یکم دسمبر ۲۰۲۲سے’’ عالمی افسانہ فورم ‘‘کا ’’ادبی دستک‘‘ایونٹ شروع ہوا اور ۳۱دسمبر ۲۰۲۲کو اس کااختتام ہوا۔اس دفعہ کل ۳۲افسانے فورم کے وال پرلگے جن پر پوری دنیا کے قاری اپنے اپنے خیال کااظہار دل کھول کرکئے اور صبح اور چوبیس گھنٹے قارئیں کی طرف سے گلوں کی بارش ہوتی رہی۔اس دفعہ محترمہ انجم قدوائی(انڈیا)اور میروسیم (جنوبی کوریا)زیادہ سرگرم نظرآئے۔بقول میروسیم(جنوبی کوریا):
’’عالمی افسانہ فورم ایک نئی نسل،نئے طرز فکر اور نئے تصور فن کی آمد کا اعلان کرتاہے ۔ہرسال کی طرح اس سال بھی عالمی افسانہ فورم نئے لکھنے والوں کو قارئین کی بڑی تعداد کے سامنے لایا۔‘‘
اس فورم کا واحد مقصد اردو افسانے کا فروغ ہے۔اس ایونٹ میں شامل افسانوں کے عمیق مطالعے سے یہ احساس جاگزیں ہوتا ہے کہ کسی ادبی فن پارے میں زندگی کے شب وروز کی ترجمانی کرتے ہوئے الفاظ مثلِ چراغ جل اٹھے تو روشنی ذہن کے سائبانوں میں بہت دور تک جاتی ہے جس کے اجالے میں اس کے حسب ونسب بہت صاف دکھائی دیتے ہیں۔یہ حقیقت روز روشن ہے کہ ادبی فن پارے میں کسی موضوع پراظہار کے وسائل میں استعارے کو مرکزیت حاصل ہے۔اس بزم میں اب تک جتنے افسانے پیش ہوئے کم وبیش تمام افسانوں میں افسانے کی شعریت کے اس عنصر کو رقص کرتے دیکھا گیا۔جس سے قاری خوب خوب محفوظ ہوئے۔ایسا اس لیے کہ یہ عنصر ابلاغ وترسیل میں یہ وسعت پیدا کرتاہے نیزچند لفظوں میں ایک وسیع کینوس آنکھوں کے سامنے آجاتاہے ۔
رواں عصر میں بنی آدم نے زندگی کے ہر موڑ پرپت جھڑ کا سامناکیاہے۔خوابوں کی بکھرتی کرچیوں کو دیکھاہے۔اپنے حقوق کوسلب ہوتے دیکھاہے۔ کوکھ سے جنم لینے والی اولادکی طوطاچشمی کو دیکھاہے۔اپنوں کے آستین میں سانپ کو پلتے دیکھاہے۔امیدکو دھند میں کھوتے دیکھاہے۔ناامیدی کا زہر پیاہے۔اپنوں کے خون سفید ہوتے دیکھاہے۔ان ہی کا عکس ان افسانوں کے کینوس پر پیش ہوئے ہیں۔جہاں ستم رسیدہ کردارخاموش کھڑے ہوکر وقت کے بدلنے کا انتظار کررہے ہیں۔سب کے سب اپنے دکھ کو لے کر سماجی زندگی کے آنگن میں چپ چاپ کھڑے ہیں کہ کبھی تو زندگی کے یہ دھارے اپنی سمت کو بدلیں گے اور زندگی آسودہ حال ہوگی۔امید کے غنچے کھلیں گے۔خوابوں کی کلیاں مسکرائیں گی۔خوابوں کی تعبیرحقیقت کا لبادہ زیب تن کرے گی ۔اس ضمن میںمنیر فراز کا افسانہ گل لالہ میں جزئیات نگاری خوب ہوئی ہے جو ایک رومانی افسانہ ہے ۔بابا مندری کے مزار کے احاطے میں نیم کے پیڑ کی جڑ میں گل لالہ کا روزانہ پانی دینا ،خشک پتے اور پھول اپنی دا من میں سمیٹ کر ساتھ لے جانا،انہیں جھاڑو نہیں لگانا کہ یہ مقدس پھول ہیں،قاری کو بھی جذباتی بنا دیتاہے اور دھیرے دھیرے قاری ایک نئی دنیا میں قدم رکھتاہے جہاں اس کو بھی نمبولی کے پہلے پھول کا انتظار ہوتاہے لیکن خوا ب کی تعبیر نہیں ملتی ہے کہ داستان محبت میں بے وفائی کی روایت پرانی رہی ہے۔یہ روایت اس افسانے میں بھی دوہرائی جاتی ہے اور سات برسوں کے بعد افسانے کے راوی کو اس کوفت سے گذرنے پڑتاہے جو خود اس داستان کا مرکزی کردارہے۔
’’میں نے رومال ناک کے قریب رکھاچہرہ آسمان کی طرف اٹھایا،گاف پر دو پیش ڈال کر دھیرے سے گل لالہ کہا اور لمبی سانس کھینچی۔کسی بد بخت میجر کے سڑے ہوئے لہو سے اَٹے رومال سے تازہ زعفران کی خوشبو آرہی تھی ‘‘
اس موضوع کی وسعت بڑھاتے ہوئے دعا عظیمی کا افسانہ’’ محبت نامہ لکھنے والی لڑکی ‘‘سادہ اسلوب میں بیانیہ فن پارہ ہے۔کوویڈ ۱۹ کے دنوں میں انسانی نفسیات کی کیسی کیفیت تھی اور لوگ کوویڈ وائرس سے کس قدر خوف زدہ تھے اسی کو درساتا یہ افسانہ پریم پتر کی تکنیک میں لکھا گیا ہے جس کو ایک معذور خواتین پیشے کے طور پر اپنا رکھی تھی لیکن اسے اپنے اپاہیج ہونے کی وجہ سے خدشہ تھا کہ کوئی اس سے پیار نہیں کرے گا۔اس لیے اس نے اپنے دبے جذبے کو کمانے کھانے کا ذریعہ بنالیا لیکن جیسے ہی اسے سیکوریٹی مین نے اسی کے لکھے خط کو اس کے لیے محبت نامہ کہاتو وہ خوشی سے پاگل ہوگئی اور اپنے ہی لکھے خط کو چومنے لگتی ہے۔ جس زماں میں یہ افسانہ رقم ہواہے اس میں ہر دس منٹ پر ہاتھ سینی ٹائزکیا جاتاتھا اور پبلیک پلیس پر اگر کوئی کھانس یا چھینک دیتاتو لوگ سانسیں بند کرلیتے یا اپنی ناک پر انگلی پھیرنے لگتے تھے نیز خوف زدہ نگاہیں ادھرادھردیکھنے لگتی تھیں ۔بغیر ماسک بس یا ٹرین میں اٹھ جانے سے ایک ساتھ کئی آوازیں اٹھتیں ۔۔ماسک لگاؤ۔۔۔ ایسے خوف ناک ماحول میں لوگوں کو روٹی کے لالے پڑگئے ۔لوگ بے روزگار ہوگئے۔اس بے کاری کودور کرنے کے لیے دونوں پیر سے اپاہیز لڑکی ٹائپ رائٹر پر محبت نامہ لکھنے کو بطور پیشہ اختیار کرتی ہے جو موت کے موسم میں اس کے لیے پیٹ بھرنے کا ذریعہ بنتاہے۔بہ باطن یہ افسانہ اس نکتے کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ وبائی دور میں بھی محبت کے جذبے زندہ تھے۔افسانے کا اختتامیہ جملہ اپنے دامن میں افسانویت کی پوری وسعت رکھتاہے۔ افسانہ’’ روشنی‘‘بھی محبت کے موضوع پر لکھا گیا ہے، فرق یہ ہے کہ’’ گل لالہ‘‘ میں گل لالہ وصل کی خواہش دل میں دبائے جہاں فانی سے رخصت ہوتی ہے۔’’محبت نامہ لکھنے والی لڑکی ‘‘میں وصل کے لیے امید کا چراغ روشن ہے جبکہ’’ روشنی‘‘ میں یہ اپنی تکمیل کی منزل سے ہمکنار ہوتی ہے۔ان تینوں افسانے کے نسائی کردار وں میں گل لالہ کا قد ذرا اونچا دکھائی دیتاہے جبکہ روشنی سے اندھیرا پھیلتاہے۔تینوں افسانے کی فضا رومانیت سے لبریز ہے ۔موازنے کی صورت میں گل لالہ میں پاکیزیت زیادہ ہے جبکہ روشنی کا اختتام تھوڑا کریہہ ہوجاتاہے۔افسانہ روشنی کے کردار بولڈ ہیں جبکہ گل لالہ میں ایک سرد مہری کا احساس ہوتاہے۔بہر حال یہ تینوں افسانے اپنے موضوع،ٹریٹمنٹ اور اسلوب کے اعتبار سے سادہ بیانیہ ہیں جو قاری کو متاثر کرتے ہیں۔نیر مصطفی کا افسانہ’’ رقیب سے ‘‘خودنوشت کے اسلوب میں لکھا گیاہے جس کے کینوس پرافسانے کا تھیم بے روزگاری کے دنوں کے مصائب کا ذکر،پھر مختلف شہروں کے تعارف کے ساتھ محبت اور بے وفائی کے ستم انگیزیوں کے ارد گرد منڈلا رہاہے۔کرداروں کی بھیڑ اور مختلف وقوعے کے شیڈ اتارنے میں قلمکار کی توجہ کبھی کبھی بھٹک جاتی ہے جس سے قاری کو بھی کوفت ہوتی ہے کہ آخر ہم کس تھیم کی تلاش میں آگے بڑھ رہے ہیں۔غزالہ عارف سے زیادہ دوسرے کرداروں کے ذکر سے طوالت میں اضافہ ہواہے۔افسانے میں جزوی بین المتنی ہے۔چند خوبصورت جملے دل کو ضرور موہتے ہیں۔مثلاً’’چناب سے بچ نکلے تو راوی میں جاڈوبے‘‘ احسان القاسمی کا افسانہ ’’آئس برگ‘‘ زندگی کی مصرفیت میں کھوجانے والے انسان کی ایک ایسی روداد ہے جو ذاتی زندگی کی ضروریات سے بھی غافل ہوگیا ہے۔جذبات جم کر برف ہوگئے ہیںاور آہستہ آہستہ پگھل کر ٹپ ٹپ چو رہے ہیں۔دراصل یہ استعارہ ہے سرد جذبات کے ۔خراٹے لیتاشوہر کو دیکھ کر اس کی بیوی مانندبرف پگھل رہی ہے لیکن اس کااحساس اس کے شوہر کو ذرہ برابر نہیں ہے کیونکہ زندگی کی مصروفیت نے اس کونگل لیا ہے۔افسانے کی بنت بہت خوب ہے۔منظرنگاری کا دلکش نظارہ قاری کوبھاتاہے۔افسانہ فنی چابک دستی کا بہترین استعارہ ہے۔زبان دلکش اور اسلوب سادہ بیانیہ ہے۔افسانے میں افسانویت ہے۔افسانے کے دونوں مرکزی کردارخاموشی سے بہت کچھ کہہ جاتے ہیں اس خاموش زبان کو سمجھنے کے لیے قاری کو ذہین ہونا شرط ہے۔حسن امام کاافسانہ’’ انتظار‘‘کا اسلوب سادہ بیانیہ ہے جس میں وہی ذائقہ ہے جو میر کی شاعری میں ہے۔جس عصر کی روداد بیان ہوئی ہے اس میں فرشٹریشن ہے جس کے سبب افسانے کی فضامیں مایوسیت کے سائے بہت دور تک لہراتے نظر آرہے ہیں لیکن مثبت بات یہ ہے کہ راوی ناسٹلجیائی کیفیت کے گرداب میں نہیں پڑتاہے ۔ جس کے باعث افسانے کا اختتام ایک ایسے موڑ پر ہوتاہے جہاں فرشٹریشن کے باوجو امید کا چراغ روشن ہے کہ کوئی مسیحا آئے گا۔!یہی تقین افسانے کی مایوسیت کی دبیز چادر کو چیر کررکھ دیتاہے۔سادہ بیانیہ کا جادو چل رہا تھاکہ درمیاں میں افسانہ اسکیچ اسکرین پر نمودار ہواجس کو پڑھ کر یہ تاثر پیدا ہواکہ کوئی بھی فن پارہ اس لیے پڑھا جاتاہے کہ جمالیاتی حس کو تسکین پہنچے ۔تفریح کا کوئی سامان مہیاہو یا کوئی ایسی بات ہو جس سے سبق ملے ۔نیز حس نے یہ بھی اشارہ دیا کہ افسانے کی ایک اپنی زبان ہوتی ہے جس میں افسانویت کے ساتھ ساتھ زبان وبیان کی چاشنی بھی قاری کو باندھے رکھتی ہے اور جب کہانی ختم ہوتی ہے تو کچھ دیر تک کہانی انسانی دماغ کے اسکرین پر چلتی رہتی ہے۔ اگر مذکوہ مفہوم کی روشنی میں افسانے کی قرأت ہو تو شہریار قاضی کاافسانہ’’ اسکیچ‘‘چستاں ہوگیا ہے جس میں ترسیل کا مسلہ بہت زیادہ ہے۔ بقول شین احمدزاد:
’’میری نگاہ میں یہ علامتی نہیں بلکہ ایک مجرد تخلیق ہے جسے مصنف نے ذرا خام حالت میں ہی نمائش کے لیے پیجش کردیا ہے۔اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں سے ایک وجہ کسی بھی صورت میلے میں شامل ہوتاہے بھی ہوسکتی ہے۔۔اس تخلیق کو اگر مزید وقت دیا جائے اس کی کرافٹنگ پر مزید وقت لگایا جائے تو یہ تخلیق شاہکار بن سکتی ہے۔‘‘
کنول بہزاد کا افسانہ’’ دردبہتے ہیں ‘‘کا بیانیہ رواں ہے جہاں ترسیل کا کوئی مسلہ نہیں ہے۔افسانے کا اختتام ایک اسکیچ سے ہوتاہے جو فن کاری کا حسین نمونہ ہے۔رواں ایونٹ میں افسانہ’’ اسکیچ ‘‘کا اختتام بھی اسکیچ سے ہوتاہے لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ثانی الذکر کی ترسیل تھوڑا مبہم ہے جب کہ’’ درد بہتے ہیں‘‘میں برش اور رنگ سے جو تصویر بنائی گئی ہے، اس سے انسانی ہمدردی کے علاوہ امید کی ایک ایسی کرن دکھائی دیتی ہے جو ظہیرہ کی زندگی میںبانی کے خلاء کو پوری کرنے کا استعارہ بن کر قاری کے سامنے آتی ہے ۔ظہیرہ کی زندگی میں سیلاب نے جو خلاء پیدا کیاہے اس کو پُرکرنے کے لیے ایک موہوم سی امیدہمبل کی بنائی اس اسکیچ میں ہے کیونکہ اس وقت ہمبل کی بیوی مہرک کی کوکھ میں ایک نئی زندگی نمو پارہی تھی۔انسانی ہمدردی کا پیغام دیتے ہوئے اس افسانے میں منظر نگاری خوب ہوئی ہے۔سلیم سرفراز کاشمار معتبر قلم کاروں میں ہوتاہے۔قلم کار میں نے اس لیے لکھا کہ موصوف کاشمار ایک بہترین شاعر اور افسانہ نگار دونوں میں ہوتاہے یعنی موصوف بھی ادبی دنیا میں اس افسانے کے کرداروں کی طرح دو حصوں میں منقسم ہیں۔موصوف کا افسانہ’’ زندہ مگر شرمندہ ‘‘میں آج کے نفسیاتی انسان کی دوہری شخصیت کے مسائل کو پیش کیاگیاہے۔عہد جدید میں ہر آدمی دو ہری شخصیت کا مریض ہے۔ایک اسے جینے نہیں دیتااوردوسرا اسے مرنے نہیں دیتا۔مسلہ مطابقت کا ہے۔جس میں دم ہے وہی غالب اور جو کمزوروہ مغلوب۔اسی کشمکش میں زندگی عذاب بن گئی ہے جس کو آج کا انسان جھیل رہاہے۔اس اذیت ناک زندگی کا نقشہ سلیم صاحب نے فن کاری سے افسانے کے کینوس پر کھینچا ہے جہاں آفتاب اور شہزادہ،ذوالفقاراور گل محمد ایک ہی سکے کے دو پہلوں ہیں ۔ایک، ایک دوسرے کو مرنے دینا نہیں چاہتاہے جس کے باعث ڈاکٹر ذوالفقاراور آفتاب احمد دونوں اذیت ناک زندگی جی رہے ہیں۔عملی زندگی میںیہ دونوں معاصرزندگی کے انسان کی علامت ہیں۔بہر حال افسانہ بڑی ہنر مندی سے لکھا گیا ہے جس میں کردار ابھر کر سامنے آئے ہیں۔میرے خیال سے افسانے کا اصل کلید اس متن میں پوشیدہ ہے۔محمد جاوید انورکا افسانہ’’ اچھا بچہ‘‘پر اپنے خیال کا اظہار کرتی ہوئی ذکیہ صدیقی رقمطراز ہیں:
’’یہ ہیں اقدار کی گرتی ہوئی دیواریں۔بہت کچھ طوالت ہے لیکن اس کے بغیر افسانہ پر اثر ہیں ہوسکتاتھا۔جس مہارت سے ماحول سے آشنا کروایا اور اختتام ہواہے قابل تعریف ہے۔اسی طرح ہم ایک ایک اینٹ کرکے دیواروں کو گرارہے ہیں اور ایک خراب معاشرے کو تشکیل دے رہے ہیں اور آج پریشان ہیں کہ معاشرہ خراب ہے۔اچھا بچہ کہیں نظر نہیں آتا۔بہت اچھے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔‘‘
رخشندہ روحی مہدی کا افسانہ’’ بڑا آدمی‘‘ راست بیانیہ میں لکھا گیا ہے جس کی فضا میں مایوسی،ناامیدی اورکسک کا ابر چھایا ہے۔افسانے کے کینوس پر معاشی ناہمواری کی جہت نمایاں ہے۔ملک کی آزادی کے بعد زمینداروں کی زبوں حالی کا جو منظر نامہ سامنے آیا اس میں آم کا باغ،امرود،کے باغ،بیریاں، کھیت اوردکان،مکان کی فروخت کے لیے خاموشی سے بیع نامے پر دستخط ہوتے رہے اور خستہ حالی کا گراف اوپر اٹھتا رہا۔نوبت یہاں تک آپہنچی :
’’ابّا کو اپنا فرض پورا کرنا تھا۔آپ کا گھر بسانا تھا۔ان کو تو معلوم تھا کہ آپ کے خواب کیا ہیں تو میری قربانی کیوں دی آپ کے ابّا نے۔اباّخود تو چلے گئے اور مجھے آپ کے خوابوں کے کھنڈر پر اپنی حقیقی زندگی کا چوبارہ تعمیر کرنے کے لیے چھوڑ گئے۔‘‘
زندگی کے سفر میں شریک سفر کا یہ تیور صر ف اس لیے آیا کہ سب کو اپنی اولاد عزیز ہوتی ہے ۔اس لیے ایک ماں بیٹے کو شوہر کی طرح ہوا محل کی راہداری میں نہیں بھٹکنے دینا چاہتی ہے بلکہ اپنے بیٹے سروش کو ایک عظیم شخصیت کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہے۔سروش کے والد کا سلسلہء نسب ایک زمیندارگھرانے سے تھا لیکن جب زمینداری کا خاتمہ ڈگڈگی بجا کر کیا گیا تو زمینداروں کی معاشی حالت کی بھی ڈگڈگی بج گئی۔جب معاشیات کا گراف گرتا ہے تو بے گا نے تو دور اپنے بھی شمشیر بکف ہوکر صلواتیں سنانا شروع کرتے ہیں۔افسانے میں اس بغاوت کی پہلی آواز بیوی کے منہ سے آتی ہے:
’’میں اپنے بچے کے ساتھ کسی بڑے شہر چلی جاؤں گی۔وہاں محنت کرسکتی ہوں۔وہاں آپ کے زمیندار رتبے کو ٹھیس نہیں پہنچے گی۔میں اپنے سروش کو ایک بڑا آدمی بنانے میں جی جان لگادوں گی‘‘
ادھر سروش کے والد کے ادبی خدمات پر روٹری کلب میں سیمینار کے دوران پتہ چلتا ہے کہ اس کے والدکے قلم کی کتنی قیمت تھی۔واپسی پر شکن آلودچادر،تولیہ،گاؤتکیہ،ٹوپی،چائے کی پیالی کی پوٹلی باندھ کر ممبئی کے ایک چھوٹے سے فلیٹ کی چابی اس کے مالک کو تھماکر واپس آتا ہے اور سیدھے اپنی ماں کی قبر پر پہنچ کر کہتا ہے۔
’’امی ایک بڑے آدمی کا نذرانہ عقیدت !‘‘
افسانے میں یہ بھی ایک المیہ ہے کہ جس بیٹے کو آدمی بنانے کے لیے اس کی ماں نے اتنے دکھ اُٹھائے،محنت و مشقت کی،شوہر سے لاتعلقی کا اظہار کیا وہ بیٹا جب آدمی بن جاتا ہے اور کینڈا میں مقیم ہوجاتا ہے تو سترہ برس تک چاہ کر بھی ماں کو دیکھنے بریلی نہیں آتا ہے۔یہاں تک کے وہ داعئی اجل کو لبیک کہہ دیتی ہے۔افسانے کا متن عمدہ تخلیقی شعور کی مثال ہے ۔فاطمہ عثمان کا افسانہ’’ ننھی کے بابا‘‘قاری کوافسردہ کرتاہے۔افسانے کا پیغام یہ ہے کہ بچوں کے سامنے مایوس کن بات کرنے سے والدین کو گریز کرنا چاہئے۔کیونکہ بچے نفسیاتی طور پر اس سے متاثر ہوتے ہیں۔بچوں کی نفسیات کو پیس کرتایہ افسانہ یہ اشارہ بھی دے رہا ہے کہ آج کے مصروف ترین دور میں بچے اپنے والدین کی شفقت ومحبت سے محروم ہوگئے ہیں۔افسانے میں ایک معصوم بچی جو اپنے باپ کو بے حد چاہتی ہے اس کو صرف اس لیے زہردے دیتی ہے کہ اس کوآرام ملے۔افسانے میں ماں کی سفاکیت بیٹی کی نفسیات پر اثر انداز ہے۔افسانے میں جذباتیت کا عنصر زیادہ ہے۔ناصر صدیقی کا افسانہ محسن(پہچان) نفسیاتی افسانہ ہے۔دلکش اسلوب ،غائر مطالعہ،عمدہ حقیقت نگاری،بیانئے کا فسوں،اظہار کی بے باکی،فکر کی گہرائی،مختصر لفظوں میں افسانے کو اعتبار بخشتے ہیں۔افسانے میں مرد عورت دونوں کو ایک دوسرے سے شکوہ ہے کہ وہ سمجھ سے بالا تر ہوتے ہیں۔افسانے کے کینوس پر دونوں کرداروں کے توازن کو بھی برقرار ر کھنے کی شعوری کوشش ہوئی ہے کہ یہ دونوں بے وفاہی ہوتے ہیں۔اس میں ایک طوائف کے اندر کی پاکیزہ روح پر سے پردہ ہٹانے کی کوشش دکھائی دیتی ہے ۔موضوع روایتی ،اسلوب سادہ بیانیہ،تکنیک خوبصورت لیکن اختتام ذرا کمزور۔رومانیت سے لبریز اس افسانے میں نسائی کردار دغا باز محبوب سے لڑنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔افسانے مین جہان نفسیات کا عنصر ہے وہیں ڈرامائیت بھی ہے۔بقول واجدہ تبسم گرکی:
’’گواہی ‘‘اس میں دو رائے نہیں کہ عورت مظلوم بھی ہے اور نہیں بطھی ہے ۔وہ جب تک ظلم سہے گی مظلوم ہی کہلائے گی اور جس دن ظلم کے خلاف آواز بلند کرے گی تو ماتا کالی کہائے گی۔محبت بھی کیا چز ہے ۔ایک ایسا میٹھا درد،جو سرائیت کرکے زندگی اور ذراسی ٹھیجس لگنے پر موت سے بھی زیادہ اذیت ناک۔اس افسانے مین بھی ایک نسائی کردار دغا باز مھبوب سے لڑنے کا حوصلہ رکھتی ہے وہ بھی ایک ایسے مرد سے جو اپنی بری عادت اور فطرت سے مجبور ہے۔‘‘
افسانہ ’’داغ ‘‘پر روشنی ڈالتے ہوئے عالمی افسانہ فورم کی فعال ایڈمن وافسانہ نگار انجم قدوائی صاحبہ رقمطراز ہیں:
ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی بنگال کے مشہور ومعروف افسانہ نگار ہیں۔ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ پڑھ چکی ہوں اور بے حد متاثر ہوں۔اس افسانے میں منظر نگاری اتنی خوبصورتی سے کی گئی ہے کہ قاری اپنے آپ کو گائوں میں ہی محسوس کرنے لگتاہے۔آغاز سے افسانہ ایک آبشار کی طرح رواں ہے۔بہترین الفاظ عمدہ بیانیہ،چند لمحات ایک سحر میں گزر جاتے ہیں۔مقدمہ بھی جیت لیا جاتاہے تب یہ تجسس شروع ہوتاہے کہ اب کیا ہوگا۔اختتام کی چند سطروں میں اس قدر خوبی سے افسانے کا محرک سامنے لایا گیا کہ بے ساختہ واہ کرنے کا دل چاہا۔ایک معیوب بات کو اس نفیس انداز سے بیان یا گہ چھینٹیں بھی نظر نہیں آئیں ۔اس نئے لکھنے والے کے قلم کے لیے بہت دعائیں ڈھیروں داد۔
صائمہ نفیس کا افسانہ ’’برزخ‘‘ مرد اساس معاشرے میں نسائیت کے استحصال اور ان پر نفسیاتی جبر کی روداد ہے جس میں دادو اور بابابیٹیوں کا پیدا ہونا ضرب تقسیم کے مترادف سمجھتے ہیں ۔اس لیے حاکمیت قائم رکھنے کے لیے سخت فیصلے لیتے ہوئے بیٹیوں کی شادی قرآن سے کرواکے اپنی زمین کی حفاظت اوربیٹوں کی خوشگوار زندگی کی مٹی کو پلید کرتے ہیں نیزر اپنی بربریت سے انہیں گھٹ گھٹ کر جینے پرمجبور کرتے ہیں۔جس کے سبب مہرو کی پھوپھیاں بھی سفید چادرمیں ملبوس عالم برزخ ی مخلوق کی طرح حویلی کی چہاردیواری میں گھومتی نظر آتی ہیں۔اس افسانے میں مہروکا کردارجزوئی طور پر تانیثیت کے زمرے میں آتاہے ۔جزوئی اس لیے کہ مہرو کے اندر فرسودہ رسم سے نفرت تو ہے لیکن اس سے بغاوت کا جذبہ وہ نہیں ہے جو اس کو پھوپھیوں کی طرح سفید چادر میںبرزخ کی مخلوق ہونے سے بچا لے جس کے سبب وہ حق بخشوائی کے رسم کے دوران قرآن سے شادی کرانے جیسے فرسودہ رسم کے دوران پیر کی چالبازی اور عیاری سے اس کی اونٹنی بن جاتی ہے اور زمانے کی بربریت اس کوآستانے پہنچا دیتی ہے جہاں ہر تین ماہ بعد کڑواکسیلا بد ذائقہ قہوہ پینے پڑتاہے۔یہ کڑواکسیلاقہوہ پورے افسانے کی کلید ہے جو نسائیت کے جنسی استحصال کی قلعی کھول کر رکھ دیتاہے۔افسانہ دبے لفظوں میں ایک فرسودہ رسم کی مخالفت کرتاہے جس میں نسائی جذبات کو پیروتلے بڑے بے رحمی سے کچلاجاتاہے۔افسانے میں اگر آخری پیراگراف نہیں لکھا جاتاتو بھی افسانہ مکمل ہوجاتا کیونکہ افسانہ آخری پیراگراف شروع ہونے سے قبل یہ اپنی تکمیل کو پہنچ چکاہے۔بیانیہ کا فسوں متاثر کرتاہے ۔افسانہ نمبر۱۷ کا بیانیہ پرکشش اور دلچسپ ہے۔اس میں کرداروں کی بے ہنگم بھیڑ نہیں ہے۔صرف دو کردار عورت اور مرد جن کا اصل مقام جنت لیکن فی الحال یہ سیارہ زمین پر مہاجر ہیں۔افسانے میں نفسیاتی کشمکش کا تناسب زیادہ ہے جہاں کئی جگہ اشارہ ملتاہے کہ مرد ہی عورت کے مکر فریبی کے جال میں پھنستاہے اور اپنی جنت کھودیتاہے۔افسانے میں یہ بھی پیغام ہے کہ صرف عورت منافق نہیں ہوتی ہے بلکہ مرد بھی منافق ہوتے ہیں۔وہ اپنے گھر ،بال بچوں اور بیوی کو چھوڑ کر ایک اجنبی عورت کے ساتھ فل بلیو مون لائٹ میں ملتے ہیں جس کامقصد فطری رشتے کی تکمیل کے سوا اور کیا ہوسکتاہے نیزعورت کائنات کی پرسرارہستی ہے۔اس کی نظر میں یہ دنیا:
’’عورت مرد کا رشتہ جتنا آسان اور خوبصورت ہے اسے دنیا نے اتنا ہی مشکل اور بدصورت بنا رکھاہے‘‘
لیکن نسائیت کے مذکورہ خیالات سے اتفاق ممکن نہیں ہے کیونکہ اس سے مشرقیت مجروح ہوتی ہے۔اس ایونٹ میںافسانہ ’’اچھا بچہ ‘‘میں بھی عورت کی قبا چاک ہوئی ہے جس کے سبب وہاں اچھا بچہ اس کی زد میں اور یہاں ایک مردفل بلیومون لائٹ میں حواس باختہ!!عظمٰی جبیں کا افسانہ ناسور میں رشتوں کے مسائل،خاندانی مجبوریاں،منشیات کے بد اثرات ،معاشی مسائل،معاشرتی برائی،پر روشنی ڈالتاہے جس میں جزیات نگاری ہے اور اسلوب سادہ بیانیہ لیکن طوالت اور کثیر کردار کی وجہ سے بوجھل پن کا احساس ہوتاہے۔نعیمہ جعفری پاشاکا’’خود آگہی ‘‘ ایک سماجی افسانہ ہے جس میں والدین کی اپنی اولاد کے لیے ہنسی خوشی قربانی کا ذکر ہے جس میں ناخلف اولاد کی طوطا چشمی کو بھی ہنر مندی سے اجاگر کیا گیا ہے۔افسانے میں منظر نگاری اور جزیات نگاری خوب ہے۔مدیحہ اور عدنان کی کہانی کے متوازی کبوتر اور کبوتری کی کہانی گڑھ کر تکنیکی طور پر بات کو سمجھنے کے لیے آسانیاں پید اکی گئی ہے۔افسانے کا لب لباب یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے لیے سب کچھ تیاگ کر ان کی خوشحالی اور ترقی کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن جب ان کی باری آتی ہے تو وہ والدین کے لیے حویلی نما مکان کو دو فلیٹ میں تبدیل کرکے اپنے لیے ایک بلڈرس فلورخریدنے کا خواب دیکھنے لگتے ہیں۔اس افسانے میں جہاں عدنان کے کردار سے نفرت وہیں مدیحہ کے کردار سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے ۔افسانے میں بیانیہ کا فسوں ہے۔ قیوم خالد کے افسانہ چھوٹی خالہــ کے کرداربولڈ ہیں۔جس کا اختتام خوشگوار ہے۔وقت کے نسب وفراز جذبے کی تبدیلی کا سبب بنتے ہیں۔جس کی باعث کینسر کی مریضہ اپنی بہن سے اپنے شوہر کی شادی کروانا چاہتی ہے ۔یعنی پروین کے شعری پیکر کی طرح اس کی سوچ ہے کہ میں اپنے ہاتھ سے تیرے لیے دلہن سجائوں گی۔یقینایہ قدم ایک حوصلہ مند عورت ہی اٹھا سکتی ہے۔افسانے کے بطن سے درد کی شعاعیں نکلتی ہیں۔افسانے کی طوالت ذہن کو بوجھل کرتی ہے۔افسانہ دبے لفظوں میں جہاں خون کی کشش کا استعارہ ہے وہیں عورت کی بے بسی کا کفارہ بھی۔بش احمد کا افسانہ ’’لارنس گارڈن بلائنڈ ڈیٹ ‘‘اپنے بطن میں اس حقیقت کو پوشیدہ رکھا ہے کہ محبت کا نقطہ راس جنس ہے۔جس کا فقط ایک ہی مقصدافزائش نسل ہے۔اسی مقصدکے لیے افسانے کا مرکزی کردار گرل فرینڈ کو ڈیٹنگ کرتا ہے لیکن اس سے اس کا انکاریہ واضع اشاریہ ہے کہ ہرمادہ ہر نر کو قبولیت کاصرف نہیں بخشتی ہے۔یا پھر ایسا بھی ہوسکتاہے کہ افسانے کی نسائی کردار اپنی نسائیت کو بھینٹ چڑھانے کے لیے تیارنہیں تھی۔بہر حال افسانے کا اختتام تھوڑا الجھن پیداکرتاہے اورافسانے میں انگریزی الفاظ گراں اس لیے لگتے ہیں کہ ان کے کوڈ کامفہوم ترسیل کا مسلہ پیدا کرتاہے۔بقول انجم قدوائی:
’’جگنوؤں کی روشنیوں سے جھلملاتے محبتوں کی نرم خوشبو میں ڈوبا افسانہ بہت گہرا اثر چھوڑ گیا۔اتنی خوبصورت اور سحر انگیز محبت کی داستان بش احمد صاحب ہی کا کمال ہے۔کئی بار دہرائی جانے والی داستان ایک بالکل الگ انداز میں سنائی ہے۔‘‘
شمع اختر انصاری کا افسانہ شب انتظار میں ماں کی محبت کی گرمی ہے ۔وہ اس صورت میں کہ اس کا بیٹا سرحد پر مارا گیا ہے اور وہ اس کا انتظار کرہی ہے۔وطن آزادی کے پس منظر مین لکھا گیا یہ افسانہ یاد ماضی کو دہراتاہے ۔افسانے میں واہمہ ہے۔افسانے میں وسوز ہے۔شگفتہ یاسمین کا افسانہ’’ شہرادی‘‘ نیم رومانی افسانہ ہے جس میں جذبے کی شدت کی کمی کا احساس ہے۔ دسمبر کی سرد رات کی رومانی کہانی سے قاری کے اندر گرماہٹ آتی ہے۔سید تحسین گیلانی کا افسانہ’’ لاجواب‘‘جبروقدرکے موضوع کو احاطہ کرتے ہوئے تلاش حق کے سوال پر ختم ہوتاہے۔اسلوب کی سطح پر افسانہ مونولاگ ہے جس میں حق اور ناحق کے مسلئے بھی درپیش ہیں۔افسانے کے اختتام پر مالک کائنات کی تلاش ایک ہلکی سی رونی کی لکیر چھوڑجاتاہے اور بہت دیر تک اس کے ذرے ذہن کے مدار پر گردش کرتے رہتے ہیں۔اس میں میدان کربلاکا منظر بھی ہے جہاں انسان ظالم اور مظلوم دودھڑوں میں منقسم ہوا۔استفہامی لب ولہجہ جب فن پارے میں درآتاہے تو موضوع سے منسلک مسائل زیادہ سامنے آتے ہیں۔خداکی تلاش نیززندگی اور موت کے فلسفے کو اس افسانے میں اٹھایا گیا ہے۔افسانے کامتن Opaque ضرور ہے لیکن دھیان مرکوزکرنے سے فکر کے کئی درواہوتے ہیں۔بقول حسن امام:
’’افسانہ جسے مصنف نے اپنے فن کی آپ چڑھا کر اسے انمول موتی بنا دیا ۔قاری چھوٹے چھوٹے کئی سوالوں کے جال میں الجھ کر جب اختتام تک پہنچتاہے تو ایک روشنی سی اپنے ارد گرد محسوس کرتاہے یہی روشنی مصنف کا خراج ہے۔‘‘
پروفیسر غضنفرصاحب کا افسانہ’’ پرزے‘‘ کا تھیم یہ ہے کہ زندگی کے کسی شعبے میںغلط آدمی کو چارج دے دیا جائے تو وہاں بدامنی اتھل پتھل،نیراج ،اراجکتاہی پھیلتاہے۔اس لیے جب تک کسی صحیح آدمی کو صحیح جگہ پر نہیں لگایا جائے گا اس وقت تک مسائل اپنے آپ جنم لیتے رہیں گے۔افسانے کی زیریں سطح پر اس کرنٹ کا بہاؤ ہے کہ نظام زندگی میں ایک ایسا بھی طبقہ ہوتاہے جو آگ پر تیل جھڑکنے کا کام کرتاہے ایسے ہی لوگوں کے بطن سے مسائل پنپتے ہیں اور زندگی کے شب وروز میں زلزلے آتے رہتے ہیں۔اس زلزلے کو روکنا ہے تو پرفیکٹ مین کی تلاش ضروری ہے ورنہ عذاب سے نجات ممکن نہیں ہے نتیجتاً آنکھوں کے سامنے یہ منظر اپنا رقص برہنہ جاری رکھے گا۔
’’ہجوم پھرسے سڑکوں پر آگیا ہے۔رستے جام کردیے گئے ہیں۔مشتعل بھیڑنے بجلی اور ٹیلی فون کے تار بھی کاٹ دیے ہیں۔لاٹھی،آنسو گیس ،گولی کسی سے بھی بھیڑ قابو میں نہیں آرہی ہے۔صورت حال بگڑتی جارہی ہے۔تھانہ،پولیس ،انتظامیہ بجلی،فون،پانی ،سبھی کے عملے پریشان ہیں۔ ‘‘
اس کو روکنے کے لیے پرزے کو اصل جگہ پرکسناہوگا۔لیکن یہاں توکامیاب میکنیک کاٹرانسفر لیٹر آجاتاہے۔افسانے کا اسلوب سادہ،مکالمے چست اور درست کوئی علامت اور استعارہ سازی نہیں بلکہ ایک واقعے کو ہوبہو زبان دے دی گئی ہے ۔لیکن افسانے میں ایک بات مجھے کھٹکتی رہی کہ بھیڑ میں خوبصورت چہرے کے بدنماداغ والی عورت کون تھی ؟ تسلیم کیانی کا افسانہ’’ شیریں‘‘سائبر محبت کافسانہ ہے جس میں شیریں اور فرہاد مکالماتی لب ولہجے میں اپنے اپنے جذبے کا اظہار کررہے ہیں جس سے قاری تھوڑی دیر کے لیے سرشاری محسوس کرتاہے لیکن اختتام پر دل آزردہ بھی ہوتاہے۔محبت کی راہوں میں انسانی نفسیات کی گرہ کھولتایہ افسانہ اشارہ کرتاہے کہ جب انسانی زندگی میں تنہائی ڈیرہ ڈالتی ہے، اس وقت وہ اس کو دور کرنے کے لیے کسی چیز کا سہارالیتاہے۔ایسے میں وہ مالینخولیا کاشکار ہوتاہے اور سراب کو بھی حقیقت سمجھ بیٹھتاہے۔ یہاں تک کہ اس کی قربت حاصل کرنے کے لیے اپنے اندر تبدیلیاں بھی لاتاہے لیکن جب حقیقت سے روبروہوتاہے توراہ میں بگولے ہی بگولے دکھائی دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حسن امام نے اس افسانے کو ایک دلفریب Illusion سے تعبیرکیاہے۔اس Illusionکے برعکس آصف اختر نقوی کا افسانہ ’’رام اوتار وہیں بیٹھے گا‘‘زندگی کی حقیقت سے آنکھیں چار کرتاہے۔خالص انسانی جذبے سے لکھے گئے اس افسانے میں رام اوتار کی روداد سادہ اسلوب میں قلم بند کی گئی ہے جس میں منڈی ہائوس اور اس کے آس پاس وکاس تو ہورہا ہے لیکن اس وکاس کی دھار میں رام اوتار چاچا کا ٹھیا اجڑ گیا ہے اور ان کا وکاس رک گیاہے۔ان کے دکھڑے کو سن کر قاری کا دل بھی ملول ہوتاہے۔افسانے کے اختتام پر ضمیر کی جو آواز بلند ہوئی ہے وہ انسانیت کے شعلے کو ہوادے رہی ہے لیکن یہ اندر ہی اندر گھٹ کر رہ گئی ۔غریب کا استحصال ہر دور میں ہوا ہے۔چاہے وہ پریم چند کا دور ہو یا غضنفر،مشتاق احمد نوری اور سلام بن رزاق کایا سید محمد اشرف کا ،استحصالی طبقہ اس وقت بھی زندہ تھااور آج بھی زندہ ہے اور ہر دور میں رہے گا۔صرف یگ بدلا ہے اور کچھ بھی نہیں۔اسی استحصالی طبقے کے مکروہ چہرے سے نقاب ہٹانے کے لیے آصف اختر نقوی نے’’ رام اوتار وہیں بیٹھے گا‘‘جیسادل گیر افسانہ رقم کیاہے جس میں غریبوں کی زبوں حالی اور اس کے استحصال کے منظرنامے کو سنیما کے اسکرین کی طرح چلایاہے تاکہ ہم سب اپنے معاصر زندگی کی حقیقت سے روشناس ہوسکیں ۔بہترین جزیات نگاری اور منظر کشی کے ساتھ ہندی الفاظ سونے پر سہاگے کا کام کرتے ہیں۔زیر نظر اقتباس وہ اقتباس ہے جو پتھر سے پتھر دل انسان کو پگھلنے پر مجبور کردے گاجس میں بلا کا کرب موجزن ہے۔یہ کرب اس عصر کا ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں۔
’’چالیس سال کا میرا منڈی ہائوس کے آس پاس گذراناتا ایک دن میں ختم کردیا گیا۔میرا اس علاقے کو بنانے میں یوگ دان کا کوئی حساب نہیں اور کلاکاروں کو پرسکارجن میں سے بہت سوں کو میں پہچانتاہوں مگر وہ سب مانے جانے لوگ ہیں اورمیں فٹ پات پر ٹھیا لگانے والا ایک وکلانگ سادھارن انسان۔ کون جانتاہے کہ اس علاقے کی سب بلڈنگوں کے گارے مٹی میں میرا بھی پسینہ ملا ہے۔میرا بھی حق ہے کہ میں روزی کماسکوں۔کوئی کچھ نہیںکرسکتا۔راجدھانی سنور رہی ہے۔پرگتی کررہی ہے اور ہم جیسے مزدوروں کی کیا گنتی کہیں اور جاکر ٹھیا لگائیں،مزدوری کرپیٹ پالیں یا پھر بھیک مانگیں‘‘
اسماء اختر کا’’ اللہ رکھی‘‘خواجہ سرائوں کی رحمدلی کو درشاتاہے نیز یہ افسانہ اوباش قسم مردوں کی حرکت سے مرد اساس معاشرے اور سماج پر بھرپور طمانچہ ہے۔جانور نما مرد اسٹیشن ماسٹر کے کردار کو بھی اچھے طریقے سے تراشا گیا ہے۔سماجی برائی اور اس کی خرابیوں کو اجاگر کرتے اس افسانے مین عدم تحفظ کی شکار لڑکی اور حرام بچے کو پھینکنے والے کردار بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔نشاط یاسمین کا افسانہ’’بے نام ‘‘پر اپنے خیال کو اظہارکرتے ہوئے شہناز فاطمہ رقمطراز ہیں:
’’بہت تکلیف دہ مگرہمارے معاشرے و سماج کا آئینہ افسانہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی المیہ ہے افسانہ کا انداز بیاں نے اور بھی غضب ڈھادیا۔قلم میں درد کا نشتر اس طرح پیوست کیا ہے کہ دل میں دور تک درد پھیل گیا اور آنکھیں بھیگ گئیں ۔کس قدر اذیت ناک منظر ہے بچی کی موت کا۔عورت کی دہی زبان نے اس میں کرب کو بڑھادیا۔‘‘
رواں ایونٹ کے دوران زادی زیب کا’’ انقطاع‘‘،زویاحسن کا مجھے’’ چاک سے اتار دے‘‘اور قراۃ العین حیدرکا ’’بساند‘‘اپنی اپنی توانائی کے مطابق قاری کے ذہن وفکر پر اپنا اپنا نقش چھوڑ گئے۔
اس سرسری جائزے کا ماحصل یہی ہے کہ جو محرکات ان افسانوں کو خلق کرنے کا سبب بنے ہیں ان میں زیادہ تر وہی ہیں جو بیسویں صدی کے نصف آخر میں رہے ،صرف ان کوپیش کرنے کے پیمانے اپنے اپنے رہے جہاں فنی اعتبارسے روایت کی پاسداری کو مقدم رکھاگیا ہے۔ان افسانوں میںکردار ویلن اور فرشتے دونوں روپ میں قاری کے سامنے آتے ہیں۔کچھ کردار چھلاوے کی طرح کینوس پر آئے اور غائب ہوگئے۔کچھ کردار شروع سے آخر تک اپنے حرکات وسکنات سے قاری کو محفوظ کرتے رہے۔کچھ کردار ایسے بھی سامنے آئے ہیں جن سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے تو کچھ سے نفرت کی چنگاری سلگنے لگتی ہے۔منظر نگاری کی سطح پر کہیں فطری ہے تو کہیںمصنوی پن کا احساس،ہیت کے اعتبار سے تمام افسانے روایت کے ڈگر پر سفر کررہے ہیںلیکن موضوع سے منسلک جذبے کی ترجمانی ہر افسانہ نگار کا اپنا اپنا ہے جس میں وہ اپنے نکتہ نظر کو ابھارنے کی سعی کرتے نظر آرہے ہیں اور قاری تک اپنے مزاج کی نرمی یا گرمی کو منتقل کرنے کی کوشش کئے ہیں ۔زندگی اور ان کے مسائل کے پس منظر میں ان افسانوں کو پڑھ کر اگر چند لفظوں میں سمیٹنے کو کہاجائے تویہی کہا جاسکتاہے کہ :
ریت ہی ریت تھی پھیلی ہوئی تاحد نظر
تشنگی کہتی تھی آگے کوئی دریاہوگا
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page