اللہ میاں کا کارخانہ – عافیہ حمید
اس ناول کو میں نے تقریباًچھ ماہ قبل پڑھا۔ جب میں ’نے’اللہ میاں کاکارخانہ‘‘ کو مکمل کیا اسی دن سوچ لیا تھا۔ اگر وقت ملا تو اس پر اپنا تاثر ضرور تحریر کروں گی۔ مگر درمیان میں کرونا کے عروج اور اپنوں کی جدائی کے غم نے قلم اٹھانے کا موقع نہیں دیا۔
مگر اب حالات کچھ بہتر ہوئے تو ایک بار پھر سے اس ناول پر نظر پڑی۔
’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ یہ پہلا ناول ہے جس کو پڑھتے ہوئے میرے لب مسکراتے رہے۔ مگر بارہا ایسا بھی ہوا کہ ہمارے لب اچانک خاموش ہوگئے اور آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی۔ اور ایسا اس وقت ہوا جب محسن خان صاحب کے قلم نے پوری طرح سے فنکاری کا ثبوت دیا۔ وہ باتیں جو ایک مفکر کہنے میں کئی برس لگادیتا ہے اور کبھی کبھی تو مصلحت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے بالکل ان باتوں سے نظریں ہٹالیتا ہے۔ آپ نے ان باتوں کو بھی الفاظ کے خوبصورت لباس میں پیش کیا۔
آپ کو نامساعد حالات کو بھی مزین کرکے بیان کرنے کا فن آتا ہے۔ اس ناول کے سلسلے میں مختلف لوگوں نے تبادلہ خیال کے بعد ایک بات جو میں نے شدت سے محسوس کیا وہ یہ کہ اکثریت اس ناول کے صرف ایک ہی حصے کو سمجھ سکی ہیں۔
’’عام سے الفاظ میں کہاجائے تو اکثر لوگ تو پتنگ اور ڈور میں الجھے رہ گئے ہیں۔‘‘
مگر میرا یہ خاص تاثر ہے کہ اس ناول میں دوکہانی ایک ساتھ چلتی ہے۔ ایک ’’محسن خان صاحب‘‘ کے متن کے پردے پر۔ اور دوسری بین السطور پر۔ جہاں صرف جہاں دیدہ لوگوں کی نظر جاتی ہے۔
’’محسن خان صاحب‘‘ نے وقت کے عائد زنداں کو بخوبی محسوس کیا اور لب کشائی اور اپنے احساس کو رسائی دینے کے لیے جس اسٹیج کا انتخاب کیا ہے وہ بلاشبہ قابل تحسین ہے۔
بلاشہ اس تکنیک کا استعمال پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ کبھی یہی تکنیک ’’قرۃ العین حیدر‘‘ کے گھر کی مہمان تھی، کبھی ’’رسوا‘‘ نے لکھنؤ کی مٹتی ہوئی تہذیب کو زندہ رکھنے کے لیے ’’امراؤجان‘‘ کا دلچسپ اسٹیج سجالائے تھے۔ اور ایک بار پھر ’’محسن خان صاحب‘‘ نے اسی تکنیک کا استعمال کرکے دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں۔ چونکہ قلم کار حساس ہوتا ہے وہ حالات کا بہت گہرائی سے مشاہدہ کرتا ہے۔ اور چیزوں کو شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے اور اس کا ذہن ودل برابر کرب کی کیفیت سے گذرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنی اس کرب کو بیان نہیں کرلیتا۔ اس وقت تک چین سے سونہیں پاتا۔
جس دور میں ہم اور آپ جی رہے ہیں اس کی خبر کس کو نہیں؟ اب ایسے حالات میں قلم کار اپنے قلم کو سنبھال کرنہ چلائے تو کیا کرے۔ اس لیے بہرصورت محسن خان صاحب نے بھی پرانی تکنیک کے سہارے قلم کو جنبش دیا۔ اور اپنے دور کے حالات کو ’’جبران اور نصرت‘‘ کے پس پردہ بیان کرنے کی کوشش کی۔
مجھے خوشی ہے کہ قوم میں ایسے مفکر قلم کار ابھی موجود ہیں جو لاکھ پابندیوں میں بولنے کا ہنر رکھتے ہیں۔
’’محسن خاں صاحب‘‘ آپ کا یہ طریقہ نئے قلم کاروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آپ کے ناول کو سمجھنے کے لیے لوگوں کو آسمان میں اڑتی پتنگ اور الجھی ہوئی ڈور سے نظریں ہٹاکر زمین پر قبرستان میں لگی اس تختی پر لے جانا ہوگا۔ جہاں ایک بچہ اپنی مری ہوئی ماں اور چچا کی شناخت کو مٹتے دیکھ کر رنجیدہ ہوجاتا ہے۔ اور اس شناخت کو واپس لانے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ صرف اس ایک جگہ اگر کچھ دیر ٹھہر کر سوچا جائے تو ہزار باتیں سامنے آجاتی ہیں۔ یہ منظر ناول کا قلب ہے اور ان لوگوں کا منھ توڑ جواب ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود ختم کرنا چاہتے ہیں۔
جبران جیسا غیر سنجیدہ بچہ جب اپنی مری ہوئی ماں اور چچا کی مٹتی شناخت پر پریشان ہواٹھتا ہے تو ذرا سوچئے میری قوم کا ایک بچہ اپنی شناخت قائم رکھنا چاہتا ہے۔ وہ ہر حال میں اپنے اصل پرجینا چاہتا ہے۔ مگر آپ کیا کررہے ہیں کیوں کررہے ہیں؟ اور آپ کو پتہ ہے اس کا انجام کیا ہوگا؟
ناول کو پڑھتے ہوئے جگہ جگہ احساس ہواکہ ناول نگار کو بچوں کی نفسیات پر پوری گرفت ہے اور جبران کی معصومیت کا بہترین آئینہ وہ منظر ہے جب جبران اور نصرت کی ماں کو محلے والے اور چچا قبر میں اتارتے ہیں اور جبران کی نظر آسمان میں پرواز کرتی ہوئی پتنگ پر پڑتی ہے وہ سوچتا ہے کاش اس کی ماں کی جگہ دانش کی ماں مری ہوتی۔
یہ کہنے میں مجھے کچھ تردد نہیں کہ یہ ناول آج کے معاشرے کی تصویر کشی بھی کرتا ہے ۔مثال کے طور پر جبران کے ابا کا تبلیغی ہونے پر سزا یافتہ ہونا وغیرہ۔محسن خان صاحب نے جبران کے ابا کے گھر واپس نہ آنے پر۔ اس کے گھر کی جو حالت بیان کی ہے اس کی ماں پر جو مصیبت گذرتی ہے۔یہاں تک کہ پولیس کے آجانے سے آس پاس پڑوسیوں کا جو سلوک بیان کیا وہ واقعی حقیقت پر مبنی ہے یہ کہانی صرف ایک جبران اور نصرت کے گھر کی نہیں بلکہ جانے کتنے جبران اور نصرت آج بھی اپنے ابا کے منتظر ہیں۔ حافی جی (حافظ جی) کا کردار بھی نہایت دلچسپ اور جیتا جاگتا ہے۔ حافی جی کو پڑھتے ہوئے دیکھ اپنے مولوی صاحب اور بچپن یاد آنے لگا۔ اس ناول کے کرداروں کی بات کریں تو جبران کے ساتھ اور بہت سے ایسے کردار ہیں جو مدتوں ذہنوں میں زندہ رہ جانے کے قابل ہیں۔ مثلاً نصرت کا سیدھا سادہ کردار جبران کی ماں کا صابر کردار۔ اور جبران کی دادی کا کردار۔ جو اپنے بچوں کے کھودینے پر اپنی یاد داشت کھو دیتی ہیں۔ مگر کھانے پینے میں استاد تھیں۔ ساتھ ہی اپنے پیسے جبران سے بچا کر رکھنا نہیں بھولتی۔ ناول نگار نے جبران کے چچا کے گھر کاجو نقشہ کھینچا ہے بلاشبہ وہ ایک علمی اور ادبی گھرانے کی بہترین عکاسی ہے۔ جبران کے چچا کا شفقت بھرا رویہ اور کتابوں سے عشق بھرپور داد کا مستحق تھا۔
جیساکہ میں نے تبصرے کے شروع ہی میں کہا کہ اس ناول میں دوکہانی ایک ساتھ چلتی ہے ایک متن پر دوسری بین السطور۔ اس ناول کو سمجھنا ہر انسان کے صواب دید پر منحصر ہے۔ کچھ لوگ اس ناول کو جبران کی شرارت اور حافی جی (حافظ جی) کے مکتب تک سمیٹ دیتے ہیں۔
مگر مجھ ناچیز کے خیال سے یہ ناول سراسر سیاسی ہے اور سیاست کا جواب بھی۔
ہاں محسن خاں صاحب کا انداز دوسروں سے ہٹ کر ہے۔ آپ نے ایک بچے کی شرارت اور اس کی صورت میں سب کچھ دکھانے کی کوشش کیا ہے جس پر صرف قوم کے مفکروں کی نظر پڑتی ہے۔
اس ناول کی ایک اور خاص بات جبران کے آخری الفاظ سے اچھے اچھوں کا دل مغموم ہوجائے۔کیا خوب انداز سے ناول کا اختتام ہوا۔ جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
نیک تمنااور دعائیں ناول نگار کے لیے۔
عافیہ حمید
ریسرچ اسکالر
خواجہ معین الدین چشتی ، لینگویج یونیورسٹی
7897811988
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page

