زندگی ڈھلتی شام، ڈوبتا سورج، ہوا کے تھپیڑوں سے لرزتے کانپتے دئے کے مثل زندگی ،کون سا لمحہ آخری لمحہ ثابت ہوگا ،کس گھڑی نبض حیات رک جائے گی کسی کے علم میں نہیں ہے ،اربوں افراد کائنات کی گردش کا حصہ ہیں ،گذرنے والا ہر لمحہ بہت سے افراد کی حیات کو موت سے تبدیل کرکے گذرتا ہے اور ہر گذرنے والا دن ہزاروں کی وفات کا مشاہدہ کرتا ہے ،کائنات کا سفر یوںہی جاری ہے ،شب و روز یہی تماشا اور یہی کھیل ہورہا ہے ،کوئی آیا تو کوئی چلا گیا ،ثبات و قرار کسی کو نصیب نہیں ،مگر اس بھیانک اور ہولناک کھیل میں کچھ ایسے کھلاڑی بھی آئے ،جو آنے ہی کے لئے آئے ،جنہوں نے موت کو شکست دیدی ،فتح و کامرانی کا پرچم بلند کردیا اور اپنے کارناموں اپنی محنت اپنی جد وجہد کے باعث آج بھی زندہ ہیں ،ان کی کاوشیں، ان کے ہونے کا احساس کراتی ہیں اور ان کی حیات کا پتہ دیتی ہیں ،وہ زندہ ہیں اپنی تخلیقات میں اپنی لازوال خدمات میں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے ،ملک کا ہر باشندہ ان کی حیات جاودانی کا احساس و ادراک کرتا ہے، ایسی ہی ایک نمایاں بے مثال لازوال شخصیت عابد سہیل کی بھی ہے ،انسانیت سے محبت کرنے والے ،آدمیوں کے درد و غم کے مداوا میں سرگرداں رہنے والے اسرار حیات سے واقف اور لوگوں کو واقف کرانے کا بھرپور مادہ رکھنے والے ،ایسے اشخاص کی موجودگی دھرتی کے سینہ کو کشادگی بخشتی ہے ،اسے عزت و افتخار سے لیس کرتی ہے، اس کا مقام بلند تر کرتی ہے ،قلت رجال میں ایسے مرد قلندر کا ہونا یقینا زینت اور رونق چمن ہوتا ہے ،جو ہر کلی ہر پھول اور ہر درخت کے محافظ کے طور پر باغ دنیا میں نظر آتے ہیں ،ان کے کارناموں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ مالی کا کردار نبھا رہے ہیں اور دنیا ایک باغیچہ ہے ،مالی جس کی زندگی مشکل ترین درد ناک مراحل سے گذررہی ہے ،جب مسائل کی اونچی چوٹیاں اس کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں اور راہ نظر نہیں آتی ،پھر جدو جہد کے ذریعہ وہ مسائل کو وسائل میں تبدیل کردیتا اور مانجھی ثابت ہوتا ہے ،عابد سہیل کی زندگی کا یہ عکس بھی اسی طرح آپ کو ہر آئینہ میں نظر آئے گا، بچپن میں والدین کی شفقت، پھوپھا کی محبت، روپیوں کی فراوانی اور شرارتیں سب کچھ موجود ہے جو کسی نونہال میں ہوتا ہے ،مگر زندگی کے ان مراحل میں جب دنیا بہت مختصر ہوتی ہے ،کھیل کود کے علاوہ کوئی شئے حاشیہ خیال پر بھی دستک نہیں دیتی ،عمر کے اس گوشہ میں بھی عابد سہیل انسانیت نوازی اور مخلوق خدا سے الفت کی لازوال تمثیلات پیش کرتے ہیں اور یہ دولت انہیں ورثہ میں ملی تھی ،خود تحریر کرتے ہیں ایک پڑوسی کے تعلق سے’’ رمضان کا مہینہ تھا اور عید چڑھی آرہی تھی ،ایک دن میں ان کے یہاں گیا تو ان کا ایک جملہ سنا سیاق و سباق سے ناواقف تھا لیکن مفلسی اپنے ساتھ ایک تاش بھی رکھتی ہے ،جو ہر وہ بات جو آپ چھپانا چاہیں الم نشرح کردیتا ہے اور یہاں تو ایک پورا جملہ اگر چہ نامکمل لٹھے کا ایک تھان آجاتا، ان کا کرتا پاجامہ بن جاتا ،بچوں کے کپڑے ۔وہ مجھے دیکھتے ہی خاموش ہوگئیں لیکن اس جملے میں بھی مفلسی کی جو لپکیں حسرت تعمیر کی جو آنچ اور دل کی گرفتگی تھی، اس کے احساس سے میں بھی جس کی عمر اس وقت بمشکل آٹھ نو سال رہی ہوگی ،نہ بچ سکا ‘‘’’سوانح جو یاد رہا‘‘ (صفحہ 77)اس عمر میں غربت و افلاس کا جہاں گذر نہیں ہے ،جس نے مشکلات کا دیدار نہیں کیا ،تنگی و تنگ دامنی کا احساس بھی ابھی جسے چھوکر نہیں گذرا،یقینا یہ احساس ’’پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آتے ہیں‘‘اس مثل کی نظیر تھا، خود عابد سہیل کا نام انسانیت دوستی اور بے لوث محبت کی نشانی ہے جس کو انہوں نے اپنے دوست سہیل کے انتقال کے بعد خود عابد سے دوست کو آب حیات پلاتے ہوئے ،عابد سہیل ہوگئے ،کسی انجان شخص کے آنسوؤں کی لاج رکھتے ہوئے مہینہ بھر والدین سے دور رہنا ،بچپن کے یہ واقعات احساس کراتے ہیں کہ یہ کوئی عام طفل نہیں ہے ،بلکہ اس کے سینہ میں دھڑکتا ہوا خون کو لوتھڑا کچھ خاص ہی ہے اور ہر کسی کو یہ دولت عظمی نصیب نہیں ہوتی ،جوں جوں کاروان حیات آگے بڑھتا رہا ،یہ جذبہ بھی پروان چڑھتا رہا۔ والد کا انتقال، مشکلات و مصائب کا طوفان غربت و افلاس کا اندھیرا ان تمام مراحل سے عابد سہیل نبرد آزما ہوئے مگر انسانیت کا جوہر خاص ہمیشہ ان کے قلب میں رہا ،اس جذبہ کا نتیجہ ، اسٹوڈینٹ فیڈریشن کے ممبر رہے ،حقوق طلبی کے لئے دھرنے بھی دئے ، ریلیاں بھی کیں ،احتجاجات میں بھی شریک ہوئے، سلاخوں کا منھ بھی دیکھا اور یہی کیفیت قلب آگے چل کر ان کے انجمن ترقی پسند مصنفین میں شمولیت کا باعث بنی اور ان کا قلمی سفر شروع ہوا ،چند غزلیں اور نظمیں بھی کہیں، مگر درد و غم تکالیف و مشکلات کو وہ جس خوبی سے فکشن میں بیان کرگئے شاید یہ اردو شاعری میں مشکل تر تھا ،زندگی کی سیاہ زلفوں کے پیچ و خم سے نکلنے کے لئے ،انہوں نے قلم کو متحرک کیا اور ’’نیا دور‘‘ و دیگر رسالوں میں لکھنا شروع کیا۔ لکھتے ہیں 1955 میں ’’ہیئت کی اہمیت‘‘ کے نام سے ایک مضمون کے ذریعہ ،نیا دور سے اس تعلق خاطر کی ابتدا ہوئی جس کا سلسلہ جاری ہے ،اس مضمون کا معاوضہ غالبا دس روپے ملا تھا۔’’سوانح وہ جو یاد رہا‘‘ (صفحہ 304)آل انڈیا ریڈیو میں فیچر اور ڈرامہ تحریر کئے ،ایوان اردو اور بہت سے رسالوں کو اپنی تحریروں سے مزین کیا، زندگی بھر قلم سے بھی خدمت کرتے رہے ، اور عملی طور پر ترقی پسند تحریک کے ساتھ وابستگی ان کی کمزوروں اور مظلوموں کی داد رسی کی بین دلیل ہے، عابد سہیل کی حیات کو ورق در ورق پلٹنے کے بعد یہ احساس شدید تر ہوگیا کہ وہ انسانیت کے تئیں کتنے فکر مند تھے ،مفلسی میں بھی ان کے ذہن و دماغ پر یہ خیال ثبت تھا ،حالات درست ہونے پر بھی یہ خیال ان کے ذہن سے محو نہیں ہوا ،چودھری چرن سنگھ جو کمیونسٹ پارٹی کے شدید مخالف تھے ان سے ملاقات کرنا، انسانیت کی ترقی کے حوالہ سے گفتگو کرنا اسی قبیل کی ایک مثال ہے ،صحافت ،سیاست، اور افسانہ نگاری جن اصناف میں انہوں نے طبع آزمائی کی تمام پر انسانی ہمدردی کا خول چڑھا ہوا ہے ، خاص طور پر افسانہ نگاری جو عابد سہیل کا تعارف اور ان کی پہچان ہے ،اس میں یہ عنصر پوری طرح غالب ہے اور ترقی پسند تحریک کے تمام اصول ان کی تحریروں میں چودہویں کے چمکتے چاند کی طرح نظر آتے ہیں ،سماج اور معاشرہ کی بے حسی اور ابتری کا تذکرہ کرتے ہیں ،غریبوں اور مفلسوں کی زندگی کی تصویر کشی کرتے ہیں ،غلاموں اور آقاؤں کے درمیان ہونے والی تفریق کو موضوع گفتگو بناتے ہیں ،غربت بے حسی کے کس دوراہے پر لا کھڑی کرتی ہے ،اس کی منظر کشی کرتے ہیں ،زندگی کن دشوار ترین مراحل سے ہو کر گذرتی ہے اس کا پتہ دیتے ہیں ،ان کے افسانے کا مطالعہ قلب میں یہ احساس پیدا کرتا ہے ،کہ یہ افسانہ نہیں حقائق ہیں ،جن کو میں ظالم و جابر سماج کے درمیان کھڑا ہوا بھگت رہا ہوں ،اور میں سمجھتا ہوں سخت سے سخت دل رکھنے والے شخص کی بھی آنکھیں وہ نم کرنے میں کامیاب ہیں ،ہاں اگر کسی کے سینہ میں پتھر ہے ،تو وہ مستثنیٰ ہے ،اگر چہ ظرافت بھی ان کے افسانوں میں کہیں کہیں نظر آتی ہے ،مگر وہ قہقہہ بار نہیں کرتے ،عام طور پر وہ سماج ہی کی منظر کشی کرتے ہیں ،ایک مثال ملاحظہ کیجئے ،جہاں ظالم سماج ان کے افسانہ میں جلوہ گر ہے ،’’مجھے یہ بھی معلوم تھا ،کہ شراب کے لئے جس دن پیسوں کا انتظام نہیں ہوپاتا ،وہ چلا چلا کر سارا گھر سر پر اٹھا لیتا تھا اور اس کی ممی کو مارتا بھی تھا ،(ایک کھردی سی رومانی کہانی )یہ سطریں معاشرہ کی بے حسی پر دلالت کرتی ہیں کہ ایک لڑکی زندگی کے ان مسائل کے آگے سپر ڈال دیتی ہے ،اور ان حرکتوں کا ارتکاب کرتی ہے ،جو کسی شریف زادی کوزیب نہیں دیتیں ،عابد سہیل نے اس افسانہ میں زمانہ کی رفتار وقت کا بدلاؤ، مصائب و آلام انسان کی کیفیت، سماج کا بدلتا منظرنامہ اس خوبصورتی سے پرویا ہے کہ زبان عش عش کرنے پر مجبور ہوگی اور آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں ،ذہن غور و فکر کے گہرے سمندر میں غرق ہوجاتا ہے اور افسانہ کا اختتام انتہائی خوبصورت طریقہ پر کیا گیا ہے،مثال ملاحظہ کیجئے: ’’دنیا اب اتنی بدل چکی ہے ،کہ وہ سارا تام جھام کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہ گئی جو بعد کے دنوں میں بے چاری روزی کو چھوٹے بڑے ہوٹلوں میں اور ان کے باہر کرنا پڑا تھا ،آج کی روزی کو تو اس کا خیال بھی نہیں آئے گا ،اب تو سیدھے سا کھیل ہے ،نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری ۔ اس سارے لفڑے میں کون پڑے ؟‘‘
یہ ہے وہ طنز کا تیر جس سے عابد سہیل زمانے کے گھٹتے وقار اور گرتے معیار کو نشانہ بناتے ہیں اور صالح معاشرہ کی نیو رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یہ مثال مشت از خروارے کی قبیل سے ہے ،ان کے افسانے فنی اعتبار سے بھی اعلی معیار کے ہیں ،تمہید عمدہ اور سجیلی ہوتی ہیں ،قاری آگے پڑھنے کے لئے بے قرار ہو اٹھتا ہے ،پلاٹ گٹھا ہوا ،کڑیا جوڑی ہوئیں ،بکھراؤ نہیں، صاف ستھرے انداز میں پیغام تک قاری کو پہنچا دیتے ہیں، کردار کی گفتگو ان کی زبان انتہائی مناسب اور موزوں رہتی ہے ،جن کی تفصیلات اس مختصر مضمون میں پیش کرنا ناممکن ہے ،آج عابد سہیل ہمارے درمیان نہیں ہیں ،ان کا جسم ہمارا ساتھ چھوڑ چکا ،لیکن وہ اپنی تخلیقات کی شکل میں آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں ،آج ان کے تخلیقات ان کے مقصد کی تکمیل مصروف ہیں ،اور زمانے ان کے مستند ہونے کا دم بھرتا ہے ،اور ان کے افسانوں کو جو شہرت حاصل ہوئی وہ طشت از بام ہے ،ان کے افسانوں کا مجموعہ چھوٹا اور غلام گردش شہرت کے جھنڈے گاڑ چکا ہے ،عابد سہیل نے نئی نسل کے لئے ایک راہ چھوڑی ہے، جس پر چل کر وہ بامقصد تخلیقات کے مالک بن سکتے ہیں اور معاشرہ بلند تر اقدار پر فائز ہوسکتا ہے ،خدا کرے ہو یہ آرزو میری پوری ،،اور نئی نسل عابد سہیل کے فن اور ان کی شخصیت کا حق ادا کرنے کے لئے سعی کرے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |