بابا جانی آج میری شادی کو پورے چار سال ہو گئے ہیں۔ یوں ہی دھوپ میں بیٹھی بال سکھا رہی تھی تبھی خیال آیا چار سال پہلے آج ہی کے دن میں بستی سے وداع ہوکر کریم نگر آئی تھی۔ اور پھر اس دن کے بعد میری ساری صبحیں اور شامیں کریم نگر میں ہی ہوتی ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے مجھے اچانک یہ کیا ہو گیا ہے جو خط لکھنے بیٹھ گئی۔ پیارے بابا آپ کو کیا لگتا ہے آپ کی بیٹی نے ان چار سالوں میں ایک بھی خط نہیں لکھا ہوگا۔۔۔۔نہیں بابا میں نے ان چار سالوں میں آپ کو درجن بھر خط لکھے ہیں جو سنگار دان کی نیچے والی دراز میں پڑے ہوئے ہیں۔ کیا کروں عادت سے مجبور ہوں۔۔۔سب کچھ چھوڑ سکتی ہوں بابا لیکن لکھنا نہیں چھوڑ سکتی۔ اس بھرے پورے گھر میں میری تنہائیوں کا ساتھی ایک قلم ہی تو ہے۔ اسے بھی اگر دراز میں ڈال دیا تو میں بے موت مر جاؤں گی۔
بابا جانی کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ میں پیدا ہی کیوں ہوئی اور اگر پیدا ہی ہونا تھا تو لڑکی کیوں بنی۔۔۔؟ لڑکا کیوں نہیں۔۔۔؟ بچپن سے لے کر اب تک میں یہی سوچتی آ رہی ہوں میرے لڑکی ہونے میں میرا کیا قصور تھا ۔ بابا جانی مجھے یاد ہے بچپن میں ایک بار آپ اجو بھائی کے لئے بندوق لائے تھے اور میرے لئے گڑیا ۔۔۔میں نے گڑیا پھنک کر بندوق اٹھا لی تھی۔ پھوپھی نے میرے ہاتھ سے بندوق چھین کر گڑیا تھماتے ہوئے کہا تھا تم لڑکی ہو گڑیا کھیلو لڑکیاں بندوق نہیں کھیلتیں۔۔ بابا جانی بچپن بیت گیا جوانی آئی شادی بھی ہو گئی لیکن ان لفظوں نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔ آج بھی چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے، کہیں نہ کہیں وہ لفظ میری سماعتوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔
بابا جانی اس گھر میں مجھے سب کچھ ملا ہے سوائے محبت کے۔۔۔ چار کمروں کا یہ گھر میرے لئے کسی جیل سے کم نہیں ہے۔ یہاں کی ہر چیز پر مردوں کا حق ہے عورتیں یہاں پیر کی جوتی کے سمان ہیں۔ انہیں گھر کے کسی معاملے میں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ صبح سے لے کر شام تک گھر کے کاموں میں مصروف رہنا اور رات ہوتے ہی شوہر کی خواہش کا احترام کرنا جیسے میں نکاح میں یہی دو چیزیں لکھوا کر لائی ہوں۔ ابھی ہفتے بھر پہلے کی بات ہے بابا میری چھوٹی نند کے اسکول بیگ میں گلاب کا ایک پھول رکھا ہوا نکل آیا کسی نے اس سے یہ بھی نہ پوچھا کہ یہ پھول آیا کہاں سے بس حکم سنا دیا کہ چھوٹی آج سے گھر میں ہی رہے گی اسکول جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بس ہو گئی پڑھائی ۔۔۔ وہ روتی ہوئی مجھے بتا رہی تھی بھابھی وہ پھول میں نے عائیشہ کے گھر میں رکھے گملے سے چرا کر توڑا تھا آپ کی شادی کی سالگرہ پر آپ کو دینا چاہتی تھی۔۔۔ میں دل مسسوس کر رہ گئی۔
حالانکہ یہ پہلی دفعہ ایسا نہیں تھا ایسے کئی موقع آئے ہیں جب میں چاہ کر بھی کچھ نہ بول پائی۔ بابا جانی آپ کو یاد ہے آٹھ دس سال پہلے جب میں انٹرمیڈیٹ کر رہی تھی ہمارے محلے کی ایک لڑکی کسی دوسری ذات کے لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی آپ نے اپنی پگڑی اتار کر میرے پیروں پہ رکھ دی تھی اور کہا تھا کہ بٹیا اس کی لاج رکھنا۔۔۔جبکہ اس وقت میرے پاس بھیا بھی کھڑے تھے پھر بابا آپ نے پگڑی میرے ہی پیروں میں کیوں رکھی۔۔۔میں آج تک نہ سمجھ پائی۔
آج جب برسوں کے بعد میں اپنے ماضی کو ٹٹولتی ہوں تو بابا جانی نہ جانے کتنی خواہشیں ایک ساتھ انگڑائیاں لیتی دکھائی دیتی ہیں۔ میں کیا تھی اور کیا ہوکر رہ گئی ہوں۔۔۔آسمانوں میں سیر کرنے کی خواہش آج بھی ہے ۔ آج بھی میرا دل کرتا ہے میں سماج کی بیڑیاں توڑ کر گھر سے بھاگ جاؤں کسی ایسی جگہ جہاں کھلا آسمان ہو میں ہوں اور بس میرے خواب۔۔۔لیکن بابا سوچتی ہوں برسوں کی قید کے بعد پرندے کو رہائی ملے بھی تو کیا فائدہ ۔۔۔وہ اڑنا تو بھول چکا ہوگا نا۔۔۔۔بابا میرے خواب آج بھی وہی ہیں لیکن ان کی تعبیر لکھنا اب شاید ممکن نہیں ہے۔
آپ کی یہ بیٹی جو کبھی سماج کے بنائے اصولوں کو ماننے سے انکار کرتی تھی بابا آج انھیں اصولوں پر وہ عمل کرتی ہے، نہ کرے تو کہاں جائے۔۔۔اسے آج بھی آپ کی عزت کا خیال ہے وہ آپ کی دی ہوئی تعلیم اور تربیت کا پاس رکھ رہی ہے۔۔۔لیکن بابا جانی آپ سے ایک شکایت ہے۔۔۔آپ نے مجھے کس گناہ کی سزا دی ہے۔ جو ایک ایسے گھر میں بیاہ دیا جہاں عورت کی کوئی عزت ہی نہیں ہے۔ میں جانتی ہوں آپ نے سماج کے دباؤ میں آکر جلد بازی میں یہ فیصلہ لیا تھا لیکن بابا ایک بار تو مجھ سے پوچھ لیتے ۔۔۔ یہ سچ ہے کہ میں کسی سے محبت کرتی تھی لیکن میں آپ کی مرضی کے خلاف شاید کبھی نہ جاتی۔۔۔مجھے دی ہوئی تعلیم کا حاصل کیا ملا بابا کچھ بھی تو نہیں۔۔۔ انہیں عورتوں کی پڑھائی سے سخت نفرت ہے اسی لیے میرا کوئی بھی خط آپ تک نہیں پہنچ پایا۔۔۔ یہ اکثر کہتے ہیں لڑکیوں کو پڑھ کر کیا کرنا ہے انہیں آخر میں پھونکنا تو چولہا ہی ہے۔۔۔یہی تو دادا جان بھی کہا کرتے تھے۔۔۔لیکن آپ نے پھر بھی مجھے پڑھایا تھا۔۔۔اب سوچتی ہوں کہ واقعی دادا جان صحیح کہا کرتے تھے۔
بابا میری بڑی نند جن کی شادی کو تقریباً دس سال ہو رہے ہیں ابھی پچھلے ہفتے ان کے شوہر نے انہیں طلاق دے ہے۔۔وہ آج کل یہیں گھر پہ ہیں، ان کو شادی کے دس سال بعد بھی اولاد نہیں ہوئی تھی۔۔۔ شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا تھا اور یہ اجازت نہیں دے رہی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہاں بھی کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا الٹا انہیں ہی قصوروار ٹھہرایا کہ انہیں اپنے شوہر کی دوسری شادی کروا دینا چاہیے تھا ۔۔۔۔آخر کو اس کا نام کیسے چلے گا۔۔ وہاں سے تو وہ طلاق لے کر چلی آئیں لیکن یہاں کے طعنوں نے ان کا جینا حرام کر دیا۔ کل رات انہوں نے گھر کے پیچھے بھینسوں کے طبیلے میں جاکر مٹی کا تیل چھڑک خود کو آگ لگا لی۔ خدا کا شکر ہے کہ اماں نے انہیں جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا فوراً پیچھے گئیں ۔۔کچھ حد تک وہ جل چکی تھیں۔ میں نے بہت سمجھایا کہ وہ لوگوں کی باتوں پر دھیان نہ دیں میں ان کے ساتھ ہوں میں ان کے لئے لڑوں گی۔۔۔
لیکن بابا شادی کے چار سال تو میرے بھی ہو گئے ہیں میری کوکھ بھی ابھی تک سونی ہے۔۔۔مجھے ڈر ہے کہیں طلاق کے کاغذات لے کر میں بھی آپ کی چوکھٹ پر نہ لوٹ آؤں۔۔۔ نہیں بابا آپ کی بیٹی اتنی کمزور نہیں ہے وہ اپنے حق کے لئے لڑنا جانتی ہے۔ ابھی تک بات میرے نصیب کی تھی سو سب کچھ برداشت کرتی رہی لیکن بابا اگر بات میرے وجود پر آئی تو میں کچھ بھی برداشت نہیں کروں گی۔۔۔ بابا امید کرتی ہوں یہ خط آپ تک ضرور پہنچے گا۔۔۔ لیکن مجھے آپ کے جواب کا انتظار نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ میں جانتی ہوں آپ خط نہیں لکھ سکتے۔۔۔
آپ کی بیاہتا بیٹی
2022/01/05
زیبا خان حنا
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |