میں شاعر کاذب لفظوں کا میں عاشق کچے رنگوں کا
مرے پاس ہے تھوڑا سرمایہ کچھ جذبوں اور امنگوں کا
جب شاخیں سب تابندہ تھیں،جب ساری آنکھیں زندہ تھیں
میں پتہ ہوں اس موسم کا ،میں نوحہ گر ان رنگوں کا
اسعد بدایونی کاشمار ان شعرا میں ہوتا ہے۔ جن کا کلام بہت کم عمری میں منظر عام پر آیااور پسندیدگی کی نگاہ س دیکھا گیا ۔’’گل رنگیں ‘‘
۱۹۷۲ میں شائع ہوااس وقت ان کی عمر محض پندرہ سال تھی ۔اس کے بعد ۱۹۷۷ میں دوسرا مجموعہ ’’دھوپ کی سرحد‘‘ بیس سال کی عمر میں منظر عام پر آیا۔اس مجموعہ کلام میں غلام مرتضٰی راہی،منظور ہاشمی ،جمنا پرساداختر اور شہریار جیسے شعراکی آرا شامل ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی شاعری کی ابتدا ٔکیسی تھی ۔۱۹۸۵ میں ان کا تیسرا مجموعہ کلام ’’خیمہ خواب‘‘شائع ہوا۔یہ بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔۱۹۹۲ میں چوتھا مجموعہ کلام ’’جنوں کنارا‘‘ منظر عام پر آیا،جس پر عرفان صدیقی ،زیب غوری،ندا فاضلی ،مظہر امام اور شمس الرحمن فاروقی جیسے شعرا ٔنے قلم اٹھایا اور بھر پور داد سے نوازاجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس وقت تک منفردمقام حاصل کر چکے تھے۔
اسعد بدایونی کے ارتقائی سفر پر نظر ڈالیں تو ان کا دوسرا مجموعہ کلام’’دھوپ کی سرحد‘‘ایک ایسے مسافر کی روداد معلوم ہوتا ہے جو زندگی کی دھوپ چھاؤں، سرد و گرم اور نشیب و فراز سے اچھی طرح واقف نہیں کیونکہ اس مسافرنے تو ابھی زندگی کی محض انیس بہاریں دیکھیں ہیں ۔وہ تبدیل ہوئے مناظر کو حیرت و استعجاب سے دیکھنے کے بجائے ان پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈال کر آگے بڑھ جاتا ہے ۔وہ بنے بنائے راستوں پر چلنے کی کوشش کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ’’دھوپ کی سرحد ‘‘ کے مطالعے سے ذہن و دل پر کوئی خاص نقش مرتب نہیں ہوتا۔جدیدیت کے زیر اثر استعمال ہونے والے موضوعات کی باز گشت یا تقلیدی صورت یہاں ملتی ہے۔
مرا وجود تو اک ریت کا گھروندا ہے
ہوائے تیز مجھے پاش پاش کر دے گی
یہ سرد شام مری چائے کی پیالی کو
سلگتے دن کی سبھی تلخیوں سے بھر دے گی
موضوع اور زبان کی سطح پر یہاں کوئی خاص پہلو بہت نمایا ں نہیں ہوتا ۔البتہ آگے چل کر انہوں نے ایک انفرادی ڈگر منتخب کی اور اپنے کاٹ دار، تیکھے لہجے سے پہچانے جانے لگے ۔خیمہ و خواب کا شاعرہمیں موضوعات اور زبان و بیان دونوں اعتبار سے سے متاثر کرتا ہے ،یہاں فنی پختگی ،رکھ رکھاؤ اور ایک جارحانہ تیور ہے جو حاکم وقت کو بھی خاطر میں نہیں لاتا ہے ،ناموافق حالات سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے اور کسی طرح حالات کے جبر سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہو پاتا تو وہ رد عمل کے طور پر چبھتے ہوئے سوالات کا سلسلہ قائم کر دیتا ہے ۔یہ سوالات قائم کرنابذات خود متحرک ذہن کی علامت ہے ۔’’خیمہ و خواب ‘‘میں جابجا انہوں نے متحرک ذہن کا ثبوت دیا ہے ۔
میں جھوٹا حرف گواہی کا
میں کاذب لفظ کہانی کا
کیوں اب تک رشتہ باقی ہے
مری آنکھوں سے حیرانی کا
یہ چکر جانے کب ٹوٹے
یہ ڈور نہ جانے کب ٹوٹے
ہم مجرم ہیں کچھ سانسوں کے
ہم قیدی ماہ و سال کے ہیں
اسعد بدایو نی نے انفرادی شناخت کے لئے جو روش’’خیمہ و خواب ‘‘ کی تخلیق کے دوران اختیار کی اسے ’’جنوں کنارا ‘‘ میں مزید فروغ دیا ۔’’دھوپ کی سرحد‘‘سے ’’جنوں کنارا ‘‘تک کاسفران کی شاعری میں عہد بہ عہدرونما ہونے والی تبدیلیوں کا واضح اشاریہ ہے ۔ان کا منفرد ذہن ارتقائی مرحلوں سے گزرتا ہے اور عہد بہ عہد رو نما ہونے والی تبدیلیاں اس میں جگہ پاتی چلی جاتی ہیں ۔ (یہ بھی پڑھیں متین طارق باغپتی کی شاعری ایک جائزہ – مہر فاطمہ )
اساطیری فضا ،فطرت کی نیرنگیاں ،ہجرت کا غم ،بے گھر ہونا،بستی میں ہو کا عالم،انجانا خوف،فنا ہونے کا غم ،چراغوںکا تنہا آندھیوں سے لڑنا ،اپنی انانیت اور اپنی شاعری کی کی انفرادیت کا احساس وغیرہ ان کی غزلوں کے اہم مضامین ہیں ۔ان کی شاعری میں چراغ ،ہوا،وصل ،ہجر،خود آگہی،شام، جنگ ،کربلا،انا،رات اور خواب کلیدی استعار ے کی حیثیت رکھتے ہیں انہوں نے ان استعاروں کو نئی معنویت بخشی ہے۔
جنگ اور کربلا کے حوالے سے چند اشعار:
کہتے ہیں لوگ شہرتو یہ بھی خدا کا ہے
منظر یہاں تمام مگر کربلا کا ہے
یہ لوگ خواب بہت کربلا کے دیکھتے ہیں
مگر غنیم کو گردن جھکا کے دیکھتے ہیں
پھر کسی جنگ کے ارمان نہ تازہ ہوجائیں
پھر غنیموں سے عزیزوں کی نہ یاری نکلے
اس طرح ہجر و وصال کے باب میں انہوں نے انوکھی کیفیات کی ترجمانی کی ہے ۔یہ کیفیات وصل و ہجر کے روایتی تصور سے بالکل علیحدہ حیثیت رکھتے ہیں ۔یہاں کبھی وحشت صحرا ،کبھی شام ملال اور کبھی موج خواب محبوب کا متبادل نظر آتا ہے :
مجھے وحشت صحرا پکار ،میں بھی ہوں
ترے وصال کا امیدوار میں بھی ہوں
شام ملال کاشریک شوق وصال ہوگیا
لمحہ ٔ کم عیار بھی شامل حال ہو گیا
کبھی موج خواب میں گھر گیا ،کبھی تھک کے ریت پہ سو گیا
یونہی عمر ساری گزار دی ،فقط آرزوئے وصال میں
وصال و ہجر کے علاوہ ’’چراغ اور ہوا‘‘کے استعارے بھی اسعد بدایونی کی شاعری میں جابجا بکھرے پڑے ہیں ۔انہوں نے ’’چراغ و ہوا‘‘ کے استعاروں کو بندھے ٹکے مفہوم سے آزاد کر کے نئی معنویت بخشی ہے :
مجھے نظر سے ،تجھے شاخ سے گرا بھی گئے
ہوا کے ہاتھ چراغوں کے دل بڑھا بھی گئے
سنا ہے برف رتیں روشنی سے ڈرتی ہیں
سو اک چراغ کو ہم بھی جلا کے دیکھتے
میںاپنی رات کو تاریک تر بناتا ہوں
پھر اے چراغ تجھے معتبر بناتا ہوں
اسی طرح ’’ہوا ‘‘کا استعمال بھی منفرد انداز میں ملتا ہے:
یہی ہوا مرے سینے سے لگ کے روتی ہے
اسی کا ہاتھ دئے بھی مرے بجھاتا ہے
اے ہوا اب کے بہت خاک اڑائی تو نے
یہ بھی کیا کوئی وسیلہ ترے اظہار کا ہے
اسعد بدایونی کے کلیدی استعاروں کے علاوہ ان کے کلام کی ایک اہم اور نمایا ں خاصیت ’’داستانوی رنگ ‘‘ بھی ہے۔ان کی شاعری کے ارتقائی سفر پر نظر ڈالتے ہوئے اگر اس خصوصیت سے صرف نظر کیا جائے تو ان کا ذکر نامکمل رہ جائے گا۔یہ کہا جا سکتا ہے ان کی شاعری کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے دلچسپ حکایات اور مخصوص تراکیب کو جب اشعار کا جامہ پہنایا تو ان میں ایک تازگی پیدا ہو گئی ۔ حکایت گوئی اور رجز کا ماحول ان کے کلام کی منفرد خصوصیت ہے:
مری انا مرے دشمن کو تازیانہ ہے
اسی چراغ سے روشن غریب خانہ ہے
ابھی نہیں ہے مجھے مصلحت کی دھوپ کا خوف
ابھی تو سر پہ بغاوت کا شامیانہ ہے
مری غزل میں رجز کی ہے گھن گرج توکیا
سخن وری بھی تو کار سپاہیانہ ہے
اسعد بدایونی کی کلیات میں ’’جنوں کنارا ‘‘کے حصہ میں داستانی غزلیں کے عنوان کے تحت تقریبا بیس غزلیںدرج کی گئیں ہیں:
٭جو پشت مرکب پہ شاہزادہ سوار ہوگا
٭ طلسم شوق کو ملے گوارہ نہیں
٭ شراب شہوت در جانگی ابھارتی ہے
٭نہ شاہزادی کم فہم کی دہائی دے
٭ تمام دیوانے چوب دستے اٹھائے نعرے لگا رہے تھے
٭ جو لوح شوق کسی رت جگے سے پیدا ہو
٭ نہیں ہوں صرف ترا ہات دیکھنے والا
٭ لکھا تو لوح میں یہ تھا مغائرت کی جائے
٭ قصر سے جیے کی آسانی چرا کر لے گیا
٭ وہ شاہزادہ جو بے خواب و خور ہے زنداں میں
٭ شراب پی کر کباب کھا کر سرا کا پردہ گرا دیا تھا
٭ صاحب قراں بتلائیے لشکر کا عالم کیا ہوا
٭ تیغئہ دھاردار کھول دیا
٭ طلسم بدلا نہ لوح طلسم ہی بدلی
٭ حجر ہفت بلاپھر کھولے
٭ وہ خوک پیکر یہاں بھی آئے گا داغ لے کر
٭ پہیلیوں اور قراولوں کو وہ لے کے بہر شکار نکلے
٭ تمام مرکب تمام افسر رکے ہوئے تھے
٭ سرائچہ چاک کرکے عیار بھاگتا ہے
٭ جن سے بچنا چاہتا تھا پھر وہ جادہ آگیا
ان غزلوں کے مطلعوں سے اس خاص رنگ کا اندازہ ببخوبی ہو جاتا ہے ، چند اشعار دیکھئے:
تمام دیوانے چوب دستی اٹھائے نعرہ لگا رہے تھے
تھی ان کے چہروں پہ ایسی وحشت غنیم سب تھر تھرا رہے تھے
عجب طلسمی مقام تھا جہاں انہوں نے لگائے خیمے
نہنگ دریا تڑپ رہے تھے ،حباب آنکھیں دکھا رہے تھے
برائے فتاحی طلسماں تمام شہزاد گان عالی
دکھوں کے جنگل میں اپنے اپنے نصیب کو آزما رہے تھے
٭ ٭ ٭ ٭
قصر سے جینے کی آسانی چرا لے گیا
کوئی ساحر تاج سلطانی چرا لے گیا
ایک پنجہ آہنی اترا فلک سے اور پھر
شہر جاں سے عشق ارزانی چرا کر لے گیا
العطش سب کہ رہے ہیں پیاس کے مارے ہیں سب
کون دل دریاؤں کا پانی چرا کر لے گیا
اب تو ہم ہیں اور اک افسوں کرتا شہر ہے
کوئی ہر منظر کی تابانی چرا کر لے گیا
داستانی رنگ کے یہ اشعاریقینا اسعد بدایونی کی شناخت کو امتیاز خاص اور انفرادیت عطا کرتے ہیں۔اردو غزل کو متنوع ،رنگا رنگ اور بو قلموں بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔مختصر یہ کہ ان کی غزل روایت اور جدت کاایک خوش رنگ امتزاج ہے ۔وہ روایت کے پاسدار بھی ہیں اور نئے مضامین کی تلاش میں سرگرداں بھی رہے۔جس کی وجہ سے ان کی غزل اردوغزل کی روایت میں وسعت پیدا کرتی ہے اور اس کو متنوع بناتی ہے ۔ یہی وہ صفات ہیں جو اسعد بدایونی کو دوسرے شعرا ٔسے ممتاز کرتی ہیں :
میں سیدھا سچا بندہ تھا ،میرا کام دکھوں کا دھندہ تھا
اک روز اچانک موسم نے مجھ زندہ کو تصویر کیا
مضمون نگار کا مختصر تعارف مہر فاطمہ
٭٭٭

