Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
تحقیق و تنقید

آفتاب تنقید کی تخلیقی ضیا: وارث علوی – ڈاکٹرترنم ریاض

by adbimiras مارچ 13, 2021
by adbimiras مارچ 13, 2021 0 comment

وارث علوی کے انتقال سے کچھ ہی روز پہلے ممبئی میں اُن کے فن و شخصیت پر منعقدہ سیمینار میں پڑھے گئے مضمون کے اہم اقتباس:

دنیا کا کوئی بھی ادب تنقید کے بغیر نامکمل ہے اور یہ بات زبانِ اردو پر بھی صادق آتی ہے۔ تنقید کی سپاٹ اور خشک سرزمین سے کبھی کبھی ایسے چشمے بھی پھوٹ پڑتے ہیں جو قاری کو تازگی اور شگفتگی بخشتے ہیں۔ اردو میں یہ کام پروفیسر وارث علوی نے کیا ہے۔ ان کے تخلیقی ضیاپاروں سے اردو ادب روشن اور منور ہے۔ ان کا ایک منفرد اور قیمتی  contribution  یہ ہے کہ انھوں نے اردو تنقید کو تخلیق کے مقام تک پہنچایا ہے۔ اکثر و بیشتر تنقید نگار تخلیق سے مکمل طور پر الگ ہوجاتے ہیں اور objectivity حاصل کرنے کی تگ و دو میں تنقید کو بے جان بنا دیتے ہیں۔ وارث علوی فن پاروں میں کسی ماہر غوطہ زن کی طرح ڈوب کر ابھرتے ہیں تو ان کے دونوں ہاتھ موتیوں سے بھرے ہوتے ہیں اور اس سارے عمل میں انھیں objectivity کا بھی برابر احساس رہتا ہے۔

اردو دنیا نے ایسی تخلیقی تنقید اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی اور اس کے بعد بھی شاید کبھی نہ دیکھے ۔ تنقید اگر فن ہے تو اس میں وارث علوی کی شخصیت کا پورا اظہار ہے اور یہ شخصیت مرکب ہے ایک بہت ہی منفرد حس مزاح سے، طنز سے اور مشکل مسائل کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کرنے سے۔ وارث علوی نے تنقید کی خشکی میں تخئیل اور حس مزاح سے وہی رنگارنگی اور تازگی پیدا کی ہے جو ادب اور زندگی میں پائی جاتی ہے۔ ادب کو انھوں نے اپنی زندگی کا مرکزی مقام دیا ہے۔ ان کے یہاں تنقید میں تنوع بہت ہے۔ طنز بھی ہے اور مزاح بھی ہے، سادگی بھی ہے اور پرکاری بھی ہے۔ ان کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ انھوں نے تنقید کو readableبنایا۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

”دنیا کی بڑی ناولیں جنگل کی طرح پھیلتی ہیں۔ ان میں آرٹی ناولوں کی تراش خراش اور چمن بندی نہیں بلکہ ان کا حسن پھیلتے ہوئے جنگلوں کا مہیب اور پراسرار حسن ہے۔ بیانیہ آرٹ کی حنابندی کا کام نہیں کرتا۔ استعاروں کے کنگن سے نہیں کھیلتا۔ علامتوں کے نگینے نہیں ٹانکتا۔ بلکہ آبشاروں کی طرح گرتا ہے زبان کا لاکھوں ٹن پانی گرجتا ہوا، نرم و نازک پھوار اڑاتا، دھنک کے رنگ بکھیرتا، وادی کو صاف و شفاف جھیلوں میں بدلتا، جنگل کی پرپیچ ندیوں کی مانند بہتا، تاریخ اور تمدن اور تہذیب کو اپنی باہوں میں لیتا ہوا ہمیں حیرت زدہ اور ششدر چھوڑ جاتا ہے۔ رزمیہ نظموں اور زمیہ ناولوں کا یہی اسلوب ہے۔“

(شاعری اور افسانہ: بت خانہ چین، ص 460-61)

وارث علوی کی شخصیت کے الگ الگ نمایاں پہلو ہیں۔ تعریف کرنے پہ آئیں تو شاعرانہ لب و لہجہ، کھری بات کہنا ہو تو جملوں کی کرشمہ سازی۔ ان کی تنقید خشک فلسفیانہ مباحث سے عبارت نہیں بلکہ وہ قاری کی ادبی دلچسپیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتی ہے۔ اس لیے ان کی تحریریں کوئی دبستان نہیں بناتی بلکہ وہ ادب اور آرٹ کے مختلف متنوع پہلوؤں کا رنگارنگ مشاہدہ پیش کرتی ہیں۔ ان کی تنقید پر تخلیق کا گماں گزرتا ہے۔ ان کا اسلوب کچھ ملکوتی سا ہے کہ آمد کے کسی شعر مسلسل کی صورت نازل ہوتا چلا جاتا ہے۔

یہ اقتباس دیکھیے:

”ملارمے (فرانسیسی شاعر و نقاد) نے کہا ہے کہ شاعری خیالات سے نہیں، الفاظ سے کی جاتی ہے۔ شاید اسی لیے ایلیٹ نے یہ نہایت بصیرت افروز بات کہی کہ شاعری کا سماجی فنکشن یہ ہے کہ وہ زبان کو محفوظ رکھے۔ موضوع کی اہمیت سہی لیکن لوگ سونے کی بدصورت مورت پر پتھر کے خوبصورت مجسمے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آرٹ اپنے میڈیم کا شدید ترین استعمال ہے۔ شاعری کا میڈیم زبان ہے جس طرح سنگیت کی آواز، مصوری کا رنگ اور سنگ تراشی کا سنگ، مصور سبزے کو محض ہراہی نہیں بلکہ نیلا، پیلا، سیاہ، سرخ، زریں اور سیمابی بھی بتاتا ہے اور اسی طرح رنگوں کے اس نظام کو درہم برہم کردیتا ہے جس سے ہم اپنی زندگی میں مانوس ہوتے ہیں۔ مغنی کا نغمہ ہوش ربا سنیے۔ آواز کبھی میگھ کی طرح برستی ہے، کبھی شعلے کی طرح سلگتی ہے، کبھی پراسرار جنگلوں کی گنگناہٹ، کبھی گھنی جھاڑیوں میں بہتی ہوئی ندی کا پرسکون ترنم اور کبھی پہاڑوں کے سناٹوں میں لرزتی کسی پرند کی پکار بنتی ہے۔ سنگ تراش کے ہاتھوں کا لمس پاکر پتھر کبھی پھول کی پنکھڑیاں بنتے ہیں، کبھی حریر اور پرنیاں، کبھی کنواری مریم کی معصومیت کبھی رقاصہ کی پرشوق شرارت۔ شاعری کا میڈیم زبان ہے اور ایلیٹ نے تو کہا ہے کہ نہایت ہی سرکش اور ضدی میڈیم ہے۔ الفاظ چوراہوں پر بھٹکتے ہیں، جگ بیتی میں پستے ہیں اور ان کے بدن سے پیش رو شاعروں کے اتنے احساسات چمٹے ہوتے ہیں کہ شاعر سوچتا ہے کہ ان سے اپنے منفرد احساس کی ترجمانی کا کام کیسے لے۔“ (کچھ بچا لایا ہوں، بت خانہ چین، آخر میں)

علم و ادب کی اس درافشانی میں میرے خیال سے پروفیسر علوی کے فطرتاً فن کار ہونے کے علاوہ کہ playwright بھی ہیں، مغربی ادب کا مطالعہ بھی کارفرما ہے۔ جو بھی تحریکیں آئیں ان سب سے انھیں واقفیت اور درک ہے۔ ان کی کتب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے ڈبلیو ایچ وارڈن (W H Warden)، ٹی ایس ایلیٹ (T S Eliot)، میتھیو آرنلڈ (Methew Arnold) اور بہت سے دوسرے اہم ادبا کو براہِ راست ایک قاری کی طرح پڑھا ہے نہ کہ ترجموں کے ذریعے۔ ان ادیبوں پر تحریر شدہ تنقید سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ ان کے بارے میں ان کا اپنا وژن ہے اپنا تجزیہ ہے۔ وارث علوی کی تنقید میں نظریاتی اشتہار ملتا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ اور باوقار سرمایہ ہے۔ ان کا ہر مضمون Quotable Writings کا اعلیٰ نمونہ ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اعلیٰ ادب ہر دور میں تخلیق ہوتا رہا ہے مگر اردو کا ہر قاری جانتا ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں آپسی رنجشوں نے اس زبان کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ نظریاتی چپقلشیں یا کچھ کچھ معاصرانہ چشمکیں، گو کہ ہمیں ذاتی طور پر پسند نہیں مگر، ہوا کرتی ہیں دنیا میں۔ مثال کے طور پر انگریزی ادب کے قارئین جانتے ہیں کہ برنارڈشا نے شیکسپیئر پر کس قدر تنقید کی ہے۔ یہاں تک کہ لیڈی میکبیتھ کے کردار میں انھیں کوئی کردار ہی نظر نہیں آتا یا جیسے اوتھیلو کی جادو بھری شاعرانہ زبان کو انھوں نے غیرضروری تک کہہ دیا مگر خود ان کے ڈراموں میں شیکسپیئر کے اسلوب کی جھلک پوشیدہ نہیں رہ پاتی۔ اس کے باوجود برنارڈشا نے ایک جگہ لکھا ہے:

"But i am bound to add that i pity the man who can not enjoy Shakespeare. He has outlasted thousands of able thinkers and will outlast a thousand more”

برنارڈشاہ بنیادی طور پر صحافی تھے۔ صحافت کی تخلیق سے رقابت کچھ سمجھ میں آسکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی مفصل جائزہ نہیں لیا گیا۔ لیکن انھوں نے کھلے دل سے شیکسپیئر کی عظمت کا اعتراف کیا۔ ہمارے یہاں تو عجب بات یہ ہے کہ وارث علوی کی تنقید پر کسی نے سیر حاصل لکھا ہی نہیں۔ جب کہ خود انھوں نے اپنے ہر معاصر نقاد کی ذرا سی بھی قابلِ توجہ تحریر کو نظر انداز نہیں کیا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اکثر ادب نواز صاحب اثر و رسوخ اس بات کا اعتراف بھی نہ کرسکے کہ انھوں نے پروفیسر علوی کے خامۂ فصیح بیان کے کراماتی خزینے سے ہر قاری کی طرح دانشوری کے موتی چنے ہیں۔ اس بات پر عام قاری حیران ہیں اور وارث علوی کے فن کو یعنی اعلیٰ آرٹ کو پسند کرنے والے پریشان بھی۔ شاید اس لیے کہ وارث علوی نے نظریاتی لڑائیاں بھی لڑیں اور وہ کسی ایک مسلک کے مرہون نہیں رہے۔ (یہ بھی پڑھیں کشش اور گریز – سید کامی شاہ )

کسی زمانے میں پاپولر ادب اور خالص ادب جدا جدا زمروں میں آتا تھا اور یہ بات جب صادق آتی تھی جب پاپولر ادب میں ابنِ صفی اور کرشن چندر جیسے بڑے فنکار، قاری کی معلومات میں اضافہ اور تخلیقی تشنگی کی تشفی کے ساتھ ساتھ ذہنی اور علمی تربیت ایک اعلا درجے کے اینٹرٹینگ انداز میں کیا کرتے تھے اور اعلیٰ ادب کے قاری کو مسجع اور مقفیٰ، پرشنائزڈ اور عمربیائزڈ قسم کی زبان کا نشہ تھا یا مضبوط تہذیب کی پروردہ خالص بامحاورہ اردو سراہی جاتی تھی۔ اب یہ بات تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ پاپولر ادب کے نام پر آپ کو سطحی زبان نظر آئے گی اور ادب کہلانے والی غلط اردو میں تحریر کتابیں، جن میں آپ کوئی ادبی زاویہ تلاش کرتے کرتے تھک ہار کر رہ جائیں گے۔

اس تناظر میں وارث علوی ایک منارۂ نور کی حیثیت سے ابھر کر آتے ہیں۔ ان کی علمی، تخلیقی اور تنقیدی شعائیں اردو ادب کے ہر گوشے کو منور کرتی ہیں۔ انھوں نے تنقید کو ایسا معیار عطا کیا ہے کہ اردو ادب کے طالب علم اس اعلیٰ ادب سے ہمیشہ مستفید ہوتے رہیں گے۔ وہ اپنے عالمانہ طرزِ بیاں سے ایک عجیب قسم کا aura پیدا کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں زبان و بیان کے لحاظ سے ایک حیرت آفریں ماحول ترتیب دیتی ہیں کہ ہر جملے کی کئی علمی جہتیں ہوتی ہیں اور ہر جہت میں ایک نیا زاویہ آپ کو نئے معنی سے روشناس کرتا ہے، ہر معنیٰ سے دانش و آگہی کے نئے سوتے پھوٹتے چلے جاتے ہیں جو آپ کے ذہن میں نئے سوالات اور نیا تجسس پیدا کرتے ہیں اور آپ مزید بے قرار ہونے کے لیے اور پڑھتے ہیں، اور یہ سلسلہ کسی طرح منقطع کرنے پر آپ کے ذہن و دل راضی ہوتے نظر نہیں آتے۔ اردو ادب میں ایسا علمِ وہبی کبھی پہلے نہیں دیکھا گیا۔ وارث علوی کی تنقیدی نگارشات ادب آرٹ، سیاست، سماجیات، تہذیب، تاریخ، انسانی نفسیات، کارپوریٹ ورلڈ اور دنیا بھر کے علوم کا سیر حاصل ذکر ایک منفرد انداز اور سحر اسلوب بیان کا مرکب ہے۔ قاری کا ذہن حیران و ششدر علم کے سمندر میں ڈوب کر گرد و پیش سے انجان اور بے خبر جانے کہاں تیرتا پھرتا ہے مگر کنارے کی طرح لوٹنے کو جی نہیں چاہتا اور اردو ادب کی تنقیدی دنیا میں جس طرح کی خیمہ بندیاں نظر آتی ہیں، وہ قابلِ افسوس ہیں اور مضحکہ خیز بھی۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ان کے سربراہوں کی طرح تنقید اور تجزیہ نگاروں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وارث علوی کو بھی اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ بغیر کسی اشتعال انگیزی یا جذباتیت کے ایسی صورتِ حال پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے مخصوص طنز و مزاح کے اوزاروں (Tools) کا استعمال کرکے اپنے تاثرات تحریر کرتے ہیں۔ ایک مثال دیکھیے:

”تو بات دراصل یہ ہوئی کہ ہم نے منٹو پر دو تین مضامین لکھے تو اعتراض ہوا کہ منٹو کی cult بنا رہے ہیں۔ اب دیکھیے انگریزی میں سومر سیٹ مام جیسے دوئم درجے کے ناول نگار پر کم ازکم آٹھ دس تنقیدیں تو میری نظر سے گزری ہیں۔ یہاں دو تین مضامین میں ہی cult بنانے کا خدشہ جاگ اٹھتا ہے۔ انیسیوں اور دبیریوں کی گروہ بندی سے ابھی تک ہم نجات نہیں پاسکے۔ منٹو کی تعریف کیجیے تو کرشن کے گوالے سمجھتے ہیں کہ استاد پر، در پردہ چوٹ کی گئی ہے۔ اب ہم نے ادب میں قلعی گر کا ہی دھندا شروع کیا ہے تو مضامین کا پیٹ پالنے کے لیے برتنوں کی ضرورت تو پڑے گی۔ منٹو پر لکھا تو کرشن چندر پر بھی لکھا۔ اب بیدی پر لکھیں گے۔ کرشن چندر نے فن کی دیکچی کا استعمال احتیاط سے نہیں کیا تو کچھ ٹھوکنا بجانا بھی پڑتا ہے۔ ہم پروہت توہیں نہیں کہ برتن کا استعمال عصری آگہی کا پرشاد بانٹنے کے لےے کریں۔“ (جمالیات اور اخلاقیات کی کشمکش، بت خانۂ چین)

اس پر یاد آیا کہ پروفیسر صاحب نے ’راجندر سنگھ بیدی: ایک مطالعہ‘ ہمیں بھی ارسال فرمائی تھی مگر اس پر ہمارا نام نہیں تھا۔ وہ کتاب باقر مہدی کے نام تھی۔ لکھا تھا:

”پیارے باقر مہدی کے لیے، ان پرکیف دنوں کی یاد میں جب تم یہ کتاب لکھنے کے لیے اصرار کیا کرتے تھے۔“ وارث علوی احمد آباد، 30 جنوری 2006

ہمارے نام کی کتاب شمس الحق عثمانی صاحب کے پاس پہنچی تھی۔ اس میں کسی کی ہمارے لیے ایسی ہی کتاب لکھنے کی دعائیں تھیں۔ استاد محترم کی دعاؤں کے طفیل ہماری کتابوں کی پذیرائی ہوئی، دلچسپی سے پڑھی گئیں، تحقیق کا موضوع بنیں۔ مگر خیال آتا ہے کہ اگر اردو کی یہ صورتِ حال نہ ہوتی تو پروفیسر صاحب کی کتابیں اپنے صحیح مقامات پر ہی پہنچتیں کہ استاذی نے آٹوگراف کرکے جہاں کتب بھیجی تھیں وہاں کوئی اردو نہ جانتا ہوگا اور اگر جانتا بھی ہوگا تو اسے کتابیں ارسال کرنے کی اس تہذیب کے بارے میں علم نہ ہوگا اور اگر ہوگا بھی تو پرواہ نہ ہوگی۔ ہمارے خیال میں اردو ایک تہذیب کا بھی نام ہے۔ دراصل جہاں زبانیں کمزور ہونے سے اقدار پر اثر پڑتا ہے وہیں زبانوں کے تنزل سے مجروح اقدار کا بھی تعلق ہوتا ہے۔

مجھے اکثر و بیشتر یہ احساس ہوتا ہے کہ وارث علوی کی شخصیت کا ایک رنگ درویشانہ بھی ہے۔ ان کے مزاج میں ایک انکسار ہے۔ برصغیر کے اتنے اہم ادیب اور تنقید نگار ہونے کے باوجود وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ نقاد کو ہر حال میں قاری رہنا چاہیے۔ جب ہی وہ ادب کی تنقید اور تجزیے کے ساتھ مکمل انصاف کرسکتا ہے۔ اس طرح کے assertion کے لیے جس بالغ النظری اور وسیع القلبی کی خصوصیات ہونی چاہئیں، وہ وارث علوی کی شخصیت کا خاصہ ہیں۔

ذرا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

”میں کہہ چکا ہوں کہ نقاد کی بڑی آزمائش تو یہی ہے کہ وہ اپنے اندر رہ رہے قاری کو مرنے نہ دے۔ قاری کے اعصاب زندہ ہوتے ہیں اور جھوٹ نہیں بولتے۔ تنقید جھوٹ بولتی ہے کیوں کہ تنقید نظریاتی اور گروہی پاسداریوں کے تحت یا اپنی عالمانہ نخوت اور بلند جبینی کی نمائش کی خاطر پرفریب بیانات دینے کے ہتھکنڈوں سے واقف ہوتی ہے۔ نقاد جب ایک خاص قسم کے ادب کا داعی بنتا ہے تو وہ ایک چرب زبان سیلزمین کی طرح اپنے برانڈ کی تعریف کرتا ہے۔ نقاد اور قاری کا رشتہ سیلزمین اور کنزیومر کے رشتے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ لکھنے والے بھی نقادوں کے دستِ نگر بن جاتے ہیں کہ ان ہی کی نگاہِ التفات سے ان کی بے جان تحریریں جنسِ گراں بن سکتی ہیں۔ ایک وقت وہ آتا ہے جب نقاد خود اپنی چرب زبانی اور طراری کا ایسا گرویدہ ہوجاتا ہے کہ نہ اسے قاری کی ضرورت رہتی ہے نہ فنکار کی۔ جنس بکے یا نہ بکے۔ افسانہ چلے یا نہ چلے، بہرصورت اس کا قلم چلتا رہتا ہے۔ خود کام تنقید کو ادب تک کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ بولتی رہتی ہے ادب کے حوالوں کے بغیر، ادیبوں کے ذکر کے بغیر، تاریخ، فلسفہ، تہذیب اور معاشرتی علوم کے متن کے بغیر۔ یہ تنقید ادب نہیں بولتی، صرف تنقید بولتی ہے اور ایک ایسی زبان میں جو صرف اس کا جارگن (Jargon) کہلاتی ہے۔“ (بت خانہ، چین 607)

وارث علوی کے اس غیرجانب دارانہ اور Objective Framework کے تحت نئے اور پرانے یا قدیم اور جدیدادیبوں اور تخلیق کاروں کی تقسیم معدوم ہوجاتی ہے۔ وہ واقعتاً ایک قاری کی طرح ادب کا مطالعہ کرتے ہیں اور جہاں انھیں اطمینان ہوتا ہے، وہ ان تخلیقات کو اپنی تنقید کا موضوع بناتے ہیں۔ ہم بھی نہایت انکساری سے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری چند کاوشیں پروفیسر صاحب کی تنقید کا موضوع بنیں۔

ہمیں مگر استادِ محترم وارث علوی سے شکوہ بھی ہے کہ :

خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے

اردو ادب کی ایک اہم اور نامور فکشن رائٹر قرة العین حیدر کے کام میں استاذی نے کچھ بہت دلچسپی نہیں دکھائی۔ آپ ہی کا خامۂ فن شناس اورتخلیقی ذہن قرة العین حیدر کی تحریروں کے ساتھ انصاف کرسکتا تھا۔

پارٹیشن کے بعد سے اہل اردو کے درمیان بے اطمینانی، بے یقینی اور عدم تحفظ پایا جاتا ہے۔ اس کی طرف اس زبان کے علم برداروں نے توجہ نہیں کی۔ اردو کی بقا کے لیے مل جل کر کچھ کیا گیا ہوتا تو آج صورتِ حال جدا ہوتی۔

اس حکمتِ عملی کے برعکس یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

”اقبال صدی کے موقعے پر ٹائمز آف انڈیا میں باقر نے اقبال کے خلاف کالم لکھا۔ میں دہلی میں ایک بین الاقوامی سیمینار میں تھا۔ بہت سے لوگ چیں بہ جبیں ہوئے۔ مجھے بھی اچھا نہیں لگا۔ باقر نے جو باتیں لکھی تھیں غلط نہیں تھیں لیکن صحافتی کالم میں چونکہ اقبال کے فن، فلسفے اور عظمت کے بیان کی گنجائش نہیں تھی اس لیے پورا کالم عیب جو اور منافقانہ بن گیا تھا۔ اُس وقت کمارپاشی اور ان کا حلقہ اقبال کے مقابلے میں میراجی کو پیش کررہا تھا۔ کسی سنجیدہ مضمون میں اقبال پر تنقید اور بات ہے اور وقتِ جشن جب کہ پورے ملک کی نظریں اس پر مرکوز ہوں، ان لوگوں کی نظر میں جو اردو نہیں جانتے اور پورے اقبال سے واقف نہیں، اسے رسوا کرنا مجھے بہت ناگوار گزرا۔ (باقرمہدی پر خصوصی اداریہ، اردو ادب)

پروفیسر وارث علوی کی سب سے بڑی طاقت ساری آدمیت کے لیے انسان کی طرح سوچنا ہے۔ ان کی قابلیت کا سہرا اسی انسانیت اور اسی راست بازی کے سر جاتا ہے۔ ملاحظہ کریں:

”ایسی ہی تکلیف مجھے اس وقت پہنچی جب باقر نے سلمان رشدی کی حمایت میں بیان دیا۔ خیر میں کوئی مذہبی آدمی نہیں ہوں لیکن Blasphemy کسی بھی مذہب کی ہو میں پسند نہیں کرتا کیوں کہ اس میں لاکھوں کروڑوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ سلمان رشدی کی کتاب سے تو عالمی جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ لیکن کیا کتاب اس قدر طاقت ور تھی۔ بطورِ ناول اس کا مقام کیا ہے، میں تو اسے تھرڈریٹ ناول سمجھتا ہوں۔ سوائے مذہب کی تضحیک کے کیا تھا اس میں۔“ (باقر مہدی پر خصوصی اداریہ اردو ادب)

جاگتی، بولتی اور مکالمہ کرتی یہ زندہ تحریریں اردو زبان کے رہتے تک رہیں گی۔ خدا ان کے خالق کو صحت اور تندرستی سے نوازے۔ اس تحریر کو ہم اپنی ایک غزل کے مقطعے پر ختم کرتے ہیں کہ:

میں ہوں اور وارث علوی کی کتابیں

دریچے ذہن کے کھلنے لگے ہیں

Tarannum Riyaz,

 C-11, Jangpura Ext.

 New Delhi – 110014

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

 

 

ترنم ریاضوارث علوی
0 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
علی سردار جعفری کا کالم ” دار و رسن‘‘ – ڈاکٹر عبد السمیع
اگلی پوسٹ
مسجد ہی نہیں قبلۂ اول بھی ہے ہمارا – اسماء جبین

یہ بھی پڑھیں

دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –...

جولائی 10, 2025

جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

جون 20, 2025

شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

دسمبر 5, 2024

کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –...

نومبر 19, 2024

کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر...

نومبر 17, 2024

کوثرمظہری کا زاویۂ تنقید – محمد اکرام

نومبر 3, 2024

علامت کی پہچان – شمس الرحمن فاروقی

مئی 27, 2024

رولاں بارتھ،غالب  اور شمس الرحمان فاروقی – ڈاکٹر...

فروری 25, 2024

مابعد جدیدیت، اردو کے تناظر میں – پروفیسر...

نومبر 19, 2023

اقبالیاتی تنقید کے رجحانات – عمیر یاسر شاہین

نومبر 4, 2023

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (592)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (200)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,037)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (531)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (203)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (401)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (213)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (474)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,127)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (32)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (894)
    • خصوصی مضامین (126)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (68)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں