اکیسویں صدی کے ہندوستان میں چندہی ایسے ناول لکھے گئے ہیں،جن میں تہذیب کوخصوصی توجہ دی گئی ہے۔ان میں بجاطور پر انیس اشفاق کے تینوں ناول شامل ہیں۔دکھیارے ،خواب سراب اورپری نازاورپرندے تینوں ناولوں میں تہذیب کوایک خصوصی اہمیت حاصل ہے ،جن میں ماضی کے تہذیبی تفوق وامتیازکے ساتھ حال کی بدحالی اورتہذیبی زوال وانحطاط کوعیاں کیاگیاہے۔ اس کسک کے ساتھ کہ اس تہذیبی مرکزمیں اس وقت بھی بہت سی بدتہذیبیاں روارکھی گئیں۔اسی لیے اس عہدکے بڑے معززومہذب گھرانوں اورخاندانوں کی خواتین بازارکی زینت بن گئیں۔وقت کاکھیل بدلاتوزمانہ بدل گیااور احساس کے باوجودکرنے کے کام سمجھ میں نہ آسکے،جس کی وجہ سے زوال وانحطاط کی کھائیاں مزیدگہری ہوتی چلی گئیں ،بعدمیں جس سے ابرناناممکن ہوگیا اوروہ پرانی تہذیب انسانی ناسٹلجیا کا اٹوٹ حصہ بن گئی،جس کی بازگوئی امراض کی ٹیس کوکم کرنے کے کام آنے لگی۔بین المتونیت کی تکنیک کے ذریعہ دو نسلوں کی تہذیبی جھلکیاں خواب سراب میں پیش کی گئی ہیں ۔مرزارسواکے ناول امراؤجان کے غیرمطبوعہ نسخے کی موجودگی کاعلم ہونے کے بعدناول کامرکزی کردارعلی حیدر اس کی تلاش میں سرگرداں ہوتاہے ۔اس جستجومیں اس نے غیرمطبوعہ نسخہ بھی حاصل کیااوربازگوئی کے ذریعہ گم شدہ لکھنوی تہذیب وثقافت اوراس تہذیب کوآنکھوں سے دیکھنے والی انسانی باقیات بھی۔ شمیلہ، سبیلہ، سردارجہاں،جہاں داربیگم،سلیمن،ہینگا،کمو،تقیہ بیگم ناول کے یہ وہ کردارہیں،جولکھنوی تہذیب کی تفہیم میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔ان کی زندگی کی بے سروسامانی،حسرتیں اوران حسرتوں میں پوشیدہ ماضی، دونسلوں کی تہذیب کوظاہرکرتاہے۔ تہذیبی نے رنگیاںناول کااہم ترین حصہ ہے۔محرم کے جلوس،جلوس کے انتظامات،جلوس کے لوازمات،شاہی انداز میں جلوس کی تزئین، موسیقی، رقص،مزامیر،داستان گوئی،شاعری،کربلائیں، محلات، سڑکیں، حویلیاں، کھانے، پینے کی اشیا،لکھنویوں کے شوق یہاں سب کچھ ہے۔ تہذیب کی عکاسی کاکوئی موقع ناول خواب سراب نظراندازنہیں کرتا۔تہذیبی تبدیلی اور لکھنوی تہذیب وثقافت کی شکست وریخت کاماتم یہاں ہرگام پرنظرآتاہے ۔لکھنؤکے مخصوص تہذیبی عہدمیں طوائف کی بھی ایک تہذیب تھی ،جس میں تبدیلی پرپرانے لکھنوی چراغ پاہوجاتے ہیں ۔
’’ارے میاں ابھی توبتایاآپ کو،اسی چوک میںبہت کچھ بدل گیاہے ۔ان کوٹھوں پررہنے والیاں جنھیں ناچنا آتا تھا اور جو کوٹھوں کے آداب سے واقف تھیں۔کوٹھے چھوڑکرچلی گئیں،ان کی جگہ ٹکاہیوں نے لے لی ہے۔سیدنقی بولتے بولتے غصے میں آگئے۔اسی غصے میں بولے: اورغضب تویہ ہے کہ آگے ادھرجوگلی اکبری دروازے کی ڈھلان سے شاہ گنج کی طرف جاتی ہے وہاں نئے کوٹھے بن گئے ہیں، ان کے برآمدوں میں عورتیں کھلے عام بیٹھتی ہیں اور راہ چلتے لوگوں کواپنی طرف بلاتی ہیں،کم بختوں کوذرابھی لحاظ نہیں۔شریفوں نے تواس گلی سے گزرناچھوڑدیاہے ۔‘‘(۷۳)
یہ تہذیبی رویے ہندوستان کے ہرشہرکومیسرنہیں کہ طوائف کے بھی آداب ہوں۔لکھنؤکے اچھے دنوں کی طوائف اورکوٹھوں کے بھی کچھ آداب ہوتے تھے ،جن کی پاس داری نہ صرف آنے والوں پرلازم تھی،بلکہ وہاں مقیم طوائف بھی اس کی پاسداری کرتی تھیں ۔برآمدوں میں بیٹھنا اورراہ گیروں کوہاتھوں سے اشارہ کرکے اپنی طرف بلانالکھنوی طوائف کاشیوہ نہیں تھا۔وہاں توآداب اورتہذیب سکھائی جاتی تھی۔ پورے ناول کی قرأت سے اندازہ ہوتاہے کہ جولکھنوی طوائف حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے اس پیشے میں داخل ہوگئی تھیں۔وہ بھی اس سے خوش نہیں تھیں ۔وہ بھی اس سے نکلناچاہتی تھیں اورنکلنے کاراستہ مل جاتاتواس کے ذکرکوبھی اپنے شایان شان گمان نہیں کرتیں۔
’’کبھی دیکھتی ہوں بہت سی عورتیںسیاہ کپڑے پہنے ایک بہت قہروغضب والی عورت کے سامنے دوزانوبیٹھی اپنی رہائی کی فریاد کر رہی ہیں اور کبھی دیکھتی ہوں کہ بہت سی خوبصورت اوراچھی پوشاک والی عورتیں اچانک بوڑھی ہوگئی ہیں اورپھٹے ہوئے کپڑے پہنے چوک کی گلیوں میں بھیک مانگتی پھررہی ہیں۔‘‘(۸۶)
یہ ناول کی ایک بازگوسردارجہاں کابیان ہے،جوانھوں نے خواب میں دیکھاہے۔یہ انہی خواتین کی بات کررہی ہیں،جوکسبی نہیں ہیں۔ حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے طوائف بن گئی ہیں ۔وہ رہائی کی فریادکررہی ہیں اور بہت سی خوبصورت اوراچھی پوشاک والی عورتیں بھی وہی ہیں،جواس پیشے سے علاوہ ہوئیں تو انھیں سماج نے قبول نہیں کیااوروہ اپناپیٹ پالنے کے لیے چوک کی گلیوں میں بھیک مانگنے لگیں اوراس عبارت سے ایک بات یہ بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ دراصل وہ خوبصورت لباس والی عورتیں ،لکھنوکی تہذیب ہے،جوعہدشاہی کے خاتمے کے بعدلکھنؤ کے چوک کی گلیوں میں اپنی بقابھیک مانگ رہی ہے۔حالات کچھ ایسے ہوجاتے تھے کہ سماج میں قبولیت کاسوال ہی نہیں تھااورگھرکی طرف واپسی کے بھی تمام راستے مسدودہوجاتے تھے۔یہی صورت حال لکھنوی تہذیب کی بھی تھی،غدرکے بعدآج تک وہ تہذیب ،جولکھنؤ کی شناخت تھی،واپس نہیں ہوسکی۔اب اسے پروفیسرانیس اشفاق کے ناولوں کے کردارلکھنؤکی گلیوں میں تلاش کرتے نظرآتے ہیں ۔ (یہ بھی پڑھیں نعمت خانہ: ایک وجودی ناول – ڈاکٹر معید الرحمن )
ناول خواب سراب میں مرثیے اور نوحے کی مجلسوں کابھی خاصاذکرہے ۔ان تذکروں کے ساتھ مرثیے بھی درج کیے گئے ہیں ،جن میں لکھنؤ کی تباہی بھی مذکورہے ۔میرانیس کے گھراوران کے زورکلام کاتذکرہ بھی ہے ۔
’’آپ تو،بتایاتھاآپ نے شاید،ناظم صاحب کے امام باڑے والی گلی میں رہتے ہیں ۔
جی بزازے میں۔
تووہاں تومرثیے کی مجلسیں برابر ہوتی ہیں۔شعرفہموں کامحلہ ہے۔حکیم صاحب نے کہا۔بہت سے مرثیہ خواں تواسی گلی میں رہتے ہیں اور آپ کی گلی کے سامنے چوک والی گلی پارکرکے میرانیس کادولت کدہ ہے۔کیانقشہ کھینچاہے لکھنؤکی تباہی کا:
اشراف ہیں جتنے وہ نکلتے نہیں گھرسے
دروازہ نہیں کھولتے لٹ جانے کے ڈرسے
ہوجاتی ہے جب شام ترددمیں سحرسے
سب کرتے ہیں سجدے کہ بلاٹل گئی سرسے
یہ ظلم یہ بیدادنہیں اورکسی پر
مولایہ تباہی ہے محبان علی پر‘‘(۱۴۸)
یہ لکھنؤکامرثیہ ہے،جواس کی تباہی وبربادی پرکہاگیاہے ۔اس اقتباس میں میرانیس کے دولت کدے کابھی تذکرہ ہے اورجس علاقے کا ذکراس میں موجودہے۔وہ آج بھی لکھنویوں کی اکثریت والاعلاقہ ہے ۔تویہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہاںزبان داں اورسخن فہم لوگ بستے ہیں۔ ناول میں محرم کے ماتمی جلوسوں کامتعددمقامات پرذکرہے۔ان جلوسوں سے بھی لکھنوی تہذیب عیاں ہوتی نظرآتی ہے ۔ص ۳۶۲ اور۳۶۳پرآصفی امام باڑہ جسے بڑاامام باڑہ بھی کہاجاتاہے۔اس سے نکلنے والے ضریح کے جلوس کاتفصیلی ذکرہے۔اس اقتباس کوپورایہاں درج کرناممکن نہیں ۔لیکن اس جلوس کامصنف نے جس طرح ذکرکیاہے وہ خاصے کی چیزہے اس شاہانہ اندازکے جلوس کے علاوہ دیگرکئی جلوسوں کابھی ذکرکیاہے ۔ایک ماتمی جلوس پریہ اقتباس دیکھیں ۔
’’تپتی ہوئی زمین پرچلتے چلتے جب سبیلہ کے پاؤں زیادہ جلنے لگتے تووہ میراہاتھ زورسے پکڑلیتیں۔کربلاکے اندراوراس کے تین دروازوں میں سے جنوبی دروازے پرجواس کااصل دروازہ ہے،ایک کے پیچھے ایک ماتمی دستے نوحہ خوانی کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ان میں نامی نوحہ خواں اور سوزخواں نوحے اورسوز پڑھ رہے تھے۔ایک آدھ ماتمی دستہ جن میں زیادہ ترکشمیری تھے،فارسی میں بھی نوحہ خوانی کررہاتھا۔کربلاکے باہربائیں طرف قلندروں،مداریوںاورخانہ بدوشوں کی انجمنیں جن کے تعزیے عام تعزیوں سے مختلف تھے، آگے پیچھے موجودتھیں۔ان میں کیاپڑھاجارہاتھا،اس کاسمجھنامشکل تھالیکن ان کی سینہ زنی میں بڑاجوش تھا۔اسی جوش کودیکھنے کے لیے ہر ایک وہاں ٹھہرجاتا۔‘‘(۳۹۲)
تہذیب کاکوئی دائرہ ایسانہیں جسے انیس اشفاق نے نظراندازکردیاہو۔یہاں توہروہ چیزموجودہے،جسے کسی بھی طورپرلکھنؤمیں اہمیت حاصل تھی۔کمال کی بات یہ ہے کہ انیس اشفاق جس چیزکوبیان کرتے ہیں اس میں ڈوب جاتے ہیں ۔ایسالگتاہے کہ وہ اسی فن کے ماہرہیں ۔اس پرمستزادہے ان کی زبان اورلکھنویت،جوہرجگہ اپنامنفردرنگ دکھاتی ہے ۔ان کی زبانی داستان گوئی کایہ اقتباس دیکھیں۔
’’اماں بتاتی تھیں۔کمال کے داستان گوتھے۔ایک قصہ ان کی داستان گوئی کاجوانھوں نے خانم صاحب سے سن رکھاتھا،اس طرح سناتی تھیں:میرسردارحسین قصہ گوایک نواب کے یہاں قصہ گوئی پرملازم تھے۔ ایک دن نواب کے حضورانھوں نے عرض کی بندہ کربلائے معلی کی زیارت کوجایاچاہتاہے ۔آنے جانے میں کوئی چودہ مہینے لگیں گے ۔سوآگے سے میرے شاگردخاص اورجانشیں منشی الطاف حسین داستان سنائیں گے ۔میرسردارحسین کی سنائی ہوئی داستان اتفاق سے ایسی منزل پرتھی کہ دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ادھرمسلمانوں کی فوج ادھرجادوگروں کی ۔میدان آراستہ ہے۔صبح کاوقت ہے۔بڑے بڑے نشان،جھنڈے فوجوں میں لہرارہے ہیں ۔مسلمانوں کی فوج منتظرہے کہ مہترقراں محل سے برآمدہوکے نقارۂ رزمی نوازش فرمائیں،جنگ چھڑجائے۔
مہترقراں محل سے برآمدہورہے ہیں۔سات ڈیوڑھیوں میں چھ ڈیوڑھیاںطے کرچکے ہیں۔بیگمات،شہزادیاںرخصت کرنے کے لیے ساتھ ہیں۔کنیزیں،غلام جلومیں آرہے ہیں۔نگہ روبروخبردارہوشیارکی آوازیں بلندہیں۔باہرعمائدحکومت وسرداران فوج اسلام علی حسب مراتب مجرے کو استادہ ہیں۔مہترقراں ساتویں ڈیوڑھی تک تشریف لاچکے ہیں۔اب کنیزوں اورغلاموں کی آوازیں باہرآرہی ہیں ۔پردہ اٹھنے کوہے ۔خداحافظ واللہ نگہبان کی آوازیں آرہی ہیں ۔ (یہ بھی پڑھیں میرے ہونے میں کیا برائی ہے : تجزیاتی مطالعہ – ڈاکٹر نوشاد منظر )
میرسردارحسین نے یہاں تک داستان بیان کی تھی۔زیارت پرجانے لگے تواپنے شاگردمیرالطاف حسین کوسمجھاگئے کہ میرے جانے کے بعد پردہ اٹھادیجئے گا۔مہترقراں برآمدہوکرحکم جنگ فرمائیں گے ۔زبردست جنگ دکھائیے گااس کے بعدحسب دستورجنگ کوآگے بڑھایئے گا ۔جاتے جاتے کچھ خاص استادی کی چیزیںانھیں تعلیم کیں۔ادھرمیرصاحب کربلاروانہ ہوئے۔ادھرمنشی الطاف حسین روزانہ داستان سنانے لگے۔جب میرصاحب چودہ مہینے بعدزیارت سے مشرف ہوکے آئے توپہلاکام یہ کیادوڑے دوڑے منشی الطاف حسین سے ملنے گئے۔انھیں دیکھتے ہی گلہ سے لگایااورپوچھا:بتاؤاب داستان کہاں پرہے میراجی اسی میں لگاہواتھا۔منشی الطاف حسین بولے:استادچودہ مہینے داستان کہتارہانواب صاحب کاجی بہلاتارہااورپردہ اس خیال سے نہیں اٹھایاکہ جب استادنے پردہ نہیں اٹھنے دیاتومیں یہ بے ادبی کیوں کروں۔سوداستان وہیں پرروکے ہوئے ہوں ۔فوج اسی طرح کھڑی ہے۔عمائدحکومت اورسرداران فوج اسی طرح برآمدہونے کے منتظرہیں۔اب آپ کل تشریف لے جایئے گا،پردہ اٹھاکے داستان آگے بڑھادیجیے گا۔
داستان ہی کے اندازمیں پوراقصہ سناکرشمیلہ خانم بولیں۔
توایسے تھے منشی الطاف حسین داستان گو۔‘‘(۳۴۹۔۳۵۰)
اس اقتباس میں دیکھیں ۔ناول کے مصنف نے داستانوی اندازمیں داستان گوئی کی پوری رودادبیان کردی ہے ۔جیسے پورااقتباس کافی غوروغوض کے بعدلکھاگیاہے ۔انیس اشفاق کی یہی وہ خصوصیت ہے ،جولکھنوی تہذیب کوپیش کرنے کے لیے دوسروں کے یہاں ناپید نظر آتی ہے۔یہ بھی کچھ کم بڑی بات نہیں کہ پرانے زمانوں کے قصوں کووہ اپنی اپڈیٹ لکھنوی زبان میں درج کرتے ہیں۔اس میں سبک روی ،شاہانہ تہذیبی انداز،پیش کش کاسلیقہ،دردکی ایک لہرموجودہوتی ہے ۔انیس اشفاق صاحب بنیادی طورپرنبض شناس تہذیب لکھنؤ ہیں اور یہی وہ مقام ہے،جوانھیں بحیثیت ناول نگارشمس الرحمان فاروقی کے ساتھ بلافصل لاکھڑاکرتاہے ۔حالاں کہ کئی چاند تھے سرآسماںکی زبان اور اس کی تہذیب کتابوں کی دین ہے،جسے آوردکہاجاسکتاہے،لیکن انیس اشفاق کی زبان اورخواب سراب کی تہذیب آمدہے،جسے خود مصنف جیتے ہیں،اسے استعمال کرتے ہیں۔اس کے باوجوداس معاملے میں یہ بآسانی کہاجاسکتاہے کہ یہاں سوڈیڑھ سوبرس پیچھے جاکر اس عہدکی تہذیب وثقافت کومحسوس کرنااوراس میں حلول کرجانا۔آسان کام نہیں ہوتا،شایداسی وجہ سے یہاں آمدکوثانوی مقام حاصل ہے اور آورد کواول۔
ناول میں تہذیب کوخصوصی اہمیت دی گئی ہے اوراسے پیش کرنے کاخاص اہتمام کیاگیاہے۔لکھنؤکوآج کے لوگ جس وجہ سے جانتے اور پہچانتے ہیں،اسے بھی شانداراندازمیں پیش کیاگیاہے ۔مجرے کی فنی اہمیت کوپیش کرکے انھوں نے مجرے سے منسلک بدنامی کو حرف غلط ثابت کردیاہے۔انھوں نے مجرے کوپیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیاہے کہ مجراایک فن ہے،جسے ہرآنکھ اپنی نظرسے دیکھتی ہے۔اب یہ الگ بات ہے کہ اسے کیانظرآتاہے۔
’’صحن میں سازندے پہلے سے موجودتھے ۔میرااشارہ پاتے ہی طبلہ نوازنے اپنے طبلے ملاناشروع کیے۔جب طبلے مل گئے تومیں نے اس سے کہا:
استادجی!میں پانچویں تالے سے گاتی ہوں،دایاں ملوالیجئے۔طبلہ نوازنے دایاں ملایا۔سارنگی نوازنے سارنگی ملائی۔تان پورے پہلے سے ملے ہوئے تھے۔میں نے ناچ شروع کرنے سے پہلے تان پورہ یہ دیکھنے کے لیے اٹھایاکہ جوڑی کا’سا‘کھرج اورپنچم سرمیں ہے کہ نہیں۔ جوڑی کا’سا‘تھوڑاچڑھاہوابول رہاتھا،میں نے اسے ٹھیک کیا۔دوسراتان پورہ سرمیں تھا۔تان پوروں کوصحیح پانے کے بعدمیں نے طبلہ نواز سے کہا:دایاں دیکھ لواوربایاں ذراگھلاکے بجانااورٹھیکاگائیگی کے حساب سے لگانا۔یہ ہدایتیں ضروری ہوتی ہیں۔سارے ساز صحیح ہوجانے کے بعدمیں نے تین تال سولہ ماترامیں اپنی ماں اوراپنے استادسے سیکھے ہوئے کچھ گتوں،توڑوں اور ٹکڑوں پرلے کاری دکھائی۔محفل میں موجود لوگوں نے جوسب کے سب موسیقی سے اچھی طرح واقف تھے،تہائیوں کے سم پرگردن ماری اورواہ واہ کہہ کرجھوم اٹھے۔‘‘(۳۴۷)
ناول خواب سراب اکیسویں صدی کے ان چنداہم ناولوں میں ایک ہے،جس کی تہذیبی وثقافتی قدریں قابل دیدہیں،جس کی فکری فضا جدوجہدسے لیس ہے،اس کے کردارناسٹیلجک ضرورہیں،مگروہ اپنے حصہ کاکام کیے جارہے ہیں،جینے کی تگ ودومیں موت توآجاتی ہے،مگرمرتے مرتے وہ اپنی تہذیب،ثقافت،اپنی منفردشناخت،اپنے اختصاصات اورتشخصات سے مصالحت نہیں کرتے۔ناول کے مصنف نے جس طرح خواب سراب کوبناہے،وہ ہرکے بس کی بات نہیں،بہت ٹھہرٹھہرکرریسرچ کے بعدایک ایک پیراگراف لکھا گیا ہے، تاکہ تہذیبی، جغرافیائی،لسانی اورتاریخی طورپرکوئی تسامح راہ نہ پاسکے۔
لکھنو اپنی تاریخ،تہذیب،ثقافت،تمدن اورنوابانہ کروفر کے لیے معروف ہے اور اس کی یہی آن بان شان آج بھی پوری دنیاکو نوسٹیجک بناتی ہے، لکھنو کی تاریخ وتہذیب پر لکھنے کا سلسلہ بھی دراز ہے، کیسی کیسی اہم کتابیں لکھی گئی ہیں، ان کی فہرست تیار کرنا بھی ایک بڑا کام ہے۔ لکھنو کی تاریخ وتہذیب پر لکھی جانے والی کتابوں میں چند ایسی ہیں، جنھیں ہمارے ادب کا اٹوٹ حصہ مانا جاتا ہے، دہائیاں اور صدی گزرنے کے باجود ان کتابوں کی اہمیت وافادیت میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں آئی ہے نہ مستقبل قریب میں اس طرح کا کوئی خدشہ لاحق ہے، جن میں مرزا ہادی رسوا کا ناول امراؤ جان، رجب علی بیگ سرور کی فسانہ عجائب، رتن ناتھ سرشار کی فسانہ آزاد، عبدالحلیم شرر کی گزشتہ لکھنو اور اس فہرست کی طلائی کڑی میں بجا طور پر اب دکھیارے،خواب سراب اورپری نازاورپرندے کا بھی شمار ہوگا، تمام مصنفین نے اپنے لکھنو کو اپنی آنکھوں اور اپنی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی ہے البتہ یہ کہا جاسکتا ہے ان کتابوں کے قارئین ہمیشہ ھل من مزید کا نعرہ ہی لگاتے نظر آئے ہیں،خواب سراب 2017میں شائع ہونے والا معروف ادیب وناقد پروفیسر انیس اشفاق کا ناول ہے، جن کی کتابیں اس سے پہلے بھی شہرت حاصل کرچکی ہیں، انیس اشفاق کا پہلا ناول دکھیارے ہے اور دوسرا خواب سراب اور دونوں کو ہی قارئین اور ناقدین نے عمومی طور پر پسند کیا ہے، خواب سراب کی تفہیم کے لیے اس کے اولین صفحات کی یہ عبارت پڑھنا بہت ضروری ہے، اس عبارت سے ہی قاری کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ آئندہ صفحات سے شروع ہونے والے ناول کا مطمح نظر اور مقصد کیا ہے۔ ۰یہ بھی پڑھیں اکیسویں صدی کے ہندوستان میں اردو ناول کے تیرہ سال – پروفیسر ابو بکر عباد )
’’کربلائیں، درگاہیں، مسجدیں، امام باڑے، باغ، روضے، سیرگاہیں اور محل سرائیں میں انہی میں زندہ ہوں اور میرا نام لکھنؤ ہے۔ ‘‘
اور اسی عبارت کی تشریح پرمبنی ہے پورا ناول۔ ناول اپنے قاری کو452 صفحات تک اپنے ساتھ دوڑاتا رہتا ہے اور اس کا قاری اس کے ساتھ دوڑتا رہتا ہے،دراصل یہی وہ مقامات ہیں، جنھیں دیکھنے اور دیکھ کر اپنے دل و دماغ کو سکون بخشنے کے لیے پوری دنیاکے لوگ بے قرار رہتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ جن عمارتوں سے غیرلکھنوی حظ حاصل کرتے ہیں، انہی عمارتوں میں اہالیان لکھنؤ کی نہ جانے کتنی شاہانہ، نوابانہ اور اچھے دنوں کی یادیں مدفون ہیں، جن کی یاد کی ٹیس اور کسک انہیں بے چین وقرار رکھتی ہے ۔ یہی بے چینی وبے قراری کرید کرید کر ان یادوں کو کبھی ناول کے فارم میں کبھی افسانے کے فارم میں کبھی رپورتاژ کی شکل میں تو کبھی گزشتہ لکھنؤ کے طور پر باہر نکالتی رہتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ جو کام ایک معروف ناول نگار عبدالحلیم شرر نہ کرسکے وہ کام اب تک کے ایک معروف ناقد پروفیسر انیس اشفاق کر گئے، گزرے ہوئے لکھنو کو پیش کرنے کے لیے شرر نے غیر افسانوی نثر کا سہارا لیا، جب کہ انیس اشفاق نے اسی موضوع کو افسانوی نثر میں اس کے حق اورتقاضے کے مطابق پیش کردیا، جس میں لکھنو کے محلات، درگاہیں، امام باڑے، مسجدیں، باغات، روضے، سیر گاہیں ،محل سرائیں اور ان کے تعمیر کنندگان ہیں تو وہیں گانے بجانے والیاں ہیں، سر ہیں تال ہیں،لے ہے طرز ہے، مرثیے ہیں سلام ونوحے ہیں، میر تقی میر، مرزامحمد رفیع سودا اوران کے عہد کے دیگر نامور شعرا، انگریز، انگریزی حکومت، نواب اور نوابانہ عہد، جاگیردار اور جاگیریں،پل اور پلوں کی تعمیر کرنے والے سب موجود ہیں، ناول میں محرم بھی اپنی پوری اہمیت، مذہبی وقار وتمکنت اور رواج کے مطابق قاری کو اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آتا ہے، محرم کے جلوسوں میں ہونے والا مجمع ، ماتم،مرثیے اور جلوسوں کی شان وشوکت اپنے قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی، ناول کی قرأت رسوا کے عہد کے لکھنو کی سیر سے کچھ کم نہیں، ناول کا انتساب بھی کچھ کم معنی خیز نہیں، اس ناول کا انتساب رسوا کے لکھنو کے نام ہے، میں دیر تک سوچتا رہاکہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے ساتویں برس شائع ہونے والے اس ناول کو رسوا کے لکھنو کے نام کیوں منسوب کیاگیا ہے، تو اپنی ناقص فکر کے مطابق میں اس نتیجے تک پہنچا کہ رسوا تکلفا جس قصے کو حقیقت سے فسانے کے رنگ میں ڈھالنے کے شوق میں جس لکھنو کو فراموش کر گئے تھے اور اپنی افتاد طبع کے مطابق کوٹھوں تک خود کو محدود کردیا تھا، اس لکھنو کی اصل تصویر اپنے ملبے کے ساتھ اس ناول میں ابھر کر آگئی ہے، جوش کی آپ بیتی لکھنوی تہذیب کو انگریزوں کے مقابل کھڑا کرکے اسے فوقیت دینے کی فکر میں خطیبانہ اور الفاظ و جملے کے انبار میں دب کر اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے، عبدالماجد دریاآبادی کی آپ بیتی الحاد واسلام کے درمیان پھنسی رہ جاتی ہے،سرور کا داستان نما ناول فسانہ عجائب صرف شاہانہ تزک واحتشام کی روداد بن جاتا ہے، جب کہ ناول خواب سراب اپنے بے تکلفانہ انداز بیان کے ساتھ تین نسلوں کی بپتا کو پیش کرتا ہے اور یہ بھی بتانے میں کامیاب ہے کہ غدراور آپسی چپقلش نے بے شمار اصیل ونجیب اور اشرافیہ طبقے کی خواتین کو سڑک پر ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا۔ انہیں گانے والیاں بنادیا، طوائف کے پس پشت پائی جانے والی وہ اصیل ونجیب تہذیب وتمدن تمام تر ناگفتہ بہ حالات کے باوجود مصلحت کوشی اختیار کرنے اور خودی کو فراموش کرنے پر راضی نہیں ہے۔
ناسٹلجیا خواہ انقلابات زمانہ کی وجہ سے بدنام ہوگیا ہو لیکن ایسے مقامات پر اپنی جڑوں سے کٹنا خود کو کاٹنے کے مترادف محسوس ہوتا ہے، باربار انیس اشفاق کا ماضی کی طرف لوٹنا اور بے حال حال کو نظر انداز کرنا قاری کو کبھی پریشان تو کرتا ہے لیکن جب وہی قاری ٹھہر کر سوچتا ہے کہ اگر اس ناول کے اس مقام پر ماضی نہ ہوتا تو کیاہوتا تو اسے بھی پریشانی لاحق ہوجاتی ہے اسے خواب سراب کے واحد متکلم مرکزی کردار علی حیدر کا لکھنو کی گلیوں میں لکھنویت کی تلاش میں سرگرداں ہونے کے جوازکی تفہیم ہوجاتی ہے ۔
دکھیارے یا خواب سراب میں کرداروں کی بھٹکن اور کھوے ہوؤں کی جستجو ماضی کی بازیافت کا استعارہ بن جاتی ہے، سچ تو یہ ہے کہ لکھنو کو دیکھنے والا اپنی آنکھیں جس قدر وا کرتا ہے لکھنو میں اس سے زیادہ چیزیں دیکھنے کے لائق ہیں، دوچار دن میں لکھنو کو اس ناول کے علاوہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا،اس طرح کے ناول ہوا میں تخلیق نہیںکیے جاسکتے،اسے تخلیق کرنے کے لیے برسوں کی بھٹکن اور برسوں تک مزارات کے کتبوں، گلیوں، چوراہوں، چھوٹی چھوٹی اشیا کو دیکھنے کا تسلسل ناگزیر ہے، صرف بصارت نہیں بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، ان احساسات کو بروئے کار لانا بیانیے کا تقاضہ بن جاتا ہے، جو ماضی میں اپنی قدروں، اپنی تہذیب،تمدن، تاریخ، تاریخی تدریج کو خود میں ناولانہ بیانیے کے روپ میں شامل کرسکے ۔ یہاں ناول کے ہر بن مو سے کہانی پن کا ظہور ہوتا ہے اور یہ بیانیہ اپنے دائرہ کار میں بہت سی کہانیوں کو شامل کرکے کیکڑے کی چال چلتا ہے۔ گو کہ اس ناقابل برداشت بوجھ کو جھیلتے ہوئے کیکڑے کی ایک آدھ ٹانگ راستے میں کہیں حادثے کا شکار ہوجاتی ہے، اس کے باوجود جو کچھ بچا رہ جاتا ہے وہ بھی کافی سے کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔
یہ ناول بین المتونیت کاسہارالے کرناول امراؤجان کوبھی موضوع بحث بناتاہے۔مرکزی کردارعلی حیدرکی بھٹکن امراؤجان کے غیر مطبوعہ مسودے کی تلاش کے لیے ہی ہے اوراس کی تلاش کے بعدامراؤجان کی اگلی نسلوں کاپتہ چلتاہے۔پھران کرداروں یعنی شمیلہ خانم اورسبیلہ خانم کی کہانی ناول میں شامل ہوجاتی ہے۔
ناول میں موت کوخاصی اہمیت دی گئی ہے،جس طرح اس ناول میں بعجلت تمام اموات ہوتی ہیں ۔وہ خودایک اہم موضوع بن جاتاہے ۔سردارجہاں،جہاں داربیگم،شہبا،شمیلہ،سبیلہ،کمو،ذاکیہ بیگم کوموت کے گھاٹ اتارکردراصل مصنف لکھنوی تہذیب کے خاتمے اوردق ودمے میں مبتلاہوجانے کااعلان کررہے ہیں ۔ناول کے ذریعہ لکھنؤکی فضاکوموت کی خاموشی پرمبنی دکھایاگیاہے۔پورے ناول کی فضاپرماتم اورمرثیے غالب ہوجاتے ہیں۔
ناول کاایک اہم موضوع نوآبادیاتی نظام ہے،چوں کہ لکھنوی طرززندگی،لکھنوی تہذیب وثقافت اورتمدن ،لکھنؤکی مخصوص مذہبی فکر، شناخت سے عدم شناخت کی جانب تیزگام سفر،لکھنؤکی ایک مخصوص فکرکے ساتھ ترقیاتی امورکی انجام دہی کے خاتمے کاسبب بنیادی طور پر نوآبادیاتی نظام ہی ہے ۔شاہی نظام کاخاتمہ واجدعلی شاہ کی گرفتاری کی وجہ سے ہوا،جنھوں نے لکھنؤکولکھنؤبنانے میں کافی محنت کی تھی اوران سے پہلے ان کے پیش روحضرات نے ،جن کے اعلی جمالیاتی ذوق کی مثالیں آج بھی لکھنؤکی گلیوں اورچوراہوں پرموجودہیں۔نوآبادیاتی نظام کے اثرات کیاتھے۔اس پربھی ناول روشنی ڈالتاہے۔
’’….جہاںمیں تھااسی کے آگے بیگم کوٹھی تھی،جس کے احاطے میںغدرسے کچھ پہلے شرف النسانے ایک امام باڑہ اوراسی سے ملی ہوئی مسجدبنوائی تھی ۔شرف النسانصیرالدین حیدرکی انگریزملکہ ولایتی بیگم کی بڑی بہن تھیں۔بیگم کوٹھی کے آگے دریاکے بالکل قریب سعادت علی خاں کی بنوائی ہوئی کوٹھی فرح بخش تھی۔اسی نواح میں ان انگریزافسروں کی قیام گاہیں تھیں،جنھوں نے اودھ کی حکومت کوٹھیک سے چلنے نہیں دیا……‘‘(۲۰۲)
یہ توٹھیک ہے کہ انگریزافسروں نے اودھ کی حکومت کوٹھیک سے چلنے نہیں دیا ۔لیکن ہندوستانی نوابوں اوربادشاہوں کے عملی رویے بھی کچھ ایسے تھے،جس سے ان کی کمزوریاں انگریزوں کومعلوم ہوجاتی تھیںاوروہ اس کاناجائزفائدہ اٹھاتے تھے ۔خاص طورپرمسلم حکمرانی کے خاتمے میں دیگراقوام کی خواتین نے اہم کرداراداکیاہے،جس کے اثرات اودھ پربھی تھے ۔
عمومی طورپرہمارے معاشرے کے وہ افرادجوتاریخ سے کم کم واقف ہیں۔وہ اودھ کی مسلم حکمرانی کے خاتمے کوجس طرح تضحیک آمیز اور مضحکہ خیزاندازمیں لطیفہ بناکرپیش کرتے ہیںاوروہ بیگم حضرت محل کوبھول جاتے ہیں،جس کی بغاوت کونوآبادیاتی نظام نے بآسانی فراموش نہیں کیا ۔بیگم حضرت محل کی تدبیر،دانائی،دانش وری اورعزم وحوصلہ بھی تاریخ کااہم حصہ ہے۔
’’ریت پرچلنے میں ہمیں بہت پریشانی ہورہی تھی۔اس لیے کچھ کچھ دیربعدہم کسی پیڑکی چھاؤںمیں بیٹھ جاتے۔چلتے چلتے ہم بیگم کوٹھی کے سامنے آگئے۔
سبیلہ نے کوٹھی کی طرف جسے اب بیلی گاردکہاجاتاتھا،دیکھتے ہوئے کہا:
یہیں محمدی خانم نے انگریزوں کوگھیرلیاتھا۔
حضرت محل؟
جی۔افتخارالنساخانم،راج ماتابھی کہتے تھے انھیں۔سبیلہ نے کہا۔حضرت محل توسلطان عالم کادیاہوانام تھا۔
جی،لکھنؤسے واجدعلی شاہ کے نکلنے کے بعدبہت سی بیگموں نے محل چھوڑدیاتھا،بہت سوں نے نہیں چھوڑا۔انھیں میں یہ حضرت محل بھی تھیں۔میں نے کہا۔پھرسبیلہ کوبتایا:کیاجی دارعورت تھی۔انگریزوں کے قبضے کے بعدبھی اپنی حکومت چلاتی رہی۔
اماں بتاتی ہیںچھوٹے سے لڑکے برجیس قدرکوتخت پربٹھادیا۔نام بیٹے کاتھاکام وہ کرتی تھیں۔
ہاں بیٹے کی طرف سے حکومت واپس لینے کااعلان کردیا،ایک بڑی فوج بناکردشمن سے مورچہ لیا۔میں نے کہا۔اورگیارہ دن کے اندرانگریزوں کواودھ سے نکال باہرکیا۔لیکن…..
لیکن؟
دہلی پرانگریزوں کاقبضہ ہوگیا اور…..میں رکاپھرکہا۔وہ پوری فوجی طاقت کے ساتھ یہاں آگئے ۔
اس سے آگے جواماں نے بتایاہے،میں بتاتی ہوں۔سبیلہ بولیں۔
بتایئے۔
زبردست جنگ ہوئی۔ایک خبرآئی بیلی گاردپرہندوستانی فوج کاقبضہ ہوگیا۔دوسری خبرآئی انگریزوں نے ہندوستانی فوج کوشکست دے دی۔دوسری خبرصحیح نکلی۔سبیلہ بتاتی رہیں۔دہلی سے آئی ہوئی فوج بیلی گاردمیں داخل ہوگئی۔پھراس نے قیصرباغ پرحملہ کردیا۔حضرت محل نے قیصرباغ کے سارے پھاٹک بندکرادیئے۔لیکن انگریزی فوجیںقیصرباغ میں داخل ہوگئیں۔بہت خون بہا،بہت سی جانیں گئیں۔ انگریز جیت گئے۔کچھ دیررک کرسبیلہ نے آگے بتاناشروع کیا:
حضرت محل بہت سی عورتوں کے ساتھ گھسیاری منڈی کی طرف والے پھاٹک سے نکل کرحسین آبادی آگئیں۔یہاں پھرانھوں نے انگریزوں سے ٹکرلی ۔لیکن……
ناکام رہیں۔میں نے کہا۔چھپ چھپاکراپنے بیٹے کے ساتھ نیپال کے لیے نکل پڑیںاورایک دن وہیںخاموشی سے مرگئیں۔بڑی بہادرعورت تھی۔سبیلہ بولیں:شجاع الدولہ کی طرح ہارگئی لیکن ان کی طرح انگریزوں کے آگے سرنہیں جھکایا۔‘‘(۴۲۵۔۴۲۶)
یہ تھی بیگم حضرت محل کی شجاعت اوربہادری،جنھوں نے انگریزوں کوبھی ان کی اوقات بتادی،جب انگریزکمزورپڑے تودہلی فوج بلالی ۔لیکن انھوں نے نوآبادیاتی نظام کے سامنے سرنگوں ہوناگوارانہیں کیا۔ناول میں نوآبادیاتی نظام کی تباہی کواچھی طرح پیش کیاہے۔ریزیڈنسی لکھنؤ کی وہ معروف جگہ ہے،جہاں سیاح ضرورجاتے ہیں ۔تباہی کے نشانات وہاں عیاں ہیں ۔خواب سراب میں چھوٹے بڑے بہت سے موضوعات ہیں،جنھیں مصنف نے اہمیت دی ہے ۔لیکن ان موضوعات پرلکھنؤاورلکھنؤوالوں کی تباہی ناول کاغالب عنصرہے ۔
خواب سراب لکھنؤکی کہانی ہے اوراس کے مصنف بھی لکھنوی ہیں،اس لیے بہت سے لوگ یہ سوچیں گے کہ اس کی زبان اوراس کا اسلوب امراؤجان کی طرح ہوگا۔وہ اس وقت کااسلوب تھااورخواب سراب آج کے خالص اردوداں لکھنویوںکااسلوب رکھتاہے ۔کہناچاہیے کہ خواب سراب کی زبان آج کے لکھنؤکی نہیں آج کے حسین آبادکی زبان ہے،جس میں نغمگی ہے،روانی ہے،سادگی ہے اورسادگی میں پرکاری ہے،حسین آبادکے اہل تشیع کی روزمرہ کی زبان ہے ،ٹکسالی زبان ہے اوراس لکھنوی زبان کاامتیازآج بھی برقرارہے ۔ثقیل الفاظ اور تفہیم سے پرے جملوں کی یہاں برسات نہیں ہوتی۔نستعلیق زبان ہے،اپنامخصوص لہجہ رکھنے والی لکھنوی زبان ہے،جس میں ندرت ہے، سہولت ہے،آفاقیت ہے،عام فہم بول چال کی زبان ہے،لیکن اس عام فہم کوبرتنے کے لیے لکھنوی ہونااورحسین آبای پس منظررکھنالازمی ہے ۔خواب سراب کوپڑھنے کے لیے لغات کوسامنے رکھناضروری نہیں،البتہ لسانی ذوق کاپایاجاناضروری ہے،جوحسین آبادی لہجے کی نرمی، سنجیدگی ، انفرادیت،متانت،معصومیت اوراپنائیت کومحسوس کرسکے اورقاری کی آنکھیں وہاں ٹھہرجائیں اوراس کاداخل اس سے حظ حاصل کرے ۔خود خواب سراب میں بھی اس کی زبان اوراسلوب پربات کی گئی ہے۔
’’….کیسے ترشے ترشائے جملے تھے۔سبیلہ بولیں۔اماں کہتی ہیں یہاں ہرذاکرکالہجہ الگ ہے اورزبان بھی اوریہ بھی کہتی ہیں یہاں ایک اردونہیں بہت سی اردوئیں ہیں۔
صحیح کہتی ہیں۔اس سے پہلے والی جومجلس ہم نے سنی تھی مولاناکلب حسین کی۔اس میںزبان کتنی سادہ تھی اورکتنی روانی سے پڑھ رہے تھے ۔میں نے کہا۔چوتھی پانچویں جماعت کابچہ بھی آسانی سے سمجھ لے۔
ایک بات کہوں۔سبیلہ بولیں:موقع تونہیں کہنے کالیکن کہے بغیررہابھی نہیں جاتا۔
کہیے۔
نانی والی کتاب میں مرزارسوانے بڑی گاڑھی زبان استعمال کی ہے۔لغت کے بغیراسے پڑھنامشکل ہے۔
صحیح کہہ رہی ہیں۔اصل میں وہ پڑھنے والوں کوبتاناچاہتے تھے۔
کیابتاناچاہتے تھے ۔
لکھنؤکی زبان ہم سے ہے۔
لیکن آپ ایسی زبان نہ لکھیے گا۔جوکچھ ہم لوگوںکاحال احوال ہے۔سیدھے سادھے اندازمیں بیان کردیجئے گا۔سبیلہ نے کہا۔پھر بولیں ۔میں بھی سوگ کے دنوں میں کیسی باتیں کررہی ہوں ۔‘‘(۳۷۶)
جوروانی اورسلاست اس اقتباس میںہے۔وہی پورے ناول کاخاصہ اورشناخت ہے۔مجلسی گفتگویہاں غالب ہے۔ناول کے مصنف جب مجلس،ماتم،جلوس،مرثیے اورنوحے کی بات کرتے ہیںتوان کی زبان ان مصطلحات کی معنویت کوعیاں کرتی ہے،جب خواتین کرداروں کے مکالمے درج کرتے ہیںتونسائی لسانی شناخت اورعورتوں کالہجہ ظاہرہوتاہے،جب وہ داستان گوئی کی رودادسناتے ہیںتو ان کی زبان داستانوی اندازکی ہوجاتی ہے اورجب رقص وموسیقی کے حوالے سے گفتگوکرتے ہیں تووہاں سہل زبان کے ساتھ فن کی اہمیت اجاگرہوتی ہے۔
۴۵۲صفحات کے اس ناول میںغیرثقہ ایک لفظ ایک جملہ نہیں پایاجاتا،وہ بھی اس زمانے میں جب فکشن کے لیے ہرطرح کی زبان اورالفاظ کے استعمال کوتخلیقی ضرورت ثابت کیاجاچکاہے۔یہاں لکھنؤکی ثقاہت اورثقافت اورادب کے آداب کودانتوں سے مضبوطی کے ساتھ پکڑکررکھاگیاہے۔ شہبا،سبیلہ،ہینگا،کموجیسی جوان،غیرشادی شدہ لڑکیوں کامیلان ناول کے مرکزی کردارعلی حیدرکی طرف تھااور لکھنؤمیں بہت سے باغات،ریذیڈنسی اورگومتی کے ساحل بھی تھے،جہاں رومانس کاماحول پیداکیاجاسکتاتھا۔لیکن مصنف نے فن کے تقدس اورلکھنوی تہذیب کومجروح ہونے سے بچالیااوریہ بھی ثابت کیاکہ ناول کے کرداروں کی غربت وافلاس اپنی جگہ اورغیرت وحمیت اپنی جگہ،میلان کاہونافطری ہے لیکن اپنی نجابت کی پامالی کی قیمت پرنہیں۔مصنف کایہ عمل معاصرناولوں کے خلاف ایک احتجاج بھی ہے اورفن کوپیش کرنے کامعتدل ومتوازن سلیقہ بھی ۔ بعض ناولوں کی طرح خواب سراب کادم شمشیرسینہ شمشیر سے باہرنہیں۔ خواب سراب کی زبان اوراس کے اسلوب میںایک لطیف ٹھہراؤہے،جملوں کی ساخت اوران کی بنت سے لکھنوی نفاست کااحساس ہوتاہے۔ بیانیہ انتہائی صاف ستھرااورمکالمے کی زبان منھ میں مصری کی ڈلی گھول دینے والی ہے۔
ناول خواب سراب میں بہت سے متحرک وفعال کردارہیں۔یہ ناول کردارمعاشرتی ناول ہے،اس میں کرداروں کے تمام پہلوؤں پر روشنی نہیں ڈالی جاتی۔مرکزی کردارآوارہ گردقسم کاہے،جسے اپنی زندگی سے کوئی خاص لگاؤ نہیں۔وہ ناول امراؤجان کے غیرمطبوعہ نسخے کی تلاش میں لکھنؤمیں بھٹکتاہے،مرکزی کردارعلی حیدرنے غیرمطبوعہ نسخے کی تلاش میں سیدمحمدنقی، ماسٹرآفتاب، ظہیرحسن،نادرآغا،علی رضا علن ،حکیم احمدرضا،جہاں داربیگم،سردارجہاں،تقیہ بیگم،شہبا،ہینگااورکموسے ملاقات کی ۔غیرمطبوعہ نسخہ جہاں داربیگم کے گھرکے اس کمرے سے ملا،جہاں مرزارسوانے اپنی کتابیں رکھی تھیں۔غیرمطبوعہ نسخہ ملنے بعدامراؤجان کی بیٹی شمیلہ خانم کی تلاش کاسودامرکزی کردار علی حیدرکے سرمیں سماگیا۔پھروہ ان کی تلاش میں سرگرداں ہوگیا۔انھیں بھی تلاش کیا۔اس کی زندگی کامقصدجیسے غیرمطبوعہ نسخے اور امراؤ جان کی بیٹی کی تلاش ہی ہو۔وہ نہ اپنے کرائے کے مکان میں رہتاہے نہ اسے اپنے مستقبل کی فکرہے۔لیکن وہ اس جستجومیں پورے لکھنؤکی سیرکرادیتاہے۔ مسجدوں،قبرستانوں،امام باڑوں، کربلاؤں،تعزیوں،شاہی جلوسوں اور لکھنؤ کے اہم تاریخی مقامات پرروشنی بھی ڈالتاہے۔ جہاں داربیگم مرکزی کردارکواپنامتبنی بھی بناتی ہیں۔لیکن وہ ان کے جذبات کوخاطرخواہ اہمیت نہیں دیتا۔وہ کبھی جہاں داربیگم کے ساتھ،کبھی شمیلہ اورسبیلہ کے ساتھ کھالیتاہے۔اس کی زندگی میں ان چیزوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ۔وہ اپنے مقصدکے حصول میں منہمک رہتا ہے ۔
جہاں داربیگم لکھنؤکے رئیس خاندان کی چشم وچراغ ہیں۔مرزارسواسے قرابت رکھتی ہیں۔لکھنؤمیں بہت سے لوگوں سے ملنے کے باوجودعلی حیدرکوغیرمطبوعہ نسخے کاسراغ نہیں ملتاتووہ جہاں داربیگم کی حویلی کارخ کرتاہے۔جہاں داربیگم کے یہاں علی حیدر کو غیرمطبوعہ نسخے کاسراغ بھی ملتاہے اوراپنائیت ومحبت بھی ۔جہاں داربیگم اسے اپنامتبنی قراردیتی ہیں ۔اس کی ضروریات اورکھانے پینے کاخیال رکھتی ہیں اوراسے اپنی دوالانے کی ذمہ داری سونپتی ہیں ۔جہاں داربیگم بڑی رکھ رکھاؤوالی خاتون ہیں۔ان کی گفتگو، رہن سہن،کھانے پینے کے طریقے ہی قاری کوبتاتے ہیں کہ وہ بڑے خاندان کی بیٹی ہیں ۔شہباکوپناہ دیتی ہیں۔اس کی غیرت کے خلاف اس پرکوئی زبردستی نہیں کرتیں۔وہ چاہتی ہیں کہ علی حیدراورشہبامل کراچھی زندگی گزاریں لیکن وہ اپنی اس خواہش کو کھل کرنہیں کہتیں ۔یہ ناول کی سوجھ بوجھ رکھنے والی،بردبارخاتون کردارکے طورپرسامنے آتی ہیں۔لاولدہیں ۔اس لیے علی حیدر اورشہباپرزیادہ مہربان ہیں ۔لیکن ان کے انتقال کے بعد ان کے اعزاان کی خواہش کے برخلاف ان کی حویلی پرقابض ہوجاتے ہیں اوران کی نوکرانی سلیمن،شہبااورعلی حیدرکوحویلی سے باہر کر دیتے ہیں ۔
شہباخانم،صہباخانم کی بیٹی اورامراؤبیگم کی نواسی ہے۔امراؤبیگم امراؤجان کی معاصرتھیں،ان دونوں میں کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن دونوں ایک دوسرے سے ملاقات کے لیے زندگی بھرپریشان رہیں چوں کہ دونوں کی قرابت تھی ۔شہباکے کردار کو شانداراور موثر بناکر پیش کیاگیاہے۔شہباانتہائی غیرت مندخاتون ہے،تمام ترپریشانیوں اورتکالیف کے باوجودجہاں داربیگم کے بارباربلانے اورعلی حیدر کے اصرارکے باوجودجہاں داربیگم کے گھرمنتقل ہوناپسندنہیں کرتی۔علی حیدرکی تدبیرکہ آپ اپناچولہاالگ رکھنا،اپنے کام کرتی رہنااور ہرماہ کرایہ دے دیناکامیاب ہوئی اورشہبا جہاں داربیگم کی حویلی میں منتقل ہوگئیں۔جہاں داربیگم کی موت کے بعدان کی حویلی سے نکالے جا نے کے بعدوہ اسکول میں نوکری کرتی ہے اورعلی حیدرکواس کی خبرنہیں دیتی۔علی حیدرکوپسندکرنے کے باوجوداپنے منھ سے کبھی نہیں کہتی۔ علی حیدرکے ساتھ رہناچاہتی ہے۔وقت گزارناچاہتی ہے،لیکن کبھی اپنی غیرت کے خلاف نہیں جاتی۔غیر مطبوعہ مسودے کی تلاش میں علی حیدرکاساتھ دیتی ہے۔اس کے لیے کھانے پکاتی ہے،علی حیدرکے لیے رات کے کھانے کا بندوبست کرتی ہے۔ان سب کے باوجوداپنی ضرورتیںعلی حیدرپرظاہرنہیں کرتی۔جہاں داربیگم کی بنوائی ہوئی شیروانی اوراچکن کوان کے انتقال کے بعداپنے پاس رکھ لیتی ہے۔علی حیدرکے بازوپر امام ضامن باندھتی ہے۔چاہتی ہے کہ علی حیدرکے گھرجائے مگراس کے نہ چاہنے کی وجہ سے اس پرزبردستی نہیں کرتی،جب دق کی بیماری بڑھ جاتی ہے توکسی کوخبرکیے بغیرمیڈیکل کالج میں داخل ہوجاتی ہے اوراپنی غیرت وحمیت،ایثاروقربانی کے ساتھ قبرمیں جاکرسوجاتی ہے۔ یہ کرداراپنے اعمال وافعال،ایثاروخودداری،محبت والفت، اپنی سادگی کی وجہ سے ناول پرچھاجاتاہے۔
حکیم احمدرضابھی ناول کے اہم کردارہیں،جن سے علی حیدرجہاں داربیگم کی دوالیتاہے اوراسی دوران ان سے شناسائی ہوجاتی ہے۔ پھرآتے جاتے باتیں ہوتی رہتی ہیں۔حکیم صاحب امراؤجان،امراؤبیگم،سردارجہاں،جہاں داربیگم،شہبا،ہینگا،کمو،شمیلہ خانم اورسبیلہ خانم کے بارے میں علی حیدرسے باتیں کرتے ہیں۔ان کی قرابت داری،غیرت وخودداری کے بارے میں علی حیدرکوبتاتے ہیں۔ناول نگارنے ان کے ذریعہ کرداروں کی نفسیات پربہت سی باتیں کی ہیں ۔حکیم صاحب صرف دوانہیں دیتے بلکہ کرداروں کے پس منظرکوپیش نظررکھ کران کی نفسیات ،غیرت اورعادات واطوارپربھی کافی معلومات فراہم کرتے ہیں ۔لکھنؤکی تہذیب،تاریخی مقامات، کربلاؤں، امام باڑوں کی معلومات بھی علی حیدرحکیم احمدرضاسے حاصل کرتاہے ۔ناول نگارنے انھیں حکیم مرتاض کے طورپرپیش کیاہے۔
ہینگاکمویہ دوبہنیں ہیں،جوسردارجہاں کوخالہ کہتی ہیںاورانہی کے گھرمیں رہتی ہیں۔اپنے اخراجات گڑیابناکراورپینٹنگ کرکے حاصل کرتی ہیں ۔محرم کے دنوں میں تعزیے بناتی ہیں اوراس کے ذریعہ اپنے اخراجات نکالتی ہیں ۔یہ بھی بڑی غیرت مندلڑکیاں ہیں۔سردار جہاں کی موت کے بعدکرایے کے مکان میں منتقل ہوجاتی ہیں ۔یہ دونوں کرداربھی ناول کی اہم کرداروں میں ہیں ۔جن کے ذریعہ ناول کو آگے بڑھایاگیاہے۔کموشہباکی پینٹنگ بناتی ہے،جسے علی حیدراپنے پاس رکھتاہے اورشہباکوبسترمرگ پردکھاتاہے ۔ان دونوں کی زندگی بھی جدوجہدسے لیس ہے ۔اپنوں کے لیے ان کے دلوں میں بے پناہ محبت اوراپنائیت ہے۔سبیلہ کاامام باڑہ سجاتی ہیں۔مرکزی کردارعلی حیدرکاخیال رکھتی ہیں۔ہینگاکے حوالے سے ناول نگارنے دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اسے سبیلہ اورشہباکاعلی حیدرکے زیادہ قریب ہونا پسندنہیں ہے۔لیکن غیرت اورخاندانی نجابت کی وجہ سے یہ بھی کچھ کہتی نہیں۔دونوں بہنیں سبیلہ سے محبت رکھتی ہیں،اسے پینٹنگ فروخت کرنے کے لیے دکانوں کی نشاندہی کرتی ہیں اورسبیلہ کی پینٹنگ فروخت ہواس لیے یہ اپنی پینٹنگ دکانوں سے اٹھالیتی ہیں۔ ہینگا علی حیدرسے اپنی کہانی لکھنے کی خواہش ظاہرکرتی ہے۔لیکن مرکزی کردار اسے خوداپنی کہانی لکھنے کامشودہ دیتاہے ۔
شمیلہ خانم ناول کااہم کردارہے۔اس کردارکوامراؤجان کی بیٹی کے طورپرپیش کیا گیاہے۔غیرمطبوعہ مسودے کی تلاش سے پہلے ناول کامرکزی کردارعلی حیدرشمیلہ خانم سے ملاقات کرچکاہے۔لیکن اس وقت وہ بچہ ہوتاہے،اس لیے وہ نہیں جانتاکہ یہی شمیلہ خانم ہیں،جو امراؤ جان کی بیٹی ہیں ۔غیرمطبوعہ مسودے کی تلاش کے بعدمرکزی کردارشمیلہ خانم کوتلاش کرتاہے ۔پھروہ اسے امراؤجان کے بارے میں بہت کچھ ان کہی باتیں بتاتی ہیں۔اس دوران مرکزی کردارکاشمیلہ کے گھرآناجاناشروع ہوجاتاہے۔شمیلہ خانم اپنی ماںامراؤجان،اپنے باپ فیض علی،مرزاہادی رسوااوراپنے شوہرکے بارے میں بتاتی ہیں۔شمیلہ خانم بھی دل میں سوراخ ہونے کی وجہ سے پریشان رہتی ہیں۔ اس کے باوجودعلی حیدرکے پسندیدہ اورناپسندیدہ سوالوں کے جوابات دیتی ہیں۔اپنی بیٹی اورعلی حیدر کاخیال رکھتی ہیں۔ وہ خودبہت اچھی رقاصہ اورمغنیہ ہیں۔مگرضعیفی اوربیماری کی وجہ سے پیشے کوخیرآبادکہہ چکی ہیں اورگم نامی کی زندگی گزاررہی ہیں۔مرتے وقت اپنی بیٹی سبیلہ کاخیال رکھنے کی علی حیدرکو تاکیدکرتی ہیں۔اس کی ان کہی خواہش ہے کہ سبیلہ اورعلی حیدرایک ہوجائیں۔یہ کردارراگوں اوررقص کے فن سے اچھی طرح واقف کردارہے ۔اس کردارمیں بھی خودداری کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہے۔
سبیلہ،شمیلہ خانم کی بیٹی ہے اورامراؤجان کی نواسی۔یہ اپنی ماں شمیلہ خانم سے باربارکہتی ہے کہ ماں وہ بتائیں ،جوآپ ہیں۔یہ چھپانے کانہیں بتانے کاوقت ہے ۔سبیلہ میں نئے زمانے کی کچھ عادتیں توہیں،لیکن یہ بھی خودداری اورغیرت وحمیت کے معاملے میں اپنی ماں شمیلہ خانم کی طرح ہی ہے ۔شہباکے بعداس کردارنے مرکزی کردارعلی حیدرکوسہارادیا۔ایک طرح سے دیکھاجائے تواس کردارکوشمیلہ کی بیٹی کے علاوہ شہباکی جگہ پرلاکررکھاگیاہے ۔محرم کے عشرے میں سبیلہ لکھنؤکی کربلاؤں اورمجلسوں میں علی حیدرکے ساتھ جاتی ہے۔ سبیلہ بھی ناول کی اہم کرداروں میں ایک ہے ۔ اس کردارکامیلان بھی مرکزی کردارعلی حیدرکی طرف ہے ۔شہباکی دی ہوئی شیروانی اور اچکن کے ساتھ پہننے کے لیے سبیلہ ناگرہ جوتیوں کااضافہ کرتی ہے ۔لیکن علی حیدرکوان چیزوں کے پہننے کاوقت سبیلہ کی زندگی تک میسر نہیں ہوتا۔سبیلہ بھی راگوں اوررقص سے اچھی طرح واقف ہے،سبیلہ پینٹنگ بھی کرتی ہے ۔سبیلہ چاہتی ہے کہ علی حیدراس کے ساتھ اس کے گھرمیں رہے لیکن ایساہوتانہیں ۔
ناول میں بہت سے کردار ہیں، جو آتے ہیں اور موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں، ایک آدھ مقام پر قاری غم زدہ ہوکر مشکل سے خود کو ناول کی پڑھت کے لیے راضی کر پاتا ہے، سردار جہاں، جہاں دار بیگم، حکیم احمد رضا، شمیلہ خانم، سبیلہ خانم، شہبا، ذاکیہ بیگم، ہینگا اور کمو اور بہت سے کردار خود کو بھی لکھنو کے زوال کے ہمراہ کر دیتے ہیں، اکثر دل کے زخم کی تاب نہ لاکر اپنی قبروں میں جاکر سورہتے ہیں۔ اس طرح ہندوستان کے نیشاپور،سمرقند وبخارا یعنی لکھنؤ، اس کی تہذیب اور اس کی باقیات بتدریج مگر بعجلت تمام صفحہ ہستی سے ختم ہورہی ہیں اور وہاں جو کچھ باقی ہے۔ وہ لکھنوی تہذیب کا ملبہ ہے۔ ماضی میں جینے والے پرانے لکھنؤ کے افراد ہیں، جو اندوختہ کے طور پر زوال وانحطاط کے شکار لکھنو کو پیش کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں اور مسلسل اشک افشانی انہیں دل کا مریض بنادیتی ہے، اس کے باوجود وہ اپنی غیرت وحمیت کو بالائے طاق نہیں رکھتے اگرچہ اپنی عمارتیں فروخت کردیتے ہیں،یا دوسروں کا ان پر قبضہ ہوجاتا ہے اور ان غموں اور تکالیف کو سہتے ہوئے وہ راہی ملک عدم ہوجاتے ہیں۔ پر لطف بات یہ ہے کہ ناول نگار نے لکھنؤ کے نہ ایک تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی یادگار کو چھوڑا نہ واحد متکلم کے علاوہ کسی کردار کو ..
خواب سراب پلاٹ اورتکنیک کے نقطۂ نظرسے بھی اہمیت کاحامل ناول ہے ۔ناول کے واقعات وحالات اپنی خصوصیات کی بناپرمرکزی پلاٹ سے منسلک ہیں۔پلاٹ میں وسعت وتنوع پائے جاتے ہیں ۔واقعاتی ربط ناول کی فضاکوہموارکرتاہے اورتسلسل قائم رکھتاہے۔ ناول کے تمام واقعات اورجزئیات لکھنؤکے سماجی،معاشرتی اوراشرافیہ طبقے کے زوال وانحطاط کوپیش کرتے ہیں۔ناول کے تمام کردار مرکزی کردارسے کسی نہ کسی طورپرجڑے ہوئے ہیں۔خواب سراب کاپلاٹ گتھاہواپلاٹ ہے۔تمام کردارواحدمتکلم راوی سے متعلق ہیں ۔ کہانی واحدمتکلم راوی کے ذریعہ آگے بڑھتی ہے،جوبھی کردارناول میں آتے ہیں ۔اپنی کہانی راوی سے گفتگوکے ذریعہ بتاتے ہیں اور موت کے گھاٹ اترجاتے ہیں۔پلاٹ کہیں کمزورہوتانظرنہیں آتا۔ناول کی تمام جزئیات اپنے مرکزی پلاٹ لکھنؤکے زوال سے وابستہ ہیں ۔جزئیات نگاری سے بھی زوال وادباراورانحطاط کوہی عیاں کیاگیاہے۔ایک طرف اچھے خاندانوں کے افرادکاکسمپرسی کی زندگی گزارنا ،دوسری طرف حویلیوں اورکوٹھیوں کافروخت ہونااوراس ذہنی ادبارکی وجہ سے عزیزوں اورقریبوں کی حویلیوں اورزمین وجائیداد پر نظررکھنا اورلکھنؤکی آن بان شان کوآنکھوں سے دیکھنے والوں کادنیاسے بعجلت تمام گزرنایہ سب کچھ لکھنؤاورلکھنوی تہذیب کے خاتمے کااستعارہ ہے اورپھرلکھنؤکی نئی آبادیوں میں دیگرشہروں سے آکربسنے والوں کاغیرمحتاط رویہ پلاٹ سے متعلق چیزیں ہیں ۔
خواب سراب حالیہ برسوں میں منظرعام پرآنے والے ان چندناولوں میں ایک ہے،جس میں زبردست تکنیکی تجربہ کیاگیاہے ۔اس ناول میں بین المتونیت،فنی مخلوطہ(پیسٹج)خط کی تکنیک ،شعورکی رو،تاریخی بیانیہ (ہسٹوریوگرافک میٹافکشن)،جادوئی حقیقت نگاری،زمانی انتشار (ٹیمپورل ڈسٹورشن)،فلیش بیک وغیرہ کااستعمال کیاگیاہے۔
ناول کاآغازہی مرزارسواکے ناول امراؤجان کے غیرمطبوعہ مسودے کی تلاش سے ہوتاہے اورامراؤجان ناول کے آخرتک کسی نہ کسی طورپر موضوع بحث بنارہتاہے۔کبھی مرکزی کردارواحدمتکلم راوی مسودے کی تلاش میں سرگرداں دکھایاجاتاہے،کبھی اس کے مل جانے کے بعد امراؤجان کی بیٹی شمیلہ خانم کی تلاش میں ادھرادھرماراماراپھرتادکھایاجاتاہے اورجب ان کابھی سراغ مل جاتاہے توعلی حیدران سے ان کی ماں اوران کی زندگی کے حوالے سے سوالات کرتاہے،حقائق معلوم کرتاہے،وہ نادرآغا،سیدنقی، ماسٹرآفتاب، حکیم احمدرضا،جہاں داربیگم، سبیلہ خانم اورشہباسے مسودے اوراس کے مصنف کے بارے میں گفتگوکرتاہے۔ اس طرح بین المتونیت کااثرخواب سراب کے متن پر واضح طورپردیکھاجاسکتاہے ۔ناول میں جوکچھ ماجراہے،اس کاحوالہ ناول امراؤجان ہے۔
پروفیسرانیس اشفاق خط کی تکنیک کے استعمال پرکمال مہارت رکھتے ہیں ۔اس سے پہلے انھوں نے اس تکنیک کاشانداراستعمال اپنے پہلے ناول دکھیارے میں بھی عمدہ طریقے سے کیاہے ۔اس ناول میں بھی انھوں نے خط کی تکنیک کوچھوڑانہیں ہے ۔متعددجگہوں پرشہبا، ہینگا اور کموکے خطوط انھوں پیش کیے ہیں ۔
’’یہ سب آپ کے لیے ہماری طرف سے۔ہم یہ گھرچھوڑرہے ہیں۔شہربہت چھوٹاہے۔کہیں نہ کہیںپھرملیں گے ۔جس لڑکی کی تصویرآپ نے بنوائی ہے اگراصلیت میں وہ ہے تواسے یہ تصویرضروردکھایئے گااوراس سے ضرورپوچھئے گا،کیسی بنی ہے ۔خالہ کی تصویراحتیاط سے رکھیے گا۔مرتے وقت انھوں نے آپ کویادکیاتھا۔کہاتھا:بہت دنوں سے وہ نہیں آئے،جومجھ سے پرانی باتیں پوچھتے تھے ۔کبھی آئیں توان سے اچھی طرح ملنا۔باتیں اچھی نہیں پوچھتے لیکن آدمی اچھے ہیں ۔
دعاؤں کی طالب
ہینگااورکمو‘‘(۲۴۹)
ناول میں اسی طرح کے اوربھی کئی خطوط موجودہیں،جن میں اس خط سے زیادہ دردکی ٹیس ہے،ناول نگارجب خط لکھتے ہیں تواس پراصلیت کاگمان ہوتاہے ۔حالاں کہ وہ خطوط ظاہرہے ناول کی تکنیک کے طورپراستعمال ہوتے ہیں ۔اس ناول میں سب سے اہم خط شہباکاہے، جواس نے سبیلہ کے نام لکھاہے اوراس خط میں اپنی موت کی پیش گوئی کی ہے ۔تمام خطوط میں وہ خط سب سے مؤثرمعلوم ہوتاہوتاہے ۔
ناول میں شعورکی روکی تکنیک کااستعمال بھی ہواہے ۔جہاں داربیگم ،شمیلہ،سبیلہ اورشہباسے باتیں کرتاہواعلی حیدرکہیں گم ہوجاتاہے اوراپنی ماں کویادکرنے لگتاہے ۔کبھی شمیلہ کے ذہن اورشعورکی روبھٹکنے لگتی ہے تووہ اپنی ماں اورناناکویادکرنے لگتی ہے ،سبیلہ جب علی حیدرکے ساتھ گومتی کے کنارکنارے گھومتی ہے تواس کے ذہن اورشعورکی روبھٹکتے بھٹکتے نانااورپرناناتک پہنچ جاتی ہے ۔اسی طرح حکیم احمد رضاسے گفتگوکاجوحصہ ناول میں موجودہے،اس پربھی شعورکی روکے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔اسی طرح کربلامیں سبیلہ امراؤجان ناول کی باتیں شروع کردیتی ہے ۔پھروہ خودکہتی ہے کہ دکھوں کے دنوں میں میں کیسی باتیں کرنے لگی۔ (یہ بھی پڑھیں اردو ناول میں اسلوب کے تجربے – ڈاکٹر شہناز رحمن )
جادوئی حقیقت نگاری کی تکنیک کے استعمال کے لیے ناول نگارنے قبرمیں مدفون مردے کوباتیں کرتے دکھایا۔تقیہ بیگم علی حیدرکو بتاتی ہیں کہ قبریں باتیں کرتی ہیں تو اسے یقین نہیں آتامگرتھوڑی ہی دیربعداسے لگتاہے کہ شہباکی قبرسے کچھ آوازیں آرہی ہیں ۔وہ آوازیں کیا تھیں آپ بھی دیکھیں ۔
’’جوکچھ ان بوڑھی عورت نے کہاہے،صحیح ہے۔ایساپہلی بارہواہے،جب آپ مجھ سے کوئی بات کیے بغیرجارہے ہیں ۔آپ نے پوچھانہیں میں کس حال میں ہوں ۔پوچھتے توبتاتی بڑی تکلیف میں ہوں ۔کہنے کومیرے اورآپ کے بیچ فاصلہ زیادہ نہیں لیکن ہم دوالگ الگ دنیاؤں میں ہیں۔جب ہم ایک ہی دنیامیں تھے،میں آپ کوبہت کچھ بتاناچاہتی تھی،بہت کچھ آپ سے سنناچاہتی تھی لیکن اس سے پہلے کہ میں آپ کوبہت کچھ بتاتی،بہت کچھ آپ سے سنتی،قسمت نے مجھے یہاں پہنچادیا۔ایک نہ ایک دن تومجھے یہاں آناہی تھا،لیکن اتنی جلدی آناہوگایہ نہیں معلوم تھا۔ایک بات جومیں نے آپ کواس دنیامین نہیں بتائی،اب بتاتی ہوں۔پوچھیے کیا۔لیکن آپ نہیں پوچھیں گے۔آپ توچپ رہنے کے لیے آئے ہیں ۔وہ بات جومیں نے آپ کووہاں نہی بتائی یہ تھیکہ کہ خالہ کے گھرسے ہسپتال کے بسترتک میری خوشی اسی میں تھی کہ آپ خوش رہیں ۔اب پوچھیے کہ میں ہسپتال سے آپ کوبتائے بغیرکیوں چلی گئی۔لیکن آپ یہ بھی نہیں پوچھیں گے ۔اچھاتوسنیے میں وہاں سے اس لیے چلی گئی کہ مجھے اپنے میں دکھ سے زیادہ آپ کادکھ پریشان کررہاتھا۔جب مجھ خون کی بڑی الٹی ہوئی توبسترپرگرتے گرتے میں نے آپ کی طرف دیکھاتھا،آپ کاپوراچہرہ پیلاپڑگیاتھااورآنکھیں بجھ گئی تھیں۔
میں اپناخون دیکھ کرنہیں،آپ کاچہرہ اورآپ کی آنکھیں دیکھ کرسمجھ گئی تھی اب سانس میرے جسم میں بہت دن رکنے والی نہیں ۔اب جایئے۔صبح سے یہاں بیٹھے ہیں ۔دھوپ تیزہورہی ہے ۔آپ سے پہلے سبیلہ یہاں آچکی ہے لیکن یہاں آنے کی بات اس نے آپ کو نہیں بتائی ہوگی ۔وہ جانتی بتانے سے آپ کودکھ ہوگااورآپ بھی یہاں آنے،اتنی دیرتک میرے پاس بیٹھنے اورمیری باتیں سننے کی بات اسے مت بتایئے گا۔میری ہی طرح وہ بھی آپ کادکھ نہیں دیکھ سکتی۔اب آیئے توحویلی والی خالہ کی قبرپرہوتے ہوئے آیئے گا۔‘‘(۲۹۶۔۲۹۷)
جادوئی حقیقت نگاری کی تکنیک کااستعمال ناول نگارایک ایک آدھ مقام پراوربھی کیاہے۔ خواب سراب میں جس طرح تکنیک کا استعمال ہوا ہے ۔مجھے لگتاہے کہ اکیسویں صدی میں تکنیکوں کے ایسے استعمال کم کم ہوئے ہیں ۔
فنی مخلوطہ(پیسٹج)کی تکنیک بھی خواب سراب میں استعمال ہوئی ہے۔اس ناول میں زورخطابت کاسہارالیاگیاہے،مرثیے درج کیے گئے ہیں ،لکھنؤکے زوال کے حوالے سے بند نقل کیے گئے ہیں،داستان گوئی کے فن کوداستانوی اندازمیں بیان کیاگیاہے، گیت، ٹھمری،دادراوغیرہ کوبھی جگہ دی گئی ہے ۔اس ناول میں کئی اصناف کوپیش کیاگیاہے اگرپورے ناول کوایک اکائی میں دیکھیں تویہ بذات خودلکھنؤاورباشندگان لکھنؤکانثری مرثیہ ہے ۔
تاریخی بیانیہ(ہسٹوریوگرافک میٹافکشن)کی اصطلاح مہافکشن(میٹافکشن)کے ساتھ تاریخی بیانیہ اوربین المتونیت کوبھی شامل کرلیتی ہے ۔ اس اعتبارسے دیکھاجائے توخواب سراب میں مہابیانیہ کے ساتھ بین المتونیت بھی شامل ہے ۔اس طورپریہ تاریخی بیانیہ کی تکنیک کوبھی استعمال کرتاہے ۔مجھے لگتاہے کہ اکیسویں صدی کے چندہندوستانی ناولوں میں خواب سراب بھی ایک ہے،جس میں بڑی کامیابی کے ساتھ تاریخی بیانیہ کوناول میں پیش کیاگیاہے ۔باربارناول میں قاری کویہ احساس بھی کرایاجاتاہے کہ وہ ایک افسانوی بیانیہ پڑھ رہاہے ،چوں کہ ہردوسرے یاتیسرے صفحے پرامراؤجان ناول آتارہتاہے ۔اس کے علاوہ سبیلہ کے یہ مکالمے بھی قاری کو محسوس کراتے ہیں کہ وہ ناول پڑھ رہاہے۔
’’ایک بات کہوں۔سبیلہ بولیں:موقع تونہیں کہنے کالیکن کہے بغیررہابھی نہیں جاتا۔
کہیے۔
نانی والی کتاب میں مرزارسوانے بڑی گاڑھی زبان استعمال کی ہے۔لغت کے بغیراسے پڑھنامشکل ہے۔
صحیح کہہ رہی ہیں۔اصل میں وہ پڑھنے والوں کوبتاناچاہتے تھے۔
کیابتاناچاہتے تھے ۔
لکھنؤکی زبان ہم سے ہے۔
لیکن آپ ایسی زبان نہ لکھیے گا۔جوکچھ ہم لوگوںکاحال احوال ہے۔سیدھے سادھے اندازمیں بیان کردیجئے گا۔سبیلہ نے کہا۔پھر بولیں ۔میں بھی سوگ کے دنوں میں کیسی باتیں کررہی ہوں ۔‘‘(۳۷۶)
اس کے علاوہ ایک آدھ اوربھی مقام ہیں،جہاں ناول خودقاری کوباورکراتاہے کہ وہ ایک ناول پڑھ رہاہے،اس کاخیال رکھے ۔
زمانی انتشار(ٹیمپورل ڈسٹورشن)کی تکنیک زمان ومکان سے بحث کرتی ہے۔اس تکنیک کوجدید اورمابعدجدیدعہدمیں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ناول خواب سراب میں ماضی کویادکیاجاتاہے اوروقت کے بدلنے کاخاموش مرثیہ بھی ہے ۔یہ وقت کاہی المیہ ہے کہ نجم النسا،ایک شریف خاندان کی بیٹی طوائف بن گئی،اسی طرح ناول میں خواتین کرداراپنے وقت اورحالات کی تبدیلی میں سرگرداں بھی نظرآتی ہیں، جنھوں نے پیشہ چھوڑدیا،وہ اس پیشے کی گفتگوبھی پسندنہیں کرتیں۔
Noorain Ali Haque
danish143noorain@gmail.com
mob:7011529033
whatsaap:9210284453
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
انتہائی شاندار مضمون ہے جو ناول کے فنی اور فکری دونوں پہلوؤں پر سیر حاصل تبصرہ کرتا ہے ۔ مضمون محنت اور لگن سے قلم بند کیا گیا ہے جو سراہے جانے کے قابل ہے