تحقیق و تنقید کی دنیا میں جن ادیبوں اور دانشوروں نے کارہاے نمایاں انجام دیئے اور اپنے علم اور محنت کے ذریعے اس میدان میں بیش بہا اضافے کیے ، ان ادیبوں اور دانشوروں میں ایک اہم نام نثاراحمد فاروقی کا بھی ہے ۔ وہ میدانِ تحقیق و تنقید میں حوالے کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے نام کو اردو دنیا جانتی ، ان کے کام کو پہچانتی اور ان کی قابلیت کا اعتراف بھی کرتی ہے۔ انھوں نے ادیب ، محقق ، ناقد ، شاعر اور مترجم کی حیثیت سے دامانِ علم و ادب کو بجا طور پر وسعت دی ہے ۔
نثار احمد فاروقی کا اسلوبِ تنقید ایک منفرد انداز کا حامل ہے ۔ وہ اپنی ترجیحات کو پیش کرنے کے لیے سیدھے سادے اور سپاٹ انداز سے گریز کرتے ہوئے مدلل گفتگو کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس کا معقول جواز بھی پیش بھی کرتے ہیں۔ ان کی تصنیفات ، تالیفات اور مضامین کی فہرست خاصی طویل ہے کہ میر، غالب، مصحفی، اقبال، آزاد اور ابوالکلام آزاد کے ساتھ سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہے۔
نثار احمد فاروقی کی ایک اہم کتاب ’’تلاش غالب‘‘ ہے، جس میں غالب سے متعلق تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ ان مضا مین میں نثار احمد فاروقی نے غالب کی زندگی اور فن کے بعض نئے پہلوؤں سے بحث کی ہے۔ غالب شناسی کے ضمن میں یہ کتاب اس لیے بہت اہم ہے کیوں کہ اس میں غالب پر بعض ایسے مضامین شامل ہیں جن سے مطالعۂ غالب کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ ’’تلاش غالب ‘‘ غالب کی تفہیم و تحقیق میں اپنی منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔ بطور خاص اس کتاب میں غالب کے دیوان نسخۂ امروہہ کی بحث بہت اہم ہے۔ نثار احمد فاروقی غالبیات سے متعلق تحقیقی اور تنقیدی کاموں سے مطمئن نہیں تھے یوں بھی ان کے جیسا اعلیٰ تحقیقی ذہن اور تنقیدی شعور رکھنے والا، کسی بھی تحقیقی منزل پر مطمئن نہیں ہو سکتا۔ وہ تو ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے اور نئے تحقیقی انکشافات اور تنقیدی نکات کی جستجو کرتا رہتا ہے۔ ’’تلاش غالب‘‘ میں شامل مضامین ان کے اسی تحقیقی ذہن اور تنقیدی شعور کے غماز ہیں۔ ان مضامین میں انھوں نے سہل نگاری اور قناعت پسندی سے دامن بچاتے ہوئے ’’غالب تحقیق‘‘ کے نئے دروازے کھولنے اور غالب کی شخصیت اور ان کے کلام کو ان کے تاریخی اور تہذیبی سیاق میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اسی کتاب میں ایک اہم مضمون ’’غالب تاریخ کے دوراہے پر‘‘ ہے۔ میں نے اپنے مضمون کی عمارت اسی مضمون پر قائم کی ہے۔ (یہ بھی پڑھیں شعرِ غالبؔ : چندامتیازات – عمیرؔ یاسرشاہین )
نثار احمد فاروقی نے ’’غالب تاریخ کے دوراہے پر‘‘ میں مرزا غالب کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی اس امر کا بھی خاص خیال رکھا ہے کہ غالب کے سیاسی اور سماجی پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے سلطنت مغلیہ کے زوال کی وہ کہانی نہ دہرائی جائے جسے بیشتر ادیب مغل حاکموں اور ان کے نا اہل جانشینوں سے شروع کرتے ہیں اور اس کا اختتام 1857میں ہونے والی ہندوستان کی آزادی کی کوشش پر کرتے ہیں۔ اس مضمون کی بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں کسی فن کار کا سیاسی اور سماجی پس منظر جاننے اور اسے بیان کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔ کیا کسی بھی ادب پارے یا فن پارے کو سمجھنے کے لیے اس ادیب کی زندگی، اس کے احوال، اس کے معاشی حالات، اس عہد کا ماحول، اس وقت کا سیاسی اور سماجی ماحول جاننا ضروری ہے؟ کیا ان باتوں کو جانے بغیر کسی بھی ادب کو سمجھنا یا اس کی صحیح پرکھ کرنا ممکن نہیں؟ ان تمام سوالات کو خود نثاراحمد فاروقی نے اپنے اس مضمون میں اٹھایا ہے اور ان کے جواب غالب اور اس کے عہد کو بنیاد بنا کر تفصیل سے دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ اس دنیا کی عمر آپ تھوڑی دیر کے لیے چند ہزار سال سمجھ لیجیے۔ انسان کی جبلت ہزاروں سال سے وہی ہے، بقائے نسل کی خواہش، فنائے ذات کی کشش، خوف، تحفظ کا احساس۔ اسی طرح انسانی نفسیات اور جذبات بھی وہی ہیں۔‘‘ 1؎
جس طرح زمانہ ما قبل میں کسی حسین صورت یا دلفریب منظر کو دیکھ کر لوگوں کو مسرت ہوتی رہی ہوگی، آج بھی لوگوں کی کیفیت اس سے مختلف نہیں ہے۔ آج جس طرح کسی باغیچے میں چہل قدمی کرتے وقت لوگ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اس کے مناظر، رنگ برنگے پھول اور ہریالی سے فرحت محسوس کرتے ہیں ، پہلے زمانے کے لوگوں کے جذبات بھی اس سے مختلف نہیں رہے ہوں گے۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ، بارش کا ہونا، پھولوں کا کھلنا اور اس کی خوشبو، نیز قدرت کے جتنے بھی خوش نما مناظرہیں ان تمام چیزوں کا اثر لوگوں کے ذہنوں پر پڑتا ہے۔ لیکن ان چیزوں کا اثر قبول کرتے ہوئے شاعر یا ادیب ان تمام چیزوں کو ادب میں جگہ دینے کی کوشش کریں، ضروری نہیں۔ذہنوں پر ان تمام مناظر کے اثرات پڑتے تو ہیںلیکن کسی بھی معاشرے میں اگر کوئی تغیر رونما ہوتا ہے، چاہے اس میں سیاسی عوامل کار فرما ہوں یا تہذیبی، کوئی تحریک منظر عام پر آئی ہو یا کسی انقلاب کا پرچم بلند کیا گیا ہو۔ اس کا اثر اس معاشرے میں رہنے والے تمام لوگوں پر یکساں پڑتا ہے اور دیر پا ہو تا ہے۔ انسان اپنے اطراف میں، اپنے معاشرے میں ہونے والی اتھل پتھل کا اثر زیادہ قبول کرتا ہے۔ چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔ حکومت بدل جائے یا باہری طاقتیں حملہ آور ہو جائیں۔ شہر میں خوش حالی کا ماحول ہو ، ہر طرف چراغاں ہوں اور لوگ عیش و عشرت سے زندگی بسر کر رہے ہوں یا لوٹ مار اور تباہی کی وارداتیں عام ہوں، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو۔ ان تمام حالات کا انسان کے ذہنوں پر اثر پڑنا لازمی ہے۔ادیب یا شاعر عام انسانوں سے زیادہ حسّاس ہوتے ہیںاور یہ تمام چیزیں سوچنے کے انداز اور اظہار کے طریقے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس لیے کسی بھی ادیب یا فن کار کے ادب پارے یا فن پارے کو سمجھنے میں اس ادیب کے عہد کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اگر اس عہد کو سمجھ لیا جائے تو تخلیق کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں: (یہ بھی پڑھیں اردو کا پہلا عوامی اور ترقی پسند شاعر نظیر اکبر آبادی(غالب نامہ کے حوالے سے) – ڈاکٹر نوشاد منظر )
’’خارجی مظاہر کی یہ سب کیفیات سوچنے کے انداز اور اظہار کے اسلوب پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس لیے فن کار جس تاریخی اور سیاسی سیاق و سباق میں زندہ رہا ہے، اسے گہری نظر سے جانچے بغیر اس کے فن کو بھی اچھی طرح پرکھا نہیں جا سکتا۔‘‘ 2؎
اس مضمون کی ابتدا میں نثاراحمد فاروقی نے غالب کے عہد یعنی 1797سے1869تک پھیلی ہوئی 72سالہ مُدّت پر سرسری لیکن پر مغز گفتگو کی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کی تاریخ کو بدل دیا۔ اس عہد کو اگر قدیم تہذیب و تمدن اور جدید تہذیب کے درمیان کی کڑی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس عہد میں لوگوں کا ذہن کافی حد تک بیدار ہو چکا تھا۔ یوروپ میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب کی تکمیل ہو رہی تھی۔اب ایسے ادب کی بات کی جا رہی تھی جو صرف عوام کے لیے ہو۔ جس کا بنیادی مرکز عام لوگ ہوں اور جس سے عام لوگوں کو فائدہ پہنچے۔یہ نظریہ پیش کرنے والا کارل مارکس اسی عہد کا تھا۔اس سے پہلے تک ادب بھی زمینداروں کی جاگیر سمجھا جاتا رہا تھا۔ اسی عہد میں فریڈرک اینگلز پیدا ہوا جس کی فکر سے نئے اشتراکی نظام کی بنیاد پڑی۔گوئٹے اور فرائڈ جیسی نامور شخصیات اسی عہد کی پیداوار ہیں۔غرض یہ کہ اس عہد میں ایسے بلند مرتبہ مفکرین پیدا ہوئے جن کا اثر آج بھی ہماری زندگیوں پر بہت گہرا ہے۔ جن شخصیات کا اوپر ذکر کیا گیا ہے یہ سب مغرب کے رہنے والے تھے۔ مغربی ادب تیزی سے ترقی کرتا جا رہا تھا جس کے مقابلہ میں مشرقی ادب کافی کمزور تھا۔ عالم اسلام میں بھی کئی تحریکیں رونما ہوئیں۔ لیکن ان میں زیادہ تر وحدت اسلام کی دعوت دے رہی تھیں۔ اسلام کے مرکز میں عبدالوہاب نجدی نے تحریک احیا کا کام شروع کر دیا تھا، جس کا خاتمہ مولانا اسمٰعیل شہید کی شہادت پر ہوا۔ بعد میں اس تحریک احیا نے دوسری شکل اختیار کر لی اور آج ہندوستان کے ہر شہر اور قصبے میں مدارس کی شکل میں چل رہی ہے، جن کا بنیادی مقصد دینی تعلیم کا احیا ہے۔ مذہب نے ہمیشہ اپنے اقتدار اعلی کو باقی رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے متعلق نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:
’’…عقلیت اور سماجی انقلاب کی جو تحریکیں انیسویں صدی میں اٹھیں وہ سب مغرب کی مادہ پرست اقوام کی طرف سے اٹھیں۔ عالم اسلام نے اگر کوئی انقلابی آواز بلند کی تو وہ دین کے احیا کی آواز تھی۔ اگر افغانی اور سر سید کی طرح تعلیمی یا فکری انقلاب کی کوئی دعوت آئی تو وہ بھی مذہب کی ظلّ حمایت میں آئی۔ شاید اسی لیے مولانا شبلی نے ایک خط میں مولانا آزاد کو لکھا تھا کہ اگر اپنی دعوت کو مقبول و موثر بنانا ہو تو مذہب کا لبادہ اُوڑھ کر آؤ۔‘‘ 3؎
مولانا شبلی کا یہ جملہ اپنی جگہ درست ہے۔ ما قبل زمانے میں بھی اور دور حاضر میں بھی یہ قول صادق آتا ہے۔ اگر کسی بھی دعوت کو مذہب کا لبادہ اُوڑھا دیا جائے تو اس کا خاطر خواہ اثر ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس کے باوجود گذشتہ زمانوں کے مقابلے دور حاضر میں لوگوں کی سوچ میں بھی وقت کے ساتھ بہت تبدیلی آئی ہے۔ اس تبدیلی کے اسباب بھی مختلف ہیں۔ ایک تو یہ کہ اسلامی حکومت کا کمزور پڑنا یا اس کا ختم ہو جانا۔ دوسرے یہ کہ مغرب پرستی ہماری تہذیب، ہمارے سماج اور ہمارے معاشرے میں در آئی ہے۔ جس کی وجہ سے بھی ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصلہ کرنے اور ان سے احکامات لینے کے بجائے، حالات کے مطابق فیصلہ کرنا بہتر سمجھنے لگے ہیں۔غالب بھی ایسے ہی دور میں پیدا ہوئے تھے۔ جو معاشرہ یا حکومت نام کو تو مسلمانوں کی تھی لیکن ایک اسلامی حکومت اور مغلوں کی طرز حکومت، معاشرت اور تہذیب و تمدن میں بہت فرق تھا۔نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:
’’انھوں (غالب)نے قدیم و جدید کی کشمکش میں کبھی قدامت کی سرپرستی نہیں کی۔ ان کا مذہب بھی واجبی اور روایتی تھا۔ اہل تقلید نے ایک تو ان کی ذہانت کے سبب معاف رکھا۔ دوسرے اس لیے کہ انھیں غالب کے دور میں سیاسی اقتدار نصیب نہیں تھا۔ ورنہ جو طبقہ ابن المقفع جیسے نابغہ کو 26سال کی عمر میںیہ شعر کہنے اور زندیقوں کی کتابیں عربی میں ترجمہ کرنے کی پاداش میں:
یا بیت عاتکتہ الذی التعزل
حذر العدی و بک الفواد موکل
انی لأمنحک الصدود و انّنی
قسماً الیک من اصدود لأمیل
زندہ جلا کر ہلاک کر سکتا تھا، وہ غالب کو ’دین بزرگاں خوش نہ کرد‘ کہنے پر داد نہیں دے سکتا تھا۔‘‘ 4؎
نثاراحمد فاروقی نے غالب کی زندگی میں ہندوستان میں رونما ہونے والے اہم سیاسی اور تاریخی حوادث پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ جس میں انگریزوں کا دہلی فتح کرنا ہو یا مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مضبوط سکھ ریاست قایم کرنا وغیرہ۔ انگریزوں نے اپنی حکمت عملی سے نہ صرف ہندوستانیوں پر حکومت کی بلکہ انھوں نے ہندوستانیوں میں پھوٹ ڈالنا بھی شروع کر دی۔ لیکن ہندوستان کی آزادی ایک ایسا مُدّعا تھا جس نے تمام ہندوستانیوں کو آپس میں باندھ رکھا تھااور اسی اتحاد کے نتیجے میں1857کی پہلی جنگ آزادی سامنے آئی۔ اس جنگ آزادی نے انگریزوں کی بھی آنکھیں کھول دیں اور ان کو احساس ہو گیا کہ ہندوستانیوں کے اتحاد کو ختم کیے بغیر ان پر حکومت نہیں کی جا سکتی۔ انگریزوں کی پالیسی کے متعلق نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:
’’…اس جنگ آزادی نے انگریزوں کی آنکھیں کھول دیں اور انھوں نے یہ محسوس کرلیا کہ ہندوستانیوں کے قومی اتحاد کو پارہ پارہ کر کے ہی وہ اپنے استعمار کو باقی رکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ ورناکیولر ایجوکیشن کا وہ نظام شروع کیا گیا جس نے اردو اور ہندی کو قطبین میں بدلنا شروع کر دیا۔‘‘ 5؎
ورناکیولر ایجوکیشن کے تحت انگریزوں نے ہندوستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے جو بھی رپورٹ پیش کی ہو اور ہندوستان میں تعلیم کی ترقی کے لیے جو بھی تدابیر پیش کی یا اختیار کی ہوں لیکن اس پروگرام کا جو سب سے بڑا نقصان سامنے آیا وہ یہ تھا کہ ہندوستانی، زبان کے نام پر تقسیم ہو گئے۔ پہلے مدرسوں اور پاٹھ شالاؤں میں ہندی اور اردو دونوں کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مدرسوںمیں ہندو بچّے بھی پڑھتے تھی اور پاٹھ شالاؤں میں مسلمان طالب علم۔ لیکن سید احمد شہید کی تحریک جہاد جو احیائے دین کے لیے شروع ہوا تھا، اسے بنیاد بنا کر انگریزوں نے اردو اور عربی کی تعلیم کو صرف مدرسوں تک مخصوص کر دیا اور ہندی پاٹھ شالاؤں کے ذمّے آ گئی۔ مسلمان اردو اور عربی کو اپنی مادری زبان سمجھنے لگے اور ہندوؤں نے ہندی کی طرف رجوع کرنا شروع کیا۔ سنسکرت کبھی مندروں سے اتری ہی نہیں۔ وہ کبھی عوام کی زبان نہ بن سکی۔ مغل دربار کے زوال کے ساتھ ساتھ فارسی کا بھی زوال ہوتا گیا۔ انگریزوں نے اس میدان میں بھی حکومت کرنے کے لیے جگہ جگہ مشنری اسکول قایم کردیے۔ جس میں انگریزی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ انگریز مغربی علم و ادب کی اتنی کتابیں ہندوستان لے آئے کہ ہندوستانی اس کی چکا چوندھ میں کھو کر رہ گئے۔ میکالے نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ہمارے یہاں ایک شیلف کا ادب ہندوستان کے تمام ادب پر بھاری ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ ہم ہندوستانیوں کو خون سے تو انگریز نہیں بنا سکتے لیکن ذہنی طور پر اتنا انگریز ضرور بنا دیں گے کہ صبح اُٹھنے کے ساتھ چائے کا پیالہ اور اخبار اس کے ہاتھ میں ہوگا۔ ہندوستان کے نظام تعلیم کے متعلق نثار احمد فاروقی رقمطراز ہیں:
’’…ترکی حکومت محمد شاہ پر ختم ہو گئی تھی۔ وہ آخری مغل بادشاہ تھا جس کی مادری زبان ترکی تھی۔ فارسی کچی پکی باقی تھی، اسے ایرانیوں کی لن ترانیوں نے قدم جمانے سے روکا۔عربی مذہبی مدارس میں معتکف ہو گئی۔ سنسکرت کبھی عوامی چلن کی زبان نہیں تھی۔ ہندی ابھی انگھڑ تھی، اردو کچہری کے مقدمے لڑنے اور رپٹ لکھوانے کے کام آسکتی تھی۔ دفتری انتظام اور علمی تصانیف کے لیے انگریزی کو صاف میدان مل گیا۔ مشنریوں کو سرکاری سرپرستی میں جگہ جگہ اسکول کھولنے کی سہولتیں دی گئیں۔ ایک نیا نظام تعلیم اور اس کے ساتھ مغرب سے مختلف علوم پر کتابوں کا ایسا سیلاب آ گیا کہ ساری مقامی زبانیں منقار زیر پر ہو کر بیٹھ گئیں۔ چنانچہ انگریزی آج بھی راج کر رہی ہے اور اسے اپنی جگہ سے ہلائیے تو ہمیں عالمی برادری سے اپنا رشتہ ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔‘‘ 6؎
مغرب کے علم و ادب کا ہمارے یہاں بہت گہرا اثر پڑا۔ اس کی وجہ سے ہندی اور اردو کی تقسیم توہوئی ہی ساتھ ہی ساتھ مغربی تعلیم کا اثر زندگی کے مختلف پہلوؤں اور ہماری تہذیب پر بھی پڑا۔ ہندوستان میں پہلے، سال پتہ کرنے کے لیے بکرمی اور ہجری کلینڈر کی طرف رجوع کیا جا تا تھا لیکن اب عیسوی سنہ نے ان کے جگہ لے لی۔ دن جو آٹھ پہروں میں تقسیم تھا اس کی جگہ 24 گھنٹوں نے لے لی۔اس کے علاوہ ہمارے ادب کو جو بہت بڑا نقصان ہوا وہ یہ تھا کہ ہماری زبان یعنی اردو کی لغت کو ترتیب دینے کا کام انگریز کرنے لگے تھے۔ اردو کی ایک لغت اور اس کے اصول و قواعد کی ایک کتاب گلکرسٹ نے بھی تیار کی۔ہمارے لیے یہ بات باعث شرم تھی مگر پھر بھی ہم غفلت میں مبتلا رہے۔ ہم صرف اپنی دل طبعی میں لگے رہے۔ اردو ادب میں ہمارا رول صرف اتنا تھا کہ ہم غزلیں کہہ کر ہی خوش ہو لیا کرتے تھے اور دوسری طرف انگریز ہماری تہذیب اور ہمارے مذہب کی تاریخ لکھ رہے تھے۔ انھوں نے یہ چیزیں لکھنے میں نہ جانے کتنی چیزیں حذف اور کتنی چیزیں اپنی طرف سے شامل کر دی ہوں گی۔ انگریز ملک کی دولت کو تو برطانیہ بھیج ہی رہے تھے، ساتھ ہی ساتھ وہ ہندوستان کے ادب کو بھی برطانیہ کی لائبریریوں کی طرف روانہ کر رہے تھے۔ چنانچہ آج بھی بڑی مقدار میں ہمارا قدیم ادبی سرمایہ برطانیہ کی لائبریریوں میں محفوظ ہے۔ (یہ بھی پڑھیں خطوط غالب اور نثار احمد فاروقی – ڈاکٹر ثاقب عمران )
نثار احمد فاروقی نے ’’غالب تاریخ کے دوراہے پر‘‘ میں غالب کو ایک نئے اور اچھوتے پہلو سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ غالب کی پیدائش آگرہ میں ہوئی۔ آگرہ کے قریب فتح پور سیکری پر اس وقت تک انگریز قابض ہو چکے تھے اور دھیرے دھیرے پورے ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط کرتے جا رہے تھے۔انگریزوں نے ڈیوائڈ اینڈ رول کی پالیسی اپنائی تھی۔ وہ ہندوستانیوں کو دولت ، جاگیر اور حکومت میں اعلی مرتبوں کا لالچ دے کر اپنے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بناتے جا رہے تھے۔ ہندوستان میں ہر طرف ابتری چھائی ہوئی تھی۔ ان حالات میں جب کہ اقتدار ہندوستانیوں کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا تھا، لوگ ظاہری مرتبے اور القاب و آداب کو اپنی شان سمجھنے اور اس پر قناعت کرنے لگے تھے۔حکومت سے وابستہ رہنا اپنے لیے فخر سمجھتے تھے۔ بھلے ہی وہ حکومت انگریزوں کی ہی کیوں نہ ہو۔ غالب بھی امیر زادے تھے۔ ان کا سلسلۂ نسب سلجوقی خاندان اور افراسیاب تک پہنچتا ہے۔غالب کی بدقسمتی کہ انھوں نے جب آنکھ کھولی تو ان کے خاندان کی بادشاہت تو نہ تھی لیکن ان کے والد اور چچا حکومت میں اچھے مرتبے پر فائز تھے۔لیکن بچپن میں ہی ان دونوں کا سایہ سر سے اُٹھ گیااور ان کی زندگی میں پریشانیوں کی وہ لہر آ گئی، جس نے مرتے دم تک ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ غالب چونکہ امیر زادے تھے، اس لیے ان کی نظروں میں بھی حکومت کی طرف سے ملنے والی مراعات اور القاب وغیرہ بہت اہمیت رکھتے تھے تاکہ جو عظمت ان کے آبا و اجداد کو میسّر تھی اس کی شناخت قایم رہے۔ اپنے آبا و اجداد کی ، اپنے خاندان کی اور خود اپنی شناخت قایم رکھنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:
’’جب کسی عقیدے یا نصب العین کی روح مر جاتی ہے تو اس کے رسوم و ظواہر کی لکیر پیٹنے میںمبالغہ کیا جاتا ہے، اسی طرح جب سچی طاقت حقیقی سطوت اور واقعی دولت ہاتھوں سے نکل جاتی ہے تو ظاہری القاب و آداب ہی عظمت رفتہ کا نشان رہ جاتے ہیں اور انہیں دانتوں سے پکڑا جاتا ہے۔ یہی سب کچھ غالب کے عہد میں بھی تھا۔ انہیں دربار مغلیہ سے کھوکھلے خطابات پا کر جو طمانیت ہوتی ہے، اپنے قلیل وظیفے کو آثار امارت کے طور پر باقی رکھنے کے لیے جو تگا پو کرتے ہیں، انگریز کے دربار میں کرسی کے لمبر کو جن للچائی نظروں سے دیکھتے ہیںاور الور، حیدرآباد، اودھ، انگریز ریذیڈنٹ یا ملکہ معظمہ کے دربار سے براہ نام وابستگی کو جو اہمیت دیتے ہیں وہ سب دراصل غالب کی اپنی تہذیبی شناخت کا مسئلہ ہے، اس لیے ان کی نگاہ میں سارے مسئلوں سے زیادہ اہم ہے۔‘‘ 7؎
ایک جگہ اور نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:
’’…غالب نے تین مغل بادشاہوں کا زمانہ پایا۔ جب انھوں نے آنکھ کھولی تھی تو کور چشم شاہ عالم ایک شامیانے کے نیچے فاعتبروا یا اولی الابصار بنے بیٹھے تھے۔ اور انگریزوں کی عطا کردہ ایک لاکھ ماہانہ پنشن میں مگن تھے۔ پھر اکبر شاہ ثانی کا دور آیا تو یہ پنشن اور بھی کم ہو گئی اور مراعات میں تخفیف کر دی گئی۔ لیکن وظیفہ کے گھٹنے سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ انگریزوں کی طرف سے آنے والی چٹھیوں میں القاب و آداب گھٹتے جا رہے تھے… بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے بالکل ہی شاہ شطرنج بنا دیا تھا۔ اور یہ بات کھل کر سامنے آ گئی تھی کہ ان کے بعد کوئی بادشاہ کا لقب اختیار کر کے نہیں بیٹھے گا۔‘‘ 8؎
مغل بادشاہوں کی ایسی حالت کے باوجود غالب نے بہادر شاہ ظفر کے دربار سے اپنا تعلق قایم کیا اور تاریخ نویسی کے فرائض بھی انجام دیے۔ جس کے لیے ان کی پچاس روپیے تنخواہ مقرر تھی لیکن کئی کئی مہینے تنخواہ نہیں ملتی پھر بھی غالب دربار سے اپنا تعلق استوار رکھے ہوئے تھے اور بادشاہ کے مصاحب بن کر اتراتے پھرتے تھے۔لیکن غالب کو اس بات کا بھی بخوبی احساس ہو چکا تھا کہ اب مغرب کی حکمرانی مشرق پر بھی ہو گی اور یہ کسی کے روکنے سے رکنے والا نہیں۔نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں کہ ’شاید اسی لیے جب سر سید ان سے آئین اکبری پر تقریظ لکھوانا چاہتے ہیں تو وہ مغربی تہذیب کا ایک قصیدہ نظم کر کے بھیج دیتے ہیں ۔ جس کے بین السطور میں یہ ہے کہ اب گڑے مردے اکھاڑنے سے کیا ہوتا ہے۔ اکبر اعظم کا زمانہ واپس آنے والا نہیں‘۔ 9؎ شاید یہی وجہ تھی کہ جب مغل حکومت کا سورج غروب ہو گیا اور انگریز قابض ہو گئے تو غالب نے اپنے دامن میں لگے دربار مغلیہ کی وفاداری کا داغ دھونا شروع کردیا۔ جب کہ 1857کی جنگ آزادی میں غالب کا بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا تھا۔ ان کا مال و اسباب، خلعت و مراعات سب لُٹ گیا۔ ان کی تنخواہ بند ہو گئی تھی۔ جس کو پھر سے شروع کرانے کے لیے غالب کو بہت مشقت کرنی پڑی۔ غالب نے یہ بات بہت اچھی طرح سے محسوس کر لی تھی کہ مغل حکومت کا عہد واپس لوٹ کر آنے والا نہیں ہے اور اب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت رہے گی۔اس لیے ساری تباہی کے باوجود بھی وہ ہندوستانیوں کو ہی اس کا مجرم ٹھہراتے رہے۔ غالب کے اس رویہ کے بارے میں نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:
’’میں سمجھتا ہوں کہ اس رویّے کا تعلق غالب کی خود غرضی سے نہیں ہے بلکہ یہ بھی ان کا تاریخی شعور ہے۔ جسے 1857 سے ایک نئی مہمیز ملی تھی، یا اسے تاریخی وجدان کہہ لیجیے جو انہیں یہ بتا رہا ہے کہ محض ہندوستانی باغیوں کی وکالت کرنا یا ان کی مظلومیت کا مرثیہ پڑھنا تاریخی اور تہذیبی قوتوں کے اس تصادم میں پیش آنے والے فیصلے کو بدل نہیں سکتا۔‘‘ 10؎
اس میں کوئی کلام نہیں کہ مرزا اسد اللہ خاں غالب ایک عظیم شاعر ہیں اور اس سے بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ غالب نے مسجع اور مقفیٰ جملوں سے گراں بار اردو نثر کو عام فہم بنایا۔ اگر کوئی ادیب یا شاعر فن کی بلندیوں پر فائز ہے تو کیا وہ بحیثیت انسان بھی عظیم ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی اختلاف نہیں کہ فن اور شخصیت دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ادبی دنیا میں Legend بننے کے لیے شخصیت کا روشن و تابناک ہونا ضروری نہیں۔ مندرجہ بالا اقتباس سے محسوس ہوتا ہے کہ نثاراحمد فاروقی غالب کی شخصیت سے اس قدر مرعوب نظر آتے ہیں کہ غالب کی انگریز نوازی بھی انہیں تاریخی شعور نظر آتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے 1857کی جنگ آزادی کے ذیل میں غالب کے رویے کو دوسرے نظریہ سے دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی ہے۔ غالب نے 1857کی جنگ آزادی کا ذمہ دار ہندوستانیوں کو ٹھہرایا اور ہندوستانیوں کو باغی، حکومت برطانیہ کا غدار اور نہ جانے کون کون سے القاب نوازے۔ تاریخ کا طالب علم ہو یا ادب کا، غالب کے اس رویے کو انسانیت سے تعبیر نہیں کر سکتا۔ محض حکومت برطانیہ کی نوازشوں کے حصول کے لیے ان کے تمام مظالم کو نظر انداز کر کے ان کا قصیدہ پڑھنے اور ہم وطنوں کی تحقیر کرنے کو دور اندیشی اور تاریخی شعور کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ (یہ بھی پڑھیں غالب اور معاصر اردو فرہنگ ’مخزن فوائد‘ – ڈاکٹر محمد ذاکر حسین )
نثار احمد فاروقی اپنے مضمون ’’غالب تاریخ کے دو راہے پر‘‘ کا اختتام ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’اس طرح غالب نے تاریخ کے دوراہے پر پہنچ کو وہ راستہ اختیار کیا جس پر وہ اگر اور زندہ رہتے تو چلتے، لیکن سر سید اسی راہ پر چلے اور ہمیں بھی یہی ایک گلی دور تک جاتی نظر آتی ہے۔‘‘ 11؎
چاہے غالب نے انگریزوں کو درست قرار دیا ہو یا سر سید نے انگریزی تعلیم کی طرف زور دیا ہو اور انگریزوں کی حمایت کرتے رہے ہوںلیکن سر سید اور غالب کا موازنہ درست نہیں ۔ دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی علاقہ نہیں۔ ایک ہی تاریخی حادثے پر کتابیں لکھنے کا دونوں کا مقصد بھی الگ الگ ہے۔ ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور ’’دستنبو‘‘ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ان لوگوں کا مقصد خواہ کچھ بھی رہا ہو۔ لیکن اگر ہم آج کے تناظر میں بات کریں تو ہمیں نثار احمد فاروقی کا یہ جملہ ’’ہمیں بھی یہی ایک گلی دور تک جاتی نظر آتی ہے‘‘ بہت معنی خیز اور حقیقت کے بہت قریب نظر آتا ہے۔اسے ہماری مجبوری کہیے یا ہماری ضرورت، چاہے تہذیب کا معاملہ ہو یا علم و ادب کا، ہم آج بھی مغرب پرستی میں پیچھے نہیں ہیں۔
٭٭٭
حوالہ جات:
1: نثار احمد فاروقی، غالب تاریخ کے دوراہے پر، تلاش غالب 1999،غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی، ص 343
2: ایضاً۔ ص 343
3: ایضاً۔ص342
4: ایضاً۔ ص342
5: ایضاً۔ص 345
6: ایضاً۔ ص345
7: ایضاً۔ ص 344
8: ایضاً۔ ص 347
9: ایضاً۔ص348
10: ایضاً۔ص 349
11:ـ ایضاً۔ص 349
ڈاکٹر ثاقب عمران
شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |