خالدجاوید کا ناول ’’نعمت خانہ‘‘ (۲۰۱۴ء) اردوناول کی تاریخ میں اپنے موضوع اور ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے بالکل منفرد ہے۔ اردو میں انسانی وجود اور اس کے مسائل کو موضوع بناکر متعدد ناول لکھے گئے ہیں۔ لیکن کھانا، نعمت خانہ اور باورچی خانہ کو انسانی وجود کے خاتمہ کا اصل سبب قرار دینے کو موضوع بناکر کوئی ناول نہیں لکھاگیا ہے۔ یہ ناول انسانی طرزوجود پر ایک نیا ڈسکورس قائم کرتا ہے۔
ناول کے آغاز میں متعدد ادیبوں اور مفکروں کے اقتباسات درج ہیں جو متضاد نوعیت کے حامل ہیں۔ ان منتخب اقتباسات سے مصنف کے طرزفکر اور ناول کیتخلیقی وفکری جہت منور ہوتی ہے۔ ان میں پہلا اقتباس میرمحمدحسین عطاخاں تحسین کا ہے جن میں انواع واقسام کے کھانے کا ذکر ہے جن کے بارے میں یہ مرقوم ہے ’’جن کی چاشنی کی حلاوت اور ذائقہ سے ارواح فرشتوں کے بھی تازہ ہوجائے۔‘‘ ناول نگار کے اس اقتباس کے پیش کرنے کا مقصد اس موقف سے اختلاف کرنا معلوم ہوتا ہے۔ وہ ناول تحریر کرنے کا مقصد بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ میرا انفرادی شعور (اجتماعی شعور کی طرف نہ میں کان دھرتا ہوں اور نہ میر اناول یا افسانہ) مروجہ ادبی اخلاقیات اور جمالیات بلکہ شعری جمالیات کو تواتر سے صدمہ پہنچانا چاہتا ہے۔ جمالیاتی انبساط کو مدنظر رکھ کر گذشتہ پچیس سال سے نہ میں نے کوئی سطر پڑھی اور نہ لکھی۔ (ص:۲۰)
یہ ناول مصنف کے اس دعویٰ کی توثیق کرتا ہے اور اس سے مصنف کا یہ تصور ادب بھی مترشح ہوتا ہے کہ تخلیقی ادب کی اہم شرط نیا ڈسکورس قائم کرنا ہے۔
یہ ناول آئیڈیلزم، روحانیت اور سطح آب پر تیرنے والی حقیقت اور حقیقت کی یک رخی صورت کی تردید کرتا ہے۔ مادے کو جوہر پر فوقیت دیتا ہے اور انسان کو کلی طور پر ایک مادی وجود تسلیم کرتا ہے۔انسان کو مجبورمحض، خارجی اسباب و عوامل سے تشکیل پذیر اور ازلی دکھ کا مظہر قرا ر دیتا ہے۔
ناول نگار نے انسان کے ازلی دکھی ہونے کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے انسانی زندگی کے ایک ایسے مقام کا انتخاب کیا ہے جہاں سے تمام گوشے طشت از بام ہوجاتے ہیں۔ وہ مقام ہے نعمت خانہ جو باروچی خانہ کی اہم جگہ ہے۔ اس ناول میں باورچی خانہ وہ حصہ ہے جہاں سے انسان ہی نہیں بلکہ چھپکلی، گلہری، کاکروچ اوردوسرے جانور بھی اپنے وجود کی بقا کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
باورچی خانے کے بارے میں ناول نگار لکھتا ہے:
’’اسی دنیا میں جہاں پہاڑ، سمندر، آتش فشاں، جنگل، ندیاں اور ریگستان ہیں۔ وہیں ایک باورچی خانہ بھی تو اسی نقطے میں ہے۔ باورچی خانہ جیسا کہ میں بار بار کہتا ہوں (کیوں کہ تکرار مجھے پسند ہے مجھے بھی اور اس دنیا کو بھی) کہ وہ ایک انتہائی بھیانک اور ناخوشگوار مگر انسانی آنتوں کے لیے شہوت سے بھری ایک جگہ کا نام ہے۔ انسانی آنتوں کی شہوت اپنی ماہیت میں اس کے پوشیدہ اعضا کی شہوت سے زیادہ خوفناک ہے اور کیا عجب اس نقطے (کرہ ارض) کو بڑھانے اورپھیلانے میں شاید سب سے زیادہ اسی شیطانی مقام نے کی ہو او رمجھے تو اب مستقبل کی تمام بدشگونیوں کی علامتیں باورچی خانہ سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔‘‘ (ص:۹۲)
یہ ناول فلیش بیک کی تکنیک میں ہے جو دائروی تکنیک ہے۔ یہ تکنیک ناول کے عین مزاج کے مطابق ہے۔ انسانی وجود عدم سے شروع ہوکر عدم پر منتج ہوتا ہے۔ انسانی وجود اپنے آغاز اور انجام کے اعتبار سے دائروی ہے۔
اس ناول کا راوی ایک معمر شخص ہے جو اپنی آپ بیتی کاآغاز اپنے بچپن سے کرتا ہے۔صغرسنی میں کی گئی حرکات و سکنات کا تجزیہ و احتساب بھی کرنا جانتا ہے۔ بچپن کے واقعات کے بیان کے لیے راوی اپنی یادداشت کا سہارا لیتا ہے۔ یادداشت کے سلسلے میں ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:
’’میری یادداشت ایک معجزہ ہے۔ مجھے سب یاد ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ جو بھی میں نے دیکھا ہو، شاید بصری یادداشت اسی کو کہتے ہیں۔ حالاں کہ کچھ ایسا بھی ہے جو مجھے یاد نہیں آتا یا اسے میں لفظوں کا جامہ نہیں پہناسکتا۔ مثلاً مجھے ایک تاریک دنیا کا بھی احساس ہے جسے آپ عدم کہہ سکتے ہیں اگرچہ میراخیال ہے کہ عدم محض ایک واہمہ ہے۔‘‘
زیرنظر اقتباس میں ایک طرف بہت عمدہ یادداشت قرار دینے کے لیے اسے معجزہ کہاگیا ہے۔ دوسری جانب یہ بیان بھی دیاجارہا ہے کہ حالاں کہ کچھ ایسا بھی ہے جو مجھے یاد نہیں آتا۔ آگے ایک جگہ یہ بھی لکھاگیا ہے:
’’اپنی یادداشت پر اتناغرور ہونے کے باوجود افسوس میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ ہمارے گھر میں ایک اور مسئلہ بھی تھا۔‘‘
یہ بیان کی عجیب تکنیک ہے۔ اس میں حتمیت کے ساتھ کسی واقعہ کے بیان سے گریز کیا جاتا ہے۔ اس عہد کے ایک اور منفرد افسانہ نگار نیرمسعود کے یہاں بھی اس تکنیک کا بکثرت استعمال ملتا ہے۔
نیرمسعود کا ایک افسانہ ’’مارگیر‘‘ ہے اس سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:
’’کئی دن تک میں باہر نہیں نکلا۔ شاید میراجی نہیں چاہا۔ یا شاید میں نے فرض کرلیا تھا کہ مارگیر مجھے باہر نہیں جانے دینا چاہتا۔ میں نے اس کی اس خواہش کی کچھ نہایت مبہم تاویلیں بھی کرلی تھیں جو اب مجھے یاد نہیں لیکن درحقیقت اس دوران میں نے مارگیر کو دیکھاہی بہت کم۔‘‘(ص۷۵)
دراصل اس نوع کا بیانیہ ایک عہد میں رائج حقیقت پسند بیانیہ کی تردید ہے اور یہ اظہار مقصود ہے کہ حقیقت یک رخی اور سپاٹ نہیں ہوتی ہے۔ حقیقت وہ نہیں ہوتی جس کا مشاہدہ ہم اپنی ننگی آنکھو ںسے کرتے ہیں۔ حقیقت کا ایک رخ وہ بھی ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔
یہ ناول ایک مخصوص فلسفیانہ نظریہ کو سامنے رکھ کر لکھاگیا ہے۔ ناول نگار نے نہایت فنکارانہ ہنرمندی کے ساتھ فطرت پسندی اور وجودیت کے فلسفہ کی روشنی میں اس ناول کا تانابانا تیار کیا ہے۔ ناول نگار نے فلسفہ کے گہرے مطالعہ اور کہانی سازی کے بالیدہ شعور کے ذریعہ اردوناول کی تاریخ میں ایک کامیاب تجربہ پیش کیا ہے۔
فطرت پسندی کا فلسفہ مادی مطلقیت پر مبنی ہے۔ اس نظریے کے مطابق انسان کی توانا ترین جبلتیں ہیں خوف، بھوک اور جنس۔ناول میں اگر کسی چیز کو مرکزیت حاصل ہے تو وہ ہے کھانا اور اس کے متعلقات۔ انسان کے روحانی پہلو کو منہا کرکے اسے ایک خالص مادی وجود کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:
’’مجھے ہندودھرم کا یہ خیال باربار چونکاتا رہتا ہے کہ جس طرح ہون کنڈ میں اناج اور غلہ وغیرہ جاتا ہے۔ اسی طرح معدہ بھی ایک قسم کا ہون کنڈ ہے اوربھوک ایک آگ، پیٹ کی آگ کے لیے کھانا چاہیے کھانا کھانا ایک یگیہ سے مماثل ہے۔‘‘
ناول میں ایک کردار ہے آفتاب بھائی۔ اسے انجم باجی کے عاشق کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور عشق ایک لطیف ماورائے مادہ جذبہ ہے لیکن ناول نگار نے اس کا یوں تعارف کرایا ہے:
’’یقینا آفتاب بھائی میں ایسی کوئی شے نہیں تھی جو ان کے جسم سے ماورا ہونے کا امکان رکھتی۔‘‘
یعنی اس کا عشق، عشق نہیں تھا بلکہ ایک مادی عمل اور ہوس تھا، وہ پیٹو تھا ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتا رہتا تھا۔
ناول میں فاتحہ، چہلم اور دیگرمذہبی رسوم کا بھی ذکر ہے ان سب کو بھی ایک ایسے تہذیبی رسم کی حیثیت سے ذکر کیا گیا ہے جن کی اساس اکل و شرب پر ہے۔ رسم فاتحہ کا مقصد مردہ روحوں تک کھانا پہنچانا ہے۔ ایک جملہ دیکھیے:
’’بڑے ماموں کا کہنا تھا کہ جمعرات کی شام کو مغرب سے پہلے گھر کے آبا واجداد کی روحیں اپنی قبر کے باہر بیٹھ کر فاتحہ کے کھانے کا انتظار کرتی ہیں۔ (ص:۷۶)
ایک بار جب ہیضہ کی وباپھیل جاتی ہے تو ناول نگار یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ:
’’یہ تھا انسانوں کی آنتوں کا تماشا جسے سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ تھی منھ چلائے جانے کی سزا۔ انسان کا جرم اور اس کی سزا دونوں ہی اس کی تعمیر میں مضمر ہیں اس لیے میں نے کہیں کہا تھا کہ انسان اپنی آنتوں میں رہتا ہے۔‘‘
ناول کے راوی حفیظ الدین بابر کو اس ناول کا مرکزی کردار کہاجاسکتا ہے۔ اس مرکزی کردار کے تشکیلی عناصر کا اگر تجزیہ کیاجائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے توارث، ماحول اور جبلت کا زائیدہ ہے۔ اس کی شخصیت کا اہم محرک بھوک، خوف اور جنس ہے۔ اس کردار کی فطری جبلت اس پر حاوی ہے۔
ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’میری عمر اب اتنی ہوگئی تھی کہ میں عورت کے تئیں خاص جنسی دلچسپی بھی لے سکتا تھا اور یقینا مجھے انجم بانو سے ایک خاص جنسی دلچسپی پیدا ہوگئی۔ ممکن تھا کہ آگے چل کر اس میں محبت کا عنصر بھی شامل ہوجاتا۔ کیوں کہ محبت اور جنس ایک دوسرے کے اس طرح پیچھے لگے رہتے ہیں جیسے اس کے پہلے یا حبس کے پیچھے پیلی آندھی۔‘‘ (ص:۱۲۰)
ناول میں انسان کو محض ایک Biological Construct حیاتیاتی وجود کے طو رپر پیش کیا گیا ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے:
’’کیا کسی نے بھی اس پر غور کیا کہ محض روح کی پاکیزگی کے ڈنکے پیٹتے رہنے سے ہی کچھ نہیں ہوتا اصل مسئلہ تو جسم کا ہے۔ جسم کی پاکیزگی ہی اصل شے ہے۔ انسان کو چاہیے کہ شعور بالذات کی بات تو بہت ہوچکی۔ اب ذرا بدنام زمانہ مادے کی بات بھی ہوجائے۔ مادے کو بھی اس کا جائز حق دیاجائے۔ آخر کب تک روح اپنے اعمال کی سزا جسم کو دیتی رہے گی۔‘‘(ص:۱۲۲)
ناول کے مرکزی کردار سے جو افعال سرزد ہوتے ہیں وہ خارجی عوامل کے زیراثر وجود میں آتے ہیں۔ راوی کے ہاتھ سے آفتاب کا قتل ہوتا ہے۔ اس قتل کے وقوعہ کو ناول نگار کس طرح ایک فطرت پسند نقطہ نظر سے فکشنلائز کرتا ہے وہ فنکارانہ بلوغت کی دلیل ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’اچانک میرے اندر پلنے والا وہ تاریک طویل القامت سایہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ میرے دونوں ہاتھوں میں منتقل ہوگیا۔ میرے ہاتھ ایک عفریت کے ہاتھوں میں تبدیل ہوگئے۔ اب ان ہاتھوں کی اپنی الگ دنیا تھی، الگ ذہن اور الگ شخصیت اور الگ اعصابی نظام۔ یہ ہاتھ میرے باقی جسم اورمیرے دماغ کے تئیں مکمل اجنبی تھے۔ ہاتھوں نے مجھے جھکنے کے لیے کہا میں جھکا او رمیرے ہاتھوں نے پتھر کی اس وزنی سل کو اس طرح اٹھالیا جیسے کوئی زمین پر پڑا ایک سوکھا ہوا زردپھول اٹھالیتا ہے، سل پر ہلدی کا رنگ جم گیا تھا۔ آفتاب بھائی اسی طرح اکڑوں بیٹھے بیٹھے ہانڈی میں سے فیرینی کھارہے تھے۔ میں انھیں منھ چلاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مگر ان کی پیٹھ بار بار ایک فحش انداز میں جنبش کرتی نظر آتی تھی۔ میں نے اس فحش منظر کو شاید پہلے کہیں دیکھا ہو یا محسوس کیا ہو۔ پتھر کی سل کو اپنے دونوں ہاتھوں میں اونچا اٹھائے اٹھائے میں ننگے پیر بہت آہستگی کے ساتھ آفتاب بھائی کی طرف بڑھنے لگا۔ میں ان کے سرپر پہنچ گیا۔ ابٹن اور خون کی ملی جلی خوشبو نے میری ناک کے نتھنوں کو چھولیا۔ اپنی سانس روک کر تمام طاقت کے ساتھ پتھر کی سل کو تھوڑا اور اونچا اٹھاتے ہوئے میں نے اسے آفتاب بھائی کے سر پر دے مارا۔ ان کے منھ سے ایک آواز نکلی جیسے کوئی زور سے ڈکارلیتا ہے۔ مگر یہ چیخ ہرگز نہ تھی۔ انھیں چیخنے کی بھی مہلت نہ ملی۔ اکڑوں بیٹھے بیٹھے ان کا سر فرش پر جاکر لڑھک گیا۔ وہ سرجو پوری طرح کچل گیا تھا، میرے ہاتھوں سے سل چھوٹ کر نیچے گرگئی۔ سل پر آفتاب بھائی کے بھیجے کے ریشے اور خون کے چھیچھڑے چپک کر رہ گئے۔‘‘(ص:۱۵۰)
اس طویل اقتباس کے ذکر سے یہ بیان کرنامقصود ہے کہ وہ قتل بالارادہ نہیں کرتا ہے بلکہ اس سے یہ عمل سرزد ہوتا ہے۔
آگے ایک جملہ ہے:
’’تب آفتاب بھائی کی لاش کے قریب کھڑے کھڑے اچانک جیسے مجھے ہوش آیا میری سمجھ میں آگیا کہ میں نے آفتاب بھائی کا قتل کردیا ہے۔‘‘(ص:۱۵۰)
اقتباس بالا کے ضمن میں یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ یہ واردات قتل کا حددرجہ غیرجذباتی بیان ہے۔ ایسے بیانیہ کی تشکیل سے ناول نگار کی فنکارانہ ہنرمندی کا اظہار ہوتا ہے۔یہ قتل انجم باجی کے ساتھ آفتاب کی بدسلوکی کا ردعمل ہے۔ اسے Oedipus Complex کے پس منظر میں بھی دیکھاجاسکتا ہے۔
اس مرکزی کردار کے سامنے جب تعلیم حاصل کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو وہ اپنی مرضی و منشا سے وکالت کی تعلیم حاصل نہیں کرتا ہے بلکہ وہ بڑے ماموں کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ جب اس کے سامنے شادی کا مرحلہ آتا ہے تو وہ یہاں بھی ایک ایسی لڑکی سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے جس میں اسے کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی ہے۔ وہ عصمت دری کی شکار ہے، جذباتی اعتبار سے ٹھس ہے۔ راوی کا اس کے تئیں کوئی جذبہ ترحم بھی نہیں ہے صرف اپنے دوست کے کہنے پر شادی کے لیے رضامند ہوجاتا ہے۔ راوی آزادی انتخاب سے محروم ہے۔
نعمت خانہ ایک تجرباتی ناول ہے۔ ناول نگار نے اس ناول کو خودنوشت کے پیرایے میں اعتراف نامے (Confession)کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ ناول نگار کا کارنامہ ہے کہ وہ اس پر خودنوشت کا التباس قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے تخلیقی عمل کے بارے میں متعدد بیانات دیتا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ:
’’ویسے بات کچھ خاص نہیں، بات صرف اتنی ہے کہ میں استعارے سے کتراتا ہوں مجھے تشبیہ پسند ہے۔‘‘(۶۸)
ناول نگار نے استعارے کا بھی استعمال کیا ہے لیکن تشبیہ سے بیش از بیش فائدہ اٹھایا ہے ناول کو اپنے تھیم سے مربوط رکھنے کے لیے تشبیہ کا بکثرت استعمال کیا ہے۔
٭ انجم آپا کے بارے میں بیان ہے:
’’چہرہ بالکل گول تھا کسی چپاتی کی طرح جس پر چیچک کے جابجا نشانات تھے بالکل چپاتی پر لگی ہوئی چپٹیوں کی مانند۔‘‘(ص:۱۱۶)
٭ ایک دعوت کی منظرکشی دیکھیے:
’’ایک ایسا میدان جنگ جس میں انسان ایک دوسرے سے اپنے اپنے دانتوں ، اپنے جبڑوں، اپنی زبانوں اور اپنی آنتوں کے ذریعہ لڑتے ہیں۔‘‘
٭ مجھے اپنی کھال مچھلی کی کھال کی طرح لگتی تھی۔(ص:۱۰۱)
یوں تو تشبیہ ایک لازمی وسیلہ اظہار ہے لیکن اصرار کے ساتھ ذکرکرنا غوروخوض کے لیے مجبور کرتا ہے۔ دراصل ناول نگار نے اس ذریعہ اظہار سے ایک ہیئت کذائی Grotesque کی کیفیت پیدا کی ہے۔ تشبیہ کے ذریعہ وہ تصویر کو بدشکل کرتے ہیں یا Degrade کرتے ہیں، مثلاً:
٭ دوتاریک سایے دو جانوروں کی مانند ایک دوسرے سے گتھے ہوئے اور لپٹے ہوئے ہیں۔ (ص:۹۵)
٭ جس کے بعد ایک عجیب اور پراسرار سی بھنبھناہٹ گونجتی ہے جیسے موت غصے میں بھری سرگوشیاں کررہی ہو۔ (ص:۹۵)
کہانی یا واقعہ کا بیان آغاز، وسط اور انجام کی زمانی ترتیب میں ہوتا ہے۔ اس سے وقت کا وہ تصور وابستہ ہے جو ماضی، حال اورمستقبل سے عبارت ہے۔ناول نگار کا یہ دعویٰ ہے کہ اس ناول میں وقت کا رواں تصور بروئے کار لایا گیا ہے۔ اس رو سے ماضی، حال او رمستقبل وقت کا ایک ہی دھارا ہے اورحال ہی وہ زمانی لمحہ ہے جو ماضی اورمستقبل دونوں کو محیط ہے۔ وجودی تصورفکر کے مطابق وقت صرف عصررواں کا نام ہے۔ اقبال اسی تصور وقت کا قائل ہے۔
فطرت پسند ناول میں حقیقت پسندناول کی طرح جزئیات نگاری ہوتی ہے لیکن دونوں کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے۔ حقیقت پسند ناول میں جزئیات نگاری کا مقصد قاری کے عندیے کے مطابق تصویر سازی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس فطرت پسند ناول کی جزئیات نگاری سے جو منظرتشکیل پاتا ہے وہ قدرے موہوم ہوتا ہے۔
ایک منظر ملاحظہ کیجیے:
’’ہمارے گھر سحری کے وقت بہت اہتمام کیاجاتا۔ دودھ، ڈبل روٹی، پھینی، کھجلا، پراٹھا، کباب اور تازہ سالن بھی۔ بغیرگوشت کا سالن پکنا، رمضان میں شاید ممنوع تھا، سحری کھانے کا وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے آکر اس طرح ٹھہرجاتا ہے جیسے ایک چلتی ہوئی فلم اچانک رک جائے اور اندھیرے سنیما ہال میں ایک سین بس ایک سین پردے پر مردہ ہوکر چپک جائے دیوار پر چپکی ہوئی مردہ چھپکلی کی کھانکڑ کی طرح۔‘‘ (ص:۱۶۳)
اس ناول کی ایک اہم فنی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں زبانی اورتحریری بیانیہ دونوں کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ ناول کو عام طور پر تحریری بیانیہ کے زمرے کی چیز سمجھ لیا گیا تھا۔ لیکن اگر ناول میں دونوں بیانیوں کا انضمام ہو تو ناول فنی اعتبار سے خاصا اہم ہوجاتا ہے۔ اس ناول میں معمرراوی اپنے بچپن کے واقعات اپنی یادداشت کی مدد سے بیان کرتا ہے۔ لیکن یہ خودکلامی کے زمرے کا اسلوب نہیں ہے۔ اس میں مختلف مقامات پر خطاب کا صیغہ ہے اور اپنے بھولنے کا بیان ہے۔
چند جملے ملاحظہ کیجیے:
’’آج جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں (کیا واقعی لکھ رہا ہوں) تو مجھے حیرت ہے کہ ساٹھ کی دہائی ہرلحاظ سے کتنی مختلف تھی اور زمانہ کس تیزی کے ساتھ بدلا ہے۔‘‘ (ص:۱۹۲)
دوسری مثال دیکھیے:
’’ نہ جانے کتنا زمانہ ہوگیا اس وبا کو پھیلے ہوئے رکنے میں نہیں آتی۔ ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا؟ نہیں کیا لکھ رہا تھا؟(ص:۳۴۰)
یہ ناول زبانی بیانیہ اور تحریری بیانیہ دونوں کے امتزاج سے ناول نگار کی فنی انفرادیت کو مستحکم کرتا ہے۔
ناول نگار انسانی وجود، اس کے جواز، سزاوجزا کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ یہ وہ مسائل ہیں جنھیں نہ مذہب، نہ سائنس، نہ مشرقی و مغربی فلسفہ نہ فنون لطیفہ اورنہ قانون حل کرسکتا ہے۔
دیکھیے ایک اقتباس:
’’قانون کی تعلیم حاصل کرتے وقت مجھے بار بار یہ احساس ہوتا ہے جیسے ابھی اچانک کہیں نہ کہیں سے مسائل کا حل مل جائے گا مگر حل ملنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ یہ بھی مذہب، سائنس اور فلسفے کی طرح تھا۔‘‘(ص:۲۱۰)
ناول نگار کو انسانی وجود کے تمام مسائل عقدہ لاینحل نظر آتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہی وجہ ہے کہ میں اپنی سزا، اپنی عدالت اور اپنے منصف کی تلاش میں بھٹک رہا ہوں۔ کیوں کہ میری سمجھ میں انسانوں کے مقدر کا ان کے عدل سے کیا تعلق ہے اور اگر قانون انسان کے مقدر کی تشریح نہیں کرسکتا تو سزائے موت یا عمرقید وغیرہ تو ایک طرح سے مضحکہ خیزیاں ہی بن جاتی ہیں مگر وہ نادیدہ عدالت۔‘‘(ص:۲۲۴)
یہ ناول یوں تو فطرت پسند نقطہ نظر سے لکھاگیا ہے۔ ناول نگار نے فنی ہنرمندی کے ساتھ ناول کے کرداروں کو ایک Biological Construct کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بڑے فن کا یہ خاصہ ہے کہ اس میں اتنی جہات موجود ہوتی ہیں کہ وہ کسی ایک نظریے کے حصار میں محدود ہونے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ مادہ پر اصرار کے باوجود یہ ناول ماورائے مادہ پر ختم ہوتا ہے۔ ناول کے اخیر میں اشھد ان لاالہ الا اللہ وجودالٰہی کے اثبات کا اقرار ہے نفی وجود سے ہی وجود باری کا اثبات لازم ہوجاتا ہے۔ اعتراف نامہ کے بطن میں نجات کی خواہش مضمر ہوتی ہے۔
ایک اقتباس دیکھیے:
’’ میں جو یہ سب لکھ رہا ہوں (لکھ بھی رہا ہوں یا بڑبڑارہا ہوں) تو یہ بھی ایک اپیل ایک عرض داشت کچھ بھی نہیں، اس کو کسی عدالت میں داخل کرنا ہے۔ یہ ابھی مجھے نہیں۔ بس میں اسے ہاتھ میں پکڑے پکڑے بھٹک رہا ہوں اپنی عدالت کی تلاش میں۔ جب بھی مجھے مل جائے گی میں وہاں اسے داخل کرکے خاموشی کے ساتھ اپنے سارے مکھوٹے گرادوں گا۔ میں وہاں عدالت کے سامنے ننگا ہوجاؤں گا۔ میں یہ جسم اتارکر پھینک دوں گا۔‘‘
اخیر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فطرت پسندی اور وجودیت کے فلسفہ کو اس ناول میں جس فنی چابکدستی کے ساتھ فکشن کا لباس عطاکیا گیا ہے وہ اردو ناول کی تاریخ میں ایک اہم اضافہ ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page