اردو غزل کے ارتقاء میں دکن کے شعراء نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی آسمان غزل کے تابندہ ستارے ہے جس نے اُردو غزل کو بلندیوں پر پہنچایا ہے۔ہر دور میں ولی اور سراج کے شہر اورنگ آباد سے کئی شعراء جلوہ افروز ہوئے۔دور حاضر میں بھی اورنگ آباد کے کئی شعراء ہے جس نے اُردو غزل کے وقار میں اضافہ کیا ہے۔انہی میں ایک شاعر ایسا ہے جس کے احترام میں سحر سعیدی صاحب بے ساختہ کہہ پڑتے ہے۔
خاطر سے احترام سے سر جھک گیا میرا
محفل میں ذکر آیا تھا جے پی سعید کا
یکم مارچ 1932 میں ولی اور سراج کی سرزمین اورنگ آباد کے علمی و ادبی گھرانے میں قاضی غوث محی الدین کی پیدائش ہوئی جو آگے چل کر اپنی عرفیت جیلانی پاشا کی مناسبت سے جے پی سعید کہلائے۔
جے پی سعید کے والد قاضی وزیر الدین قابل وکیل تھے۔وکالت کے علاوہ انہیں شعر و ادب سے گہرا شغف تھا فارسی پر وزیر الدین کو عبور حاصل تھا کم عمری میں ہی اُنہوں نے جے پی سعید کو فارسی شعراء کا کلام پڑھا دیا تھا۔بچپن سے ہی کے پی سعید کو ڈھیروں فارسی اشعار زبانی یاد تھے۔ابتدا سے ادبی ماحول میسر ہونے کے باعث کم عمری سے ہی جے پی سعید نے شاعری شروع کردی تھی تھی سونے پر سہاگہ انہیں یعقوب عثمانی جیسے استاد کی صحبت میسر آئی جس نے اُن کی شاعرانہ صلاحیتوں کو مزید جِلا بخشی۔۔
جے پی سعید نے ملند کالج سے اپنا بے اے مکمل کیا تھا۔یہی جے پی سعید کی ملاقات ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر سے ہُوئی۔ مثل مشہور ہے کہ ہیرے کی پہچان جوہری کو ہی ہوتی ہے اسی مصداق ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے جے پی سعید کی صلاحیتوں کو پہچان لیا تھا وہ جے پی سعید سے بڑی انسیت رکھتے تھے انہیں کی درخواست پر ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے دستور ہند پر چار لیکچر اُن کی batch کو دیئے تھے۔
بی اے کے بعد جے پی سعید نے ایم اے اُردو ایم اے فارسی اور بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔ 1956 میں بحیثیت معلم مولانا آزاد ہائی اسکول میں آپ کا تقرر ہوا اور 1990 میں بحیثیت صدر معلم آپ ریٹائرڈ ہوئے۔جے پی سعید کو شمس الاساتذہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ ایک مثالی معلم تھے جو شاگردوں سے اپنی اولاد کی طرح محبت کرتے تھے۔۔۔۔
19 دسمبر 1951 میں اورنگ آباد میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا جس میں جے پی سعید نے پہلی مرتبہ اپنی نظم پھول کی فریاد سنائی تھی جس نے حاضرین کا دل موہ لیا تھا جے پی سعید کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت اُن کے دو شعری مجموعہ گل گشت اور شاخ گل ہے۔۔۔
غزل کہی کہ ذرا دل کا بوجھ کم ہو سعید
گزارنی تھی یہ بے خواب رات کیا کرتے
جے پی سعید غزل کے مزاج شناس ہے اُن کی شاعری روایت اور جدت کا سنگھم ہے اسی متعلق پروفیسر جگن ناتھ آزاد رقمطراز ہے کہ ” سعید صاحب روایت اور جدیدیت کا ایسا حسین امتزاج اپنی شاعری میں پیش کر رہے جو اندھیرے میں چراغ کی طرح جل رہا ہے”
جے پی سعید کی شخصیت کی مخصوص نرمی و اخلاص اُن کی غزلوں میں چھلکتی ہے یہی نرمی اور دلگدازی اُن کی غزلوں کا طرہ امتیاز ہے۔۔۔جے پی سعید کی غزلوں میں فکر و تخیل کی غیر معمولی گہرائی ? جدید و قدیم کا امتزاج اور تغزل دیکھنے کو ملتا ہے
ہم سعید کیا جانیں شعر کے تقاضوں کو
ہم تو بس تغزل کو شاعری سمجھتے ہے
نہیں سعید مرے پاس شوکتِ الفاظ
مری غزل میں مگر قلب کا گداز تو ہے
گفتگو ہوتو سماعت کا مزا آتا ہے
روبرو ہو تو بصارت کا مزا آتا ہے
مدت کے بعد ہم پر ہوا اس کا انکشاف
طالب تھے جس کے ہم وہ ہماری طلب میں تھا
جے پی سعید کا شمار اُن خوش نصیب شعراء میں ہوتا ہے جنہیں حمد و نعت لکھنے پر بھی عبور حاصل ہے
مرے ستار تو عیبوں کی میرے پردہ پوشی کر
مرے غفار کر ایجاب میری اس گذارش کا
اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو جب وہ بیان کرتے ہے تو لکھتے ہے
آپ کو مدح دل وجان سے مُجھ کو مبطوع
اس سے بہتر نہیں اظہار سخن کا موضوع
اولیاء کرام سے آپ کو والہانہ عقیدت ہے اسی عقیدت کو لفظوں کا روپ دے کر جے پی سعید نے کئی منقبت تحریر کی ہے۔
جے پی سعید نام ہے اُس شاعر کا جس نے غزل کی روایت کا پاس بھی رکھا ہے اور غزل کو جدیدیت سے روشناس بھی کرایا ہے۔جو اپنے دور کے تقاضوں سے واقف ہے۔جس نے غزل کو نئے لفظوں اور نئے استعاروں سے سنوارا ہے جس کی غزلوں نے تمام موضوعات کو اپنے دامن میں سمو لیا ہے۔۔۔۔۔فارسی پر عبور نے جے پی سعید کی شاعری کو مزید نکھار دیا ہے۔اُن کی شاعری میں اُردو کے جمال کے ساتھ فارسی کا جلال بھی نظر آتا ہے
حمایت علی شاعر لکھتے ہے ” الفاظ کے دروبست سے لے کر مضامین غزل تک کی شاعری میں روایات کا فیضان جاری ہے۔اس کے باوجود اُنہوں نے نئے انداز سے شعر کہنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔زبان و بیان پر مکمل گرفت اُن کا نمایاں وصف ہے”
عام شاعری سے یکسر مختلف اور دشوار فن تاریخی قطعہ نگاری ہے جس میں حرف ابجد کے حساب سے تاریخ یا سال کو بیان کیا جاتا ہے جے پی سعید کی قابلیت کا اسی بات سے اندازہ ہوتا ہے کے اس مشکل فن میں بھی انہیں کمال حاصل ہے۔اُنہوں نے کئی نامور شخصیات کی قطعات تاریخ وفات لکھی ہے۔۔۔۔ اخترزماں ناصر کی تاریخ وفات پر جے پی سعید کا لکھا قطعہ تاریخ وفات پیش خدمت ہے
اشکبار آنکھیں ہیں دل سے آہ نکلتی ہے
ہو عطا انہیں جنت سب نے یہ دعا کی ہے
تھی ربیع الاخر میں پہلی شام منگل کی
اختر الزماں کامل سال فوت ہجری ہے
(1421ہجری)
فارسی کی دو مشہور کتابوں احسن الشمائل اور مکتوبات کلیمی کا جے پی سعید نے اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔۔۔
تاریخ فیصلہ یہ کرے گی ہمارے بعد
اپنا سعید کیا کوئی حصہ ادب میں تھا
جے پی سعید نے نئے شعراء و ادباء کی رہنمائی کے لیے مطلع ادب نامی انجمن قائم کی تھی۔مطلع ادب کے تحت ہر آئے دن ادبی نشست منعقد کی جاتی تھی ماہرین کی موجودگی میں ادب کے طلباء اپنی تحریر پیش کرتے اُن کی اصلاح کی جاتی۔۔۔اور اصلاح شدہ تخلیقات کو شائع کرایا جاتا۔۔۔۔۔کئی نئے لکھنے والے اسی مطلع ادب کی بزم سے منظر عام پر آئے ہے۔
جے پی سعید نرم مزاج شخص تھے۔سادگی پسند کرتے سب سے عزت سے پیش آتے چھوٹوں سے شفقت سے پیش آتے ہر کسی کی مدد کے لیے تیار رہتے۔عجز و انکساری جے پی سعید میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔وہ ایک مشفق استاد مخلص دوست اور بہترین انسان تھے۔انتہائی صابر و شاکر! سادہ لوح?سنجیدہ مزاج?باوقار اور نہایت با مروت انسان تھے۔
میرے بچوں کو اللہ سلامت رکھے
دیکھ کر اُن کو خوش ہوتا ہوں شادماں
اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر اُنہوں نے خصوصی توجہ دی تھی۔سب کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔وہ اپنے بچوں کے لیے ایک دوست کی طرح تھے جس سے وہ اپنی زندگی کا ہر مسئلہ ہر احساس بانٹ سکتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
24 نومبر 2009 کو سورج نے چاروں طرف روشنی بکھیر دی تھی لیکن اس روز اورنگ آباد میں غم کا ایسا اندھیرا چھایا جس سے ابھرنے کو عرصہ درکار تھا ہوا اسی روز 77 سال کی عمر میں جے پی سعید کا انتقال ہوگیا۔اپنے پرائے سب کی آنکھ اشک بار تھی۔کوئی اُن کی تعلیمی صلاحیتوں کا ذکر کر رہا تھا تو کوئی جے پی سعید کے اعلیٰ اخلاق کا اعتراف کر رہا تھا۔نم آنکھوں کے ساتھ انہیں سپرد خاک کیا گیا۔۔۔۔۔
آج بھی ادبی محفلوں میں کے پی سعید کی کمی محسوس ہوتی ہے
آج تاریخ سازی میں مصروف ہیں
کل ہم خود ہی تاریخ بن جائے گے
اُن کے انتقال کے بعد مولانا آزاد ہائی اسکول سے اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن کے سامنے کے راستے کو جے پی سعید روڈ کے نام سے موسوم کیا گیا اور آپ کے نام کا ایک خوبصورت بورڈ وہاں نصب کیا گیا۔۔۔۔۔۔۔
جے پی سعید صاحب کی قائم کردہ ادبی انجمن مطلع ادب اب بھی جاری ہے اور آپ کے فرزند محترم نوید صدیقی صاحب(صدر شعبہ اردو مولانا آزاد کالج) مطلع ادب کے صدر ہے اور وقتاً فوقتاً ادبی نشت منعقد کرتے رہتے ہے۔۔۔۔ جے پی سعید کی وفات پر محمد جعفر سوز کی لکھی غزل کے چند اشعار پیش خدمت ہے
جے پی کی موت دل پر اثر کر گئی
روتی ہوئی مذارت ہر چشم تر گئی
ویران زندگی کی ہر ایک رہگذر ہوئی
خوشیوں کی کائنات اجل لوٹ کر گئی
لہجہ بھی منفرد تیرا ہر سو لاجواب
ہر بات پراثر تھی دل میں اتر گئی
سیدہ تزئین فاطمہ
بنت: سید نورالغوث نقشبندی
ایم اے سال اول شعبہ اردو ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی آورنگ آباد۔
syedafatema984@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |