ڈاکٹر قمر صدیقی ممبئی یونیورسٹی میں اردو زبان کے استاذ اور ممبئی سے شائع ہونے والے ادبی رسالے’’اردو چینل‘‘کے مدیر بھی ہیں۔اردو چینل اپنے ظاہر و باطن کے اعتبار سے قابلِ دید و داد اور معاصر ادبی رسائل کے درمیان کئی اعتبار سے ممتاز ہے۔اردو چینل کا برقی فارمیٹ بھی بہت عمدہ ہے اور قمر صدیقی صاحب ہمہ دم اسے مفید تر بنانے میں مصروف رہتے ہیں،خصوصاً اچھی اور نفع بخش ادبی و علمی کتابیں اپلوڈ کرنے کا سلسلہ بہت اچھا ہے اور اس سے علم و ادب کے بہت سے شائقین مستفید ہورہے ہیں۔
قمر صدیقی وسیع المطالعہ اور صاحبِ نظر ادیب ہیں،نثر اچھی،سلیس اور رواں لکھتے ہیں اور شاعری بھی بہت اچھی کرتے ہیں،ادبی حلقوں میں ایک شاعر کی حیثیت سے بھی ان کی شناخت ہے اور بطور مدیر و نثار بھی انھیں تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔شعرگوئی اور نثر نگاری دونوں کو وہ بڑی خوبی سے نباہ رہے ہیں ،گویا ’’جام و سنداں باختن ‘‘کا عملی نمونہ ہیں۔ابھی پچھلے دنوں ان کا ایک خوب صورت شعری مجموعہ’’شب آویز‘‘کے نام سے جلوہ گر ہوا ہے۔جسامت کے اعتبار سے نہایت مختصر یعنی کل ۱۱۲صفحات پر مشتمل ہے اور بقول صاحبِ مجموعہ ان کے پچیس برسوں کے شعری سفر کا ایک سخت انتخاب ہے۔کتاب کے اندرون کی سیر سے لگتا بھی ہے کہ قمر صدیقی نے واقعی اپنی شاعری کا سخت انتخاب قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔اس میں دو حمد،دو نعتیں،پچپن غزلیں اور بارہ نظمیں شامل کی گئی ہیں اور سب میں لفظ و معنی،فکر و تخیل اور لب و لہجے کا نور اپنی اوج پر ہے۔ان کا انفراد یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی غزلیہ شاعری میں روایتی موضوع کے ساتھ انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے حقائق کی بھی بڑی عمدہ ترجمانی کی ہے،ان کی غزلوں کا کینوس وسیع تر ہے،جس میں قومی و بین الاقوامی انسانوں کے مسائل و معاملات ہمیں صاف نظر آتے ہیں ۔انھوں نے زیادہ تر مبہم اندازِ اظہار کی بجاے راست بیانِ احوال کو ترجیح دیتے ہوئے بالکل آسان الفاظ اور سادہ مصرعوں میں بڑی گہری باتیں کہی ہیں۔ظاہر ہے کہ شاعری میں یہ ہنر بڑی ریاضتوں کے بعد آتا ہے اور ایسی ہی شاعری زندہ و توانا ہوتی ہے؛کیوں کہ یہ اپنے عہد اور اس عہد کے قاری و سامع کو آسانی سے سمجھ میں بھی آتی ہے اور اس کے فکر و ذہن پر اثر انداز بھی ہوتی ہے۔قمر صدیقی کے بہت سے اشعار مشہور عربی مقولہ’’إن من الشعر لحکمۃ‘‘ کا مصداق ہیں۔ ہر غزل کے تمام نہیں،تو بیشتر اشعار ادب شناس و شعر فہم طبائع کو اپیل کرنے والے ہیں۔.کچھ ایسے اشعار بھی ہیں کہ سیدھے قاری کے دل پر لگتے ہیں،گویا وہ اس کا زندگی نامہ ہوں یا اس کی اپنی سرگذشت،جسے شاعر نے مصرعوں میں ڈھال دیا ہے۔یہ کسی فن کار کا کمال ہوتا ہے کہ اس کے فن پارے کو پڑھنے،سننے یا دیکھنے والا اسے اپنی روداد،اپنی بیتی یا اپنا خیال سمجھنے لگے اور بلا شبہ یہ کمال قمر صدیقی کو حاصل ہے۔ہمارے ارد گرد کی سیاست و معاشرت کے ہر لمحہ بدلتے احوال پر بھی قمر صدیقی کا شعری تبصرہ خاصا جاندار اور معنی خیز ہے۔ خاص کر ان کی نظمیں عصرِ حاضر کے تغیرات و انقلابات، سیاسی و معاشی جبر اور انسانی زندگی میں ٹکنالوجی کی بے پناہ؛ بلکہ بے محابا مداخلت پر بھر پور طنز ہیں۔
چند شعری نمونے ملاحظہ فرمائیں :
نواحِ جاں میں عجب حادثہ ہوا اب کے
بدن کا سارا اثاثہ بکھر گیا اب کے
یہ دور،دورِ یزیدی کی جیسے ہے توسیع
مچی ہے چاروں طرف پھر سے کربلا اب کے
حادثے جیسے ہیں سب دیکھے ہوئے سوچے ہوئے
کوئی حیرانی نہیں اب آنکھ اور منظر کے بیچ
ایک یہ تاریخ ہے پڑھتے ہیں جس کو آج ہم
اک الگ تاریخ بھی ہے رام کے بابر کے بیچ
بے سوچے ہوئے کام تو ہوجاتے ہیں اکثر
جو سوچتے ہیں ہم وہی اکثر نہیں ہوتا
آوازیں خاموش کھڑی ہیں
اور سناٹا بول رہا ہے
ہمارے خواب کوئی اور دیکھ لیتا ہے
ہماری آنکھ خلا،انتظار ،سناٹا
ہار اور جیت تو ایک اضافی قصہ ہے
پہلے جنگ میں نیزوں پہ سر آتے ہیں
کھل اٹھتا ہے گھر آنگن کا سناٹا
شام کو جب اسکول سے بچے گھر آتے ہیں
میں ہی میں ہوں دوسرا کوئی نہیں
ساتھ میرے مجھ سوا کوئی نہیں
ہمیشہ چاہتا ہے درد کا بہانہ کوئی
ہمارے زخم پہ ہے دستِ غائبانہ کوئی
کبھی ہے گل،کبھی شمشیر سا ہے
وہ گویا وادیِ کشمیر سا ہے
پھر وہی دل میں اداسی کے امڈتے بادل
پھر وہی سلسلۂ خاک و خذف کھینچتا ہے
اجالا پھیلا تھا کچھ تیرگی سے پہلے بھی
میں جل رہا تھا یہاں روشنی سے پہلے بھی
یہ زندگی نہیں ہے فقط خطِ مستقیم
دیکھیں جو غور سے تو ہے خطِ کشیدہ بھی
تھے کیسے کیسے لوگ میرے خیمۂ خیال میں
گئے دنوں کی خیر ہو کہ اب طناب بھی نہیں
یہ لمحہ لمحہ زندگی کچھ اس طرح سے کٹ گئی
کہاں پہ خرچ کیا ہوا،کوئی حساب بھی نہیں
مچل رہی تھی مری روح تجھ سے ملنے کو
طلب شدید تھی لیکن بدن کا پہرا تھا
وہ دل ہو یا کہ دلی سب بارہا لٹے ہیں
لٹ لٹ کے بارہا پھر تعمیر ہوگئے ہیں
کیاکیا چہرے ہیں آنکھوں میں،شکلیں کیا کیا ذہن میں ہیں
یادیں گویا البم ہیں اور البم میں تصویر بہت
قصہ ہے بس دوپل کا یہ ملنے اور بچھڑنے کا
کرنے والے عشق کی یوں تو کرتے ہیں تفسیر بہت
مشہور ہیں ہم دونوں اس طرح زمانے میں
تم آگ لگانے میں ،ہم آگ بجھانے میں
کیا ضروری ہے مار ڈالیں اسے
آستیں ہے تو کیوں نہ پالیں اسے
گیند کی طرح گول ہے دنیا
آؤفٹبال سا اچھالیں اسے
ان اشعار سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ قمر صدیقی کی شاعری میں کیسی غیر معمولی انفرادیت ہے، میرے خیال میں یہی انفرادیت شعری مجموعوں کی وحشتناک بھیڑ میں اِس مجموعے کی شناخت ہے۔ حقیقی معنوں میں شعر و ادب کا ذوق رکھنے والے احباب قمر صدیقی کی’’شب آویز‘‘ کا مطالعہ ضرور کریں،کہ اس میں آسودگیِ ذوق کا بھی سامان ہے اور تنویرِ ذہن و فکر کا بھی ۔اسے اردو چینل ،گوونڈی ممبئی نے شائع کیا ہے اور سو روپے اس کی قیمت ہے۔