اردو سفر نامے کا سرا جن سر ناموں سے جڑتا ہے ان میں عجائباتِ فرنگ، دنیا گول ہے، چلتے ہو تو چین کو چلیے، چلو جاپان چلو، دکن سا نہیں، ٹھا رسنسار میں اور آوارگی کچھ زیادہ ہی سر بلند ہیں۔ اتفاق سے ان سفرناموں کے مسافر وہ ہیں جو کارِ درس و تدریس اور بارِ زبان و ادب سے دبے نہیں۔ اس لیے ان کی آوارگی آزاد، خود مختار اور بے مہار رہی۔ کسی شکنجے میں کسی نہیں، کسی ایڑ میں پھنسی نہیں، کسی دباؤ میں دبی نہیں، راہِ سفر میں آوارہ گرد بنی گرد اُڑاتی، نعرہئ مستانہ لگاتی رہی۔ بصارتوں اور سماعتوں کو چونکاتی رہی۔
یہاں جتنے سفر ناموں کے نام لیے گئے ان سب کے اوپر ناموری کے اتنے تمغے ٹنکے ہیں کہ کسی کے سینے پر بھی جگہ بچی نہیں کہ وہ کسی اور تمغے کو اپنی چھاتی پر سجالے مگر میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنے تاثرات کا تمغہ کم سے کم کسی ایک کے سینے پر کسی نہ کسی طرح ضرور ٹانک دوں تاکہ دنیا جان سکے کہ ان سفر ناموں کی گرد میری آنکھوں کے لیے بھی سرمہ ثابت ہوئی۔ اس سے میرے دیدوں میں بھی نور اترا۔ میری پتلیوں میں بھی رنگ بھرا اور میرے رگ و پے میں بھی سرور دوڑا۔ یعنی آوارہ گردی اور شہر بدری سے کشید کیے گئے رنگ و نور سے میرے بھی ویرانے جگمگا اٹھے۔ (یہ بھی پڑھیں دُنیائے طباعت و اشاعت کا گمشدہ کردار – پروفیسر غضنفر)
فضائے گرد و غبار سے شعاعِ انوار نکالنے والی آوارگیوں میں وہ آوارگی مجھے کچھ زیادہ ہی پسند آئی جس کا نام ہی مسافر نے ”آوارگی“ رکھ دیا۔ میری دلچسپی اس عنوان میں اس لیے بڑھی کہ میں جس معاشرے میں پلا بڑھا وہاں یہ لفظ حقارت سے بولا جاتا تھا اور احساسِ ندامت کے ساتھ سنا جاتا تھا۔ یعنی یہ لفظ بہت ہی خراب معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ جس شخص کو بہت زیادہ برا بھلا کہنا ہوتا یا جس کی خوب لعنت ملامت کرنی ہوتی تو اسے آوارہ کہہ دیا جاتااور اس کی سرگرمیوں کو آوارگی کا نام دے دیا جاتا۔ مطلب یہ کہ جو بنا کسی مقصد کے گھومے پھرے یا ایسا کام کرے جو مروّجہ ضابطہ اخلاق کے دائرے میں نہ آتا ہو اور جسے معاشرہ غلط سمجھتا ہو یا کم از کم اچھا نہ گردانتا ہو، وہ معاشرے کی نگاہ میں آوارہ ہے اور اس کی ساری سرگرمیاں آوارگی۔ ممتاز و معروف شاعر مجاز لکھنوی کی مشہور نظم ”آوارہ“ کا یہ بند ؎
رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ میخانے میں چل
یا کسی شہنازِ لالہ رُخ کے کاشانے میں چل
یہ نہیں ممکن تو پھر اے دوست ویرانے میں چل
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
اور عالمی شہرت یافتہ گلوکار غلام علی کے ایک نغمے کی ردیف ”میں نے کہا آوارگی“ میں بھی اسی مفہوم کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ اس آوارگی میں آوارگی کو ا ِسی مفہوم میں برتا گیا ہے یا اس کا کوئی دوسرا مفہوم بھی ہے۔ سرورق پر غور کیا تو سر نامے کے نیچے جاوید دانش درج تھا۔ میری دلچسپی مزید بڑھ گئی کہ دانش اور آوارگی! تضاد کے اس اشتراک نے مجھے چونکا دیا۔ دانش اور آوارگی کے مفاہیم ایک ساتھ ابھر آئے اور دونوں کے تقاضے اپنے اپنے دائرے دکھانے لگے۔ دانش کا تقاضا یہ کہ شخصیت عقل کی حدود میں رہے اور آوارگی کا مطالبہ یہ کہ وہ حد پار کرجائے۔ دائرہئ عقل کو مسمار کرکے آگے بڑھ جائے۔ نام رکھتے وقت گھر کے بڑے بوڑھوں کے ذہن میں یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ نام کا اثر انسان کی شخصیت پر ضرور پڑتا ہے اور یہ دیکھا بھی گیا ہے کہ کچھ لوگ اسم با مسمٰی ثابت ہوتے رہے ہیں۔ وفورِ شوق میں میں نے بابِ آوارگیِ دانش کھول لیا۔ اندر داخل ہوا تو یہ آوارگی اپنے مروجہ مفہومِ آوارگی سے مختلف نظر آئی۔ یہ آوارگی غمِ دل اور وحشتِ دل کے لیے نہیں کی گئی تھی بلکہ آسودگیِ دل اور بالیدگیِ دماغ کی خاطر ہوئی تھی۔ یہاں کوئی گلی کوچوں میں بے مقصد بھٹکنے کے بجائے ان شہروں کی شاہراہوں پر با مقصد پھرتا ہوا نظر آیا جو پیرس، لندن، نیویارک، جرمنی، امریکہ، بالی روڈ اور دیگر خطہئ افرنگ میں واقع تھے اور جو کلکتے کی سوناگاچھی اسٹریٹ، دلّی کی جے بی روڈ، کوچہئ منچلان، علی گڑھ کی پھول والی گلی اور آگرے کی چھم چھم گلی سے مختلف تھے۔ ان روشن شہروں کی کشادہ شاہراروں پر پھرنے کا مقصد بے مصرف گھومنا نہیں بلکہ ان شہروں کی جگمگاہٹ اور شاہراہوں کی وسعت کاراز جاننا تھا۔ یہاں نئی دنیاؤں کو دریافت کرنا تھا جس کا اظہار اس آوارگی کے آوارہ گرد نے خود بھی کیا ہے: (یہ بھی پڑھیں داستان ایک مردِ خرد مند وجنوں پسند کی – پروفیسر غضنفر )
”اسکول سے یونیورسٹی تک میں نے بس ایک خواب دیکھا تھا۔ اس کے لیے بڑی قلمی دوستیاں کی تھیں۔ برسوں سفر کی تیاریاں کی تھیں لہٰذا تمام ہائی جیکنگ کے خدشات کے باوجود میں نئی دنیا کی کھوج میں نکل پڑنے کے لیے تیار ہوگیا۔“
مسافر کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ اس نے یہ آوارگی ایک مقصد کے تحت کی۔ اسے بھی کولمبس کی طرح ایک نئی دنیا کی تلاش تھی۔ اسے یہ جاننا تھا کہ ان شہروں میں بسنے اور شاہراہوں پر پھرنے والوں کے چہرے گرد و غبار سے خالی اور بے داغ کیوں ہیں؟ ان کی آنکھوں میں ویرانی، پتلیوں میں حیرانی اور پیشانیوں پر پریشانی کیوں نہیں ہے؟ اسے یہ دیکھنا تھا کہ اس کے اپنے معاشرہ کی تنزلی اور دوسروں کی ترقی کے اسباب کیا ہیں؟ اور اس نے دیکھا کہ:
”جیسے جیسے رات ڈھل رہی تھیں، راستہ کی رونق بڑھ رہی تھی۔ لوگ اتنے آرام سے ٹہل رہے تھے کہ گھر واپس جانے کا سوال ہی نہیں۔ میں اپنے ہم وطن ہندوستانیوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ ہم لوگوں کی آدھی زندگی امّاؤں کے اس سوال کے جواب میں کٹ جاتی ہے کہ کہاں جارہے ہو اور بقیہ زندگی بیگم کے سوال میں گزر جاتی ہے کہ کہاں سے آرہے ہو۔یہ پیرس ہے، یوروپ کا دل۔ یہاں کوئی کسی سے کسی طرح کا سوال نہیں کرتا۔ گر کرتا ہے تو کوئی جواب دینے کی زحمت نہیں کرتا۔ ہر کوئی اپنے میں مگن، ہر فرد آزاد۔“
اس نے یہ بھی دیکھا:
”دس فرانک کا ایک سکّہ ڈال کر نمبر ڈائل کیا مگر انگیج ہونے کی وجہ سے بار بار سکّہ واپس آجاتا تھا۔ مجھے اپنے دیسی فون بوتھ یاد آگئے جس میں سکّہ ڈال کر شریف شہری یہ گنگنانے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ”جو چلا گیا، اسے بھول جاؤ“ اور شہری اگر پہلوان ہے تو رسیور اکھاڑ کر گھر چل دیتا ہے۔“
————
جرمنی کے ایک شہر فرینکفرٹ میں ایک نظارے کے دوران اسے یہ بھی یاد آیا:
”اس ملک میں پروشیا کے جاہ و جلال والے شہنشاہوں کا دور درہ تھا جن سے زمین کانپتی تھی۔ جن میں ہٹلر بھی تھا جس کے ابروؤں کے خم سے لاکھوں مجبور عوام گیس چمبرمیں چند منٹوں میں لقمہئ ا جل ہوجاتے تھے۔ آج یہ ملک ظلمت کو چیر کر روشنی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ خوش باش، خوش نہاد لوگوں کا ملک ہے۔ اب جنگ کی گھن گرج کی جگہ بیتھوون کی سریلی دھنیں اور تانیں سنائی دیتی ہیں۔“
اس نے مشہور عظیم فن کار گوئٹے کا مکان دیکھا اور اسے دیکھ کر یہ لکھا:
”یہ مکان دوسری جنگ عظیم میں متاثر ہوا تھامگر بعد میں اسے پوری طرح بچالیا گیا۔ مجھے اس مکان کی سادگی اور خصوصاً جرمن عوام کی سادہ دلی بہت پسند آئی۔ اس مکان کو بالکل اسی طرز پرجسے گوئٹے نے ا ستعمال کیا تھا، رکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ روزمرہ کے سامان پرانے فرنیچر، کھانے کی میز، پرانی ڈنر سیٹ، چھری کانٹے، چائے کی کیتلی اور وہ چولھا بھی اب تک وہیں سلیقے سے رکھا ہے جہاں ا ستعمال کیا گیا تھا۔“ (یہ بھی پڑھیں آئینۂ اردو میں دوسری زبانوں کا عکس – پروفیسر غضنفر )
اس نے مختلف ملکوں میں گھوم گھوم کر یہ سب اس لیے دیکھا کہ اسے پتا لگانا تھا کہ پستیوں سے کیسے نکلا جاتا ہے۔ بلندیوں تک رسائی کیوں کر ہوتی ہے۔ تہذیبوں کو زندہ کیسے رکھتے ہیں۔ خاکستر سے ققنس کی طرح پھر سے کیسے پیدا ہوا جاتا ہے۔ کوئی ہم سے آگے کیوں ہے اور ہم اس سے پیچھے کیوں ہیں؟
اسے اس راز کو پانا تھا کہ کوئی ملک ظلمت کو چیر کر روشنی کا مرکزکیسے بنا؟ اسے اس بھید کا بھی پتا لگانا تھا کہ فرانسیسیوں میں اس قدر میل ملاپ اور محبت کیوں ہے۔
آوارگی کی روداد کی تفصیلات اور بیانات کے انداز بتاتے ہیں کہ اس کے اس سفر کا دائرہ محدود نہیں۔ یہ دائرہ کافی دور تک پھیلا ہوا ہے۔ اس میں وسعتیں بھی ہیں اور رفعتیں بھی۔زمینی زقندیں بھی ہیں اور آسمانی کمندیں بھی۔اس میں اتنی وسعت ہے کہ اس نے جی بھر کر تمام سمتوں میں چھلانگیں لگائی ہیں اور کھل کر فضا میں اُڑانیں بھری ہیں۔ اس کی زقندوں میں کلیلیں بھی نظر آتی ہیں اور چہلیں بھی۔ آنکھوں کو اپنے پاس ٹھہرا لینے والے منظر بھی اُبھرے ہیں اور دلوں کو مسخر کردینے والے پیکر بھی بنے ہیں۔
ان منظروں اور پیکروں میں تہذیبی رنگ بھی جھلکتا ہے اور تاریخی نور بھی۔ معاشیات کے مرقعے بھی دکھائی دیتے ہیں اور سیاسیات کے کارنامے بھی۔ نئی تہذیب کے کرشمے بھی اور پرانی تہذیب کے جلوے بھی۔ علم و ہنر کے شہ پارے بھی اور ادراک و شعور کے سیارے بھی۔ (یہ بھی پڑھیں سازِ بوالعجبی کا تارِ حیات – (شوکت حیات کا خاکہ) – پروفیسر غضنفر )
اس نے جس دنیا کی کھوج کی اسے دوسروں کو دکھانا بھی چاہا اسی لیے اس نے اپنے بیان میں زبان کا حسن بھی شامل کیا تاکہ دیکھنے والی آنکھوں کا انہماک بنا رہے۔ بصارت میں رنگ اور سماعت میں آہنگ گھلتا رہے۔ دل ڈولتا اور چہرہ کھلتا رہے۔ اس نے زبان و بیان کے گل کھلائے تاکہ تحریر سے خوشبو نکلے۔ لفظوں سے رنگ پھوٹے اور صوت و صدا سے آہنگ گونجے:
”موسمِ خزاں کا دور دوراں تھا۔ پتے شاخوں سے جدا ہورہے تھے۔ مگر زمین پر گر کر سنہرے ہوتے جارہے تھے۔ اس دلفریب خزاں پر میں اپنی بہار نثار کرنے کو تیار تھا۔ کاش ایسی خزاں ہمارے وطن میں بھی ہوتی!“
———
”WMCAکے پرسکون ماحول میں بس ایک چیز کھٹک رہی تھی۔ Commonباتھ روم۔ یعنی نہانے کا مشترکہ انتظام۔خیر اسی بہانے فرانسیسیوں کے اتحاد کی وجہ معلوم ہوگئی۔ ظالم نہاتے بھی اجتماعی طور پر ہیں۔جب میں اس جماعت میں شامل ہونے کو پہنچا تو اردو کا ایک مشہور محاورہ یاد آگیا کہ’اس حمام میں سب ننگے ہیں‘۔“
———
اتنے میں ایک سانولی بچی، سلونی مسکراہٹ لیے بنگلوری ساڑی میں ملبوس آرڈر لینے آدھمکی۔ میں مینو پر اور محترمہ مجھ پر جھکی پڑتی تھیں۔
———
”نوئزی ڈیم کا گرجا پیرس کی تاریخی اور سب سے اعلیٰ مقدس عبادت گاہ ہے۔ اس کا سنگ بنیاد 1163ء میں رکھا گیا تھا۔ یہ اس دور کی سنجیدہ عیسائیت کی لہر کا ثمرہ ہے۔ اس کے بنانے میں شہر کے خاص و عام، ماہر سنگ تراش، اعلا قسم کے معمار، تجار اور مذہبی رہنما پیش پیش تھے۔ دو بلند و بالا سیدھے مناروں کے ساتھ نکیلے محرابوں اور آدھے حیوانوں اورآدھے انسانی مجسموں، رنگین منقش دریچوں، مخروطی چھتوں اور لانبے ستونوں کی سچ دھج دیکھیے تو بس دیکھتے رہ جائیے۔“
یہ اور اس طرح کے اور بھی خوبصورت بیانات جگہ جگہ نظر آتے ہیں جو اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ جاوید دانش اپنی آوارگی کا منظر دوسروں کو بھی دکھانا چاہتے ہیں۔ دکھانے کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ لفظوں سے ایسے پیکر بنائیں کہ ان سے رنگ کی شعاعیں پھوٹ سکیں۔ اور جو بصارتوں کو اپنی طرف کھینچ سکیں۔ حرف صوت سے ایسا آہنگ بلند ہوسکے کہ وہ سماعتوں کو اپنی جانب متوجہ کرسکے۔ مزید ”آوارگی“ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلی آوارگی سے جو دانشوری پھوٹی اوروں کے ذہن و دل تک پہنچی۔ رگوں میں اس سے ترنگیں اُبھریں۔ ترنگوں نے دلوں کو اتنا مست کیا کہ لبوں سے واہ نکل آئی۔ اس واہ نے جاوید دانش کو اتنا خوش کیا کہ وہ مزید آوارگی کے مشن پر نکل پڑے۔
جاوید دانش کی آوارگی کے قصوں میں رنگ و نور اس لیے داخل ہوا اور اس سے خوش کن آہنگ اس لیے پھوٹا کہ جاوید دانش کی تربیت اس سرسیدی فضا میں ہوئی جہاں کی ہر شام ہے شام مصر اور ہر شب، شب ِ شیراز ہے۔ جہاں کی فضاؤں میں زبان و ادب کے ترانے گونجتے ہیں اور وہ ترانے سننے والوں کو خوبصورت اظہار عطا کرتے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |