علامہ اقبال دنیا کے نابغہ روزگار شاعر ہیں۔ ان کا کلام شعری جمالیات کا مرقع ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دلوں کی آواز ہے۔ اس عظیم المرتبت شاعر کی پیدائش بروز جمعہ، ۹/نومبر ۱۸۷۷ء کو سیالکوٹ میں ہوئی۔ علامہ اقبال کے مورث اعلی کشمیری برہمن تھے جو علم و دانش میں یگانہ عصر تھے۔ ان کے والد کا نام شیخ نور محمد اور والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ والدہ مذہبی اور خداترس خاتون تھیں اور والد غیرمعمولی صوفی بزرگ تھے۔ اس طرح تصوف اور شریعت دونوں نے اقبال کی ابتدائی زندگی میں ان کی کردارسازی میں اہم رول ادا کیا تھا۔
علامہ اقبال نے ابتدائی تعلیم مولانا میرحسن صاحب کی درسگاہ میں حاصل کی۔ اس کے بعد وہ اسکاچ مشن ہائی اسکول سیالکوٹ میں داخل کرائے گئے جہاں انھوں نے ایف۔اے تک کی تعلیم مکمل کی۔ علامہ اقبال نے ۱۸۹۷ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن اور ۱۸۹۹ء میں ایم۔اے امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اس کالج میں پروفیسر تھامس آرنلڈ نے انھیں فلسفہ پڑھایا جن سے وہ بے حد متاثر ہوئے۔ ایم۔اے کے بعد کچھ دنوں تک علامہ اقبال نے اورینٹل کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی اور فلسفہ کے شعبہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
۱۹۰۵ء میں علامہ اقبال اعلی تعلیم کے حصول کے لیے یورپ کے سفر پہ روانہ ہوئے۔ یورپ میں انھوں نے ٹرینٹی کالج سے فلسفہ کی ڈگری، کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری اور جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ ٹرینٹی کالج میں علامہ اقبال کے استاد پروفیسر آرنلڈ، پروفیسر میکٹگرٹ، پروفیسر براؤن اور پروفیسر نکلسن تھے۔ ان اساتذہ نے انھیں کافی متاثر کیا۔ ۱۹۰۸ء میں علامہ اقبال اپنے وطن ہندوستان واپس آئے۔ ۱۹۳۴ء تک وہ وکالت سے منسلک رہے۔ ۱۹۲۳ء میں انگریز حکومت نے ان کو’سر‘ کا خطاب عطا کیا۔ ۱۹۲۶ء میں وہ پنجاب قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۳۵ء میں پنجاب یونیورسٹی نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ دنیا کے اس عظیم شاعر نے بروز جمعرات، ۲۱/اپریل ۱۹۳۸ء کو اپنی زندگی کی آخری سانس لی۔
علامہ اقبال ایک بڑے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ سماجی مفکر و دانشور اور فلسفی تھے۔ ان کی فلسفیانہ اور سماجی شخصیت کی تعمیر میں اسلامی تاریخ و تہذیب اور مشرقی و مغربی علوم و فنون کے مطالعہ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ علامہ اقبال مشرق و مغرب دونوں سے متاثر تھے۔ مولانا جلال الدین رومیؔ کی متصوفانہ شخصیت اور ان کی فکر و نظر نے ان کے ذہن و قلب کو شدید طور پر متاثر کیا تھا۔ رومیؔ کے علاوہ جن اسلامی مفکروں، درویشوں اور علماء و حکماء سے علامہ اقبال متاثر ہوئے تھے، ان میں بابا طاہر عریاں، محی الدین ابن عربی، ابن طفیل، فخرالدین رازی، امام غزالی، محمود وشستری، ابن خلدون، شاہ ولی اللہ، شیخ احمد سرہندی، مجدد الف ثانی، قاضی ابوبکر باقلانی، علی پاشا، حلیم ثابت، ابن مسکویہ اور البیرونی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ علامہ اقبال کو اپنے ہم عصر مغربی فلسفیوں میں برگساں، ولیم جیمس، نطشے، گوئٹے، میکٹگرٹ، ہالڈن، شوپنہار، آئنسٹائن، وہائٹ ہیڈ اور برٹرنڈ رسل کے نظریات و تصورات نے بھی بے حد متاثر کیا تھا۔ علامہ اقبال کے سیاسی تصورات پر قدیم یونانی مفکرین اور جدید مغربی مفکرین علی الخصوص ارسطو، ہابس، لاک اور روسو کے اثرات کی جھلک بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ ان کے سماجی تصورات کی رو ابن خلدون کے فکری دھاروں سے مل جاتی ہے۔
علامہ اقبال ایسے شاعر ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں بقول اقبالؔ :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
علامہ اقبال کی شاعری کا دائرہ انتہائی وسیع ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ہر بزم و انجمن کو اپنی جانب متوجہ کیا اور بچے، بوڑھے، مرد و عورت، غرض ہر طبقے کو متاثر کیا۔ آج بھی ان کا کلام زبان زدِ خواص و عوام ہے۔ علامہ اقبال اعلی اخلاقی قدروں اور انسانی عظمتوں کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کے گوناگوں پہلو ہیں۔ ان متنوع پہلوؤں میں ان کی شاعری کا ایک تابناک پہلو ان کی حب الوطنی ہے۔ علامہ اقبال ایک سچّے اور پکّے محبّ وطن شاعر تھے۔ وہ مذہبی رواداری کے پُرزور حامی اور ہندوستانی فلاسفروں اور سنتوں کے مدح خواں تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے شروعاتی دور میں چند بہت ہی متاثرکن اور جذبہ حب الوطنی سے بھرپور نظمیں لکھیں۔ ایسی نظموں میں ’’ہمالہ‘‘، ’’ترانہ ہندی‘‘، ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘، اور ’’نیاشوالہ‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ نظم’’ہمالہ‘‘ میں شاعر علامہ اقبال نے ہندوستان کی قدیم تہذیب، اس کے دلفریب مناظر اور اس کی عظمت رفتہ کا گن گایا ہے۔
اے ہمالہ!اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
’’ترانہ ہندی‘‘ علامہ اقبال کی وطن پرستانہ شاعری کا اعلی ترین نمونہ ہے۔ اس نظم سے مادرِ وطن سے ان کی شدید محبت کا بہت ہی پرتاثیر اظہار ہوتا ہے
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمار
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا
اس نظم میں علامہ اقبال نے مذہبی ہم آہنگی اور قومی اتحاد کا نغمہ یوں گایا ہے۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا
مہاتما گاندھی نے ایک خط میں ’’ترانہ ہندی‘‘ کی تعریف اس طرح کی تھی۔
’’جب ان (اقبال) کی مشہور نظم ’ہندوستاں ہمارا‘ پڑھی تو میرا دل بھر آیا اور بڑودا جیل میں تو سینکڑوں بار میں نے اس نظم کو گایا ہوگا۔ اس نظم کے الفاظ مجھے بہت ہی میٹھے لگے اور یہ خط لکھتا ہوں تب بھی وہ نظم میرے کانوں میں گونج رہی ہے‘‘۔
ایک موقع پر مہاتما گاندھی نے ’’ترانہ ہندی‘‘ کی زبان کو ہندوستان کی قومی زبان کا نمونہ قرار دیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’کون ایسا ہندوستانی دل ہے جو اقبالؔ کا ’ہندوستاں ہمارا‘ سن کر دھڑکنے نہیں لگتا اور اگر کوئی ایسا دل ہے تو میں اسے اس کی بدنصیبی سمجھوں گا۔ اقبالؔ کے اس ترانے کی زبان ہندی یا ہندوستانی ہے؟ یا اردو ہے؟ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ہندوستان کی قومی زبان نہیں ہے‘‘۔
’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ علامہ اقبال کی ایسی نظم ہے جس میں حب وطن کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ اس میں علامہ اقبال نے ملک کی وحدت اور یکجہتی کا گیت گایا ہے۔
چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سُنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
اس نظم میں علامہ اقبال نے اپنے وطن ہندوستان کے اوصاف اور اس کی عظمت کو بڑے دلآویز انداز میں نمایاں کیا ہے۔ حب الوطنی کے حوالے سے ’’نیاشوالہ‘‘ علامہ اقبال کی انتہائی معروف اور موثر نظم ہے جس میں حب وطن کے جذبہ کا اظہار بہت ہی پُرتاثیر انداز میں ہوا ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال ہندوؤں اور مسلمانوں، دونوں کی آپسی رنجش اور مذہبی اختلافات کو تج کر، باہمی اتحاد و اتفاق اور یگانگت کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔
سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تو بُرا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہوگئے پُرانے
اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بُتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے
دراصل جب ہندوستان کی آزادی کی تحریک چل رہی تھی تو انگریز ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی اختلافات پیدا کرکے انھیں آپس میں لڑا رہے تھے۔ ہندوستانیوں کے یہ آپسی جھگڑے حصولِ آزادی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہورہے تھے جس سے علامہ اقبال بے حد متردد تھے۔ اس دیر و حرم کے جھگڑوں سے تنگ آکر علامہ اقبال ایک ایسے شوالے کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے جس میں دیروحرم کا کوئی امتیاز باقی نہ ہو۔
تنگ آکے میں نے آخر دیر و حرم کو چھوڑا
واعظ کا وعظ چھوڑا، چھوڑے ترے فسانے
سونی پڑی ہوئی ہے مدّت سے دل کی بستی
آ، اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں
اس نظم میں علامہ اقبال وطن کی محبت میں اس درجہ سرشار نظر آتے ہیں کہ انہیں خاکِ وطن کا ہر ذرہ دیوتا نظر آتا ہے۔
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو، ہر ذرہ دیوتا ہے
اس نظم کا خلوص اور اس کا جوش آج بھی اردو زبان میں وطنی شاعری کا بلند ترین نقطہ ہے۔ اس نظم کے بارے میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں:
’’شاعری کے اعتبار سے یہ نظم اقبالؔ کے دورِ وطن پرستی کا بہترین نمونہ ہے۔ …. شاعر نے وطن کی عظمت کا نقش دلوں پر قائم کرنے کے لیے اپنی تمام شاعرانہ قوتوں کو صرف کردیا ہے۔ اکثر ناقدین اقبالؔ کا خیال ہے کہ ہندو مسلم اتحاد پر یہ اقبالؔ کی بہترین نظم ہے‘‘۔ (۱)
علامہ اقبال کے حب وطن کے شدیدجذبہ کو ’’بچوں کی دعا‘‘، ’’صدائے درد‘‘ اور ’’تصویر درد‘‘ جیسی نظموں میں بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ نظم ’’بچوں کی دعا‘‘ میں علامہ اقبال نے اپنے وطن ہندوستان کے سجنے سنورنے اور اس میں پھول کی طرح سے زندگی گزارنے کی تمنا کی ہے۔
ہو مرے دم سے یوں ہی مرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
نظم ’’صدائے درد’’ میں علامہ اقبال اپنے وطن عزیزمیں رونما ہونے والے مسلسل فرقہ وارانہ اختلافات پر مضطرب و بے چین ہیں۔
جل رہا ہوں، کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے، اے محیطِ آبِ گنگا تو مجھے
نظم ’’تصویرِ درد‘‘ دراصل وطن ہندوستان کے درد و غم کی تصویر ہے۔ اس نظم میں وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے عناصر جیسے ہندوستانی قوموں کے درمیان باہمی نفاق و آویزش،افتراق و انتشار، تنگ نظری و تنگ دلی اور بدگمانی کا تذکرہ بڑا ہی غمناک ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے اپنے وقت میں وطن کی موجودہ صورت حال کی اندوہناک تصویر اس دردناک انداز میں پیش کی تھی۔
رُلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے ترا فسانہ سب فسانوں میں
اور حال کے آئینے میں مستقبل کے اندیشے کی پیشین گوئی اس طرح کی تھی۔
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
ان دونوں نظموں کے ذریعے علامہ اقبال اہل وطن کو فرقہ پرستی، تعصب و تنگ نظری اور شقاوت و سنگ دلی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور قومی اتحاد اور باہمی محبت پر زور دیتے ہیں۔ علامہ اقبال چاہتے ہیں کہ اہلِ وطن اپنی عظمتوں کے شناسا ہوں، فکر میں بلندی پیدا کریں، ذہنی پستی کے قعر سے نکلیں اور اعلیٰ انسانی اقدار کے حامل ہوں۔ علامہ اقبال کی یہ ابتدائی نظمیں حب الوطنی کے جذبہ سے لبریز ہیں۔ مولانا صلاح الدین احمد علامہ اقبال کے ابتدائی دور کی شاعری کے تعلق سے رقم طراز ہیں:
’’ جب ہم اقبالؔ کی ابتدائی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو قدرت اور عورت کے حسن کی پرستش کے بعد جو جذبہ سب سے پہلے نظر آتا ہے وہ وطن کی پرستش ہے‘‘۔
علامہ اقبال نے اپنی ان نظموں کے ذریعے جذبۂ حب الوطنی کو فروغ دیا جس سے آزادی کی قومی جدوجہد کو بڑی تقویت حاصل ہوئی۔ علامہ اقبال نے کبھی وطن کی محبت کے جذبے کو فراموش نہیں کیا۔ ان کے دورِ آخر کے کلام میں بھی حب الوطنی کا گہرا رنگ موجود ہے۔ ’’جاویدنامہ‘‘ ۱۹۳۲ء میں شائع ہواہے۔ اس میں بھی جذبۂ حب الوطنی کا خوبصورت اظہار ملتا ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے ہندوستانی سنت وشوامتر کو بڑے احترام سے یاد کیا ہے۔ اس میں انھوں نے ہندوستان کی روح کا خوبصورت روپ بھی بیان کیا ہے لیکن اس کی غلامی پر آنسو بھی بہایا ہے۔ اس نالہ و شیون علامہ اقبال کے قوت جگر کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ ’ضربِ کلیم‘ میں دو نظمیں ’’گلہ‘‘ اور ’’شعاعِ امید‘‘ ہیں۔ دیکھئے ان میں وطن کی محبت کے لئے علامہ اقبال کا دل کس طرح دھڑک رہا ہے۔
معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک
بیچارہ کسی تاج کا تابندہ نگیں ہے
جاں بھی گروِ غیر، بدن بھی گروِ غیر
افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے، نہ مکیں ہے
چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو
جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردانِ گراں خواب
’ارمغانِ حجاز‘ میں بھی وطن کی محبت اور اس کو آزاد دیکھنے کی خواہش کا اظہار موجود ہے۔
شبِ ہندی غلاماں را سحر نیست
بایں خاک آفتابے را گذر نیست
(ہندی غلاموں کی شب تاریک سحر آشنا نہیں ہے، گویا اس سرزمین پر آفتاب کا گذر ہی نہیں ہوتا۔ وطن کی غلامی سے علامہ اقبال کس قدر نالاں ہیں، یہ شعر اسی باطنی کرب کی عکاسی کرتا ہے۔ علامہ اقبال کو اپنے وطن سے اس قدر گہرا لگاؤ اور شدید محبت ہے کہ انھوں نے یہاں کی مقدس و برگزیدہ ہستیوں کو بڑی عقیدت و محبت سے یاد کیا ہے۔ دیکھئے انھوں نے ’رام‘ کو کس جوشِ عقیدت سے یاد کیا ہے۔
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند
گرونانک کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
ان کے علاوہ علامہ اقبال نے سوامی رام تیرتھ، شنکرآچاریہ، بھرتری ہری، شیو، گوتم بدھ اور عارفِ ہندی کا تذکرہ بڑے احترام اور عقیدت و محبت سے کیا ہے جو علامہ اقبال کے وطن سے گہری محبت کی دلیل ہے۔ معروف شاعر علی سردار جعفری علامہ اقبال کی حب الوطنی پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اقبال کے یہاں حب الوطنی ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کی شاعری میں سامراج دشمنی کی لَے شعلہ نوائی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ہندوستان کی آزادی کا جذبہ خونِ بہار کی طرح ان کے اشعار میں رواں دواں ہے‘‘۔ (۲)
علامہ اقبال کے اشعار میں حب الوطنی کے جذبے کا اظہار بہت ہی خوبصورت اور موثر انداز میں ہوا ہے۔ علامہ اقبال کے کلام میں حب الوطنی کا جذبہ جس طرح پایا جاتا ہے، اس معاملہ میں ہندوستان کے بہت ہی کم شاعر ان کے مقابل نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبال کا کلام آج بھی ہمیں انسانیت اور حب الوطنی کے مقدس جذبے کا درس دیتا ہے اور ہمارے جذبہ حب وطن کو تحریک دیتا ہے۔
***
(۱) پروفیسر یوسف سلیم چشتی، شرحِ بانگِ درا، ص:۳۱۹۔
(۲) علی سردار جعفری، اقبال شناسی، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی، ۱۹۷۶ء، ص:۱۱
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page