صفر کی توہین اور کردار نگاری -محمد اشرف یاسین
صفر کی توہین، اشعر نجمی کا تازہ ترین ناول ہے، اسی مہینے کی بارہ تاریخ کو غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی میں ڈاکٹر نریش، پروفیسر طارق چھتاری، پروفیسر ارتضیٰ کریم، پروفیسر قدوس جاوید، پروفیسر خالد جاوید، فرحت احساس، خورشید اکرم اور پروفیسر معین الدین جینا بڑے کے ہاتھوں اس کا رسمِ اجراء عمل میں آیا۔ یہ اشعر نجمی کا دوسرا ناول ہے، اس سے پہلے بھی انہوں نے اُردو قارئین کو "اس نے کہا تھا” نامی ایک اہم ناول کو پیش کیا ہے، جس کی بہت پذیرائی ہوئی، تقریباً دو درجن سے زائد لوگوں نے اس پر اظہارِ خیال بھی کیا۔ واضح رہے کہ اس ناول کا موضوع LGBTQ ہے اور اردو میں اس موضوع پر یہ پہلا ناول ہے۔
اشعر نجمی شروع سے ہی کچھ نہ کچھ نیا پیش کرتے رہے ہیں، پہلے انہوں نے خود کو اپنے رسالے سہ ماہی "اثبات” تک محدود رکھا تھا، لیکن اب انہوں نے "اثبات پبلیکیشن” کے ذریعے عالمی ادب کے تراجم کی اشاعت کے ساتھ ساتھ فکشن کی دنیا میں بھی حاشیائی اور شجرِ ممنوعہ سمجھے جانے والے موضوعات پر اپنی تخلیقات پیش کرکے برطانوی نقاد Kingsley Amis کے قول "اگر آپ کسی کو ناراض نہیں کرسکتے تو لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں” کو سچ ثابت کر رہے ہیں۔
صفر کی توہین اشعر نجمی کا دوسرا ناول ہے۔ 156/ صفحات پر مشتمل اس ناول کا موضوع الحاد (Atheism) ہے۔ یہ ناول 7 / حصوں پر مبنی ہے۔ ناول کے شروع میں حسین عابد کی "حرف کو عدد بنتے دیر نہیں لگتی” کے عنوان سے ایک نظم بھی شامل ہے۔ یہ ناول Theory of relativity کا شاندار بیانیہ ہے۔ میرے علم کے مطابق اردو ادب میں اب تک صرف قرۃ العین حیدر نے اپنے افسانہ "روشنی کی رفتار” میں اس تھیوری کا تجربہ کیا ہے اور ان کے بعد اب اشعر نجمی نے اسی تجربے کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنا مکمل ناول پیش کیا۔ Theory of relativity پر مبنی یہ اردو کا اہم فن پارہ ہے۔ اس ناول میں تھیوری آف ریلیٹی ویٹی کا ذکر ضرور ہے، تکنیک بھی وہی استعمال کی گئی ہے لیکن یہ الگورتھم کے اصولوں پر مبنی اردو کا پہلا ناول ہے، جس میں ناول صفر سے شروع ہوتا ہے اور صفر پر جا کر ختم ہوجاتا ہے۔ مرکزی کردار جا بجا اپنے پیشے (کمپیوٹر سائنس کا پروفیسر) کے اعتبار سے تقریباً ہر باب میں اس کی وضاحت بھی کرتا چلتا ہے، حتیٰ کہ ہر باب کے آغاز میں انگریزی زبان میں فیثا غورث، دلائی لامہ اور اسامہ فیاض وغیرہ کے جو بھی اقوال ہیں، وہ سب صفر کے فلسفہ ریاضی سے ہی متعلق ہیں۔ واضح رہے کہ یہ محض نمائش کے لیے نہیں لکھے گئے ہیں بلکہ ان اقوال کا متعلقہ ابواب سے بہت گہرا ربط ہے۔ ناول کے پہلے حصے میں "بشیر” اور "مبشر "بابو راؤ ڈوم” سے تین سوالات کرتے ہیں اور یہیں باضابطہ کہانی کی شروعات ہوتی ہے۔ پہلے اور دوسرے حصے میں "بابو راؤ ڈوم” کے "بابو راؤ ناستک” ہونے کی مکمل روداد کا بیان ہے اور کہانی انہیں تینوں کرداروں کے ذریعے سے آگے بڑھتی ہے۔ بابو راؤ ناستک کا کردار دلت سماج کی عکاسی کرتا ہے، جو ایک اپنے جیسا خدا نہ تلاش کرپانے کی وجہ سے ملحد ہوجاتا ہے :
"میں ایسا خدا چاہتا ہوں جو میری کاسٹ کا ہو، دلت ہو، جو میرے باپ کی طرح ٹی بی کا مریض ہو اور خون تھوکتا ہو، جو اپنی ماں کا کھیت میں ریپ ہوتا ہوا دیکھ سکتا ہو، جو میرے ساتھ اپنے سر پر بڑی ذات کا فضلہ اٹھا کر چل سکتا ہو، جو بنا چپل کے چلچلاتی دھوپ میں سفر کرسکتا ہو۔ میں ایسا بھگوان چاہتا تھا جس کے پاس بس کے کرائے کے لیے پیسے تک نہ ہوں۔ ایسا خدا جو کسی پروٹیسٹ، ریلی میں پولیس کے ڈنڈے کھا کر بے ہوش ہو جاتا ہو۔ ایسا خدا جو سزا دینے کے لیے لائے گئے گرم اور لال بجلی کے ننگے تار کے سامنے مارے ڈر کے پیشاب کردے۔ ایسا خدا جس کو آخری ہڈی تک ظلم کا شکار بنایا گیا ہو اور جو درد کی شدّت سے ہوا میں دانت پیسنے لگتا ہو۔ ایسا بھگوان جو بے روزگار ہو، جو دھرنا دیتا ہو، جو بھوکا ہو، جو فرار ہو اور جس کے پاس اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہ ہو۔ مجھے ایسا ہی خدا جیسا ایک خدا چاہیے تھا۔”
(صفحہ نمبر:21-22)
مذکورہ بالا اقتباس گرچہ ذرا سا طویل ہے، لیکن اس سے کئی برسوں سے مسلسل دلتوں پر کیے جانے والے مظالم کا پتہ چلتا ہے، دلتوں کی ذلت و خواری اور غربت و پستی کا علم ہوتا ہے۔ آج بھی ہندوستان کے دور افتادہ گاؤں، دیہات میں دلتوں کو اپنی شادی بیاہ میں گھوڑی چڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یوپی میں کاشی رام اور مایاوتی نے بہار میں جیتن رام مانجھی نے دلتوں کو سبز باغ دکھاکر اقتدار حاصل کیا، لیکن پھر بھی دلتوں کی حالت بعینہٖ ویسی ہی ہے۔ آج بھی ہمارے سماج و معاشرے میں چھوا چھوت اور ورن ووستھا کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ برہمنوں کی محض آٹھ فیصد آبادی دلتوں کی سترہ فیصد آبادی کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے۔ متن میں شامل لفظ "شہریت” سے CAA اور NRC جیسے کالے قانون کی طرف بلیغ اشارہ کیا گیا کہ کس طرح ماضی قریب میں موجودہ حکومت کی ایک غلط پالیسی نے ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت، دلتوں، آدی واسیوں، ناخواندہ، غریب و مفلس اور قلاش لوگوں کو بے چین کردیا تھا۔
ناول کے تیسرے حصے میں ایک لڑکی "ریحانہ” کی داستانِ غم بیان ہوئی ہے، یہ راوی واحد متکلم کے طور پر اس باب میں پوری طرح سے چھائی ہوئی ہے۔ یہ اس ناول کی سب سے اہم نسوانی کردار ہے۔ اسے مردوں کی طرح ختنے کے کرب سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ اُردو میں تانیثی تحریک کو وسعت بخشنے والا شبیر احمد کا نیا ناول "ہجور آما” ہے، اس کی کردار "دیب لینا” قرۃ العین حیدر کے ناول "آخرِ شب کے ہم سفر” کی "دیپالی سرکار” سے مشابہ اور شمس الرحمٰن فاروقی کے ناول” کئی چاند تھے سرِ آسماں” کی "وزیر خانم” سے زیادہ مجاہدانہ کردار کی حامل معلوم ہوتی ہے۔ ناول کے بالکل آخر میں یہ عقدہ کھلتا ہے یہی "ریحانہ”، "بابو راؤ ناستک” کی بیوی ہے، "ریحانہ” اور "بابو راؤ ناستک” کے ذریعے سے ان کا "چیکو” نامی ایک بچہ بھی ہے، پھر بھی ریحانہ کے مذہبی رشتہ دار ریحانہ کو ایک ملحد کی زوجہ ہونے کی وجہ مطعون کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "تم حقیقی خدا کی خاطر مجازی خدا کو خدا حافظ کہہ دو۔” لیکن ریحانہ پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ وہ اپنی شادی کے برسوں بعد بھی ایک خوشحال اور محبت بھری ازدواجی زندگی گزار رہی ہے۔
چوتھے اور پانچویں حصے میں ایک طالبِ علم "جمیل” کی ذہنی، فکری، علمی، مذہبی اور داخلی کشمکش کا بیان ہے۔ برِ صغیر کے مدارسِ اسلامیہ میں مذہبی تعلیم کے نام پر درسِ نظامی اور مسلکی اختلافات پر مبنی نصاب پڑھ کر اپنے اپنے مسلک کے تئیں تعصب کو خوب خوب فروغ دیا جاتا ہے۔ اپنے علاوہ دوسروں کو کافر سمجھا جاتا ہے، دوسرے مسالک کے اماموں کے پیچھے نمازیں نہیں پڑھی جاتی ہیں، لیکن اگر مجبوری میں خدا نخواستہ کہیں پر کسی دوسرے مسلک کے امام کے پیچھے نماز پڑھنی پڑھ جائے تو وہ نماز تک دوہرائی جاتی ہے۔ جنازے اور شادی بیاہ میں شرکت کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ اس طرح کے بہت سے خرافات آج بھی ہمارے مسلم معاشرے میں رائج ہیں، جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ چنانچہ "جمیل” جیسے سادہ لوح مگر ذہین و فطین طالبِ علم کو جب اس طرح کے گورکھ دھندے کا علم ہوتا ہے تو اس کی اسلام سے بدظنی بالکل فطری ہے۔
اُردو فکشن کے لیے اگر چہ اشعر نجمی کا نام نیا ہے، لیکن ان کا فن اور تجربہ دونوں بہت پختہ ہے، ان کے دونوں ناولوں سے اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ابھی تک انہوں نے محض دو ہی ناول لکھے ہیں۔ میرے خیال سے اُردو کے میڈیو کر ٹائپ ناول نگاروں کو اشعر نجمی سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ چمگادڑ کی طرح پھلوں کو کتر کر کھانے اور شہید کی مکھی کے مثل مختلف طرح کے پھلوں اور پھولوں سے رس کشید کرنا، دونوں میں بہت فرق ہے اور میری نظر میں اشعر نجمی کی حیثیت شہد کی مکھی کی ہے۔ جو فکشن میں نئے نئے موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے رہتے ہیں۔
اللّٰه کرے زورِ قلم اور ہو زیادہ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page

