ذہن زاد / توصیف بریلوی – عافیہ حمید
بلاشبہ ذہن زاد کی تخلیق ثابت کرتی ہے کہ اب افسانے کی دنیا ایک منفرد قسم کا جہاں آباد کرنے کو بیتاب ہے۔ وہ جہاں شاید اس جہاں سے بہت الگ ہوگا جہاں آنکھوں ہی آنکھوں میں عشق ہو اور گلابوں کے لمس تمام تر لمس کی تلافی کردیں جہاں دور کھڑکیوں پر پڑے دبیز پردے سے محبوب کا عکس دیکھ کر صبروشکر کرلیاجاے۔
ذہن زاد آہٹ ہے۔ ایک نئے باب کے آغاز کی۔ حالانکہ اردو ادب میں یہ پہلی آہٹ نہیں، گاہے بگاہے ہردور ۔۔ و ۔۔زمانے میں یہ آواز سننے کو ملتی رہی ہے۔کبھی منٹو تو کبھی عصمت نے اس آہنی دروازے پر دستک دی۔ مگر ذہن زاد کا زورپچھلے تمام دستکوں کے مقابل زیادہ مضبوط ہے۔کیونکہ ذہن زاد کی پرورش ہندوستان کے قلب اور سپنوں کی نگری میں ہوئی۔ذہن زاد نے بڑے بڑوں کی رہنمائی میں چلنا سیکھا اور سب سے خاص بات ذہن زاد عشق کی وادی میں سرسبز وشاداب ہوا، پھر ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والاگل ایک نیا رنگ کیوں نہ لے آتا۔
توصیف بریلوی ان نوجوان قلم کاروں میں سے ہیں جو اپنے طور پر سوچتے ہیں جو آس پاس سے بے نیاز صرف وہیں دیکھتے ہیں جو ان کے مزاج کے موافق ہو۔ جو ان کے ذوق سے مطابقت رکھے۔ بے باکی اور بے خوفی ان کے مزاج کا خاصہ ہے، جو سب کچھ کہہ دینے کے فن سے آشنا ہیں۔
توصیف خان کے افسانے ایک دوسرے دنیاکی کہانی سناتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے افسانے نہ جانے کب زمینی سطح سے اٹھ کر آسمانی خیال سمجھانے لگ جائیں۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ ان کے پاس مستقبل میں دیکھنے کے لیے دور رس آنکھیں موجود ہیں۔ وہ مستقبل کے مشینی دور کا بخوبی تذکرہ کرتے ہیں۔ان کے افسانوں کا کب آغاز ہوا۔ کب وہ درمیان میں پہنچے اور کب اختتام پذیر ہوئے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ بس لگتا ہے کوئی دلچسپ فلم چلتے چلتے اچانک ختم ہوجائے اور ہم اچانک سے ہوش میں آجائیں۔ ان کے اکثر افسانے ان جذبات واحساسات کی روداد ہیں جن کو انسان بیان کرتے ہوئے جھجھکتا ہے۔ ان کے اکثر افسانے تحت الشعور سے ہوکر گذرتے ہیں۔ توصیف صاحب نے زمانے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ اور اپنا شمار نبض کے ماہرین میں کرانے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ اصل میں توصیف بریلوی نے افسانے کی دنیا میں قدم رکھتے ہی ہوائوں کے رخ کا صحیح اندازہ لگایا۔ او رجس کو لہروں کا بخوبی اندازہ لگ جائے ان کی کشتی ہچکولے نہیں کھاتی۔
توصیف صاحب نے اپنے ہر افسانے کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ مگر توصیف بریلوی کے یہاں تمام افسانوں کے خمیر ایک ہی مٹی سے لیے گئے اور وہ ہے جنسیات کا خمیر۔ خیر۔۔۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اب زمانہ بدل چکا تھا۔ اب ’’انگارے‘‘ پر بین لگانے والے زمانے سے اردو افسانہ بہت آگے نکل آیا تھا۔ حتیٰ کہ اب فکشن کو جدید فکشن کا ایوارڈ تبھی مل سکتا ہے جب تک کہ فکشن عریانیت کی تمام حد وںسے باہر نہ نکل جاے۔ اب اچھے افسانے کو پرکھنے کی کسوٹی اس کا عریاں پن سمجھاجاتا ہے اور اس کو وقت کی ضرورت او رجدید آلات سے لبریز سوچ کہاجانے لگا ہے۔
توصیف بریلوی کے اس مجموعے میں کل ۲۰؍افسانے شامل ہیں افسانہ ’’جیلر‘‘ سے شروع ہوکر ’’نگاہِ حسرت‘‘ پر مجموعہ ختم ہوتا ہے۔ توصیف بریلوی کے افسانے کالج اور یونیورسٹی کے ماحول میںلکھے گئے۔ ان کے افسانوں پر آس پاس کے ماحول کا کافی اثر دکھائی دیتا ہے۔ان کے اکثر افسانوں میں جنسیات کی بھرمار ہے۔ بیشتر افسانہ عریانیت کی اعلیٰ مثال ہیں۔ ان کے یہاں جنسیات کے پرابلمز، جنسیات کی ذہنی ٹینشن پر کافی کچھ دیکھنے کو مل جائے گا۔ مثلاً ۔۔ایش ٹرے ،سرخ وسفید، بلیکش،یٹشوپیپر وغیرہ۔ یہ ایسے افسانے ہیں کہ اگر ان سے جنسیات الگ کرلی جائے تو یہ افسانے کورے رہ جائیں گے۔
توصیف بریلوی کے یہاں جدید موضوعات افسانوں میں موجود ہیں۔ جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں مگر بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے۔ عنوان کی کشش اس خوبصورت سبز باغ کی طرح ہے جو دور سے کسی جنت کے نظارے سے کم نہیں۔ مگر اس میں داخل ہونا اور پھر ہر سمت ایک ہی رنگ سے اچانک سے گھبراجانا، ان کے افسانے عجب طبیعت کو بوجھل اور ذہن کو مائوف کرتے ہیں۔ ان کے افسانے ایک ہیجان اور ارتعاش پیدا کرتے ہیں جس پر کبھی کبھی جھنجلاہٹ سی ہوتی ہے۔ اور قاری کا ذہن ’’ذہن زاد‘‘ سے راہ فرار تلاش کرتا ہے۔
توصیف بریلوی نے بلاشبہ اپنے افسانوں میں مردوں کا اکثر کردار وفادار، محبت کرنے والا، عشق میں مبتلا سچے عاشق کے طور پر دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے افسانوںمیں ان مرد وںکی بھی پریشانیوں کا ذکر موجود ہے جو تنہا گھر سے دور ہوں۔ پھر چاہے وہ تعلیم کے سلسلے میں یا ملازمت کے سلسلے میں ان کی جنسی ضرورتوں، ان کی جنسی پریشانیوں کو مظلومیت کے خوبصورت تشتری میں پیش کرنے کا ہنر توصیف بریلوی کو خوب آتا ہے۔ وہیں دوسری طرف ان کے افسانوں میں عورت ابدی بے وفا اور کمزور ثابت ہوتی ہے۔۔
توصیف بریلوی کے افسانوں کی ہیروئن شکلاً خوبصورت ہے۔ ان کے یہاں ظاہری حسن وجمال تمام تر نسوانی خوبیوں پر بھاری ہے۔ ان کے یہاں نسوانی کردار وں کے حسن وجمال کی بہترین عکاسی ۔نیزنسوانی کرداروں کے لطیف مشاہدہ وتجزیہ موجود ہے۔ ان کے افسانوں میں ماڈرن سیکس کے بارے میں بڑی چابکدستی سے کام لیا گیا ہے۔ ان کے افسانے بلاکسی تمہید بالواسطہ گفتگو کے فن سے آشنا ہیں۔ ان کے یہاں عشق ومحبت کے الگ الگ زاویے نظر آتے ہیں۔ ماڈرن اور اونچے گھروں کے عشق ان کے یہاں ِ۔پزابوائے،، میں نظر آتے ہے۔ اس کے علاوہ ان کے چند افسانوں میں مشرقی توہم پرستی اور روایت موجود ہیں۔ مثلاً ’’ایک چاقو کا فاصلہ‘‘، ’’نگاہِ حسرت‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
ان کے چند افسانوں میں ہم آنے والے سینکڑوں برس کا زمانہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے یہاں افسانوں میں سائنس اور ٹکنالوجی کی جھلک بھی صاف نظر آتی ہے۔مثلاً ۔۔خوشبو کاخاکہ، اور۔ ای سگریٹ، ایش ٹرے وغیرہ۔
توصیف بریلوی کا افسانہ مختلف رنگوں کا خوبصورت گلدستہ ہے مگر تمام گلوں میں خوشبو ایک ہی ہے۔ افسانہ پڑھتے ہوئے کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے۔ ابن صفی کے ناول کے چند صفحے پلٹ رہی ہوں۔ تو کبھی لگتا ہے نیر مسعود کی تخیل بھری وادی کا سفر کررہی ہوں۔ تو کبھی لگا انتظار حسین کی علامت کی گلیوں میں گم ہوگئے جہاں سے ذہن کو کھینچ کر واپس لانا آسان نہیں تھا۔
توصیف بریلوی کا افسانہ ’’ذہن زاد‘‘ تخیلاتی دنیا پر منحصر افسانہ ہے۔ ان کے کچھ افسانے نفسیاتی اور فطری رنگ کے بھی ہیں جیسے نوزپیس، نک ٹائی۔توصیف خان کا افسانہ ’’رگ جاںسے قریب‘‘ایک طنزیہ افسانہ ہے جو اس متعصب دور اور فرقے میں بٹے سماج پر ایک کاری ضرب لگاتا ہے۔ توصیف بریلوی کا یہ افسانہ تمام تر عالم کے فرقوںکو ایک صحن میں لاکھڑا کرتا ہے اور آج کے ظاہری رہنمائوں کو مشینی انسان بتا کر ان کو طنز کا نشانہ بناتا ہے۔
توصیف بریلوی کے افسانے بلاشبہ بے باک نوجوان کے قلم سے نکلے ہوئے افسانے ہیںنیز نوجوان کے مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔ مگر کہیں نہ کہیں محسوس ہوتا ہے تو’’ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘کیاکیجئے کہ اب ہوا ہی کچھ اس طرح چلی کہ ایک عالم کی سوچ بدل کر رکھ دیا۔ترقی پسندوں کے ’’انگارے‘‘نے جو شرارے اردو ادب کو دیے تھے شاید اسی کی آنچ سے ذہن زاد پک کر تیار ہوا مگر میری ذاتی رائے یہ تھی کہ حسن اسی وقت تک حسن ہے جب تک اس کے اور عالم کے درمیان ایک دبیز پردہ حائل ہو۔
اب بات چاہے اردو ادب کے حسن کی ہو یا افسانوں یا ناولوں کی۔ ذہن زاد سکے کے اس ایک پہلو کی مانند ہے جس کا ایک حصہ فائدے اور خوبیوں پر منحصر ہے۔ مگر وہیں دوسرا پہلو آج نہیں تو کل ہمارے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔
ذہن زاد اور اس کے اندر شامل کچھ افسانوں مثلاً ایش ٹرے۔ سرخ وسفید، پزابوائے، ای سگریٹ، ٹشوپیپر، خوشبو کا خاکہ وغیرہ ایسے افسانے ہیں جن کے پڑھنے سے ہمارے بچے اور بچیاں عمر سے پہلے بڑے ہوجائیں گے۔ یہ افسانے اسکرین پر چلنے والے کسی vulgar فلم سے کم نہیں۔توصیف بریلوی کے چند افسانے تھیوری پر بھی مشتمل ہیں مثلاً منصف اور تصنیف ۔تعذیب وغیرہ۔
توصیف بریلوی کے افسانوں میں خوبصورت منظر کشی ہے ان کے افسانوں کے اختتام چونکانے والے ہوتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی کہانی رفتہ رفتہ آگے بڑھتی ہے اور جب قاری کو خوب مضبوطی سے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے تب اچانک نہ جانے کب قاری کو ہوا میں معلق چھوڑدیتی ہے اس کا احساس قاری کو بہت دیر میں ہوتا ہے۔
توصیف بریلوی کا قلم تمام تر گلوں سے ایک خاص قسم کا شہد تیار کررہا ہے۔ جس کی مناسب مقدار توصحت کے لیے ٹھیک ہے مگر اسی شہد کی اگر مقدار بڑھادی جائے تو یہی شہد زہر ہلاہل بن جائے گا۔
صاحب کتاب کے حق میں دعائیں
6389018902
عافیہ حمید
ریسرچ اسکالر
خواجہ معین الدین چشتی، لینگویج، یونیورسٹی، لکھنؤ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |