دلی کے علاوہ جن شہروں سے مرزاغالب کو والہانہ لگاؤ اور تعلق رہا ہے ان میں شہر لکھنؤ بھی شامل ہے ۔غالب نے اپنی بعض تحریروں میں لکھنؤ اور اہل لکھنؤ کا ذکر بہت جذباتی انداز میں کیا ہے ۔اس شہر سے وابستگی کے متعدد اسباب رہے ہیں۔خود غالب نے لکھنؤکو ہندستان کا بغداد کہا ہے۔لکھنؤ میں علم و ادب کی روایت، مطابع اور شاہان اودھ کی فنون لطیفہ سے گہری واقفیت اور فنکاروں کی سرپرستی بھی کشش کا سبب تھی ۔اس کے علاوہ مرزا غالب کے لکھنوی احباب وشاگرد،اودھ اخبار اور مطبع نول کشور سے تعلق اور ربط کی بھی ایک سرگرم داستان ہے ۔
مطالعات غالب میں لکھنؤ کا ذکر ہوتا رہا ہے ۔مرزا کے شاگردوں اور احباب پر بحث و تحقیق ہوتی رہی ہے۔منشی نول کشور اور اودھ اخبار بھی مطالعہ کا پہلو رہے ہیں البتہ عہد غالب میں لکھنؤ کے اشاعتی اداروں کوبراہ راست موضوع نہیں بنایا گیا ۔یہ مطالعہ اس وجہ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ غالب اپنے خطوط میں لکھنؤ کے مطابع کی تعریف کی ہے۔ میر مہدی مجروح کے نام(۸/اگست ۱۸۶۱) غالب کے خط کی عبارت ان کے مشہور ترین شعروں کی طرح لوگوں کے حافظے کاحصہ ہے ۔غالب لکھتے ہیں :
ہائے لکھنؤ کے چھاپے خانے نے جس کا دیوان چھاپا اس کو آسمان پر چڑھا دیا ،حسن خط سے الفاظ کو چمکا دیا ۔دلی پر اور اس کے پانی پر اور اس کے چھاپے پر لعنت ۔صاحب دیوان کو اس طرح یاد کرنا جیسے کوئی کتے کو آواز دے۔ (غالب کے خطوط، ڈاکٹر خلیق انجم(مرتبہ )، ج۲، ص:۵۳۱۔غالب انسٹی ٹیوٹ ۔نئی دہلی ۲۰۰۶)
واضح رہے کہ مرزا غالب طباعت واشاعت کی باریکیوں پر گہری نگاہ رکھتے تھے ۔اس کا اندازہ ان خطوط سے ہوتا ہے جو انھوں نے اپنے بعض شاگردوں کوطباعت و اشاعت کے سلسلے میں بطور ہدایت لکھے ہیں ۔ان خطوط کو پڑھنے کے بعد لکھنؤ کے چھاپہ خانہ کی تعریف کا اصل راز سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ محض ایک شاعرانہ قصیدہ نہیں بلکہ لکھنوی پریس کو ایک ایسے شخص کی سند سمجھنا چاہیے جو طباعت کے فنی پہلوؤں پر گہری نگاہ رکھتا تھا ۔منشی شیو نرائن آرام کو ۱۳؍اگست ۱۸۵۸ء کو دستنبو کی اشاعت کے سلسلے میں غالب جو ہدایت دے رہے ہیںاسے بطور مثال یہاں پیش کیا جاتا ہے ۔غالب لکھتے ہیں:
’’میں نہیں چاہتا کہ دو جز یا چار جز کی کتاب ہو۔ چھ جز سے کم نہ ہومسطر گیارہ سطر کا ہوگا، مگر حاشیہ تین طرف بڑا رہے۔ شیرازہ کی طرف کا کم ہو۔ … کاغذ ’’شیورام پوری‘‘ہو، خیر مگر سفید و مہرہ کیا ہوا اور لعاب دار ہو۔ پھر یہ ہو کہ حاشیے پر جو لغات کے معنی لکھیں جائیں تو اس کی طرز تحریر اور تقسیم، دل پسند اور نظر فریب ہو، حاشیے کی قلم بہ نسبت متن کی قلم کے خفی ہو۔‘‘ (غالب کے خطوط، ڈاکٹر خلیق انجم ،مرتبہ ،،جلد ۳، ص ۱۰۵۱غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ۱۹۸۷ )
منشی نول کشور سے غالب کا تعارف تو اودھ اخبار کے ذریعہ ہوالیکن جولائی۱۸۶۰ میںان دونوں کے درمیان براہ راست رابطہ میاں داد خاں سیاح کے توسط سے قائم ہوا ۔میاں داد خاں سیاح لکھنؤ میں منشی نول کشور کے مہمان رہ چکے تھے ۔پروفیسر حنیف نقوی کے بقول
سفر لکھنؤ سے قبل وہ کچھ دنوں تک دہلی میں قیام کرکے غالب کے حلقہ تلامذہ میں داخل ہوکر ان سے رشتۂ نیازمندی استوار کرچکے تھے ۔(غالب احوال و آثار پروفیسر حنیف نقوی ،ص:۱۴۹ غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ۲۰۰۷)
دونوں کے درمیان ۱۸/جولائی ۱۸۶۰ میں مراسلت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔غالب کے پہلے ہی خط سے جذبات کی شدت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔منشی نول کشورکے نام غالب کے فارسی خط کا اردو ترجمہ یہاں پیش کیا جاتا ہے ۔
آپ کا خط ملا تو دیدہ ودل میں تکرار چھڑ گئی ،آنکھ سواد تحریر کو سرمہ چشم بنانا چاہتی تھی اور سویدائے دل ا س سے روشنی کا جویا تھا ۔میں نے دونوں میں مفاہمت کروائی ،نظر کے حصہ میں فروغ آیا اور دل کو فراع نصیب ہوا …میری فارسی نثر کی تین کتابیں ہیں ۔پنچ آہنگ،مہر نیم روز،دستنبو۔آپ یہ کتابیں کہیں سے منگواتے کیو ںنہیں ۔ممکن ہے اہل لکھنؤ ان کے مشتاق ہوں۔(پنج آہنگ مترجم محمد عمر مہاجر،ص۸۷۔۱۸۶ ۔ادارہ یادگار غالب ،کراچی ۱۹۶۹ )
تعلقات کی یہی سرگرمی لکھنؤ سے غالب کی متعدد تصنیفات کی اشاعت کا سبب بنیں۔پہلے ہی خط میں غالب نے اپنی کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں ایک لطیف اشارہ بھی کردیا ۔سردست منشی نول کشور نے اس کا کوئی نوٹس تو نہیں لیا مگر باور کیا جانا چاہیے کہ اس ابتدا کو منشی جی کے سفر دہلی (۱۸۶۳)سے تقویت ملی ،جہاں ان کی ملاقات مرزا غالب سے ہوئی تھی ۔پروفیسر حنیف نقوی کا خیال ہے کہ غالب نے لکھنؤ کی طباعت کی جو تعریف کی ہے وہ اس سبب سے ہے کہ اس وقت وہ مطبع نول کشور سے اپنی کچھ کتابوں کو شائع کرانا چاہتے تھے اور کم از کم کلیات نثر فارسی اور قاطع برہان طباعت کے لیے تیار تھیں ۔(دیکھیے غالب احوال و آـثار،پروفیسرحنیفنقوی،ص۱۵۵)۔
لکھنو میں طباعت کا آغاز مطبع سلطانی سے ہوتا ہے ۔اور اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ گلکرسٹ کے ایک شاگرد رسل نے ٹائپ کا مطبع قائم کیا ۔نادر علی نے اپنی کتاب ہندستانی پریس میں لکھا ہے کہ یہ مطبع ۱۸۳۰کے اواخر یا ۱۸۳۱ کے اوائل میں قائم ہوا۔انھوںنے یہ بھی لکھا ہے کہ ۱۵،اپریل ۱۸۳۱ سے قبل سوائے شرح الفیہ کے کوئی اور کتاب یہاں سے شائع نہیں ہوئی تھی (ہندستانی پریس،نادر علی خاں، ص ۳۰۹،اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ۔۱۹۹۰)۔البتہ امیر حسن نورانی نے اپنے ایک مضمون میں مطبع سلطانی کے قیام کا سن ۱۸۲۷ لکھا ہے (نیا دور جون ۱۹۹۴ ص ۲۳)جناب اسلم محمود نے اودھ سے متعلق اپنی نہایت اہم اور وقیع کتاب ’اودھ سنفنی‘ میں ۱۸۱۷ لکھا ہے کہ ابتدا میں پتھر کی سلوں پر کھدائی کرکے بلاک بنائے جاتے تھے ،جس میں الٹی(معکوس ) کھدائی ہوتی تھی ۔پتھر کی سلوں پر کھدائی اور الٹا لکھنے یامعکوس نگاری کا احوال بعض شعرا نے نظم کیاہے ۔مولوی محسن علی ساقی جو کہ ناسخ کے شاگرد تھے انھوں نے نول کشور پریس پر ایک مثنوی لکھی تھی ۔اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
نکل باغ قیصر سے مطبع میںآ
تماشہ کلوں کا میں دیکھوں ذرا
کلیں وہ کہ دیکھے سے ہو بے کلی
پری بھی پرستاں سے آئی چلی
وہ استاد ہیں میر حشمت علی
کہ پتھر پہ لکھیں خفی و جلی
کہوں کیا جو پتھر بناتے تھے وہ
تو قدرت خدا کی دکھاتے تھے وہ
چھپے صاف سیدھا جو الٹا لکھیں
نہ کہیے کرامت تو پھر کیا کہیں
لکھنؤ میں مطابع کے ابتدائی زمانے میں متعدد اشاعتی ادارے کام کررہے تھے ۔ ان میں مطبع علوی ۱۸۴۱،مطبع میر حسن ۱۸۴۴،مطبع حاجی حرمین شریفین ۱۸۴۵،مطبع مصطفائی۱۸۵۱،مطبع نظامی ۱۸۵۲ کے نام اہمیت کے حامل ہیں ۔
لکھنوکے مطابع میں جو شہرت اور مقبولیت نول کشور پریس کو حاصل ہوئی وہ کسی دوسرے کو نہیں مل سکی ۔مرزا غالب کی متعدد کتابیں منشی نول کشور نے شائع کیں۔قاطع برہان ۱۸۶۲ میں نول کشورپریس سے شائع ہوئی۔اس کے علاوہ کلیات غالب(۱۸۶۳)کے کم از کم تین ایڈیشن شائع ہوئے ۔کلیات ۵۶۲ صفحات پر مشتمل ہے ۔کلیات نثر غالب (۱۸۶۸)کے پانچ ایڈیشن شائع ہوئے ۔ غالب اسے سب سے پہلے شائع کرانا چاہتے تھے مگر منشی جی ٹالتے رہے ۔چونکہ غالب کے بیشتر خطوط شائع ہوچکے تھے اس لیے منشی جی چاہتے تھے کہ کچھ نئے خطوط اس میں شامل کیے جائیں ۔اس زمانے میں غالب اپنے خطوط کی ایک کاپی منشی جی کو بھی بھیجتے تھے ۔تقریباً پانچ برس بعداس کی اشاعت عمل میں آئی ۔ دیوان غالب (پہلی اشاعت نومبر۱۸۷۳ )کے متعدد ایڈیشن نول کشور پریس سے شائع ۔نول کشور پریس نے مطبع نظامی کان پور (جون ۱۸۶۲)کی اشاعت کو اس لیے بنیاد بنایا کہ اس نسخے پر مرزا غالب نظر ثانی اور تصحیح کرچکے تھے ۔دیوان کے بھی متعددایڈیشن شائع ہوئے ۔اس کے علاوہ۱۸۸۱ میں عود ہندی کا ایک ایڈیشن نول کشور پریس کی کان پورشاخ سے شائع ہوا ۔ان معروضات سے لکھنو کی طباعتی سرگرمیوں کی ایک تصویر سامنے آتی ہے مگر اسی کے ساتھ ساتھ لکھنؤ کے دیگر مطابع بھی اس عہد میں علم و ادب کے فروغ کے لیے کوشاں تھے۔
ابتدا میں مطبع سلطانی کے علاوہ ۱۸۳۹ تک جن دو مطابع کا ذکر ملتا ہے ان میں ایک مطبع حرمین شریفین جسے مطبع محمدی بھی کہا جاتا ہے اور دوسرا حاجی مطصفے خاں کا مطبع ،مطبع مصطفائی ہے ۔مطبع حاجی حرمین شریفین یعنی مطبع محمدی کا ذکر عبدالحلیم شررنے بھی کیا ہے۔عبدالحلیم شرر کے والد کے حقیقی چچا مولوی احمد تھے ،جن کو تجارت اور سفر کا شوق تھا۔مولوی احمد حاجی حرمین شریفین کے ایجنٹ تھے ۔اس ادارہ کی مطبوعات وہ لکھنؤ سے راولپنڈی تک رتھوں اور بیل گاڑیوں پر لاد کر لے جاتے ۔ایک واقعہ سے کتابوں اور لکھنؤ کے مطابع دونوں کی مقبولیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔عبدالحلیم شرر لکھتے ہیں ۔
یہاں کی مطبوعہ کتابوں کو دیکھ کے لوگوں کی آنکھیں کھل جاتی تھیںاور پروانہ وار گرتے تھے ۔لوگوں کے شوق کا یہ عالم تھا کہ ہم جس شہر یا گاؤں میں پہنچتے ہم سے پہلے ہماری خبر پہنچ چکتی۔اور ہمارا داخلہ عجب شان و شوکت سے ہوتا ۔ادھر ہم کسی بستی میں پہنچے ادھر خلقت نے گھیر لیا ۔بھیڑ لگ جاتی تھی اور ہم جس کتاب کو جس قیمت پر دیتے لوگ بے عذرلے کے آنکھوں سے لگاتے ۔(گزشتہ لکھنؤ ،عبدالحلیم شرر،مکتبہ جامعہ ۲۰۱۱،ص ۱۷۷)
اس مطبع کے مالک حاجی محمد حسین تھے ۔۱۸۴۹ میں بادشاہ اودھ کے حکم سے جب تمام چھاپہ خانوں کو بندکرنے کا اعلان کیا گیا تویہ مطبع بھی بند ہوگیا ۔حاجی صاحب نے کان پور میں مطبع کو جاری رکھنے کی کوشش کی مگر خاطر خواہ کام یابی نہیں مل سکی ۔دوبارہ جب سلطان المطابع کے احاطہ میں تمام مطابع کو جاری کرنے کا فرمان آیا تو حاجی صاحب سلطان المطابع کے تحت کام کرنے لگے ۔امیر حسن نورانی نے لکھا ہے کہ
حاجی حرمین کا یہ مطبع اپنی خوش نما طباعت اور صحت و کتابت کی خوبیوں کے باعث بہت مقبول ہوا ۔اخبار طلسم لکھنؤ اسی مطبع میں طبع ہوتاتھاجو لکھنؤ کا پہلا اردو اخبار تھا۔(نیا دور جون ۱۹۹۴ء ص ۳۴)
مطبع مصطفائی :
اس مطبع کے آغاز کے سلسلے میں عبدالحلیم شرر لکھتے ہیں:
انھی دنوں مصطفی خاں شیشہ آلات کے ایک دولت مند تاجر کچھ چھاپنے کے لیے حاجی حرمین کے پاس لے گئے اور حاجی صاحب کی زبان سے کوئی ایسا سخت کلمہ نکل گیا کہ مصطفی خاں نے گھر آکر خود اپنا مصطفائی مطبع جاری کردیا ،جسے غیر معمولی فروغ حاصل ہوا (گزشتہ لکھنؤ ص۱۷۶)
فقہ حنفیہ سے متعلق مالابد منہ نامی ایک رسالہ ،جو کہ مطبع مصطفائی سے شائع ہوا ہے اس کے مطالعہ سے مطبع کے قیام پر روشنی پڑتی ہے ۔اس میں لکھا ہے کہ مصطفی خاں خلف محمد روشن خاں سلمہ الرحمن نے بیت السلطنت لکھنؤ میں اکبری دروازہ محلہ محمود نگر میں مطبع مصطفائی کی بنیاد رکھی ۔سعد الدین حیدر علوی اس مطبع کے مہتمم تھے ۲۹رجب ۱۲۵۵ہجری کو یہ مطبع جاری ہوا ۔اسی بنیاد پر نادر علی خاں نے مطبع مصطفائی کے اجرا اور قیام کی تاریخ ۸/اکتوبر ۱۸۳۹مقرر کی ہے ۔عبدالحلیم شرر نے لکھا ہے کہ چھپائی کی خوبی میں مطبع مصطفائی کا مقابلہ نول کشور پریس نہیں کرسکا ۔اس مطبع کی ایک او رخوبی کی طرف پروفیسر شاہ عبدالسلام نے اشارہ کیا ہے :
منشی نول کشور کے مطبع سے شائع شدہ کتابیں محققین اور ارباب ذوق کی نظر میں اتنی معتبر اور قابل بھروسہ نہیں قرار پائیں ،جتنی کہ بعض دوسرے مطابع کے جیسے مطبع مصطفائی کی چھپی ہوئی کتابیں ۔(نول کشور اور ان کا عہد ،قاضی عبید الرحمن ہاشمی ،وہاج الدین علوی ،شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی ۲۰۰۴ ص ۱۱۶)
مطبع علوی :یہ علی بخش خاں کا مطبع تھا ۔۱۸۴۱ میں محلہ کٹرہ علی محمد خاں میں اس کا اجرا ہوا۔اس کا شمار بھی لکھنؤ کے چند اہم مطابع میں ہوتا ہے۔عربی فارسی درسیات اور دیگر مذہبی کتابیں اس مطبع نے بہت خوب صورت شائع کیں ۔اسی مطبع نے تعشق لکھنوی کا کلام گلدستہ تعشق کے نام سے شائع کیا ،جو دو سو صفحات پر مشتمل ہے ۔تعشق کا ایک شعر ہے
غضب تیغ نظر کا کم نہ ہوگا
یہ بسمل جب تلک بے دم نہ ہوگا
مطبع مرتضوی :
اس کا اجرا ۱۸۴۹ میں لکھنؤ کے محلہ محمود نگر متصل چاہ سرخ میں ہوا ۔اس کے مہتمم شیخ عطا حسین تھے اور مالک شیخ نصیر الدین تھے۔ابتدا میں یہ مطبع بھی سلطان المطابع کے ماتحت کام کرتا تھا۔پہلی ناکام جنگ آزادی میںدیگر مطابع کی طرح یہ مطبع بھی بند ہوگیا تھا۔۱۸۵۸ میں جب نول کشور پریس قائم ہوا تو شیخ نثار علی کو اس کا داروغہ طباعت مقرر کیا ۔
مطبع نظامی :
لکھنو کے نمایاں مطابع میں اس کا شمار ہوتا ہے ۔محلہ دوگانماں زیر سبزی منڈی متصل کوتوالی چبوترہ میں ۱۸۵۲ میں اس کا اجرا ہوا ۔امیر حسن نورانی نے اس مطبع کے بارے میں لکھا ہے کہ :
خط نسخ میں لکھی ہوئی عربی کتابوں کی طباعت جیسی دلکش اور دیدہ زیب اس مطبع میں ہوئی وہ لکھنو کے کئی دوسرے مطابع میں کم نظر آئی ۔(نیا دور ۱۹۹۴ء ص ۳۵)
۱۸۴۰سے ۱۸۵۷ کے درمیان مطبع جلالی (۱۸۴۰)افضل المطابع (۱۸۴۱)مطبع میر حسن(۱۸۴۴)مطبع محمدی (۱۸۴۵)مطبع مولائی (۱۸۴۵)،مطبع حسینی ،مطبع خیالی ،مطبع سنگین، مطبع سید میرحسن ،مطبع محمدیہ(۱۸۴۶)،مطبع محمدی واحمدی(۱۸۴۷)،مطبع مہدیہ (۱۸۴۹)،افضل المطابع محمد ی(۱۸۵۰) ،مطبع فیض(۱۸۵۱)،مطبع سنگین(۱۸۵۶) ،مطبع محمدی(۱۸۵۷)کا ذکر ملتا ہے ۔
جناب اسلم محمود نے اپنی کتاب اودھ سنفنی میں میتھاڈسٹ پبلشنگ ہاوس کا ذکر کیا ہے ۔یہ کب قائم ہوا اس کے بارے میںکوئی حتمی معلومات تو نہیں لیکن اس پریس نے ۱۸۶۲ میں مسیحی گیتو ںکی ایک کتاب اردو میں شائع کی تھی۔۱۹۳۱ ء میں اس کانام بدل کر لکھنؤ پبلشنگ ہاوس کردیا گیا ۔یہ پریس اب بھی قائم ہے ،اس پریس سے عام طور پر عیسائیت سے متعلق کتابیں شائع ہوتی ہیں ۔
عہد غالب کے لکھنو میں اشاعتی اداروں کا مطالعہ ایک اہم موضوع ہے ۔اودھ سلطنت کی علمی دلچسپیوں کی ایک ایسی حقیقت سامنے آتی ہے جس کا عمومی بیان تو اکثر ہوتا ہے لیکن مطابع کے تناظر میں اس طرف توجہ کم دی گئی ہے ۔سبط الحسن نے اودھ کے شاہی کتاب خانہ کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں :
غازی الدین حیدر شاہ اودھ نے ایک مجلس علمیہ (اکادمی )بھی قائم کی تھی جس کے ارکان بڑے بڑے اہل علم تھے اسی مجلس علمیہ کے ارکان نے عربی کی ایک مشہور ومایہ ناز لغت تاج اللغات مدون کی تھی جس کو شاہی مطبع سے سات جلدو ںمیں بڑی تقطیع میں شائع کیا تھا…تاج اللغات کی طرح انھوں نے فارسی کی ایک لغت مدون کی تھی جس کانام ہفت قلزم ہے یہ لغت بھی تاج اللغات کی طرح سات جلدو میں ہے ۔(آج کل کے مضامین ،محبوب الرحمن فاروقی ،محمد کاظم ص۸۱)
اسی مضمون میں شاہی کتب خانے کے احوال میں لکھا ہے کہ تین لاکھ کتابوںپر تین ہزار محافظ مقرر تھے ۔اور سات سو ایسے نوادر علمیہ تھے جو خود مصنفین کے مکتوب تھے ۔اسی علم دوستی کے سبب ہی مطبع شاہی کا اجرا عمل میں لایا گیا ۔مطبع شاہی کے ارتقائی سفر کو مطبع نول کشور کی شکل میں دیکھنا چاہیے کہ جسے شمس الرحمن فاروقی نے جدید ہندستان کی علمی،ادبی اور تہذیبی تاریخ میں مرد جلیل کی حیثیت سے یاد کیا ہے اور لکھا ہے کہ:
دنیا میں کم ایسا ہوا ہوگا کہ ایک ہی ادارے نے کئی تہذیبوں اور ادبی اور علمی روایتوں کو ایسی وسیع الذیل اور دیرپا خدمات انجام دی ہوں ۔ (نول کشور اور ان کا عہد ،قاضی عبید الرحمن ہاشمی ،وہاج الدین علوی ،ص ۲۲،شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی ۲۰۰۴ )
اس مقالے سے کسی قدر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مطابع پر جس طرح کام کرنے کی ضرورت ہے اس پر ابھی تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ہے ۔اختر شہنشاہی سے نادر علی خاں تک ہمارے پاس اس موضوع پر چند گنی چنی کتابیں ہیں اور اس میں بھی معلومات کم اندراج زیادہ ۔ابھی تک ہمیں یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ ان مطابع کے مقاصد کیا تھا ۔ ان مطابع کے مالکان اور مہتمم کے بارے میں بھی ہماری تحقیقات بہت تشنہ اور نامکمل ہیں ۔یہاں سے شائع ہونے والی کتابوں کے موضوعات کیا تھے اور کس طرح کی کتابیں یہاں سے شائع ہوتی تھیں ۔یہ کہنا شاید غلط نہ قرار دیا جائے کہ مطابع کی علمی تاریخ پر ہمارے یہاں ابھی کام شروع ہی نہیں ہوا ہے ۔اسی تناظر میں مطابع کی اصطلاحات کا بھی معاملہ ہے ۔معکوس او رمعکوس نگاری اور اس جیسے بیشمار الفاظ ہیں ۔
واضح رہے کہ یہاں صرف ۱۸۶۹ تک کے مطابع کا کسی قدر مطالعہ پیش کیا گیا ہے ۔اس کے بعد سیکڑوں مطابع قائم ہوئے اور بہت سے بند بھی ہوئے ۔یعنی لکھنؤ سے متعلق مطابع کی تاریخ تشنہ ہے ۔
کتابیات :
۱۔آج کل کے مضامین ،محبوب الرحمن فاروقی ،محمد کاظم ۔پبلی کیشنز ڈویژن نئی دہلی
۲۔پنج آہنگ مترجم محمد عمر مہاجر،ادارہ یادگار غالب ،کراچی ۱۹۶۹
۳۔غالب احوال و آثار پروفیسر حنیف نقوی ،غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ۲۰۰۷
۴۔غالب کے خطوط، ڈاکٹر خلیق انجم(مرتبہ )، ج۲، غالب انسٹی ٹیوٹ ۔نئی دہلی ۲۰۰۶
۵۔غالب کے خطوط، ڈاکٹر خلیق انجم(مرتبہ )، ج۳، غالب انسٹی ٹیوٹ ۔نئی دہلی ۱۹۸۷
۶۔گزشتہ لکھنؤ ،عبدالحلیم شرر،مکتبہ جامعہ ۲۰۱۱،
۷۔نول کشور اور ان کا عہد ،قاضی عبید الرحمن ہاشمی ،وہاج الدین علوی ،شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی ۲۰۰۴
۸۔ہندستانی پریس،نادر علی خاں،اترپردیش اردو اکادمی۔لکھنؤ ۱۹۹۰
9-Awadh Symphony by AslamMahmoodRupa Publications, Lucknow -2017
٭
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبۂ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی ۔لکھنؤ کیمپس
oomairmanzar@gmail.com
1 comment
Behtareen mazmoon. Omair Manzar ne jee khush kar diya. Allah kare zor e qalam aur zyada