با عزت عورت اتنی بھی ذلیل اور بے عزت ہو سکتی ہے۔یہ لُٹی ہوئی زندگی کس کام کی،اب کیا رکھا ہے اس زندگی میں۔میں نے کیا سمجھ کر سریش سے دل لگایا تھا۔“ (یہ بھی پڑھیں ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے (بیاد پروفیسر ظفر احمد صدیقی) – ڈاکٹر ابراہیم افسر )
سریش اب کملا کی ہر رات کی قیمت وصولنا چاہتا تھا۔ایک بار پھر سریش نے کملا کا سودا دوارکا داس سے کیا۔اس بار کملا کو یہ رات اپنے گھر پر ہی بتانی تھی۔جب یہ بات کملا کو معلوم ہوئی توب کملا بکھر گئی۔اس کا وجود اور تشخص سمٹ گیا اور شناخت گم ہو گئی۔اس بار کملا نے نے دوارکا داس کے سامنے سریش سے جو کلمات کہے ہو بڑے ہی دل دوز اور عبرت ناک تھے:
”دوسرے کمرے میں جاکر کیا کروگے!یہیں بیٹھ کر تماشا دیکھو کہ دوارکا داس جی اپنے روپیوں کی قیمت کس طرح وصول کرتے ہیں کس طرح تمہاری بھابھی کو ننگا کرتے ہیں۔وہ کیسے کملا کو نوچتے ہیں۔اس میں شرمانے کی کیا بات ہے؟دیکھو تمہاری کملا دوارکا داس کی بانہوں میں مچلتی ہے اور اپنی ہوس کیسے پورا کرتی ہے جس سے تم نے محبت کا ڈھونگ رچا کر سرِ عام ننگی کر دیا۔جوکبھی تمہاری بھابھی تھی۔پھر تمہاری ناجائز بیوی بنی۔یعنی دو شوہر ایک بیوی!اور وہی کملا آج ایک طوائف بن گئی۔“
اس واقعہ کے اگلے دن جب کملا کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا شوہر پونا سے واپس آج ہی کی ٹرین سے آ رہا ہے تو اس کا دل خوف،عزت،رسوائی اور ذلالت کے مارے بلیوں اُچھلنے لگا۔اسے انجانے انجام اور خوف سے ڈر لگنے لگا۔اس کی زندگی میں نریش کا الگ مقام تھا۔وہ اس کا وفا دار شوہر تھا۔لیکن سریش کے بہکاوے میں آنے کے بعد اس کی زندگی اجیرن بن گئی۔اسے ڈر تھا کہ اگر نریش کو اس کی کالی کرتوتوں کا پتا چل گیا تو اس کا انجام کیا ہوگا؟آخر وہ گھڑی بھی آ ہی گئی جب نریش نے اپنے گھر میں قدم رکھا اور کملا کو آغوش میں لے کر اپنی بے قراری کے ساتھ محبت کو اظہار کیا۔کملا نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر گذشتہ تمام باتوں کو نریش سے بتایا۔کملا کی باتوں کو سننے کے بعدنریش کا جسم پتھر، کان بہرے،زبان گونگی ہو گئی نریش نے اپنی شادی شدہ زندگی کو جس ارمانوں کے ساتھ سجایا تھا اُتنی ہی بے دردی سے کملا نے اسے برباد کیا۔کملا کے بدن کو ایک جانب دھکیل نے کے بعد نریش نے دھار دار خنجر سے اپنے ہاتھوں سے کملا کا قتل کر دیا۔قتل کرنے کے جرم میں نریش کو پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ نریش نے اپنی نعش کو جلانے کا ذمہ اشک صاحب کو دیا۔جس پر شہر بھر میں خوب چہ مہ گوئیاں ہوئیں۔
ابراہیم اختر نے اپنے تجربے اور مشاہدات کے حوالے سے اکہرے پلاٹ پر شاندار ناول نما محل تعمیر کیا۔قاری اگر اس ناول کو اگر ایک بار پڑھنا شروع کرے تو دم سادھے آخر تک اس کے سحر میں خود کو بندھا ہوا محسوس کرتا ہے۔ناول میں منظر نگاری کا کمال یہ ہے کہ نریش،سریش اور کملا کے جذبات کی عکاسی کو ابراہیم اختر نے حقیقت کی چاشنی میں لپیٹ کر پیش کیا ہے۔موصوف نے ناول کے پہلے باب سے لے کرآخر تک پوری کہانی کو بیانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ناول کا بیانیہ اتنا دل چسپ اور پُر اسرارہے کہ قاری ناول مکمل کرنے کے بعد ہی فرصت پاتا ہے۔ابراہیم اختر نے کملا کے کردار کے ذریعے اُن عورتوں کی کہانی کو بیان کیا جومیٹھی باتوں میں آکر اپنی عصمت،لوک لاج اورپورے خاندان کو تباہ و برباد کر لیتی ہیں۔جنسی بے راہ روی ایک ایسا موضوع ہے جس پر اُردو کے بہترین ناول تخلیق کیے گئے ہیں۔ابراہیم اختر نے بھی اپنے ناول کے لیے اسی عنوان کا انتخاب کیا اور اپنا ناول ”سرِ دار“تخلیق کیا۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ ان کا یہ ناول اکیسویں صدی میں اُردو ناول نگاری کے باب میں اپنی علاحدہ پہچان قائم کرنے کے ساتھ منفرد مقام حاصل کرے گا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |