بنگال میں تحقیق وتنقید کی روایت زیادہ قدیم نہیں ہے۔ یہاں کے ادیب شاعری کے شانہ بہ شانہ تنقیدی مضامین لکھتے رہے ہیں۔ عصر حاضر میںاس خطّے کے ادیبوں کے یہاں دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھنے کا چلن روادواں ہے۔ ان لکھنے والوں میں ڈاکٹر ابو بکر جیلانی ایک اہم نام ہے۔ ان کی تخلیق ’’تفہیم وتشریح‘‘بنگال کی تحقیقی و تنقیدی روایت میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔
’’تفہیم وتشریح‘‘میں موصوف کے کل گیارہ مضامین شامل ہیں جو متنوع موضوعات کو اپنے احاطے میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ ابتدائی دو مضامین’’اردو زبان کی ابتداء اور ارتقاء (تاریخ کے حوالے سے)‘‘اور ’’مغربی بنگال میں اردو زبان کے ارتقاء میں شاہان بنگالہ اور صوفیائے کرام کی خدمات‘‘تنقید کے بجائے تحقیقی ہیں۔ ابوبکر جیلانی صاحب نے بڑی سنجیدگی سے دونوں مضامین کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ ’اردو زبان کی ابتداء وارتقاء (تاریخ کے حوالے سے)‘میں انہوں نے تاریخ کے حوالے سے اردو زبان کی نشو ونماء اور اس کی افزائش کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔ حکمرانوں کے عہد میں یہ زبان کن کن مسائل سے دوچار ہوئی اور اس عہد میں سماجی اور سیاسی رجحانات سے اسے کن کن منزلوں سے گزرنا پڑا ان سب کا ذکربڑی تفصیل سے کیا ہے۔ اردو ایک لشکری زبان بھی تسلیم کی جاتی ہے ،موصوف نے جنوبی ہند میں اردو کی ترویج واشاعت پر روشنی ڈالتے ہوئے فوجیوں کے کردار کی بھی نشاندہی کی ہے جنہوں نے جنوبی ہند میں اس کی آبیاری کی۔ ان سارے تاریخی عوامل کو جیلانی صاحب نے تحقیق کی عرق ریزی کے بعد خلق کیا ہے۔ تحقیقی مضامین کی خوبی جہاں مقالہ نگار کی متانت اور سنجید گی میں ہوتی ہے وہی آہتہ خرامی اور فکری آگہی و بصیرت اسے ترقی کے زینے طے کراتی ہے۔ جیلانی صاحب کے مزاج میں سنجیدگی کا عنصر پیوست ہے، انہوں نے اردو زبان کی ابتداء کے بیان میں تاریخی عوامل پر ہر زاویے سے غوروفکر کرکے تفصیل کاری سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے مضمون کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔
’’مغربی بنگال میں اردو کی ترویج واشاعت میں شاہانِ بنگال اور صوفیائے کرام کی خدمات‘‘ایک انوکھے طرز کا تحقیقی مضمون ہے۔ بنگال کے حوالے سے اس طرز کے تحقیقی مضامین بہت کم لکھے گئے ہیں۔ ابوبکر جیلانی صاحب نے یہاں کے حکمرانوں اور صوفیائے کرام کی اردوکی ترویج وخدمات کو تاریخی حوالے سے دریافت کرکے بنگال کی ادبی فضا میں تحقیق کی نئی راہ دکھائی ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے جن شاہانِ حکومت اور بزرگان دین کا ذکر کیا ہے ان کی زندگی کا مختصر خاکہ بھی پیش کردیا ہے جس سے قاری کے ذہن وفکر میں عہد بہ عہد آنے والے حکمراں اور صوفیائے کرام کے ذریعہ کی جانے والی خدمات کا پورا نقشہ واضح ہوجاتا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں ناول "میرے نالوں کی گمشدہ آواز” کا تعارفی جائزہ – محمد ریحان )
’’کنورؔ کی قصیدہ نگاری ‘‘بھی اپنی نوعیت کا ایک اہم مضمون ہے ۔کنورؔ بنگال کے ابتدائی شعرا میں تھے ۔ان کی شاعری پر گفتگو بہت کم لوگوں کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ابوبکر جیلانی صاحب نے کنورؔ کی قصیدہ نگاری پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے جو اپنے معیار پر تحقیق کادرجہ رکھتا ہے۔اس مضمون میں موصوف کی تنقیدی بصیرت ہر جگہ موجود ہے۔ کنور ؔ کے یہاں مذہبی قصائد کے علاوہ نوابان ِ اودھ کی مدح میں لکھے گئے قصائد بھی ہیں لیکن جیلانی صاحب نے کنور ؔکے قصیدوں کے حوالے سے یہ راز افشا کیا ہے کہ کنورؔنے اپنی ذاتی ضرورتوں کے لئے بادشاہوں کی مدح سرائی نہیں کی بلکہ دربار سے وابستہ ہونے کی وجہ سے قصیدے کہیں:
’’کنورؔنے کسی انعام وکرام کے صلے میں ستائش نہیں کی ہے اورنہ اپنی ضرورت کی تکمیل کی خاطر قصیدہ نگاری کی ہے ۔انہوں نے قصیدہ گوئی سیاسی ہمصری ،سماجی ہمصری اور معاشی برتری کا مظاہرہ کرنے کے لئے کی ہے۔‘‘(۱)
جیلانی صاحب نے کنورؔ کے قصیدوں کی طرح ان کی رباعیوں کا بھی تحقیقی جائزہ لیا ہے۔اگرچہ ان رباعیوں کا قطعہ ہونے کا اصرار انہوں نے کیا ہے لیکن بقول خود’’دراصل یہ قطات ہیں مگرشاعر نے خود ان کو رباعی لکھا ہے اس لئے اظہار خیال کی گنجائش نکالی گئی ہے‘‘۔ابوبکر صاحب نے کنورؔ کی رباعیوں میں پیوست متصوفانہ خیالات،حیات وکائنات کے پیچیدہ مسائل اور پاک عشقہ جذبات سے لبریز اشعار کا بڑی خوبی سے تجزیہ کیا ہے۔ کنور ؔ کی ان رباعیوں کے حوالے سے انہوں نے جو رائے دی ہے اس سے ان کی تنقیدی بصیرت کا وضع اشارہ ہے:
’’کنور ؔکے افکار وخیالات ان کے شدید حسیات جذبات کے تابع ہیں ۔اسی شدید جذباتیت نے انہیں’فکر مستقل‘سے دور رکھااور ’اندیشہ ہائے دور دراز‘کی کربناکیاں اور المناکیاں ان کے لئے وجہ پریشانی نہ بن سکی۔ان کی مادیت پسندی نے انہیں ارضی حسن کا طبلگار بنادیا اور اس کے بت پناہ کشش نے ان کی شاہد پسند طبیعت کو اپنے دور کی مروجہ روایتی ،رسمی اور اخلاقی قدروں کی پابندی سے دور رکھا۔‘‘(۲)
وحشتؔ اور شاکرؔکلکتوی کے حوالے سے ان کے مضامین تنقید ی اور تجزیاتی دونوں اعتبار سے کافی اہم ہیں۔ دونوں مضامین تقابلی تنقید کے زمرے میں رکھنے جانے کے قابل ہیں۔ ’’وحشتؔ اور اتباع غالبؔ‘‘میںانہوں نے جہاں یہ بات تسلیم کی ہے کہ وحشتؔ نے غالبؔ کی تقلید میں ریاض ومشق سے کام لیکر اپنے لیے غالبؔ شناسی کی راہ ہموار کی تھی وہی موصوف نے دونوں کے اشعار کے تقابل سے یہ بات باور کرائی ہے کہ وحشتؔ کا ذہنی روّیہ غالبؔ کے ذہنی رویے سے ہم آہنگ تھا ٗیہی وجہ ہے کہ وحشت ؔ کو غالب کے تتبع میں جو کامیابی ملی وہ اس دور کے کسی اور شاعر کو نصیب نہ ہوسکی۔موصوف لکھتے ہیں:
’’وحشتؔ کا ذہنی روّیہ فکری عمل اور تخلیقی رجحان لاشعوری طور پر غالبؔ کے فکر وفن سے ہم آہنگ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ اتباع غالبؔ میں کامیاب ہوئے اور غالبؔ دوراں اور غالبؔ ثانی کہلانے کے مستحق قرار دیے گئے۔‘‘(۳)
غالبؔ کے سلسلے میں وحشت ؔ کی شاعری کی تفہیم میں ابوبکر صاحب کی یہ رائے ایک نئی راہ کی نشاندی کرتی ہے۔
’’ شاکرؔ اور وحشتؔ‘‘میں انہوں نے شاکرؔ کی افتاد طبع اور شعری محرکات میں وحشتؔ کے اثرا ت کا تذکرہ کرشاکرؔ کی شاعری میں وحشتؔ کے اثرات وضع کرنے کی کوشش کی ہے۔موصوف کے مطابق شاکرؔ کی شاعری کوو حشتؔ کی تہذیبی رجحان کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی اور فکری رجحان سے تقویت ملی ہے۔اس ضمن میں انہوں نے شاکر ؔ کلکتوی کی شاعری کا جائزہ لے کر ان کی شاعری کے حوالے سے جو تنقیدی رائے دی ہے وہ صداقت پر مبنی ہے:
’’اگر چہ نیا دور ان سے نظم جدید اور مختلف النوع اصناف سخن کا متقاضی تھا ۔لیکن وہ عصرِ جدید کے ان تقاضوں کو پورا نہیں کرسکے۔نتیجتاً ان کی شاعری کا کینوس محدود ہوکر رہ گیا۔ شاکرؔ اور وحشتؔکی شخصیت اور طرز سخن کا اتباع کرنے میں ضرور کامیابی حاصل ہوئی لیکن ان کی اپنی شاعرانہ حیثیت کو بھر پور طور پر ابھرنے کا موقع نہ مل سکا۔‘‘(۴)
’’پرویزشاہدیؔ کا فکر وفن‘‘پرُ مغز مضمون ہے۔ اس میں موصوف نے پرویزشاہدیؔ کاشعری محرکا ت میں کارفرما عہد وماحول اور اس دورمیں پیدا شدہ مسائل کواہمیت دی ہے جس کی آنچ میں تپ کر انہوں نے اپنی شاعری کو جلا بخشی تھی۔ موصو ف کے مطابق پرویز شاہدی کی ذہنی پرورش وپرداخت میں جہا ں ان کی اپنی شعری صلاحیتیںکارفرما رہیں وہیں زمانے کی ستم ظریفی بھی ان کے فن کو جلابخشنے میں معاون رہی ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے پرویز شاہدی کی شاعری کا بھر پور تجزیہ کرکے یہ بات ثابت کی ہے کہ انہوں نے بدلتے ہوئے حالت اور مسائل کا بخوبی ساتھ دیاہے۔
علقمہ شبلی معاصر ادب کے روشن اور درخشا ستارے کا نام ہے۔ ہمارے بزرگ شعرا ء میں موصوف کی حیثیت منارۂ نور کی سی ہے۔ابوبکر جیلانی صاحب نے ’’علقمہ شبلی کا فکری شعور‘‘لکھ کر ان کی شعری محرکات کو احاطہ تحریر میں لایا ہے نیر ان کی شاعری کے حوالے سے یہ بات بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شبلیؔ صاحب نے حالات کی آنچ میں تپ کر اپنی شاعری کو جلا بخشی ہے۔وہ زندگی کے پرُپیچ حالات میں اُلجھ کر رہ جانے کے بجائے مسائل کی ستم ظریفی سے نبرد آزما ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں تازگی اور توانائی کا عنصر پوری شدّت کے ساتھ جلوہ گرہے:
’’شبلیؔ صاحب کی شاعری میں ذات کے شعور وآگہی کا ذکر موجود ہے۔ ان کی ذات شناسی ٹوٹتے لمحوں اور بکھرتی زندگی کے مسائل کے الجھاؤ سے گھٹ کر دم نہیں توڑتی ہے اور نہ ہی کائنات سے رشتہ منقطع کرلیتی ہے ۔ان کے یہاں معاشرتی پیچیدگیوں اور الجھاؤ کے باوجود شعور ذات کی قدر و قیمت ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ تمام تر وتازگی اور توانی کے ساتھ رواں دواں ہے۔‘‘(۵)
’’شاہ مقبول احمد کے مختصر افسانے‘‘پر طائرانہ نظر ڈالنے کے بعد موصوف اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شاہ مقبول صاحب نے جہاں گاؤں کے موضوعات سے افسانے میں چارچاند لگائے ہیں وہیں شہری زندگی کے چند خاص مسائل کو بھی اس میں سمونے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔ ان کے افسانے معاشرے کی نامساعد حالات وکوائف کا مرقع بھی پیش کرتے ہیں اور اس پر طنز بھی کرتے ہیں۔’’پریم چند کے افسانے ‘‘پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے انہوں نے پریم چند کے افسانوں کے تعلق سے یہ رائے دی ہے کہ پریم چند نے گائوں کے غریبوں ،کسانوں اور مزدوروں کی سچی عکاسی کی ہے اور یہی عکاسی ان کے افسانوں کی اصل روح ہے۔
جیلانی صاحب اپنی تحریروں میں فن اور فنکار کی اہمیت مسلم کرنے کے لئے اس کے عہد وماحول کو اوّلیت کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اعلیٰ درجے کا ادب اسی وقت تخلیق ہوتا ہے جب فنکار ذاتی طور پر زمانے کی کجروی کا شکار ہوا ہو ۔ اس کا ذہنی اورشعوری نقطہ نظر اس کجروی کی آنچ میں تپ کرکندن بنا ہو تب جاکر فن کے انمٹ نقوش ابھرتے ہیں۔موصوف کی نظر میں پریم چند،شاہ مقبول احمد،علقمہ شبلی اور پرویز شاہدی کا فن انہیں کا حصّہ ہیں۔ ان تمام مضامین میں انہوں نے ان کے حالات کی ستم ظریفی کو اہمیت دی ہے۔ مثلاً’’پرویز شاہدی کے نظریۂ فکر فن ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’شاعری،شاعر کی شخصیت ،شعورفن ،حقائق کی آگہی سے وجود میں آتی ہے،سماجی شعور ،تاریخی ادراک،ترک ہوس اور عرفان ذات اس کو استناد بخشتے ہیں۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب شاعر کا ذہن رسا اور اس کے احساسات وجذبات سماجی تبدیلیوں کا پر خلوص طریقے سے خیر مقدم کریں اور برتیں۔‘‘(۶)
سماجی اتھل پتھل کے ساتھ ساتھ معاشی کشمکش سے بھی معاشرے میں نا اتفاقی پیدا ہوتی ہے۔حساس فنکار ان تبدیلوں سے نبردآزما ہوئے بغیر نہیں رہتا ۔ جیلانی صاحب شخصیت کی تعمیر میں معاشی اتار چڑھاؤ کو بھی اہم سمجھتے ہیں۔ انہوں نے سماج کی اس فلسفیانہ بحث کو بڑی فنکاری سے تنقیدی متن کا حصّہ بنایا ہے۔’’علقمہ شبلی کا فکر ی شعور ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’شعور کی انفرادی تعمیر وتشکیل میں اس عہد کے مادی حالات کے ،عوامی ضروریات اور خواہشات کا دخل ہوتا ہے ۔فنون لطیفہ میں ان ضرورتوں اور خواہشوں کی حیثیت کا اندیشہ اور اس کی اہمیت کا یقین معاشی زندگی کے اتارچڑھاؤں سے ہوتا ہے،دراصل معاشی تضاد سے سماجی سطع پر کشمکش شروع ہوتی ہے اور مختلف میلانات ورحجانات ،خیالات ونظریات اور افکار وتحریکا ت جنم لیتی ہیں۔‘‘(۷)
المختصر جیلانی صاحب کی اس کتاب میں ان کامخصوص تحقیقی وتنقیدی شعور جلوہ گر ہے۔اس نہج کی تنقیدی کتابیں بنگال میں بہت کم منظر عام پر آتی ہیں۔ اس مجموعے کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ موصوف کے بیشتر مضامین کا موضوع بنگال اور اس کے ادباء وشعرا ہیں ۔لہذا انہوں نے بنگال کی ادبی فضا کی قدر وقیمت معتین کرکے یہاں کے تنقیدی ادب میں اضافہ کیا ہے۔
٭٭٭
حواشی
(۱)کنور ؔکی قصیدہ نگاری،ڈاکٹر ابوبکر جیلانی،مشمولہ تفہیم وتشریح ،کولکاتا،۲۰۱۲،صفحہ۴۵
(۲)ایضاً،صفحہ۴۶
(۳)وحشتؔ اور اتباع غالبؔ،ڈاکٹر ابوبکر جیلانی،مشمولہ تفہیم وتشریح ،،کولکاتا،۲۰۱۲،صفحہ۷۵
(۴)شاکرؔاور وحشتؔ،ڈاکٹر ابوبکر جیلانی،مشمولہ تفہیم وتشریح ،کولکاتا،۲۰۱۲،صفحہ۹۰
(۵)علقمہ شبلی کا فکری شعور،ڈاکٹر ابوبکر جیلانی،مشمولہ تفہیم وتشریح،کولکاتا،۲۰۱۲،صفحہ۱۳۷
(۶)پرویز شاہدی کا نظریۂ فکر وفن،ڈاکٹر ابوبکر جیلانی،مشمولہ تفہیم وتشریح ،کولکاتا،۲۰۱۲،صفحہ۱۲۲
(۷)علقمہ شبلی کا فکری شعور،ڈاکٹر ابوبکر جیلانی،مشمولہ تفہیم وتشریح،کولکاتا،۲۰۱۲،صفحہ۱۳۴
Dr.Irshad Shafaue
Dept. of Urdu
TDB College, Raniganj, West Bengal
Ph: 8100035441
—
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |